"خلیل صاحب زرا تھم کے"

Khali Sahab Zara Thaam K

Zakia Nayyar ذکیہ نیر جمعرات 5 مارچ 2020

Khali Sahab Zara Thaam K
مارچ کا مہینہ آتے ہی کچھ مرد حضرات کا غصہ ابل ابل کر لاوا بن جاتا ہے جس کے چھینٹے جب ترقی پسند اور حقوق نسواں کے تحفظ کا نعرہ لگانے ولی خواتین پر پڑتے ہیں تو پھر کیا تماشا لگتا ہے اسکا تازہ مظاہرہ کل ایک لائیو پروگرام میں سب نے دیکھا جو ٹوئٹرپر ٹاپ ٹرینڈ ہے تو فیس بک پر بھی لاکھوں ویوز ہیں اور کمنٹس کا تو پوچھیں نہیں مجھ سمیت ہر ایک فلاسفر بنا اپنا تجزیہ دینے میں مصروف۔

۔۔خیر پروگرام کا کلپ دیکھا تو شروع میں خلیل الرحمٰن قمر نے انتہائی مؤدبانہ انداز میں اسی طرح گفتگو کا آغازکیا جو ایک مہذب لکھاری کو زیب دیتا ہے عدالت نے عورت مارچ میں کچھ نعروں کو نہ دہرانے کا حکم دیا یہی بات خلیل صاحب نے بھی دہرائی تو دوسری طرف کال ہر موجود ماروی سرمد نے حسب عادت "میرا جسم میری مرضی" کے  نعرے لگانا شروع کردئیے پھر پڑھے لکھے لوگوں نے جو تماشا دکھایا وہ خلاف توقع تھا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جسے برداشت نہ ہوا وہ پروگرام سے اٹھ جاتا معذرت قدرے بہتر تھی بہ نسبت گالم گلوچ اور نازیبا الفاظ کے ۔

(جاری ہے)

میں خلیل صاحب کی تحریروں کی بڑی مداح ہوں انکے دو مشہور ڈراموں میں ایک چیز بہت ملتی جلتی ہے جب بھی کوئی کردار جلد بازی میں کوئی غلطی کرنے لگتا ہے تو مخالف کردار ایک لائن دہراتا ہے "زرا تھم  کے رہو" پھر تماشا لگنے کے بجائے غصہ اور غصے میں نکلنے والی گالیاں بھی تھم جاتی ۔۔مگر جب خود تھمنے کا وقت آیا تو خلیل الرحمٰن نہ تھمے نہ رکے بلکے خوب گرجے برسے ۔

۔کاش آپ بھی" زرا تھم کہ رہتے "تو میرا جسم میری مرضی والیاں آج  ہمدردی نہ سمیٹ رہی ہوتیں۔خیر صبر برداشت لفظوں کا چناؤ تو ایسی صفات ہیں جو کسی عام محفل کے لیے بھی ضروری ہیں پھر یہ تو لائیو ٹی وی پروگرام تھا۔ میری تحریر کے بعد یہ نہ سمجھیے گا کہ میں بھی عورت مارچ میں کوئی پلے کارڈ اٹھانے والی "ماڈرن آنٹی"ہوں اور ایسا بھی ہر گز نہیں کہ میں ان "کھلے نعرے" لگانے والی عورتوں کو گالی دینے والوں کی حامی ہوں ہاں مگر ایک بات طے ہے کہ عورت جیسی بھی ہو مگر اسے گالی دینے کی اجازت کسی مرد کو نہیں۔

۔اور یہ ہی "عورت دوست" معاشرے کی طرف پہلا قدم ہے باقی چند خواتین کے "عورت مارچ" سے پورے معاشرے کی خواتین کو کوئی سروکار نہیں تو پھر تمام مرد کیوں بے کار میں اپنی توانائیاں ضائع کرنے پہ تلے ہیں کیونکہ خلیل الرحمٰن قمر سمیت  موجودہ معاشرے کا ہر مرد جب  اپنے گھر پہنچتا ہے تو اسکی بیوی محبت اور خلوص سے اسکے لیے نہ صرف کھانا خود گرم کرتی ہے بلکہ روٹیاں بھی اپنے ہاتھوں سے بنانے میں جو سکھ اور چین محسوس کرتی ہے وہ مرد کی دن بھر کی تھکن اتار دیتی یے پھر گلہ غیر عورتوں سے کیوں؟ اٹھانے دیجیے انہیں انکی تخلیقات سے بھرے پلے کارڈ ایک دن کے لیے کیونکہ انکا جسم انکی مرضی۔۔۔۔۔آپکا کیا جاتاہے۔۔۔۔!

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :