Begmaat K Aansoo By Khawaja Hassan Nizami
Read Book Begmaat K Aansoo By Khawaja Hassan Nizami in Urdu. This is Afsanay Book, and available to read online for free. Download in PDF or read online in multiple episodes. Also Read dozens of other online by famous writers.
بیگمات کے آنسو - خواجہ حسن نظامی
غدر۱۸۵۷ء کے افسانے
تمہید
میں نے دہلی کے غدر ۱۸۵۷ء کی نسبت بارہ حصوں پر تاریخی واقعات لکھے ہیں جن میں پہلا حصہ بیگمات کے آنسو بہت ہی زیادہ مقبول ہے ۔
پہلے یہ کتاب چھوٹے سائزپر غدر دہلی کے افسانے کے نام سے شائع ہوئی تھی پھر اس کتاب میں نئے افسانوں کا اضافہ ہوا اور آنسو کی بوندیں نام رکھ کر شائع کیا۔ پھر اور افسانے بڑھا کر بیگمات کے آنسو نام رکھا گیا۔
اب تک اس کتاب کے دس ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔
ان مضامین کی نسبت ہندوستان کے اکثر اہلِ قلم کا خیال ہے کہ یہ میری تحریروں میں سب سے اعلیٰ ہیں اور اردو انشاپردازی میں ان کا ایک بڑا درجہ ہے ۔
میرے دوست اور آنر یبل مولانا سرسید احمد خاں بہادر کے پوتے سید راس مسعود صاحب عرف نواب مسعود جنگ بہادر نے اسی بنا پر کئی سال ہوئے مجھ سے خواہش کی تھی کہ میں ان افسانوں کا ایک خاص ایڈیشن شائع کروں جس کا کاغذ اور چھپائی اور لکھائی اور جلد بندی ایسی عمدہ ہو کہ اس کو لائبریری ایڈیشن کہہ سکیں۔
میں نے اپنے دوست کے کہنے کے موافق اس کا اہتمام کیا اور کتاب لکھی گئی اور پریس میں بھی چلی گئی تو مجھے خیال آیا کہ اس کی کتابت اعلیٰ نہیں۔ اس کے علاوہ اس میں بعض افسانے ایسے بھی ہیں جن کو خود میرا دل اعلیٰ اور موثر اور اردو انشا کا نمونہ نہیں مانتا۔ اس لیے میں نے کتاب پر یس سے واپس منگا کر ضائع کردی ۔
اب پھرسید راس مسعود جب یورپ کے سفر کو جانے لگے اور میں ان سے ملنے علی گڑھ گیا تو انہوں نے گزشتہ فرمائش کو یاد دلایا تو مکرر افسانوں کا انتخاب کیا گیا اور طویل افسانے اور غیر موثر افسانے خارج کرکے چند ایسے افسانے جن کو میرے دل نے بھی پسند کیا ایک سلسلہ میں مرتب کیے اور چند بالکل تازہ افسانے جو میں نے ابھی حال میں لکھے تھے اس میں شریک کردیے۔
اب یہ مجموعہ ایک حد تک اس قابل ہوگیا ہے کہ اردو لائبریری کے کسی نیچے کے خانہ میں اس کو بھی جگہ دی جائے ۔ (پورے اور مکمل افسانے بیگمات کے آنسو کتاب میں ہیں اس میں سب نہیں ہیں)
یہ تمہید ختم کرنے سے پہلے مناسب معلوم لوتا ہے کہ میں اپنے قدر دان دوست اور ہندوستان کے تعلیمی نجات دہندہ سرسید کے پوتے سید راس مسود سے کہوں کہ لیجیے جناب آپ کے ارشاد کی تعمیل کردی۔ اگر یہ چیز اچھی ہوگئی تو آپ کی نذر کرتا ہوں ورنہ مہربانی کرکے اس کے عیب کا کسی سے ذکر نہ کیجیے تاکہ میرا دل ٹوٹ نہ جائے ۔
میں نے تو درحقیقت یہ کتاب مرنے والی تہذیب اور تاریخ کا نوحہ لکھنے کے لیے تیار کی تھی ، مرثیہ کو لائبریری سے کیا تعلق ؟
حسن نظامی
۱۵اکتوبر ۱۹۳۰ء
تمہید
میں نے دہلی کے غدر ۱۸۵۷ء کی نسبت بارہ حصوں پر تاریخی واقعات لکھے ہیں جن میں پہلا حصہ بیگمات کے آنسو بہت ہی زیادہ مقبول ہے ۔
پہلے یہ کتاب چھوٹے سائزپر غدر دہلی کے افسانے کے نام سے شائع ہوئی تھی پھر اس کتاب میں نئے افسانوں کا اضافہ ہوا اور آنسو کی بوندیں نام رکھ کر شائع کیا۔ پھر اور افسانے بڑھا کر بیگمات کے آنسو نام رکھا گیا۔
اب تک اس کتاب کے دس ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔
ان مضامین کی نسبت ہندوستان کے اکثر اہلِ قلم کا خیال ہے کہ یہ میری تحریروں میں سب سے اعلیٰ ہیں اور اردو انشاپردازی میں ان کا ایک بڑا درجہ ہے ۔
میرے دوست اور آنر یبل مولانا سرسید احمد خاں بہادر کے پوتے سید راس مسعود صاحب عرف نواب مسعود جنگ بہادر نے اسی بنا پر کئی سال ہوئے مجھ سے خواہش کی تھی کہ میں ان افسانوں کا ایک خاص ایڈیشن شائع کروں جس کا کاغذ اور چھپائی اور لکھائی اور جلد بندی ایسی عمدہ ہو کہ اس کو لائبریری ایڈیشن کہہ سکیں۔
میں نے اپنے دوست کے کہنے کے موافق اس کا اہتمام کیا اور کتاب لکھی گئی اور پریس میں بھی چلی گئی تو مجھے خیال آیا کہ اس کی کتابت اعلیٰ نہیں۔ اس کے علاوہ اس میں بعض افسانے ایسے بھی ہیں جن کو خود میرا دل اعلیٰ اور موثر اور اردو انشا کا نمونہ نہیں مانتا۔ اس لیے میں نے کتاب پر یس سے واپس منگا کر ضائع کردی ۔
اب پھرسید راس مسعود جب یورپ کے سفر کو جانے لگے اور میں ان سے ملنے علی گڑھ گیا تو انہوں نے گزشتہ فرمائش کو یاد دلایا تو مکرر افسانوں کا انتخاب کیا گیا اور طویل افسانے اور غیر موثر افسانے خارج کرکے چند ایسے افسانے جن کو میرے دل نے بھی پسند کیا ایک سلسلہ میں مرتب کیے اور چند بالکل تازہ افسانے جو میں نے ابھی حال میں لکھے تھے اس میں شریک کردیے۔
اب یہ مجموعہ ایک حد تک اس قابل ہوگیا ہے کہ اردو لائبریری کے کسی نیچے کے خانہ میں اس کو بھی جگہ دی جائے ۔ (پورے اور مکمل افسانے بیگمات کے آنسو کتاب میں ہیں اس میں سب نہیں ہیں)
یہ تمہید ختم کرنے سے پہلے مناسب معلوم لوتا ہے کہ میں اپنے قدر دان دوست اور ہندوستان کے تعلیمی نجات دہندہ سرسید کے پوتے سید راس مسود سے کہوں کہ لیجیے جناب آپ کے ارشاد کی تعمیل کردی۔ اگر یہ چیز اچھی ہوگئی تو آپ کی نذر کرتا ہوں ورنہ مہربانی کرکے اس کے عیب کا کسی سے ذکر نہ کیجیے تاکہ میرا دل ٹوٹ نہ جائے ۔
میں نے تو درحقیقت یہ کتاب مرنے والی تہذیب اور تاریخ کا نوحہ لکھنے کے لیے تیار کی تھی ، مرثیہ کو لائبریری سے کیا تعلق ؟
حسن نظامی
۱۵اکتوبر ۱۹۳۰ء
Chapters / Baab of Begmaat K Aansoo
تہی داماں
Tahi Daman
بندش
Bandish
دل تو دینا ہی تھا
Dil Tu Dena Hi Tha
میرے خواب ریزہ ریزہ
Mere Khawab Reza Reza
چلو جانے دو
chalo jaane do
زندہ تاریخ
Zinda Tareekh - Living History
ایمان کا سفر
Iman Ka Safar
ایک معمولی لڑکی
Ek Mamuli Larki
NovelAfsaneIslamicHistoryTravelogueAutobiographyUrdu LiteratureHumorousPoliticsSportsHealthPersonalitiesColumn And ProseSend Your Books & Requests