Zindagi Tum Ho By Madiha Tariq
Read Book Zindagi Tum Ho By Madiha Tariq in Urdu. This is Novel Book, and available to read online for free. Download in PDF or read online in multiple episodes. Also Read dozens of other online by famous writers.
ذندگی تم ہو - مدیحہ طارق
میں ”مدیحہ طارق“ بہت ہی عام سی انسان ہوں بالکل اپنے نا م کی طرح… ”مدیحہ“ یعنی مدح کرنے والی، تعریف کرنے والی…دوسروں کی صلاحیتوں کو سراہنے والی، ان کی خوبیوں کا اعتراف کرنے والی…میرے نام میں اگر کچھ خاص ہے تو وہ ہے ”طارق“ (راتوں کو چمکنے والا…) مجھے یوں لگتا ہے اللہ نے مجھے اس قدر نواز رکھا ہے تو اسی ایک لفظ کے صدقے…ورنہ میں اس قابل تو نہ تھی…خود کو بے مایہ اور حقیر جاننا صرف اس صورت میں اچھا ہے جب ہم خود کو خدا کے حضور پیش کر رہے ہوں۔ اس فانی دنیا کے باسیوں کے مقابلے میں اپنے آپ کو Degrade کرنا اور خود کو احساس کمتری میں مبتلا کر لینا میرے خیال میں مناسب نہیں۔ مگر حقیقت پسندی کا مظاہرہ بہرحال لازم ہے…
ہم کیا ہیں ہمارا اللہ جانتا ہے جس نے ہمیں بنایا، خامیوں اور خوبیوں سمیت…اور ہمیں ذہن و عقل سے نوازا تاکہ ہم اپنی خامیوں کو پھلنے پھولنے سے حتی الامکان روکیں اور اپنی خوبیوں کو مزید نکھار کر اللہ کے اس عظیم انعام کو ستائش اور تعریف کے لئے دنیا کے سامنے پیش کر دیں، اپنی تعریف کے لئے نہیں بلکہ اُس ذات کے قادرِ مطلق ہونے کی دلیل کے طور پر جس نے ہمیں نوازتے وقت ہماری اوقات نہیں دیکھی۔
میرا یہ پہلا ناول بھی اِسی سفر پر میرا پہلا قدم رکھنے کی ایک حقیر سی کاوش ہے…میں بخوبی اِس بات سے آگاہ ہوں کہ میرا یہ پہلا قدم نہایت ہی غیر ہموار ہے مگر ایک ننھے بچے کو ماں اس کے پہلے ناہموار قدم اور اس کے بعد اس کی لڑکھڑاتی چال کی وجہ سے اُسے چلنے سے نہیں روکتی بلکہ اس کوشش میں اس کی معاون ہو جاتی ہے میرا بھی کامل بھروسہ ہے کہ میرا رب میرا معاون ہے اور ہوگا۔ اور اس کی مدد جن وسیلوں سے مجھ تک پہنچے گی ان میں سے ایک شاید آپ ہوں، میرے قارئین۔ انشاء اللہ۔
مجھے احساس ہے کہ لفظوں کا جادو جگانے کے فن سے میں ناآشنا ہوں۔ الفاظ سے دوسروں کے دلوں تک پہنچنا اور وہاں کی سرزمین پر اپنے جھنڈے گاڑنے مجھے نہیں آتے…حروف تہجی جوڑ کر مختلف الفاظ تشکیل دے کر لوگوں کے دل و دماغ کو تسخیر کرنا نہیں جانتی، الفاظ سے کھیلنا اور ان سے دوسروں کو اسیر کر لینا بہت مشکل ہے…مگر مشکل کام میں دلچسپی بڑھ جائے تو انسان مزا لینے لگتا ہے۔ مجھے یہ احساس بڑی تقویت دیتا ہے اور لکھنے پر مجبور کرتا ہے کہ میرے ہاتھ میں دبے قلم سے جو الفاظ میں لکھتی ہوں وہ حرف بہ حرف بہت سی نظروں تک پہنچ جائیں گے…اور ہو سکتا ہے وہاں سے ہوتے ہوئے کچھ آدھے ادھورے جملے، کہی ان کہی باتیں صفحہٴ کتاب سے اُڑان بھریں اور نظروں کے راستے کسی کے دماغ اور کسی کے دل تک پہنچ جائیں…
گفتگو نہایت ہی پرسکون اور خوبصورت عمل ہے۔ کچھ لوگ گفتگو کے لئے الفاظ کو منہ سے ادا کرتے ہیں کچھ آنکھوں کے اشاروں میں باتیں کرتے ہیں کچھ اس مقصد کے لئے ہاتھوں کے اشاروں کو دوست بنا لیتے ہیں۔ کچھ رنگوں کا سہارا لیتے ہیں اور اپنے احساسات کو کینوس پر اُتار دیتے ہیں اور کچھ میری طرح قلم کو اپنا آلہ گفتگو بنا لیتے ہیں۔ خدا نے بولنے کے لئے زبان دی مگر عموماً ہم اسے کمیونیکیشن کے لئے کم اور اپنے ذہن و دل کا غبار، اپنا غصہ، اپنی اُکتاہٹ، اپنی نفرت اور جلن کا اِظہار کرنے کے لئے زیادہ استعمال کرنے لگتے ہیں۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کسی کی ہمدردی میں یا کسی سے محبت اور خلوص کے اِظہار کے لئے ہم زبان کا سہارا لیں بلکہ اتنے پر خلوص ، معصوم احساسات اور جذبوں کو بیان کرنے کے لئے شدتِ جذبات کی وجہ سے اکثر ہم زبان کا استعمال کر ہی نہیں پاتے۔ ایسے میں اپنے محسوسات کو ظاہر کرنے کے لئے ہم بہت ہی دوسری طرح اظہار کر رہے ہوتے ہیں کبھی مسکرا کر، کبھی آنکھوں میں آنسو لا کر، کبھی کسی کے شانے کو تھپتھپا کر، کبھی گلے لگ کر یا کسی بھی اور طریقے سے۔
میں سب کے بارے میں تو نہیں مگر اپنی بات کروں تو میرے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے اور ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے میں کبھی بھی اپنی True feelings کو زبان پر نہیں لا سکی… میں جب کسی کے دُکھ کو بے تحاشہ محسوس کرتی ہوں تو اسے تسلی دینے کے لئے میری زبان میرا ساتھ نہیں دیتی، الفاظ میرے ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں اور میں خاموشی سے سوچتی رہتی ہوں کہ کیا یہ الفاظ اس شخص کے عظیم نقصان پر اِسے دلاسہ دینے کے لئے کافی ہیں؟ اور ایسے ہی جب میں اپنے سے جڑے لوگوں کے لئے بے چین ہوتی ہوں تو کبھی بھی اُنہیں زبان سے نہیں کہہ سکی…ایسے میں، میں نے ایک بہترین آپشن ڈھونڈ لیا۔ قلم کے ذریعے الفاظ کی ادائیگی میں دن بدن میری دلچسپی بڑھتی گئی۔ جو بات میں کبھی کسی سے نہیں کہہ سکی وہ میں ڈائری پر رقم کرنے لگی…دھیرے دھیرے میری سوچ کو اللہ نے کشادگی بخشی اور میں نے اپنی ذات سے باہر نکل کر سوچنا شروع کیا۔ اپنے اردگرد کو پڑھنا شروع کیا تو میری خود اپنے آپ سے ہی ملاقات ہو گئی۔ اور مجھے احساس ہوا کہ آج تک میں خود اپنے لیے ہی کتنی اجنبی رہی ہوں۔ اپنے بارے میں تو میں کچھ بھی نہیں جانتی اور چلی ہوں لوگوں کو پرکھنے، دنیا کو دریافت کرنے … خود کو تلاشتے تلاشتے میں آگہی کے اس سفر پر چل نکلی جہاں شاید اب مجھے تا عمر چلنا ہے اور پرت در پرت اپنی ذات کو کھوجنا ہے۔ جیسے جیسے میں اس راہ پر آگے بڑھتی جا رہی ہوں میری نس نس میرے اُس عظیم مہربان کی شکرگزار ہوتی جا رہی ہے جو انسان کو اس وقت بھی نوازتا ہے جب اسے اس نعمت کی اہمیت تک کا احساس نہیں ہوتا۔ اگر ہم اس کے بے شمار انعامات سے واقف ہو جائیں تو تاعمر اس سے کسی کمی کا شکوہ نہ کر سکیں…مگر ہم کتنے کم ظرف ہیں ذرا سی تکلیف پر اسی مہربان سے شکوہ کرتے ہیں اور اس کا ظرف کتنا بلند ہے کہ وہ پھر بھی ہم پر بنااحسان جتا ئے، بنا ہماری کوتاہیوں اور گناہوں کو درمیان میں لائے ہمیں ہماری اوقات سے بڑھ کر نواز دیتا ہے۔ اور پھر نوازتا ہی چلا جاتا ہے۔
مجھے اپنے رب پر بڑا مان ہے میں نے اپنی ہر عرضی اس کے حضور پیش کرنے کا فن سیکھنے کے لئے اس کے سکول میں داخلہ کے لئے فارم جمع کرا دیا ہے اس کامل یقین کے ساتھ کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے مجھ جیسی حقیر اور بے نشان انسان کو یہ سب ضرور سکھا دے گا…اس کوشش نے مجھے جس آگہی کے راستے پر گامزن کر دیا ہے وہاں کتابوں سے میری دوستی کرا دی گئی ہے…الفاظ اکثر مجھ سے اٹھکیلیاں کرتے ہیں، ننھی منی سی شرارتیں کرتے ہیں، لفظ بولتے ہیں اور ان کی گفتگو اور معصوم ادائیں میرے دل کو بہت بھاتی ہیں۔ کبھی کبھی یہ مجھ سے روٹھ بھی جاتے ہیں اور بہت منانے پر بھی ہاتھ نہیں آتے۔ اور کبھی اتنا ہجوم اکٹھا کر لیتے ہیں اور اتنا شور برپا کر دیتے ہیں کہ میں حیران رہ جاتی ہوں کہ کس لفظ کو پہلے قلم کی زبان میں کورے کاغذ پر ادا کروں…
ان دونوں صورتوں میں، میں کچھ بھی لکھ نہیں پاتی کیونکہ نظامِ قدرت اُصول و ضوابط پر چلتا ہے۔ اعتدال ہر معاملے میں اہم ہے…ایسے میں اپنے ذہن میں اُمڈتے زور آور خیالات اور منہ زور سوچوں کے دھارے کو اعتدال پر لاتے لاتے لکھی گئی میری یہ تحریر بہت سی غلطیوں کو بھی اپنا ہمدم بنا بیٹھی ہے۔
میرے ڈگمگاتے لڑکھڑاتے سے لفظ اس کتاب کے صفحات پر آپ کی نظروں کی حرارت کے منتظر ہیں، ہر لفظ کا حق ہے کہ اُسے ادا کیا جائے، سنا جائے، پڑھا جائے…میں ان کا حق نہیں چھین سکتی اس لیے انہیں آپ کی خدمت میں پیش کرنے کا حوصلہ کیا ہے…میری التجا ہے کہ اس ناول کے جملوں کی بناوٹ میں خامیوں کو نظر انداز کر کے اس کہانی کی اصل روح تک پہنچنے کی کوشس کیجئے گا۔ غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کے خنجر ہمارے معاشرے میں موجود ہر رشتے کی ڈور کاٹتے جا رہے ہیں…اور ہم ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا کر خود کو مظلوم سمجھتے ہوئے اپنوں کو سزا بھی دے دیتے ہیں…یہ جانے بنا کہ ہر تصویر کے دو رُخ ہوتے ہیں۔ کسی بھی رشتے میں بگاڑ اور دوری کا جتنا قصور وار ہم دوسرے کو سمجھتے ہیں اتنا ہی قصور ہمارا بھی ہوتا ہے۔ بلکہ خود کو حق بجانب سمجھتے رہنے کی غلطی اس قصور کو سوا کر دیتی ہے…ایسے میں کئی ناقابل ازالہ تباہیاں انجانے میں ہی ہم اپنے نصیب میں لکھوا لیتے ہیں…
میری رب کریم سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں ایسے انداز میں رشتے نبھانے کی سمجھ عطا کر دے جیسے اس کا حکم ہے…اور اپنے سے جڑے پیارے لوگوں سے اُمیدیں لگانے کی جو سب سے بڑی بھول ہم کمزور انسان کرتے ہیں یہ ساری اُمیدیں صرف خدائے واحد کی ذات سے جوڑنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اُمید صرف اسی سے لگائی جائے جو اس پر پورا اُترنے پر قادر ہو۔ ہمارے پیارے تو خود اُس اللہ کے بندے ہیں، اس کے محتاج ہیں پھر وہ ہماری اُمیدوں پر کیسے کھرے اُتر سکتے ہیں۔ صرف اتنی سی بات اگر ہم سمجھ جائیں تو زندگی بہت ہی سہل ہو جائے اور رشتوں کی ڈور سے بندھے پیارے لوگ ہمیشہ ایک دوسرے سے محبتوں کے تبادلے کرتے رہیں…!
سبھی تعریف کرتے ہیں میری تحریر کی لیکن
کبھی کوئی نہیں سنتا میرے الفاظ کی سِسکی
مدیحہ طارق
Chapters / Baab of Zindagi Tum Ho
قسط نمبر 1
قسط نمبر 2
قسط نمبر 3
قسط نمبر 4
قسط نمبر 5
قسط نمبر 6
قسط نمبر 7
قسط نمبر 8
قسط نمبر 9
قسط نمبر 10
قسط نمبر 11
قسط نمبر 12
قسط نمبر 13
قسط نمبر 14
قسط نمبر 15
قسط نمبر 16
قسط نمبر 17
قسط نمبر 18
قسط نمبر 19
قسط نمبر 20
قسط نمبر 21
قسط نمبر 22
قسط نمبر 23
قسط نمبر 24
قسط نمبر 25
قسط نمبر 26
قسط نمبر 27
قسط نمبر 28
قسط نمبر 29
قسط نمبر 30
قسط نمبر 31
قسط نمبر 32
قسط نمبر 33
قسط نمبر 34
قسط نمبر 35
قسط نمبر 36
قسط نمبر 37
قسط نمبر 38
قسط نمبر 39
قسط نمبر 40
قسط نمبر 41
قسط نمبر 42
قسط نمبر 43
قسط نمبر 44
قسط نمبر 45
قسط نمبر 46
قسط نمبر 47
قسط نمبر 48
قسط نمبر 49
قسط نمبر 50
قسط نمبر 51
قسط نمبر 52
قسط نمبر 53
قسط نمبر 54
قسط نمبر 55
قسط نمبر 56
قسط نمبر 57
قسط نمبر 58
قسط نمبر 59
قسط نمبر 60
قسط نمبر 61
قسط نمبر 62
قسط نمبر 63
قسط نمبر 64
قسط نمبر 65
قسط نمبر 66
قسط نمبر 67
قسط نمبر 68
قسط نمبر 69
قسط نمبر 70
قسط نمبر 71
قسط نمبر 72
قسط نمبر 73
قسط نمبر 74
قسط نمبر 75
قسط نمبر 76
قسط نمبر 77
قسط نمبر 78
قسط نمبر 79
قسط نمبر 80
قسط نمبر 81
قسط نمبر 82
قسط نمبر 83
قسط نمبر 84
قسط نمبر 85
قسط نمبر 86
قسط نمبر 87
قسط نمبر 88
قسط نمبر 89
قسط نمبر 90
قسط نمبر 91
قسط نمبر 92
قسط نمبر 93
قسط نمبر 94
قسط نمبر 95
قسط نمبر 96
قسط نمبر 97
قسط نمبر 98
قسط نمبر 99
قسط نمبر 100
قسط نمبر 101
قسط نمبر 102
قسط نمبر 103
قسط نمبر 104
قسط نمبر 105
قسط نمبر 106
قسط نمبر 107
قسط نمبر 108
قسط نمبر 109
قسط نمبر 110
قسط نمبر 111
قسط نمبر 112
قسط نمبر 113
قسط نمبر 114
قسط نمبر 115
قسط نمبر 116
قسط نمبر 117
قسط نمبر 118
قسط نمبر 119
قسط نمبر 120
قسط نمبر 121
قسط نمبر 122
قسط نمبر 123
قسط نمبر 124
قسط نمبر 125
قسط نمبر 126
قسط نمبر 127
قسط نمبر 128
قسط نمبر 129
قسط نمبر 130
قسط نمبر 131
قسط نمبر 132
قسط نمبر 133
قسط نمبر 134
قسط نمبر 135
قسط نمبر 136
قسط نمبر 137
قسط نمبر 138
قسط نمبر 139
قسط نمبر 140
قسط نمبر 141
قسط نمبر 142
قسط نمبر 143
قسط نمبر 144
آخری قسط