کروناوائرس کی وجہ سے تمام تعلیمی اداروں نے اپنے طلباء کو چھٹیاں دے دیں اور گورنمنٹ نے تمام ادارے بند کرنے کا حکم جاری کیا چاہیے وہ سرکاری تھے یاپرائیویٹ جہاں بھی کوئی ادارہ ہے اس ادارہ میں اس شہر کے ساتھ ساتھ دوسرے شہروں کی تعداد بھی ہے خصوصی تور پر جو بڑے شہر ہیں وہاں دیہات سے آئے ہوئے طلباء کی تعداد بہت زیادہ ہے اور یونیورسٹیوں میں تو مقامی شہر سے زیادہ بیرون شہروں سے آئے ہوئے طلباءکی تعداد بہت زیادہ ہے جب حکومت نے تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کیا تو انتظامیہ نے جو ہاسٹل میں رہائش پزیر طلباء تھے ان کو دو دن ٹائم فریم دے دیا کہ ہاسٹل خالی کردو دو دن کے بعد انتظامیہ نے ہاسٹل بند کردیے ہاسٹل میں رہائش پزیر تمام طلباء اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے چند دن کے بعد پاکستان کی چند یونیورسٹیوں نے آن لائن کلاسز کا آغازکر دیا ہے جو طلباء بڑے شہروں کے رہنے والے ہیں ان کے لیے تو آئن لائن کلاسز کا کوئی مسلہ نی لیکن جو طلباء دیہات سے تعلق رکھتے ہیں ان کے لیے بہت زیادہ مشکلات ہیں کیوں دیہات میں تو بلکل انٹرنیٹ کی سہولت نہیں تو پھر وہ طلباء کیا کریں یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ دیہات سے تعلق رکھنے والے طلباء کا استحصال کیوں کیا جارہا ہے ؟ ہر چیز میں شہر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ہی مدنظر کیوں رکھا جاتا ہے پنجاب کی سب سے بڑی جامعہ پنجاب نے آئن لائن کلاسز کا بھی اجرا کر دیا ہے میرا وائس چانسلر صاحب سے یہ سوال ہے اس وقت پنجاب کی کتنی آبادی شہروں میں رہائش پزیر ہے اور کتنی دیہات میں کیا دیہات سے جو طلباء پنجاب کے طالب علم ہیں آئن لائن کلاسز کا اجرا کرتے ہوئے ان کے مسائل کو مدنظر رکھا گیا ہے کہ وہ کلاس میں شامل کیسے ہونگے اور پاکستان کے بعض ایسے علاقے ہیں جہاں انٹرنیٹ بلکل ہی نی چلتا تو پھران علاقوں کے طلباء کیا کریں اگر آپ نے دیہات کے طلباء کا استحصال کرنا ہے تو پھر شوق سے کر لیں لیکن میں یہاں آپ کو یہ بھی باور کرانا چاہتا ہو ؟دیہات سے تعلق رکھنے والے طلباء شہر کے سے طلباء کم نہیں اگر صحافت کے میدان کی بات کی جائے تو رؤف کلاسرا کا تعلق بھی گاؤں سے اگر تعلیمی میدان کی بات کی جائے تو پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس کا تعلق بھی ایک گاؤں سے ہے اگر سیاست کی بات کی جائے تو ندیم افضل چن کا تعلق بھی گاؤں سے ہے اگر کھیل کے میدان کی بات کی جائے تو وقار یونس بھی ایک گاؤں کا رہنے والہ تھا ہمارا کیا قصور ہے ؟جو ہمیں ٹیکنالوجی سے اتنا دور رکھا گیا دیہات کے فنڈ شہروں میں استعمال کیے گئے اس لیے گاؤں کے لوگوں کے پاس 2جی انٹرنیٹ نہیں اور اہل شہر کے پاس تو آپٹک فائبر مہیا کردی گئی ہے دیہات کے طلباء کو وسائل سے محروم رکھ کر کہا جارہا ہے کہ الیٹ کلاس کے ساتھ مقابلہ کرو گاؤں کے بہت سے طلباء کے پاس انٹرنیٹ ماجود نہیں وہ کلاسز تو نہیں پڑھ سکیں گے جس طرح دوسرے شبعوں میں گاؤں کے لوگوں کا استحصال کیا گیا اب تعلیم میں بھی کیا جارہا اگر یہ استحصال اسی طرح جاری رہا تو سرخ انقلاب ضرور اٹھے گا؟ ایجوکیشن پالیسز محلات میں رہنے والے آئیر کنڈیش کے نیچے بیٹھنے والے بابو بنا رہے ہیں اور ان کا عملدرآمد غریب مزدوروں اور کسانوں کے بچوں پر ہوتا ہے ان کو کیا معلوم ایک غریب کی مشکلات کا
دل ناامیدتو نہیں ناکام ہی تو ہے لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔