آزادی کیسی

Azadi Kaise

Umer Nawaz عمر نواز پیر 4 مئی 2020

Azadi Kaise
3مئی آزادی صحافت کے عالمی دن کے تور پر منایا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں پریس آج بھی آزاد نہیں بلکہ دن بدن اس پر قدغن ہی لگائی جارہی ہیں صحافت کا مقصد سچ بتانا لیکن جب صحافی سچ بولتےہیں تو ان کو خاموش کرادیا جاتا ہے اس سچ کے لیے صحافیوں نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں لیکن اکیسویں صدی میں بھی سچ بولنےپر پابندی ہے تین مئی ہم آزادی صحافت کے عالمی دن کے تور پر منا لیتے ہیں لیکن ہمارے ارباب اختیار اس کو آزادی دینے کو راضی نہیں ہر بار آزادی کی بجائے اس کے حقوق سلب کیے جارہے ہیں پاکستان بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں صحافت کو بے پناہ مسائل کا سامنا ہے بلکہ صحافت کے لیے دنیا میں جو خطرناک ترین ممالک ہیں پاکستان تو ان ممالک میں شامل ہے کیا وجہ ہے آزادی کے اس دور میں غلامی کا سوچا جارہا ہے اب جو جمہوریت کے چمپین ہے وہ بھی پریس کے گرد گھیرہ تنگ کر رہے ہیں بلکہ یہ دہائی تو صحافت کے لیے سب سے مشکل ہے ناصرف پاکستان میں بلکہ دنیا کے دوسرے بڑے ممالک بھی ایک دوسرے سے اس میں سبقت لینے کی کوشش کررہے ہیں دنیا کا سپر پاور امریکہ میں بھی پریس کو بہت سے مشکلات کا سامنا ہے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے میڈیا کو لولہ لنگھڑا میڈیا کہتا ہے وہ صحافیوں کی کردار کشی کا موقعہ ہاتھ سےجانے نہیں دیتا جب بھی وہ میڈیا سے بات کرتا ہے تو ان ساتھ لڑائی کے موڈ میں بات کرتا ہے اگر جمہوریت کے چمپین برطانیہ کی بات کی جائے تو جب سے بورس جانسن وزیراعظم بنا ہے تب سے برطانیہ میں بھی پریس کے اوپر قدغن لگائی جارہی ہیں اپنے آپ کو سیکولر ریاست کا دعویدار کہنا والہ بھارت بھی آزادی صحافت کو غلامی کی شکل میں بدل رہا ہے نریندر مودی بھی کسی سے پیچھنے نہیں رہنا چاہتے وہ بھی اس کارِخیر میں اپنا پورا پورا حصہ ڈالنا چاہتا ہیں اگر وزیر اعظم عمران خان کی بات کی جائے تو وہ بھی بھلا کیسے پیچھے رہنے والے ہیں بھی اس صف میں کھڑا ہونا چاہتے ہیں  جو صحافت کے اوپر قدغن لگانے والی ہے دنیا کے ہر بڑے ملک میں صحافت آج بھی پابند سلاسل ہےچین،روس،ترکی ،سعودی عرب بلکہ جو جتنا بڑا ملک ہے اس میں پابندیاں بھی اتنی ہی زیادہ ہیں  پاکستان میں پچھلے بیس سال کے دوران 150 پچاس صحافیوں نے اپنی جان کے نظرانے پیش کیے ہیں لیکن ہرروز اس کی آزادی کو سلب کیا جارہا ہے ہر دور میں صحافیوں کو طرح طرح کی سزائیں دی جاتی رہی ہیں کبھی کوڑے کبھی جیلیں لیکن آج بھی صحافی اسی جزبے کے ساتھ اپنے اس پروفیشن کے ساتھ منسلک ہیں نثار عثمانی ،منہاج برنا ،حسین نقی،پروفیسر وارث میر،ادریس بختیار ،احفاظ الرحمن نے اپنے عہد میں اس کے لیے قربانیاں دی ہیں خاور نعیم ہاشمی ،نجم سیٹھی،ملیحہ لودھی ،مظہر عباس نے اپنے طریقے سے آزادی صحافت کے لیے اپنا حصہ ڈالہ ہے آج خامد میر،عاصمہ شیرازی، نسیم زاہرہ،نصرت جاوید اس کی آزدادی کے لیے اپنے حصہ کی شمع جلا رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے دن بدن اس کی آزادی کو ختم ہی کیا جارہا ہے پریس کے گرد مزید گیھرہ تنگ کیا جارہا ہے
اب تو آزاد ہے یہ دنیا
صحافت کیوں آزاد نہیں ؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :