عہد کرونا میں سیاسی صف بندیاں

Ehad Corona Mein Siyasi Saf Bndyan

Umer Nawaz عمر نواز جمعرات 23 اپریل 2020

Ehad Corona Mein Siyasi Saf Bndyan
25اپریل کو چینی اور آٹے کی رپورٹ آنی ہیں لیکن اس سے پہلے ہی سیاست میں حل چل شروع ہوگی ہے جس طرح موسم گرم ہورہا ہے اسی طرح سیاست میں بھی گرمی آرہی اور سیاسی درجہ حرارت ہر روز بڑھتا جا رہا ہے جہاں لوگ کرونا کی وجہ سے پریشان ہیں وہاں ہماری سیاست دلچسپ صورتحال اختیار کرتی جارہی ہے آج کے حریف کل کے حلیف اور کل کے حریف آج کا حلیف بن رہے ہیں کیا جہانگیر ترین کی اب وزیراعظم کو ضرورت نہیں رہی یا پھر وہ ان کے لیے خطرہ بن رہے تھے جیسے انھوں نے تحریک انصاف کو ایک بانک منتی کا کنبہ بنایا تھا اب اسی طرح کچھ اور کھیل میں تو وہ مصروف نہیں ہوگے تھے کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ خان صاحب جانتے ہیں لوگوں کو کہاں استعمال کرنا ہے اور استعمال کے بعد کس طرح ان کو چھوڑ دینا ہے اگر ان کے ماضی کی طرف نظر دوڑائیں تو معلوم بھی یہی ہوتا ہے کہ کپتان نے اپنے کس طرح ساتھیوں کو استعمال کرنے کے بعد پلٹ کر بھی نہیں دیکھا احسن رشید سے لے کر حامد خان تک سب کو فائدے کیلیے ہی اپنے ساتھ رکھا فوزیہ قصوری سے لے کر وجہیہ الدین احمد تک سب لوگوں کے ساتھ کپتان نے اپنا وہی روائیتی طریقہ ہی اپنایا۔

(جاری ہے)

۔
 یہ وہی لوگ تھے جو تحریک انصاف کے بانی تھے جب کوئی اس جماعت کا نام لیوا نہیں تھا ان لوگوں نے اس جماعت کو متعارف کروایا لیکن جیسے ہی اس جماعت کی پہچان بنی ان کے لیے اس جماعت میں جگہ ہی نا بچی اکبر ایس بابر جیسے لوگوں کو کس طرح اس پارٹی سے نکالا گیا جب وجہیہ الدین احمد کی سربراہی میں ایک کمیشن بنا تھا تو کپتان نے اس کمیشن کی رپوٹ کو ماننے کی بجائے جزبہ کے کی بجائے قبضہ گروپ کو ترجیح دی اور ان کو یہ بھی بتا دیا کہ میں کسی کے ساتھ بھی وفا نہیں کرتا کس طرح پانچ سال سابق آئی جی خیبر پختونخواہ ناصر خان دورانی کی تعریف کی گئی الیکشن میں ان کے نام پر ووٹ بھی حاصل کیے گے جلسوں میں ان کے کاموں کی کس طرح مشہوری کی جاتی تھی جیسے ہی ان کو پنجاب میں پولیس ریفام کے لیے لایا گیا جب انھوں نے کام شروع کیا تو ان کو بھی ہٹا دیا گیا جو پولیس بہتر کرنے کے لیے لائے گے تھے جن کے نام پر پولیس میں ریفام کے لے ووٹ حاصل کیے تھے آج یہاں پے ایک اور بھی بنیادی سوال ہے جب وجیہہ الدین احمد کو پارٹی سے نکالا گیا تھا تو کس نے ان کو نکالا تھا آج پھر ان کے موقف کی تائید نی ہورہی کیا؟ توپھر ان کو نکالنے کی سزا کس کو ملنی چاہیے؟
 جہانگیر ترین نے کس طرح لوگوں کو جہاز میں بیٹھا کر بنی گالہ پہنچایا تھا آج ان کے نام تو سامنے آرہے ہیں شوگر سکینڈل میں لیکن خسروبختیار کا نام نہیں لیا جا رہا کیوں ابھی ان کی ضرورت ہیاور جہانگیر ترین کے جہاز کی ضرورت ختم ہوگی ہے شائد آپ کو ان کے جہاز کی ضرورت پھر بھی پڑ سکتی ہے جب اسی طرح سیاست دان ایک دوسرے کو استعمال کرتے رہیں گے تو پھر یہ بھی کہتے سنائی ضرور دیں گے کہ مجھے کیوں نکالا خان صاحب بھی یہ سیکھ گے ہیں بلکہ دوسرے سیاست دانوں سے پہلے سیکھ گے ہیں کہ کس کو کہاں استعمال کرنا ہے اوراس کے بعد کس طرح اس کو چھوڑنا ہے اس کی تاریخ بھی پرانی ہے کہ کس طرح جنرل ضیاء الحق اور پیر پگاڑا نے پنجاب میں نواز شریف کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے یوسف رضا گیلانی کو استعمال کیا بے نظیر بھٹو جو کہا کرتی تھیں جمہوریت ہی بہترین انقام اور انھوں نے کس طرح اپنے پارٹی میں جمہوری کارکنوں کے ساتھ کیا سلوک کیا کس طرح کارکنوں کو سائیڈ لائن کیا اور موسمی پرندوں کو جگہ دی یہ اپنی مثال آپ ہے نواز شریف کہاں پیچھے رہنے والے تھے انھوں نے بھی یہی کچھ کیا جاوید ہاشمی۔

 غوث علی شاہ۔جیسے لوگوں کو کس طرح سائڈ لائن کیا جنرل مشرف کے دور میں جیلیں بگتنے والے پیر صابر شاہ کی بجائے جنرل مشرف کے ساتھی امیر مقام کو کس طرح نوازا گیا پنجاب میں ذوالفقار کھوسہ کی بجائے اقتدار میں آکر لغاری برادران کو کس طرح گلے لگا یا گیا اگر سندھ کی بات کی جائے تو ماروی میمن کو کس طرح پروٹوکول دیا گیا اور جنرل مشرف کے دور میں سزائیں بگتنے والے ظفر علی شاہ کے ساتھ جو کچھ کیا گیا وہ بھی ایک تاریخ کا اہم باب ہے اگر اس طرح ہی ہوتا رہا تو آپ بھی مجھے کیوں نکالا ہی کہتے رہے گے اور لوگ بھی یہی سنتے دیکھائی دیں گے کہ مجھے کیوں نکالا وزیر اعظم صاحب اگر آپ سیاست سیکھ گے ہیں توپھر آپ کو اپنے سے پہلے لوگوں کے انجام کو بھی دیکھنا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :