Episode 6 - Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana

قسط نمبر 6 - آ بیل مجھے لتاڑ - ڈاکٹر محسن مگھیانہ

                                      نچوڑ لو 

ایک زمانہ تھا جب حکایات سعدی بہت مشہور ہوا کرتی تھیں، مشہور تواب بھی ہیں مگر کیا کریں کہ زمانہ اتنی تیزی سے ترقی کرگیا ہے کہ اب حکایاتِ زمانہ کا اسٹائل ذرا تبدیل ہوگیا ہے۔ اس زمانے کی ایک حکایت ایسی مشہور ہوئی ہے کہ دہرانے کو جی چاہتا ہے۔
 
کسی جگہ مداری نے مجمع لگارکھا تھا۔ سب لوگ اُس کے مختلف کرتب انتہائی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ یہ مشہور مداری تھا اور ویسے بھی بہت رش لیتا تھا۔ اُس نے پانی بھرا شیشے کا گلاس اُٹھایا اُس میں لیموں نچوڑا۔ سب نے تالیاں بجائیں۔ پھر لیموں نچوڑا پھر تالیاں۔ پھر نچوڑا پھر تالیاں بجیں بالآخر اُس نے کہا کہ میں نے اس لیموں سے سارارس نچوڑلیا ہے اب اس مجمع میں ہے کوئی ایسا مائی کا لعل جو اس کو مزید نچوڑ سکے اور رس نکال سکے دو تین لوگ آگے بڑھے مگر وہ مزید رس نہ نچوڑ سکے۔

(جاری ہے)

مداری نے فخریہ انداز سے کہا کہ اب یہ چیلنج ہے کوئی اس لیموں سے رس نچوڑ کر دکھائے۔ ہر طرف خاموشی چھاگئی۔ یوں لگاجیسے مجمع کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ لگتا تھا اب کوئی مزید جرأت نہیں کرے گا۔ اتنے میں ایک نحیف ومنحنی سا شخص آگے بڑھا۔ سب لوگ اُسے دیکھ کر ہنسنے لگے لیکن وہ پرُ اعتماد قدموں سے آگے بڑھا… لیموں ہاتھ میں پکڑا اور ایسا نچوڑا کہ اُس میں سے رس نکلنے لگا…۔
سب حیران وپریشان ہوگئے۔ کبھی اُس شخص کو دیکھتے اور کبھی اس لیموں کو… آخر مداری نے ہمت کر کے اُس سے پوچھ لیا ”بھائی صاحب آپ کرتے کیا ہیں…اُس نے بڑے تحمل سے جواب دیا میں محکمہ انکم ٹیکس میں ملازم ہوں… 
اب ذرا اس حکایت پر غور کیجیے پھر اپنے آپ کا جائزہ لیجیے کہ آپ کہاں کہاں سے نہیں نچوڑے جاتے اُس پہ ظلم یہ کہ آپ میں رس بھرنے کو تو حکومت تیار نہیں لیکن نچوڑنے پہ ہردم آمادہ ہے۔
صابن، تولیہ، کپڑے، گھی سے یاد کرنا شروع ہوجائیے اور پھر سردُھنتے اور اپنے بال گنتے رہ جائیے۔ آپ بڑی سعادت دکھاتے ہوئے اپنے موبائیل میں سو روپے کا بیلنس کروائیں او ر پھر دیکھیں کہ فوراً سے پہلے کتنا کٹتا ہے اور کتنا آپ کے نصیب میں بچتا ہے۔ پہلے پہل تو ہم دکاندار سے جھگڑ پڑتے تھے کہ یہ آپ کا کوئی خفیہ کھاتا ہے کہ ایک سوکے پیچھے اتنے زیادہ پیسے کاٹ رہے ہو مگر جب اُس نے ماں کی قسم کھاکر کہا کہ یہ خالصتاً حکومت نے کاٹے ہیں تو ہم بقیہ بیلنس اور اپنا سامنہ لے کر واپس لوٹ آئے۔
 
اسی طرح کی ایک حکایت جب ایک صاحب نے میٹنگ میں ہمیں سنائی تو ہم انگشت بدنداں رہ گئے کہ حکومت غریب سے غریب کو بھی نچوڑ نے سے باز نہیں آتی۔ وہ صاحب تو حساب لگا کر بتارہے تھے کہ عام استعمال کی چیزوں پر کٹنے والے ٹیکس جن میں عام استعمال ہونے والی بجلی بھی مذکورتھی (جوکہ ویسے عام طورپر دستیاب نہیں) جس کے بغیر غریب سے آدمی کا گزارہ نہیں ہوتا وہ اتنا تھا کہ ہم پریشان ہوگئے اگر چھ سات ہزار کمانے والا آدمی بھی مختلف مدوں میں تقریباً سات سوروپے ٹیکس کٹوا بیٹھتا ہے تو پھر کیا کیجیے کہ یہ کنزیو رزم دور ہے۔
اوپر سے حکومت روتی بھی رہتی ہے کہ کوئی یہاں ٹیکس نہیں دیتا۔ ادھر غریب کہتا ہے کہ ماردے وی ہوتے روون وی نئیں دیندے( مارتے بھی ہو اور رونے بھی نہیں دیتے) ان حکایات کا نتیجہ تا بالآخر یہی نکلتا ہے کہ غریب اور امیر میں فاصلہ بہت بڑھ رہا ہے۔ جو جتنا غریب ہے وہ اتنا ہی نچوڑاجا رہا ہے۔ 
حکایات زمانہ کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ نوکری نہیں ملتی تو کھیلنے کو لیپ ٹاپ مل جاتا ہے جس سے اور نہیں تو کم از کم فیس بک پر تو جی بہلایا جاسکتا ہے اور ہاں جو اپنے اسکول کالج کی فیس ادا نہیں کرسکتا اُسے فرضہ دیا جارہا ہے تا کہ وہ ہمیشہ سے ”قرضائی“ بن جائے او اس چنگل سے نہ نکل سکے۔
قرضہ لے کر فیس ادا کرے، لیپ ٹاپ سے دل بہلائے پھر بھی دل نے لگے تو جنگلہ بس معاف کیجیے میڑو میں بیٹھ کر سیر سپاٹے کر کے مزے لے۔جس کے آخر میں قرضہ ادانہ کرنے کی صورت میں اُسے پولیس گرفتار کر کے تھانے میں بند کردے۔ افغانستان میں تو ایک قبیلے کا نام ”کرزئی “ہے لیکن صوتی طورپر اس کے ہم آواز یہاں پاکستان میں ”قرضئی“قبیہلہ جنم لے چکا ہے بلکہ ہر پاکستانی پیدا ہوتے ہی ”قرضئی“ ہوجاتا ہے کیونکہ اُ س کی حکومت نے اُس کے نام پر قرضہ لیا ہوتا ہے۔
 
تاہم ہمارے حالات کچھ بھی ہوں عوام کو چاہے پوری طرح نچوڑلیا گیا ہے مگر وہ پھر بھی ہر وقت ”نچڑنے“ کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ بھوک سے بلبلاتی قوم پھر بھی ہر وقت قربانی دینے کو تیار بیٹھی ہوتی ہے چاہے تو وہ ایسا وقت ہوجب کہیں زلزلہ آجائے یا شمالی وزیرستان میں آپریشن ہوتو قوم یکسوہوکر اُن کی مدد کو تیار ہوتی ہے گوکہ حکومت محض انہی کو عوام سمجھتی ہے کہ جو بڑے شہروں میں رہتے ہیں اور اُنہی شہریوں اور بندوں کو بنانے اور سنوارنے میں لگی رہتی ہے جبکہ حتیٰ المقدرملک کے ہر شہری کو ہر طرح نچوڑا جارہا ہے۔ 

Chapters / Baab of Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana