طلباء کے ساتھ زیادتی کیوں

Talba K Sath Ziadti Kiyon

Umer Nawaz عمر نواز پیر 30 مارچ 2020

Talba K Sath Ziadti Kiyon
کروناوائرس کی وجہ سے تمام تعلیمی اداروں نے اپنے طلباء کو چھٹیاں دے دیں اور گورنمنٹ نے تمام ادارے بند کرنے کا حکم جاری کیا چاہیے وہ سرکاری تھے یاپرائیویٹ جہاں بھی کوئی ادارہ ہے اس ادارہ میں اس شہر کے ساتھ ساتھ دوسرے شہروں کی تعداد بھی ہے خصوصی تور پر جو بڑے شہر ہیں وہاں دیہات سے آئے ہوئے طلباء کی تعداد بہت زیادہ ہے اور یونیورسٹیوں میں تو مقامی شہر سے زیادہ بیرون شہروں سے آئے ہوئے طلباءکی تعداد بہت زیادہ ہے جب حکومت نے تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کیا تو انتظامیہ نے جو ہاسٹل میں رہائش پزیر طلباء تھے ان کو دو دن ٹائم فریم دے دیا کہ ہاسٹل خالی کردو دو دن کے بعد انتظامیہ نے ہاسٹل بند کردیے ہاسٹل میں رہائش پزیر تمام طلباء اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے چند دن کے بعد پاکستان کی چند یونیورسٹیوں نے آن لائن کلاسز کا آغازکر دیا ہے جو طلباء بڑے شہروں کے رہنے والے ہیں ان کے لیے تو آئن لائن کلاسز کا کوئی مسلہ نی لیکن جو طلباء دیہات سے تعلق رکھتے ہیں ان کے لیے بہت زیادہ مشکلات ہیں کیوں دیہات میں تو بلکل انٹرنیٹ کی سہولت نہیں تو پھر وہ طلباء کیا کریں یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ دیہات سے تعلق رکھنے والے طلباء کا استحصال کیوں کیا جارہا ہے ؟ ہر چیز میں شہر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ہی مدنظر کیوں رکھا جاتا ہے پنجاب کی سب سے بڑی جامعہ پنجاب نے آئن لائن کلاسز کا بھی اجرا کر دیا ہے میرا وائس چانسلر صاحب سے یہ سوال ہے اس وقت پنجاب کی کتنی آبادی شہروں میں رہائش پزیر ہے اور کتنی دیہات میں کیا دیہات سے جو طلباء پنجاب کے طالب علم ہیں آئن لائن کلاسز کا اجرا کرتے ہوئے ان کے مسائل کو مدنظر رکھا گیا ہے کہ وہ کلاس میں شامل کیسے ہونگے اور پاکستان کے بعض ایسے علاقے ہیں جہاں انٹرنیٹ بلکل ہی نی چلتا تو پھران علاقوں کے طلباء کیا کریں اگر آپ نے دیہات کے طلباء کا استحصال کرنا ہے تو پھر شوق سے کر لیں لیکن میں یہاں آپ کو یہ بھی باور کرانا چاہتا ہو ؟دیہات سے تعلق رکھنے والے طلباء شہر کے سے طلباء کم نہیں اگر صحافت کے میدان کی بات کی جائے تو رؤف کلاسرا کا تعلق بھی گاؤں سے اگر تعلیمی میدان کی بات کی جائے تو پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس کا تعلق بھی ایک گاؤں سے ہے اگر سیاست کی بات کی جائے تو ندیم افضل چن کا تعلق بھی گاؤں سے ہے اگر کھیل کے میدان کی بات کی جائے تو وقار یونس بھی ایک گاؤں کا رہنے والہ تھا ہمارا کیا قصور ہے ؟جو ہمیں ٹیکنالوجی سے اتنا دور رکھا گیا دیہات کے فنڈ شہروں میں استعمال کیے گئے اس لیے گاؤں کے لوگوں کے پاس 2جی انٹرنیٹ نہیں اور اہل شہر کے پاس تو آپٹک فائبر مہیا کردی گئی ہے دیہات کے طلباء کو وسائل سے محروم رکھ کر کہا جارہا ہے کہ الیٹ کلاس کے ساتھ مقابلہ کرو گاؤں کے بہت سے طلباء کے پاس انٹرنیٹ ماجود نہیں وہ کلاسز تو نہیں پڑھ سکیں گے جس طرح دوسرے شبعوں میں گاؤں کے لوگوں کا استحصال کیا گیا اب تعلیم میں بھی کیا جارہا اگر یہ استحصال اسی طرح جاری رہا تو سرخ انقلاب ضرور اٹھے گا؟ ایجوکیشن پالیسز محلات میں رہنے والے آئیر کنڈیش کے نیچے بیٹھنے والے بابو بنا رہے ہیں اور ان کا عملدرآمد غریب مزدوروں اور کسانوں کے بچوں پر ہوتا ہے ان کو کیا معلوم ایک غریب کی مشکلات کا
دل ناامیدتو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :