بھٹو حقیقت یا افسانہ

Bhutto Haqeeqat Ya Afsana

Umer Nawaz عمر نواز ہفتہ 4 اپریل 2020

ذولفقار علی بھٹو پاکستانی تاریخ کے ایک اہم کردار تھے ان کے چاہنے والوں نیں انہیں ٹوٹ کر چاہا اور ان کے ناقد بھی بہت تھے بھٹو تقریر کرنے کے ماہر تھے اور لوگوں کے دلوں کے اوپر راج بھی کرتے تھے وہ جہاں بھی کوئی جلسہ یا تقریر کرتے عوام کو جِم غفیر ان کو دیکھنے اور سننے کے لیے امڈ آتا بھٹو نے جہاں مزدوروں اور ہاریوں کی بات کی ساتھ انھوں نے طلباء کے ساتھ بھی دوستی کا رشتہ نبھایا بھٹو جب بھی تقریرکرتے مزدوروں ہاریوں کسانوں طلباء اورعام آدمی کی بات کرتے اسی وجہ سے یہ کلاس ان سے دیوانہ وار محبت کرتی بھٹو نے مزدوروں اور ہاریوں کو ان کے حقوق دیے معشیت کی بنیاد سوشلزم اس کی سب سے بڑی مثال ہے ملک میں پہلی بار مزدور کے اوقات کار مقرر کیے گئے اس سے پہلے مزدور کے لیے کوئی قانون نی تھا جس کے ذریع اس کو انصاف ملتا یکم مئی کو چھٹی کی اور جو ورلڈ لیبر ڈے اس دن مزدوروں کے حقوق اور شگاگو کے شہیدوں کو سلام کرنےاس دن کو اس کی نسبت سے منانے کے لیے پہلی بار بھٹو کے دور حکومت میں منانے کا اہتمام ہوا بھٹو نے کسانوں کے لیے زرعی پالیسی بنائی اداروں میں ریفام کی بھٹو نے جہاں ملک کے اندر بے مثال کارنامے سر انجام دیے وہاں انھوں نے کامیاب خارجہ پالیسی بھی بنائی اور چلائی یہ بھٹو ہی کا کارنامہ تھا جو  ہمسائے ملک بھارت سے 90ہزار جنگی قیدیوں کو واپس لے آئے ایران کے ساتھ تعلقات کو ازسر نوع مرتب کیا سویت یونین کے ساتھ تعلقات میں جو دراڑ تھی اس کو ختم کیا دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کا ملک میں انعقاد کروا کر بھٹو نے تاریخ رقم کی اسلامی ممالک کے ساتھ خوشگوار تتعلقات بھی بھٹو ہی کا کام تھا جہاں بھٹو نے اپنی کامیاب خارجہ پالیسی کو لوہا منوایا وہیں انھوں نے سوشلزم معشیت سے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا نئے ادارے بنائے اداروں میں اصلاحات کیں جہاں بھٹو نے معشیت کے پہیہ کو دڑایا وہاں انھوں نے ملکی دفاع کو بھی کامیاب بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ایٹم کی بنیاد رکھ کر ملکی دفاع کے لیے ایک اور کارنامے کی طرف سفر شروع کردیا لیکن بدقسمتی سے ملک کے دفاع رکھوالوں نے ہی بھٹو کا تختہ الٹ دیا اور عوامی لیڈر کو اقتدار سے فارغ اور عوام کے دیے ہوئے منیڈیٹ کی توہین کردی اور یہاں تک ہی نی رکے بلکہ ایک سیاسی مقدمے میں بھٹو کو پھانسی گھاٹ تک لیجانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی بھٹو ایک عوامی آدمی تھا اس نے اس پھندے کو بھی جوم کر گلے میں ڈال لیا شائد ان کو تو یہ خیال تھایہ ڈر جائے گا لیکن لیڈر کبھی ڈرانہیں کرتے بھٹو پھانسی کے پھندے پر جھول کر آج بھی اسی طرح عوام کے دلوں میں زندہ ہیں اور آج شائد زندہ بھٹو سے پھانسی کے پھندے کے اوپر جھولا ہوا بھٹو زیادہ طاقت وار ہے  لیکن میں آج کچھ لوگوں سے سوال بھی کرنا چاہتا ہو؟ کیا اس طرح لوگوں کے دلوں سے ان کے لیڈر کی محبت ختم ہوسکے گی کہتے ہیں عشق اندھا ہوتا ہے اسی لیے اس ملک میں بھٹو کے چاہنے والے ابھی بھی بے شمار ہیں لیکن ان لوگوں کو آج کتنے لوگ جانتے ہیں اوریاد کرتے ہیں جنہوں نے عوام کے منیڈیٹ کے اوپر شب خون مارا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :