اسلامی معاشرت اور ہم

Islami Muashrat Aur Hum

Mian Muhammad Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 29 دسمبر 2022

Islami Muashrat Aur Hum
اس نے ایک لمبی آہ بھری پھر گویا ہوا ”دکھوں“سے نجات کے لیے ایک جگہ سے دوسری کی طرف بھاگتا رہا پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ اس دنیا میں سکھ ابن آدم کے مقدر میں نہیں-بڑی مدت کے بعد ملے تھے ‘بہت سارے گلے‘شکوے تھے جو کرنا تھے مگر وہ بہت تھکا ہوا لگ رہا تھا‘بالوں میں چاندی جھلک رہی تھی-شوخ اور نٹ کھٹ سے نوجوان کی جگہ چہرے پر گہرے تفکرات لیے ایک ”بڈھا“میرے سامنے بیٹھا تھا-کالج کے دنوں میں وہ کلاس میں کم اور سڑک کے پار یونیورسٹی گرواﺅنڈمیں زیادہ نظرآیا کرتا تھا‘کرکٹ اس کا جنون ہوا کرتا تھا-اندرون شہر‘شام نگر‘کرشن نگر‘نیلی بار کی بھلیاں ہم ”پینڈوں“ کو ایسی یاد کروائیں کہ آج تک ہر گلی‘کوچہ یاد ہے-کلاس روم سے باہر نکلتے تو لوئرمال کی طرف ایک خوبصورت جھروکاتھا جس کی دیوار ڈیڑھ فٹ سے بھی چوڑی تھی ایم اے او کالج کے سامنے سے جب بھی گزر ہوتا ہے تو نظرخودبخوداس جھروکے کی جانب اٹھ جاتی ہے-چشم تصور میں سب کو وہاں بیٹھے دیکھتے ہیں اورایک آہ بھر کر آگے بڑھ جاتے ہیں‘کئی بار سوچا کالج کے اندرجائیں‘اس جھروکے میں جاکر بیٹھیں مگر اب اپنا کوئی نہیں ہے وہاں سو ہمت نہیں پڑتی-کالج سے دس‘بارہ کلومیٹرملتان روڈ پر ہمارا آبائی علاقہ نوے کی دہائی کے شروع تک لاہور کا نواحی گاﺅں ہواکرتا تھاہمارے چھوٹے سے گاﺅں کی حیثیت ہی کیا تھی سو وہ بھی رہائشی کالونیوں کی نذرہوگیایادگار کے طور پر ایک چھوٹا ساحصہ بچا ہے جبکہ ہمارے آبائی گھر سمیت بیشترحصہ ”ترقی“کی نذرہوچکا ہے‘یہی حال دیگر نواحی دیہات کا ہوا-آج لاہوردوسرے اضلاع کو نگل رہا ہے”پھیلاﺅ“کا عمل جاری ہے‘دادی جان کی کہانی کے اس ”دیو“کی طرح جس کا پیٹ کسی صورت نہیں بھرتا -زندگی بھر کی غلطیوں کو تجربے کا نام دیا جاتا ہے مگر سبق کوئی حاصل نہیں کرتا ‘جوتھوڑا بہت علم اور اہلیت رکھتے ہیں وہ زندگی کی چادر سے سرڈھانپتے ہیں تو پاﺅں ننگے ہوتے ہیں اور پاﺅں ڈھانیں تو سر‘جو جتنا پڑا گھامڑہے وہ اتنی بڑی کرسی پر بیٹھا ہے‘یقین نہ آئے تو اسمبلیوں سے لے کر سرکاری محکوں میں جاکر دیکھ لیں-نجی شعبے میں چغل خوری اور چرب زبانی ترقی کا زینہ ہے‘میٹرک یا انٹرپاس کو اچھے خاصے پڑھے لکھوں اور شعور رکھنے والوں کو اپنی نوکریوں کی سلامتی کے لیے ”سر“کہنا پڑتا ہے‘ہمارے لڑکپن کے دور میں پی ٹی وی پر خاکے دکھائے جاتے تھے ایک نجانے کیسے آج تک یاد ہے جس میں ایک شخص پرندوں کی دوکان پر طوطا خریدنے جاتا ہے دوکانداراسے کئی طوطے دکھاکران کی قیمت اور خصوصیات بتایا ہے دوکان کے پیچھے جاکرایک پرانے سے پنجرے میں ایک نیم جان سا طوطا جس کے پر تک خارش سے گر چکے ہوتے ہیں گاہک جب اس کے بارے میں دریافت کرتا ہے تو اس کی قیمت سن کر وہ حیرت زدہ ہوکر اس کی خصوصیات پوچھتا ہے تو دوکاندار بڑی لاپروائی سے کہتا ہے کہ خصوصیات کا تو مجھے بھی نہیں پتا مگر میری دوکان میں موجود تمام طوطے اسے ”سر“کہتے ہیں-میں نے خلیل کو دلاسہ دیتے ہوئے گھسا پٹا جملہ دہرایا کہ اندھیرے کے بعد روشنی ہوتی ہے مجھے اس جملے پر ہمیشہ شک رہا ہے کسی نے سرمایہ دار نے اسے ہم جیسوں کو جھوٹا دلاسا دینے کے لیے ”گھڑا“ہے مایوسی یقینی طور پر ناشکری اور مالک حقیقی پر یقین کو کمزور کرتی ہے اس لیے مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہیے-دوسرا مقدر پر شاکر رہنا انسان جب اپنے مقدر پر شاکر رہنا سیکھ لیتا ہے تو اس کے سارے مسائل حل ہوجاتے ہیں وہ زندگی کی حقیقت کو پالیتا ہے‘تاہم اس مادی دنیا میں زندہ رہنے کے لیے اسباب کی ضرورت رہتی ہے دنیا کے وسائل کا نناوے فیصد ایک رپورٹ کے مطابق ایک فیصد سے بھی کم لوگوں کے پاس ہے جن کے لیے ہزاروں ملین ڈالر ایک ”ایپ“خریدنا ایسے ہی ہے جیسے بچہ کوئی کھلونا خریدتا ہے جبکہ دوسری جانب ایسی غربت کہ اللہ کی امان -میرا کالج کے دنوں کا دوست قرض کی دلدل میں ڈوبا تھا ‘مقدرکا مارا ہوا ایک عام شہری‘اشرافیہ اربوں کے قرض شیرمادر سمجھ کر ڈکار جاتی ہے مجال ہے کوئی ان سے سوال بھی کرئے مگر خلیل جیسا عام شہری چند لاکھ قرض میں پھنس گیا کہ قانون مکڑی کا ایسا جالا ہے طاقتور جسے پھاڑکرگزرجاتے ہیں جبکہ کمزور ایک ناتواں مکھی کی طرح اس میں ایسے پھنستے ہیں کہ گور تک جان نہیں چھوٹتی-آج نوے فیصد سے زیادہ انسان ایسے حالات کا شکار ہیں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی‘کیونکہ ان کی چمڑی گینڈے سے بھی موٹی ہے لہذا اس پر کوئی چیزرینگ بھی جائے انہیں خبر تک نہیں ہوتی-میڈیا انڈسٹری کے ایک”نیک سیرت“بزرگ بنکوں سے اربوں کے قرض معاف کرواکرٹیلی ویژن پر بیٹھ کر اخلاقی زبوں حالی کا رونا روتے دکھائے دیتے ہیں جبکہ سینکڑوں کارکن پورے ملک میں ایسے ہونگے جن کے واجبات انہوں نے کئی دہائیوں سے ادا کرنے ہیں ‘حال پوچھیں تو ایسی داستان غم سناتے ہیں کہ دل چاہتا ہے جیب میں جو کچھ ہے وہ بھی ”بزگوار“کو دیدیں‘کمال کے فنکار ہیں اسی ”فن“کی بدولت اتنی بڑی ایمپائرکے مالک بننے میں کامیاب ہوئے محض تین دہائیوں میں-نبی کریم ﷺ نے جس معاشرے کا تصور دیا تھا اس کے ہم قریب بھی نہیں پھٹکے‘حضرت کعب بن مالک رضی اللہ وتعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا”چالیس گھروں تک پڑوس ہے“ اگر ہم صرف پڑوسیوں کے حقوق اداکرنے شروع کردیں تو آدھے سے زیادہ معاشرتی مسائل حل ہوجائیں مگر ہمارے امراءنے دوربستیاں جا بسائیں-میرے دادا کے پگڑی بدل بھائی بابا چراغ کا آج کے سبزہ زار اور اقبال ٹاﺅن کے علاقے کے بڑے زمینداروں میں شمار تھا مگر ڈیرے پر ہی رہتے جو ان کی حویلی سے چند فرلانگ تھا‘ہمیشہ لنگوٹ باندھے‘سلوکا پہنچے کھیتوں میں کام کرتے نظر آتے سال میں عیدین اور نئی فصل آنے پر ہی حویلی جاتے حاجت مندوں کا حصہ الگ کرواتے اور چادر جھاڑکرکھڑے ہوجاتے کہ میرا کام یہی تک تھا-علاقے میں بیواﺅں‘غریبوں ‘مسکینوں‘حاجت مندوں کے گھروں میں ہرفصل پر اناج پہنچ جاتااور کسی کو خبر بھی نہ ہوتی بابا چراغ دنیا سے رخصت ہوئے تو اس سلسلے میں پہلے کمی واقع ہونی شروع ہوئی ‘پھر مکمل طور پر بند ہوگیامگر بابا چراغ کا نام آج بھی زندہ ہے ‘کئی ایکٹرزمین انہوں نے بیواﺅں اور غریبوں کو مفت میں گھر بنانے کے لیے ان کے نام کردی آج وہ سبزہ زار کے ایچ بلاک کے سامنے چراغ پورہ کے نام سے آباد ہے بے شک نیکی کبھی ضائع نہیں جاتی اور نہ ہی اللہ سبحان وتعالی اپنے نیک لوگوں کا نام مٹنے دیتا ہے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :