رونے کی باری

Ronay Ki Bari

Muhammad Arslan Farid محمد ارسلان فرید بدھ 28 اگست 2019

Ronay Ki Bari
میں اِن کو چھوڑوں گا نہیں، اِن کو رلاؤں گا میں، اِن کو تکلیف پہنچے گی، میں تکلیف پہنچاؤں گا۔ خان صاحب نے جو کہا وہ کر دکھایا ہر طرف سے چیخنے چلانے کی آوازیں آرہی ہیں، اور یہ آوزیں اتنی بلند ہیں کے اِن چیخوں میں غریب عوام کی آہ و پکار دب کر رہ گئی ہے۔ خان صاحب نے اپنے منشور میں سے اگر کسی وعدے کو اچھے سے نبھایا ہے تو وہ ہے بس اپنے سیاسی حریفوں کو رلانا۔

مجھے آج تک خان صاحب کے اس بیان کی سمجھ نہیں آ سکی کے میں انہیں کوئی ''این آر او'' نہیں دوں گا، خان صاحب آپ ''این آر او'' دے بھی کیسے سکتے ہیں۔ سارے مقدمات تو عدالتوں میں چل رہے ہیں اور بقول آپ کے وہ آزاد ہیں کسی کے ماتحت نہیں اور ڈکٹیٹر بقول آپ کے آپ ہے نہیں جو ماورائے عدالت کوئی کام کریں، پھر آپ کیسے یہ بات کرتے ہیں کے میں انہیں ''این آر او'' نہیں دوں گا۔

(جاری ہے)

جو چیزآپ کے اختیار میں ہی نہیں اس کا واویلا کیسا یا پھر دال میں کچھ کالا ہے۔ آپ کے اب تک کے اس ایک سالہ دور اقتدار میں ہم نے معیشت کو ڈوبتے، ڈالر کو اوپر جاتے، مہنگائی کو پر لگتے اور غریب کو پستے دیکھا ہے۔ خان صاحب آپ غربت کو ختم کرنے کا دعویٰ کر کے آئے تھے لیکن آپ کا طرز حکومت تو غریب کی زندگی ختم کرنے والا ہے۔ 22 سال کی جدوجہد کے بعد آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 22 ویں وزیراعظم تو بن گئے لیکن ان 22 سالوں میں آپ کوئی ایسی ٹیم نہ بنا سکے جو آپ کے ساتھ مل کر اس ملک کے ڈوبتے جہاز کو پار لگا سکے۔

آپ کے دائیں بائیں سب لوگ مانگے کے ہیں، کوئی کسی پارٹی کا لوٹا ہے تو کوئی کہیں کا بھگوڑا، جلسوں سے اقتدار ملنے کے بعد تک جو آپ کے وزیر خزانہ تھے وہ آپ کے ساتھ چھ مہینے بھی نہیں چل پائے اب وہ کہہ رہے ہیں کے ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں تھی ہمارے نمبر پورے تھے اور جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی اسے ہم بانڈز سے پورا کرنے والے تھے جسے بعد میں روک دیا گیا اور آئی ایم ایف کی طرف چلے گئے۔

خان صاحب قوم آج بھی یہ جانا چاہتی ہے کہ آخر کن وجوہات کی بنا پر آپ کو اپنے وزیر خزانہ کو عہدے سے ہٹانا پڑا اور جس شخص کو آپ ماضی میں معیشت کا بیڑا غرق کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا کرتے تھے اسے مشیر خزانہ لگا دیا گیا جس پر سابق صدر آصف علی زرداری صاحب متعدد بار برملا کہہ چکے ہیں کہ ہمارا وزیر خزانہ آپ ہی کی کابینہ میں ہے اُسی سے پوچھ لیں پیسہ کہاں ہیں۔

آج خبر آئی ہے کے لوٹی ہوئی دولت واپس آنا شروع ہو گئی ہے، جعلی اکاؤنٹ کیس میں نیب نے 2 ارب روپے سے زائد کی پلی بارگین قبول کر لی ہے۔ ایک تو آج تک مجھے یہ پلی بارگین کی سمجھ نہیں آئی جب ایک بندہ اعتراف کر رہا ہے اپنے جرم کا پھر اس سے پلی بارگین کیسی، اس کو لٹکائیں اس سے لوٹی ہوئی تمام دولت واپس لیں، میرے نزدیک پلی بارگین رشوت لینے کے مترادف ہے۔

خان صاحب اس ایک سال میں آپ پولیس، عدالت، تعلیمی نظام، صحت کے نظام سمیت کسی ایک میں رتی برابر بھی تبدیلی لانے میں ناکام رہے ہیں، فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ پہلے اس نظام پر کوئی اور قابض تھا اور اب آپ۔ اب آپ ڈیم کی بات بھی نہیں کرتے، آپ شریف برادران کی جنگلہ بس میں کرپشن کی داستانیں تو سناتے ہیں لیکن اپنی پشاور میٹرو بس کی بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے جس کے مکمل ہونے سے پہلے اس کی بسیں بوسیدہ ہو چکی ہیں، حکومتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اتنی مہنگائی نہیں کی جتنی لوگوں نے خود سے کر لی ہے، وہ جی ہم تو کام کرنا چاہتے ہیں لیکن بیوروکریسی ہمیں کام کرنے نہیں دے رہی، خان صاحب اگر آپ کے لوگ بیورو کریسی کو نہیں سنبھال سکتے، کچھ لوگوں کی خود ساختہ مہنگائی کو کنٹرول نہیں کرسکتے تو کیا آپ کو سچ میں لگتا ہے کہ آپ اور آپ کے لوگ واقعی حکومت چلانے کے اہل ہیں؟ خان صاحب ایک عام آدمی آپ کی تبدیلی کا انتظار کرتے کرتے تھکتا جارہا ہے مگر تبدیلی کے آثار دور دور تک نظر نہیں آ رہے ۔

اس سے پہلے کہ یہ عام آدمی جسے آپ نے خود اپنے حق کے لئے لڑنے کا شعور دیا ہے وہ آپ ہی کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے آپ کے خلاف سڑکوں پرآجائے ہوش کے ناخن لیں اور مہنگائی کے جن کو قابو میں لائیں، اگر یہ عوام کا جن بے قابو گیا تو پھر رونے اور چیخنے کی باری آپ کی ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :