چین سے شروع ہونے والی عالمی وبا نے ساری دنیا کو لپیٹ میں لے لیابڑے سے بڑے سائنسدان بیماری کو سمجھنے اور اسکی ویکسین بنانے میں فی الحال کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکے پڑوسی ہوتے ہوئے بھی ہماری یہ خوش نصیبی ہے کہ ہم تک یہ وبا تب پہنچی جب یہ پورے یورپ میں پھیل چکی تھی شاید یہ بیماری بھی ہمارے مزاجوں سے آشنا تھی جب یہ چین کے صوبے وہان میں تھی تو سوشل میڈیا سے لیکر گلی کے ہر نکڑ تک پاکستانی اسے غیر مسلموں پر اللہ کا عذاب قرار دیتے رہے کچھ نے کہا وہ حرام کھاتے ہیں کچھ کی منطق انکی عورتیں بے نقاب ہیں اور کچھ بڑے بوڑھوں نے اسے نہ ختم ہونے والی آزمائش بنا ڈالاخیر ہم چینیوں پر نقطہ چینیوں میں مصروف تھے کہ دوسرے پڑوسی ایران نے زائرین کے ہاتھ ہمیں یہ تحفہ بھیج دیا جسے وفاقی حکومت کی لاپرواہی کہیے یا بلوچستان حکومت کی نالائقی یہ جانتے بوجھتے کہ ایران میں اس وائرس کے حملے سے کئی جانوں سے گئے پھر بھی زائرین کو اپنے اپنے شہریوں کو روانہ کر دیا جس سے سندھ سب سے زیادہ متاثر ہوا کئی زائرین کو کے پی کے بھی روانہ کر دیا۔
(جاری ہے)
۔ہوش تب آیا جب پلے کچھ نہ بچا پھر قرطینہ سینٹر بھی بنے اور ہسپتالوں میں ایمرجنسی بھی لگی خیر ہماری گڈ لک ہے کہ اس بیماری کے نتیجے میں ڈیتھ ریشو کم ہے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زخیرہ اندوزی کے ماہر بھی متحرک ہوئے پھر ما سک اور سینیٹائزر سمیت وبا میں ضروری احتیاط کی اشیا فارمیسی سے غائب ہوگئیں جن دکانوں ہر یہ چیزیں موجود ہیں وہ ڈبل کیا ٹرپل قیمتوں پر شہریوں کو بیچ رہے ہیں ڈھٹائی اور موقع پرستی کا یہ عالم ہے کہ نہ دل میں خوف خدا اور نہ ہی چہرے پر شرمندگی کے کوئی اکا دکا آثار۔۔۔۔اگر کسی میں کرونا کی علامات ظاہر بھی ہونے لگیں تو وہ ہسپتالوں میں کیسے جائے کیونکہ ٹیسٹ کے نام ہر ہزاروں بٹورے جارہے ہیں ایسے میں انتظامیہ بھی خاموشی سے تماشا دیکھی جارہی ہے جو کمی رہ گئی تھی وہ وزیر اعظم صاحب نے اپنے خطاب میں پوری کر دی کہ "جاگتے رہنا ہم پہ نہ رہنا"ایسے میں ہم "کرونا"سے ہی التجا کرسکتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایسے کروناں اور چپ چاپ یہاں سے چلو ناں......
ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔