طرز حکمرانی کی تاریخ

Tarz E Hukamrani Ki Tareekh

Umer Nawaz عمر نواز اتوار 29 دسمبر 2019

Tarz E Hukamrani Ki Tareekh
اقتدارہمیشہ رہنے وا لی چیز نہیں کوئی پتہ نہیں چلتا کہ کب قسمت کی دیوی بدلے اور انسان اقتدار سے باہر ہو جائے اس دنیا میں کتنے کتنے حکمران آئے آج ان کے لوگوں کو نام تک یاد نہیں جب کوئی حکمران آیا اس نے اپنے طریقے سے حکمرانی کی نظام کواپنےطریقے سے چلانےکی کوشش کی کچھ اس امتحان میں کامیاب ہوئے تو کچھ ناکام۔ وقت بدلنے کا کوئی پتہ نہیں چلتا کہ کب عروج کا سورج غروب ہو جائے اور زوال کی شام پر پھیلا آئے جب انسان پاور میں ہوتا ہے تو وہ یہ سمجھتا ہے یہ پاور اس کے لیے بنی ہے اور وہ پہلا انسان ہے اس روحِ زمین پر جس کو پہلی مرتبہ ملی ہےلیکن وہ یہ بھول رہا ہوتا ہے اقتدار کا نشہ ہی ایسا ہے انسان بہت جلد دھوکا کھا جاتا ہے اور طاقت کے نشے میں وہ کام بھی کرتا ہے جو وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔

(جاری ہے)

اگر تاریخ کے اوراق پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی حکمران اقتدار میں ہوتا ہے تو اس کا نظریہ بھی تبدیل ہو جاتا ہے یا پھر وہ اپنے نظریے سے ہٹ کر بھی کام شروع کر دیتا ہے جواس کے نظریے سے مماثلت بھی نہیں رکھتے۔ یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ اقتدار کے ختم ہونے کا بھی کچھ پتا نہیں چلتا کب عروج کا سورج غروب ہو جائے اور زوال کی شام اپنے پر پھیلانے لگے لیکن یہ سب جانتے ہوئے بھی انسان پتہ نہیں اپنے آپ کو کیا سمجھنا شروع کر بیٹھتا ہے اور ظلم کے پہاڑ ڈھانے شروع کر دیتا ہے اس دنیا میں بہت سارے حکمران آئے حکمرانی کی اور پھر تاریخ کے اوراق میں گم ہوگئے کسی کی حکمرانی کا دورانیہ بھی بہت تھا لیکن وہ دورانیہ بھی اسے تاریخ میں گم ہونے سے نا بچا سکا کسی کی سلطنت اتنی بڑی تھی کہ وہ پیدل چل کر اپنی زندگی میں اپنی سلطنت کا دورہ بھی نہیں کرسکتا تھا کیوں کہ اس کا رقبہ ہی اتنا زیادہ ہوتا تھا لیکن وہ رقبہ بھی اسے لوگوں کے دلوں میں آج تک زندہ نہیں رکھ سکا اور لوگ آج کہیں کہ اس رقبہ پر فلاں نے حکمرانی کی سکندر اعظم نے کتنی دنیا پر حکمرانی کی ہےلیکن آج کے اس دور میں کتنے لوگ ہیں جو اس سکندر کو جانتے ہیں اس کے کاموں میں دلچسپی لیتے ہیں کہ اس نے اپنے دور حکومت میں کون سے کارنامے سر انجام دیے آج شائد بہت کم لوگ ہیں جو اس کے نام کو تو جانتے ہیں لیکن اس کے کاموں میں دلچسپی نہیں لیتے اگر اس خطے کی بات ہی کرلی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر میں کتنے حکمران تھے جنہوں نے اس خطے پر حکمرانی کی اگر بات کی جائے آبادی کی تو آدھی سے بھی زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اس وقت برصغیر کی تو کتنے ہیں ہمارے یہ نوجوان جو برصغیر کے ان حکمرانوں کو جانتے ہیں شائد لا کھوں کی تعداد میں وہ نوجوان ہونگے جن کو ان حکمرانوں کے نام بھی معلوم نا ہو محمود غزنوی سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک کتنے حکمران آئے شائد آدھے سے زیادہ آبادی کو تو یہ بھی معلوم نہیں خاندان غلاماں سے کر لودھیوں تک سبھی نے  اپنی من مرضی کی اور جس طرح چاہا اس طرح کیا سبھی نے اپنے اپنے دور میں اپنے انداز میں حکمرانی کی علاؤدین خلجی اور محمد بن تغلک نے اپنے انداز میں چلانے کی کوشش کی اور بہت سختی کی لیکن لوگوں نے وہ دور بھی دیکھا اور اس دور میں بھی زندگی گزاری جن لوگوں کے اوپر انھوں نے ظلم کیے نا تو وہ رہے اور ناہی یہ حکمران رہے آج کتنے طالب علم ہیں جو ان حکمرانوں کے ناموں سے واقف ہیں جہاں وہ مظلوم گم نام ہوئے وہیں یہ ظلم کرنے والے بھی گم نام ہوگئے سلاطین دہلی کے ہر حکمران نے نظام کو اپنی منشاء کے مطابق چلایا اور جس طرح چاہا اس طرح کیا شائد یہ بھی اپنے دلوں میں یہ حسرت بسائے بیٹھے تھے کہ ان کا اقتدار ہمیشہ رہنے والہ ہے وہ اقتدار بھی ختم ہوا اور ان کے نام بھی قسہ پرینا ہوئے آج ان کو تاریخ کے طالب علم تو جانتے ہونگے لیکن یہ تاریخ کے اوراق میں بہت نیچے چلے گئے ہونگے آج اس خطے کی اکثریت ان کے ناموں سے بھی واقف ناہوگی ہمایوں نے اپنے اقتدار کی خاطر کیا کچھ نہیں کیا تھا اس نے تو اپنے بھائیوں کو مار ڈالا کیا آج ہمایوں اقتدار میں ہے اس کے اقتدار کا سورج کب کا غروب ہو چکا ہے اس کی حکمرانی کے بارے میں تاریخ کے اساتزہ کے علاوہ کسی کو بھی معلوم نا ہو کہ اس نام کا آدمی بھی اس خطہ پر حکمران رہا ہےاس طرح کے کاموں سے تاریخ کے اوراق برے پڑے ہیں یہ صرف ہمایوں تک ہی محدود نہیں اورنگزیب نے بھی اقتدار حاصل کرنے کے لیے اپنے والد کو قید خانوں میں بند کردیا شاہ جہاں نے تو وہ قید کاٹ لی کیا پھر اورنگزیب ہمیشہ اقتدار میں رہا ؟ آخر اس کے اقتدار کا سورج بھی غروب ہوگیا وہ بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح اس صف میں جا کھڑا ہو گیا جس کو آج کی عام عوام کی اکثریت تک نہیں جانتی پولیٹکل سائنس کے طالب علم تو اس کی اس کے دورہ حکمرانی کے بارے میں کچھ معلومات رکھتے ہوں لیکن باقی عوام کی اکثریت تک اس کے بارے میں جانے تک بھی قاصر ہے مغلیہ سلطنت بھی کب کی ختم ہو چکی اس کے بعد بھی کتنے حکمران آئے اور ماضی کا حصہ ہوتے گئے کوئی بھی اپنے اقتدار کو تول نا دے سکا بلکہ اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے ہی اپنے اقتدار کا سورج غروب ہوتے ہوئے دیکھا تارئخ کے اوراق اس لیے کھنگالے ہیں کہ شائد کوئی ایسا حکمران نظر آجائے جس کے اقتدار کا سورج ہمیشہ اس کی آنکھوں کے سامنے چمکتا رہاہو معلوم تو یہ ہی ہوا ہے کہ سب کا سورج غروب ہوا ہے اگراپنے اس پیارے ملک کی بات ہی کرلی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر حکمران نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا سب کا اقتدار اسی کی آنکھوں نے ختم ہوتےہوئے دیکھا ہے ایوب خاں نے اپنے دور اقتدار میں اپوزیشن کے راہنماؤں کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا تھا اس کےباوجود اس کو حکمرانی کی چھڑی دوسرے کے حوالے کرنی پڑی جنرل یحی خان نے اس ملک کو دولخت کر دیا لیکن یہ کام بھی اسکے حکمرانی کےدور کو آگے نا بڑھا سکا اس کو بھی پاور آگے منتقل کرنی پڑی جس بھٹونے وہ پاور کسی دوسرے آدمی سے حاصل کی وہ بھی یہ بھول بیٹھا کہ شائد یہ ہمیشہ اس کے پاس رہے گی کوئی بھی اس سے یہ لے نہیں سکے گا اپنے دور حکمرانی کے دوران اس نے بھی اپوزیشن کے راہنماؤن کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا ان رہنماؤں نے سب کچھ برداشت کیا لکن اس کے باوجود بھٹو اپنے اقتدار کو نا بچا سکے بلکہ جس کو خود لے کر آئے تھے اسی کے ہاتھوں اپنا اقتدار گنوا بیٹھے اور اسی لائن میں جا کھڑے ہوئے جس لائن کے لوگوں سےاس نے حکمرانی حاصل کی تھی اور تارئخ بنتے گئے جنرل ضیاء نے بھی ایک سیاسی لیڈر کو پھانسی کے گھاٹ تک پہنچایا سیاسی ورکرو کو کوڑے مارے قید بند کیا طرح طرح کی سزائیں دیں وہ بھی اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ شائد اس طرح کے فریضے سر انجام دینے سے ان کا اقتدار بچ جائے لیکن وہ بھی چند دن کے مہمان ٹھہرے اور اس کرسی پروہ لوگ آکر براجمان ہوئے جن کو وہ طرح طرح کی سزائیں دیتا رہا اور تاریخ نے یہ سبق بھی پڑھا دیا یہ اقتدار ختم ہونے والی چیز ہے اس کے بعد بے نظیر اور نوازشریف بھی اس ریاست پرحکمرانی کرتے رہے انھوں نے بھی جو کچھ کیا وہ ایک علیحدہ کہانی ہے لیکن اس کے باوجود اسی کرسی کے اوپر اور  لوگ آکر براجمان ہوگے انھوں نے بھی ان لوگوں کو براجمان ہوتے ہوئے دیکھا پھر ہمارے اس کمانڈو کو ہی دیکھ لیں جوشائد تاریخ بدلنے آیا تھا اور ماضی کو بھول بیٹھا تھا وہ تو یہ بھی کہتا تھا کہ میں سیاسی لیڈروں کو اس ملک میں واپس نہیں آنے دوں گا  پھر وہی اسی زبان سے کہہ رہا تھا کہ میں نے اس ملک میں نہیں رہنا اور مجھے باہر جانے دو کہاں جانا ہےجہاں بیٹھےوہ سیاسی لیڈرکہتے تھے کہ ہم نے اس ملک میں واپس آنا ہے وہ سیاسی لیڈر تو واپس آگے اور یہ خود باگ کر ان ملکوں میں چلا گیا اسی ڈکٹیٹر نےجمہوریت پر شب خون مارا اور اقتدار حاصل کیا لیکن اس کو وہی اقتدار اسی جمہوریت کو اپنے ہاتھوں سے واپس لوٹانا  پڑاشائد آج کےہمارے حکمران بھی یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اپوزیشن کو بلا جواز تنگ کرکے اپنے اقتدار کو تول دیں لیں گے ان کے خلاف مقتدمات بنا کر ان کو دبانے کی سوچ رکھتے ہیں اور اس طرح یہ ہمیشہ کےلیے بیٹنگ کرتے رہیں گے تو پھر یہ ان کی بھول ہےآج عدلیہ کو دبے الفاظ میں تانے دیے جارہے ہیں عدالتی فیصلوں کو ضمانتوں کے موسم کے ساتھ مشروط کیا جارہا ہےریاست کےچوتھے ستون میڈیا کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں کبھی اس کو کرپٹ کہا جارہاہے اس طرح کے کام آپ سے پہلے والے لوگوں کو نہیں بچا سکے تو آپ کو کیسے بچائیں گے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :