Faiz E Ishq By Amjad Javed

Read Book Faiz E Ishq By Amjad Javed in Urdu. This is Novel Book, and available to read online for free. Download in PDF or read online in multiple episodes. Also Read dozens of other online by famous writers.

فیض عشق - امجد جاوید

روایت کے مطابق ان محدود صفحات پرآپ سے باتیں کرنے کے لئے کچھ دیگر خیالات کو قلم کے صدف میں موتیوں کی مانند سنبھال رکھا تھا، مگر اچانک ایک بوڑھے گدھ کو تنبیہہ کرنا یاد آگیا۔جس کا میں کبھی بڑا احترام کیا کرتا تھا کیونکہ وہ مجھے ہمیشہ سہمی ہوئی فاختہ دکھائی دیتاتھا لیکن جوں جوں حالات اور وقت نے اسے قریب سے دیکھنے کا موقع دیا تو اس فاختہ سے پردہ ہٹتا گیا اور وہ لبادے میں ایک نہایت کریہہ بوڑھا گدھ نکلا۔ ادبی دنیا میں جن لوگوں کی وجہ سے گند ہے اور جو سڑانڈ پھیلائے کا باعث بن رہے ہیں وہ بوڑھا گدھ انہی میں سے ایک ہے۔
کہتے ہیں ایک بار اکبر # بادشاہ ، بیربل کے ساتھ باغ کی سیر کو تھا۔اسے نجانے کیا سوجھی، ایک شاخ بیربل کو تھماتے ہوئے کہا کہ اسے بغیر توڑے چھوٹا کر کے دکھاؤ، بیربل نے وہ شاخ تھام لی اور کچھ قدم پر پڑی ہوئی ایک بڑی شاخ اٹھا کر، اس شاخ کے ساتھ ملاتے ہوئے کہا،لیجئے حضور‘ بغیر توڑے آپ کی شاخ چھوٹی ہو گئی۔ بالکل اسی طرح میں یہ بات بخوبی جانتا ہوں کہ کسی کو گھٹیا کہنے سے کوئی بڑا نہیں ہو جاتا۔چونکہ مجھے صبر کرنے کی تلقین ورثے میں ملی ہے اس لئے میں بوڑھے گدھ کے گندگی پھیلانے پر خاموش رہا لیکن صبر کی بھی ایک حد متعین ہے، اس کے بعد خاموشی ذات پر حرف بن جاتی ہے۔ فاختہ کا لبادہ اوڑھے، ہمدردی کا کشکول بڑھائے اور چرب زبانی سے دوسروں کو دھوکا دینے کو بے نقاب کرنا لازم ہو جاتا ہے۔
الحمداللہ۔! میری ضرورتیں پوری کرنے والا میرا ربِ عظیم ہے، جس نے مجھے پیدا کیا، جس نے میری تمام تر ضرورتیں پوری کرنے کا وعدہ فرمایا ہوا ہے۔میں فقط خوش گمان ہی نہیں، پُر یقین بھی ہوں کہ وہ میری تمام ضرورتیں پوری کرتا ہے۔لفظ جوڑ کر تحریر بنانا میری روزی روٹی نہیں، کہ اپنی ضرورتوں کے لئے پبلیشرز سے سو طرح کے بہانے کروں،اُن سے جھوٹ بول کر ایک ہی مسودہ کئی جگہ بیچ کر رقم کھری کروں، چرب زبانی سے اپنی غربت اور تنگدستی کا رونا رو کر بھیک مانگوں، کیونکہ یہی سب کچھ اس بوڑھے گدھ کا وطیرہ ہے۔ اپنی کسی نامعلوم عزیزہ کے نام پر جھوٹ بولتے ہوئے وہ کیا ندامت محسوس کرے گا جو مصلہ پر بیٹھ کر بے باکی سے جھوٹ بول دے۔ضرورت پوری کرنا اور بات ہے لیکن جب مردار کھانے کی عادت پڑ جائے تو اپنا نام اور ساکھ بھی سربازار نیلام کر دیتے ہیں۔ اُس شخص کو تصوف پر لکھنے کا کوئی حق حاصل نہیں، جس کا تمام تر یقین اور بھروسہ اللہ پر نہ ہو اور وہ اپنی ضرورتوں کے لئے دنیا اور اہل دنیا پر بھروسہ کرے۔
کسی کو چور،غاصب اور جھوٹا کہہ دینا بہت آسان ہوتا ہے۔ دُکھ اس وقت ہوتا ہے جب ” چور مچائے شور“ کے مصداق ایسے لوگ واویلا کریں جو اپنے کردار سے خود ہی ایسے شرمناک افعال سرانجام دے چکے ہوں۔مثال کے طور پر ہر پبلشر کو امانت دار بنا کر پھر اسی کیخلاف چوری کا واویلا کرکے بلیک میل کرنا اور رقم ہتھیانا مقصود ہوتا ہے۔ (حیرت کی بات ہے کہ موصوف کو پاکستان کے بیسیوں پبلشرز نے چھاپا وہ سب غلط تھے اور یہ ٹھیک ہیں) جس کے اپنے قلم میں سیاہی ختم ہو گئی ہو وہ دوسروں کو لکھنے کی مشین کہہ کر اپنے دل کا بوجھ ہی ہلکا نہیں کرتے بلکہ اپنی حالتِ زارکا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ترس آتا ہے ان لوگوں پر ، جو بیوی، بچوں سے تراجم کروا کراپنے نام سے شہ پارہ ”تخلیق“ کرنے کا شور مچائے، غیر ملکی فلموں کے چربے اور ملغوبے اکھٹے کر کے اپنی تخلیق کے نام پر بیچ دے یا فرضی ناموں سے اپنے ہی رشتے داروں کی وجہ سے شائع ہوں۔ایک طویل فہرست ہے ، یہاں محض اشارہ کافی ہے۔
بندہ اپنی ضرورت کے لئے ایمان داری اور محنت سے جتنا بھی دن رات کام کرے وہ باعثِ عزت ہوتا ہے لیکن جب اپنی دو نمبری کو جرم سے بھی آگے لے جایا جائے تو ایسے لوگ باعثِ ننگِ انسانیت ہوتے ہیں۔ محنت کو مشینی انداز کہنا، احساسِ کمتری کا اظہار ہی کہا جاسکتا ہے۔ ایسے لوگ لوہار اور ترکھان کی مانند اپنے مسودے ”گھڑتے“ ہیں۔ مسودے گھڑنے والے لکھاری اس طوائف کی مانند ہوتے ہیں ، جن کے بچے ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ کیونکہ یہ سبھی جانتے ہیں کہ تخلیق کار اپنی تخلیق میں بولتا ہے جبکہ اس کی اپنی تحریریں ہی آپس میں نہیں ملتیں۔
مجھے زیادہ افسوس تو ایسے ان پڑھ پبلیشرز پر ہوتا ہے، جو ایسے چرب زبان، مکار اور جھوٹے لوگوں کے دام میں آکر ان کا ریٹ بڑھا دیتے ہیں پھر خود سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ ان عفریتوں سے جان کیسے چھڑائی جائے۔ ادبی دنیا کو سب سے زیادہ نقصان ایسے ہی ان پڑھ پبلیشرزنے پہنچایا ہے۔
اگر کوئی لکھاری، بزعم خود کسی لفظ کو اپنا ٹریڈ مارک بنا کر اس پر قبضے کا دعویدار ہو جائے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ کیونکہ یہاں لفظوں کی نہیں، خیال کی اہمیت ہوتی ہے۔ کہ ہر خیال اپنے ساتھ لفظ خود لے کر آتاہے۔ جیسے لفظ ”عشق“ کسی کی اپنی ایجاد نہیں ہے ، کہ وہ اس کی ذاتی جائیداد میں شامل ہو جائے یا اس موضوع پر کسی نے پہلے کبھی لکھا ہی نہ ہو۔ حروفِ عشق کی بات کی جائے تو اس پر بزرگوں نے اتنا کچھ لکھ دیا ہے کہ اس کی تفسیریں لکھنے کے لئے عمریں درکا رہیں، عین ، شین ، قاف تو رہا ایک طرف، عشق کے الف ہی کو بیان کر دیا جائے تو بڑی بات ہے۔یہاں تو احمق لوگ طنزیہ انداز میں اپنے تئیں حروف ہی ختم کئے بیٹھے ہیں کیونکہ ان کی سوچ ہی معاشی ہے۔ ان کے ذہنی بانجھ پن کا احساس دلانے کے لئے اتنا ہی کہہ دوں کہ بزرگوں نے عشق کے زیر، زبر اور پیش کے بارے میں جوکہا ، اس تک رسائی کے لئے بھی دانائی کی ضرورت ہے۔ تفسیرِ عشق کے لئے عشق ہی درکار ہے، ضرورتیں پوری کرنے والا بھکاری نہیں۔انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ عشق ہی عشق کی سمجھ عطا کرتا ہے لیکن یہ ان کے نصیب میں ہوتا ہے جو یہ جانتے ہیں کہ عشق ہی کائنات کا خلاصہ ہے۔ جو مانتے ہیں کہ حروف اور لفظ تو کیا علم الاسماء بھی عشق کے مرہونِ منت ہیں۔یہ نصیب اُن کا ہے جو عشق سمندر میں قرب کے لئے غوطہ زن ہوتے ہیں،نانِ جویں کی تلاش میں ضرورتیں پوری کرنے والوں کے لئے نہیں، جو عشق کو بھی ایک معاشی مسئلہ سمجھتے ہیں۔ان کا اپنے رَبّ پر بھروسہ نہیں ۔ کیچڑ میں موتی تلاش کرنے والوں کا نصیب کہاں۔
خیر ۔! بات بہت دور نکل سکتی ہے،اگر شیشے کے گھر میں بیٹھ کر پتھر ماراجائے تو پہلے اپنے بارے میں سوچ لینا چائیے۔ میں یہاں صرف یہ عرض کر دوں میری تحریریں آپ قارئین محترم کے سامنے ہیں، جیسی بھی ہیں، میرے شوق کا اظہار ہیں۔ یہ میری معاشی ضرورت نہیں اور نہ ہی میں لفظ جوڑنے اور مسودے گھڑنے والا کام کرتا ہوں۔ اس لئے مجھے کسی ان پڑھ پبلیشر کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔کسی بھی تحریر کا سب سے بڑا ناقد اس کا قاری ہوتا ہے۔تمام تر کریڈٹ، عزت اور احترام قارئینِ محترم ہی دیتے ہیں۔ میرا سرمایہ میرے قارئین محترم ہیں۔
”فیضِ عشق“۔! یہ داستان میرے سامنے آئے کئی برس ہوگئے لیکن اس کا منطقی انجام ظہور نہیں ہو پا رہا تھا۔ اس لئے یہ داستان ادھوری رہی۔اب ایک برس پہلے اسے انجام نصیب ہوا ہے تو یہ کتابی صورت میں آپ کے ہاتھوں میں ہے۔اُ مید کرتا ہوں کہ میری پہلی کتابوں کی طرح آپ کو میری یہ کاوش بھی پسند آئے گی۔ مزید باتیں آئندہ کسی اشاعت میں ہوں گی۔ آپ کی دعاؤں کا طالب۔
امجد جاوید

Chapters / Baab of Faiz E Ishq