سنا تھا جنگ میں بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ہسپتال پہ حملہ نہ ہو مگر جب کالے کوٹ والوں کو دل کے ہسپتال میں دہشت گردی کرتے دیکھا تو دکھ کے ساتھ ساتھ شرمندگی کے احساس نے بھی جکڑ رکھا ہے کہ بحیثیت قوم ہم بے حسی کی کونسی منزلوں کی جستجو میں ہیں جہاں ہمیں اٹکتی سانسوں کی پرواہ ہے نہ یہ احساس کیکالے اور سفید کوٹ والوں کی آپسی لڑائی میں کئی بے گناہ مریض سسک سسک کے مر گئے ۔
ہسپتال کو سارا دن میدان جنگ بنانے والوں نے دھڑلے سے حملے سے پہلے منصوبہ بندی کرتے ہوئے ویڈیو بھی بنائی نہ آنکھوں میں شرم دکھی نہ احساس کی کوئی رمک۔۔۔ہاتھوں میں پستول اٹھائے ڈنڈے گھمائے ''وکیل بھائیوں'' نے نہ جنرل وارڈز دیکھے اور نہ ہی ایمرجنسی میں تڑپتے مریض ۔
ایک عینی شاہد نے تو یہ بتا کر حیراں کر دیا کہ دھاوا بولنے والوں میں سے ایک نے مریضوں کے آکسیجن ماسک تک اتارے جبکہ کچھ نے تو بستروں پر لیٹے بیماروں پر اینٹیں اور پتھر تک برسائے یہیں اکتفا نہ ہوا پولیس موبائل جلا کر اسی وین کے بونٹ پہ کھڑے ہوکر اپنی دیدہ دلیری بھی خوب دکھائی یہ سب تماشا برپا تھا کہ وزیراعلی پنجاب نے فیاض الحسن چوہان کو موقع واردات پر پہنچنے کے احکامات دئیے پھر ایک سٹنگ منسٹر کی جو درگت بنی وہ سبھی نے دیکھی۔
(جاری ہے)
جب سب تماشا ہوچکا تو حکومت کو خیال آیا کہ ایسے حالات میں ریاستی ذمہ داری بھی کوئی شے ہے اب حالات نارمل ہیں واقعے میں کئی مریضوں کو شدید اذیت اٹھانی پڑی کئی جان سے گئے۔ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی عمارت کی توڑ پھوڑ بھی خوب ہوئی اتنے نقصان اور غنڈہ گردی کے بعد ریاستی رد عمل کیا ہوگا؟ کیا ذمہ داران کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی حملہ آوروں کی فوٹیج موجود ہیں نوے فیصد کام تو ہوگیا اب حکومت پنجاب کے ری ایکشن کا انتظار ہے کیونکہ اس بار کالے کوٹ والوں نے کسی سیشن جج کو نہیں مارا یا کسی پولیس والے کو زودوکوب نہیں کیا اس بار ہسپتال ٹارگٹ تھا جہاں گھس کر بدمعاشی کی تو حیوانیت بھی اجازت نہ دیتی مگر یہاں تو سارے قانون اور قاعدے توڑنے والے پڑھے لکھے ڈگری یافتہ ''وکیل''تھے۔۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔