Episode 4 - Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana

قسط نمبر 4 - آ بیل مجھے لتاڑ - ڈاکٹر محسن مگھیانہ

                           ٹاؤٹوں کا داخلہ منع ہے 

ایک بیوہ خاتون نے مولوی صاحب سے پوچھا ”مولوی جی! میرے خاوند کو فوت ہوئے دوسال کا عرصہ گزر گیا ہے، میرا دل بہت اُداس رہتا ہے مجھے کو کوئی وظیفہ بتائیں۔“
مولوی صاحب پہلے تو وظیفہ بتاتے ہوئے جھجکے پھر جی ہی جی میں پہلے اظہار افسوس کیا اور بیوہ خاتون کاکن اکھیوں سے جائزہ لیتے ہوئے فرمانے لگے” یہ اطلاع ہے کہ دعوت…“
اس میں خدانخواستہ مولوی صاحب کے دل میں کوئی منفی بات نہ تھی بلکہ وہ تو بات کو مثبت بتانے کے لیے سوچ رہے تھے کہ اُسے عقد ثانی (اُس کے دوسرے نکاح… اپنا تو شاید عقد چہارم ہو) کرلیں۔

(جاری ہے)

 
یوں کئی مرتبہ کسی بات کا ظاہری مقصد کچھ اور ہوتا ہے مگر اُس کے اندر کئی معانی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ہم نے جب فیس بک پر ایک پولیس افسر کے کمرے باہر لگے نوٹس کو دیکھا تو تذبذب میں پڑگے کہ یہ اطلاع ہے کہ دعوت۔ اس پر لکھا تھا ”اس دفتر میں ٹاؤٹوں کا داخلہ گئے کہ یہ ایک ممنوع ہے۔“ اس کا ایک مطلب تو یہ ٹھہرا کہ پہلے اس دفتر میں ٹاؤٹوں کا داخلہ عام تھا اور اب یہ شارع عام نہیں رہی۔
یہاں ہمارے ذہن میں یہ خیال بھی در آیا کہ ہوسکتا ہے کہ اب ٹاؤٹوں کو ”تبدیلی نام“کا اشتہار دینا پڑے گا۔ کیونکہ یہ لفظنہایت غیر مہذب لفظ ہے۔ ایسے لوگ ٹاؤٹ بن کے نہیں اسسٹنٹ یا معاون بن کر باعزت طورپر اس دفتر کے اندر داخل ہوسکتے ہیں۔ کچھ کا یہ بھی کہنا ہے اسے مخبر کے برابر کا درجہ دیا جائے جو نسبتاً ہلکا لفظ ہے اور اتنا برُا نہیں لگتا حالانکہ اکثر مخبروں اور ٹاؤٹوں کی ذمہ داریوں کے درمیان ہلکی سی اخلاقی لکیر ہوتی ہے۔
 
غور کرنے کی بات تو یہ ہے کہ آخر ایسانوٹس چسپاں کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اللہ ان میڈیا والوں کو پوچھے جنہوں نے صاف صاف دکھا دیا کہ گلوبٹ پولیس کی پلاٹون کی رہنمائی کرتے ہوئے سینہ تانے آگے آگے آرہاتھا اور ہاتھ میں سلطان راہی سے بڑی سی ڈانگ پکڑی ہوئی تھی۔ ساتھ ساتھ وہ نعرے بھی لگوارہا تھا جس کا پولیس والے خندہ پیشانی سے اور جو شیلے انداز میں جواب بھی دے رہے تھے۔
یوں لگتا تھا کہ پولیس کو لیڈ کرتے ہوئے وہ کسی جہاد پہ روانہ ہورہا ہے اور نعرہ تکبیر اللہ اکبر کے نعرے گونج رہے ہیں۔ اگر میڈیا والے اس کو یوں ببانگ دُہل نعرے لگواتے اور پھر بعد میں ”ڈانگ“ سے معصوم کاروں کے شیشے توڑتے نہ دکھاتے تو کس کو معلوم ہوتا کہ وہ پولیس کا ٹاؤٹ ہے۔ اگر لوگ میڈیا پر اپنی آنکھوں سے یہ منظر براہ راست نہ دیکھ رہے ہوتے تو یہ الزام اُن بے گناہوں پر لگتا تھا جن کے درجنوں معصوم قتل ہوگئے یقینا اسی وجہ سے ہوہی اس پولیس آفسر کو کمرے کے دروازے یہ نوٹس چسپاں کرنا پڑا کہ یہاں ٹاؤٹوں کا داخلہ بند ہے۔
ہوسکتا ہے یہ بھی مطلب نکلتا ہو کہ ٹاؤٹ حضرات سامنے والے دروازے سے مت آئیں بلکہ پچھلے یا خفیہ دروازے سے باعزت طورپر تشریف لائیں۔ 
لیکن ذرا سوچنے کہ کیا یہ ”ٹاؤٹ ازم“ محض پولیس تک مدود ہے؟ یقینا اس کا جواب نفی میں ہے۔ یہاں تو بڑی سپر پاورز نے اپنے ٹاؤٹ رکھے ہوتے ہیں کسی ایک ملک میں اُنہیں بھیجے کر اُن کے ذریعے مشہور کروادیں کہ اس ملک کے پاس تو نہایت مہلک ہتھیار ہیں اور پھر اتنا پروپیگنڈ کریں کہ پوری دنیا کو یقین ہوجائے کہ یہاں تو ظالم حکمران بستے ہیں اور پھر پوری طاقت سے حملہ کر کے اُس ملک پر قبضہ کرلیں۔
جس ملک پر قبضہ کریں وہ بھی یہی تاثر نہیں کہ یہ ہمارے مدگار اور ہمدرد ہیں۔ وہ الگ بات کہ چند سالوں بعد اُنہیں یہ احساس ہو کہ ہمارے ساتھ تو ہاتھ ہوگیا ہے اور ہم ہنستا بستا اور مسکراتا ملک تباہ کر بیٹھے ہیں مگر اب پچھتا ئے کیا ہووت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت…
یہ ٹاؤٹ اور ان کے باس اکثر تو کسی کو محسوس ہی نہیں ہونے دیتے کہ اُن کے ساتھ کیا ہاتھ ہونے والے ہے۔
اب بھلا ان بڑے ممالک میں جو اربوں کھربوں ڈالر سے جدید سے جدید ترین اسلحہ بن رہا ہے وہ آخر انہوں نے بیچنا تو ہے ہی اور اسے بیچنے کے لیے فساد کرانا ضروری ہوتا ہے۔ جتنا بڑا فساد ہوگا اُتنا زیادہ اسلحہ بکے گا۔ ویسے تو آپس کی بات ہے استعمال کرنے بعد اگر وہ محسوس کریں کہ ٹاؤٹ لوگوں یا ٹاؤٹ فائٹرز کی اب ضرورت نہیں رہی تو اُنہیں اگلے جہان بھی پہنچا دیتے ہیں تا کہ کوئی اور دوسرا اُن کا غلط استعمال نہ کرسکے بلکہ صحیح استعمال نہ کرسکے… 

Chapters / Baab of Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana