ارطغرل کیوں دیکھا جائے؟

Ertugrul Kyun Dekha Jaye?

Murad Ali Shahid مراد علی شاہد جمعرات 28 مئی 2020

Ertugrul Kyun Dekha Jaye?
ادب کسی بھی معاشرہ کا عکاس ہوتا ہے،کسی بھی زبان میں لکھا ہوا ناول،افسانہ،حکائت،ڈرامہ اس بات کی عکاسی ہوتا ہے کہ معاشرتی اقدار،اخلاقی رویے،تہذیب وتمدن اور رواجات کے ساتھ ساتھ معاشیات کا اس مخصوص تہذیب میں معاشرتی نمو میں کیا کردار ہے۔یہ ادب ہی ہے جس سے ہمیں قوموں کے ماضی اور تاریخ کابھی پتہ چلتا ہے ۔ترکی ڈرامہ ارطغرل جس کا پاکستان بھر میں اور دیگر اسلامی ممالک میں آجکل بہت شہرہ ہے،اس میں بھی دراصل سلطنت عثمانیہ کی تاریخ کی ڈرامائی تشکیل کی گئی ہے کہ قائی قبیلہ جو کہ چار سو خیموں پر مشتمل خانہ بدوشوں والی زندگی گزار رہا تھا جو موسموں کی سختیوں،معاشی تنگدستیوں اور زمانہ کے ظلم وستم کو سہتے ہوئے کبھی اس جاہ تو کبھی اس جاہ حرکت میں زندگی گزر رہا تھا۔

شاہ سلیمان کا بیٹا ارطغرل پہلا شخص تھا جس نے یہ سوچا کہ ہم نے کیوں اپنی زندگیوں کو اتنی مشکل میں ڈالا ہوا ہے۔

(جاری ہے)

کیوں نا ہماری اپنی ایک سلطنت ہو جس میں ہم سب مستقل طور پر کہیں ایک جگہ رہائش پذیر ہو کر عیسائی ریاستوں کی طرح زندگی گزاریں۔اگرچہ یہ سب آج کے دور میں آسان دکھائی دیتا ہے تاہم آج سے دس صدی قبل یہ اتنا ہی مشکل تھا کیونکہ جس دور میں ارطغرل یہ سوچ رہا تھا اس دور میں منگول اور بازنطینی اپنی طاقت کے بل بوتے پر دنیا کو اپنا غلام بنانے پر مجبور کر چکے تھے۔


لیکن ہمت مرداں مدد خدا ۔ارطغرل نے اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے اپنے قبیلے کو آخری ہجرت کرنے کو کہا جس پر کوئی اور نہیں اس کے اپنے ہی بھائی اس کی مخالفت میں اتر آئے کہ جس راستے کا انتخاب تم کرنے جارہے ہو اس میں ماسوا مصیبتوں اور زندگی کے خطرات کے اور کچھ نہیں ملنے والا۔لیکن وہ مرد مجاہد اپنا فیصلہ کرچکا تھا اور اس سلسلہ میں اس کی آخری ملاقات اپنی والدہ سے ہوتی ہے تو وہ بڑے ہی پرعزم انداز میں اپنی والدہ حائمہ خاتون سے کہتا ہے کہ ماں میں کوشش کروں گا کہ اپنے ہم خیال لوگوں کو اس ہجرت پہ راضی کرسکوں،اور اس کے لئے سب سے پہلے میں چاہوں گا کہ آپ میرا ساتھ دیں لیکن اگر آپ بھی انکار کرتی ہیں تو پھر میں مجھے اکیلے بھی اگر ہجرت کرنا پڑی تو میں ضرور کرونگا۔

پہلے تو والدہ انکار کر دیتی ہے تاہم مامتا کا پیار اسے مجبور کرتا ہے اور وہ اپنے دوسرے بچوں کو چھوڑ کو ارطغرل کے ساتھ جانے کا ارادہ باندھ لیتی ،جسے مستقبل میں وقت نے صحیح ثابت بھی کیا۔قصہ مختصر ارطغرل اپنی سیاسی حکمت عملی،طاقت اور تلوار کے زور سے اپنی ایک مستقل ریاست سوگوت بنانے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔اور اس ریاست سے پھر یہ چار سو خیموں پر مشتمل خیموں میں زندگی گزارنے والا قائی قبیلہ اس قابل بھی ہو جاتا ہے کہ اس کے خاندان میں سے ایک شخص عثمان ،جس نے سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی اوربعد ازاں آنے والے سلطان محمد اور سلطان سلیمان کی زیر نگرانی تین بڑے براعظموں پر حکومت کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

اسی لئے کہتے ہیں کہ بڑا کام کرنے کے لئے بڑے خواب دیکھنا ضروری ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس ڈرامہ کو کیوں دیکھا جائے؟اس لئے کہ یونہی اس ڈرامہ کے بارے میں خبریں عام ہوئیں تو ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دو طبقات پیدا ہوگئے ایک طبقہ کی سوچ یہ ہے کہ یہ اسلام کی تاریخ نہیں ہے بلکہ ایک قوم ترک کی تاریخ ہے اس لئے ہم کیوں دیکھیں ۔بات بالکل صحیح ہے لیکن کیا ترک مسلمان نہیں تھے اگر مسلمان تھے تو پھر ہمیں یہ ڈرامہ کیوں نہیں دیکھنا چاہئے۔

اس فلسفہ فکر کے حامیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ایک ڈرامہ ہے جیسے دیگر ڈرامے ہیں تو پھر اسے ہی اتنی اہمیت کیوں؟بالکل بجا،اگر اسے محض ایک ڈرامہ ہی خیال کرتے ہوئے اس سے کوئی سبق یا تحریک نہیں لیتے ہیں تو پھر کیوں اب تک ہمیں اپنے مشاہیر کے بارے میں اور ان کے لکھے ہوئے ادب کے بارے میں اندھی تقلید پر مجبور کیا جاتا رہا۔جیسے کہ آج بھی جب م ادب کی بات کرتے ہیں تو ہمیں ایسے لوگ بھی ملیں گے جو اپنی والدین کی اتنی عزت نہیں کرت جتنی کہ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی کرتے ہیں۔

بانو آپا کا راجہ گدھ،قدرت اللہ شہاب کا شہاب نامہ،عبداللہ حسین کا اداس نسلیں،ممتاز مفتی کا مفتیانے اور الکھ نگری اور تو اور میکسم گورکی کا ماں اور لیو ٹالسٹائی کی جنگ اور امن کو مقدس کتابوں کی سی اہمیت دیتے ہیں۔اگر یہ سب ہمارا ادب ہے تو پھر ایسے صاحبان عقل سے میرا ایک سوال ہے کہ ارطغرل کیوں نہیں؟
میرے خیال میں اس ڈرامہ کو تین باتوں کے لئے دیکھا جانا چاہئے
معلومات
تاریخ
آداب معاشرت 
میری رائے میں معلومات اور تاریخ کے علاوہ سب سے زیادہ اثراگر ہماری نوجوان نسل پر ہو سکتا ہے وہ ہے اس ڈرامہ میں دکھائے جانے والے کرداروں کا آداب معاشرت،یعنی خانہ بدوش ہونے کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے ایک سردارجرگہ کے آغاز میں بسم اللہ اور اسمائے حسنہ پڑھتا ہے۔

اپنے سے بزرگ اور برے کا احترام کیسے کرنا ہے۔جب بھی آقا ﷺ کا نام نامی اسم گرامی لیا جاتا سب سے سب لوگ کتنی عقیدت کے ساتھ سر جھکا کر اپنے ہاتھوں کو احتراما اپنے سینوں پہ رکھ لیتے ہیں۔سفر کے آغاز یا جہاد پہ جانے سے قبل دعا ئے خیر کرنا،اور اپنی والدہ اور بیوی کی دعاؤں سے رخصت ہونا۔پھر اپنی والدہ اور بیوی بچوں سے اپنے نادانستہ گناہوں اور کوتاہیوں کی بھی معافی طلب کر کے رخصت ہونا۔

کھانا کھانے کے آداب سے لے کر قرآن حکیم فرقان حمید کی آیات کے احترام تک وہ کون سا ایسا پہلو ہے جسے اس ڈرامہ میں نہیں دکھایا گیا۔میرا خیال ہے کہ ہمیں اور کچھ نہیں تو ہماری نسل کو یہ تحریک ضرور دینی چاہئے کہ وہ آداب معاشرت کی بنا پر اس ڈرامہ کو ضرور دیکھیں۔تاکہ انہیں ہمارے آباؤاجداد اور مذہب میں موجود معاشرتی اقدار کا پتہ چل سکے اور کچھ نہیں تو اس سوز یقین کے ساتھ ضرور ڈرامہ کو دیکھا جائے کہ اس سے نئی نسل میں ایسی تشویق پیدا ہو کہ پھر سے انہیں اپنے مذہب،روایات،اقدار اور رواجات کی قدر کا جذبہ بیدار ہو سکے۔

بقول اقبال
گرماؤ غلاموں کا لہو سوز ِ یقیں سے 
کنجشک ِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ تاریخ قوموں کا حافظہ ہوتی ہے،جبکہ امام بخاری  فرماتے ہیں کہ کمزور حافظہ کا علاج کتابیں پڑھنا ہے۔لہذا اگرآپ چاہتے ہیں کہ آپ کا حافظہ مضبوط ہو تو کتب بینی کے ذریعے سے علم کے حصول کو ممکن بنایا جائے۔جس طرح کتاب ذریعہ ہے علم کے حصول کا اسی طرح بصری معاونات یعنی ڈرامہ اور فلم بھی علم کے حصول کا ذریعہ ہے۔لہذا اس میڈیم کو استعمال کرتے ہوئے ہمیں اس ڈرامہ کو محض تاریخ ،علم اور آداب معاشرت کی تعلیم کا ذریعہ خیال کرنا چاہئے ناکہ اسے اپنے کامل ایمان کا حصہ سمجھنا چاہئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :