Episode 14 - Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana

قسط نمبر 14 - آ بیل مجھے لتاڑ - ڈاکٹر محسن مگھیانہ

                                 نیا پاکستان 

ہم صبح صبح فوارہ چوک پر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر حیران ہوگئے۔ ہم نے افضل بھائی سے پوچھا: 
”کیا یہ کوئی دھرنا ہے“ 
”نہیں بھائی جان دھرنا ہوتا تو یہ دریاں بچھا کے اورٹینٹ لگاکے نہ بیٹھے ہوتے۔
”تو پھر یہاں پہ کوئی جلسہ ہونے والا ہے۔“ 
اُن سب کی ظاہری حالت دیکھ کر ہم نے پھر اندازہ لگایا۔
”کیا یہ سب سیلاب زدگان ہیں اور یہاں کوئی چیک تقسیم کرنے آنے والا ہے…“
”ہائیں…کون آئے اور کہاں لے جائے“ 
اس پہ افضل مسکرادیا ”بھائی جان یہ سب مزدور اور نوزائیدہ مستری ہیں۔

(جاری ہے)

جو لوگ ٹھیکے کی بجائے روزانہ کی بنیاد پر مستریوں سے کام کرواتے ہیں وہ یہاں سے آکر باری باری انہیں لے جاتے ہیں…
”باری باری…“ 
”نہیں باری باری نہیں۔جو ان میں سے تیز طرار ہوتے ہیں اُن کے ساتھ دیہاڑی (دن پھر کی مزدوری) جلد طے ہوجاتی ہے اور یوں آہستہ آہستہ سب کا م پر چلے جاتے ہیں…“ 
اتنے میں اک شور سا برپا ہوگیا۔
سارے لوگ ایک موٹر سائیکل والے کے ارد گرد جمع ہوگئے۔ 
”اب یہ کیا ہوا“ 
”میں دیکھتا ہوں…“ افضل بھائی انہیں دیکھنے گئے اور ہنستے مسکراتے واپس آئے۔ 
”کیا ہوا…“
”بھائی جان یہ روزانہ کا کام ہے یہاں دو چار جوان مزدور جو بہت تیز طرار ہیں وہ یہی کام کرتے ہیں۔
“ 
”ہوا کیا ہے؟“ 
”ان میں سے ایک چالاک مزدور اچھل کر ایک موٹر سائیکل والے صاحب کے پیچھے بیٹھ گیا ہے اور گانے لگا ہے۔ 
”سانوں وی لے چل نال وے باؤ سوہنی گڈی والیا“ اس کا کا م ہی یہی ہے روزانہ ایسا ہی کرتا ہے۔اب وہ صاحب کہہ رہے ہیں کہ ہم نے آپ کو ساتھ نہیں لے جانا اور وہ ہے کہ موٹر سائیکل سے نیچے اُتر ہی نہیں رہا…“
جی ہاں وہاں تو یہی لگ رہا تھا کہ جو زیادہ پھر تیلا اور چالاک ہے وہ جلدی کسی صاحب کے ساتھ چلا جاتا ہے چاہے بعد میں وہ اُس پھرتی سے کام نہ بھی کرے لیکن افضل بھائی نے یہ بھی بتایا کہ کچھ ایسے سست الوجود بھی ہیں جو جان بوجھ کر چپ سادھے بیٹھے رہتے ہیں۔
باقی مزدور آہستہ آہستہ اپنی دیہاڑی لگانے چلے جاتے ہیں مگر یہ نہایت آرام سے بیٹھے رہتے ہیں جیسے کہ پرواہ ہی نہیں ہے حتیٰ کہ دن کے گیارہ بارہ بج جاتے ہیں تب ان سستی کے ماروں کو کوئی نہ کوئی بادل نخواستہ ساتھ لے جاتا ہے۔پھر یہ شام پانچ بجے کہتے ہیں کہ اب چھٹی کا ٹائم ہو گیا ہے اور اس طرح یہ تھوڑا کام کر کے پورا معاوضہ وصول کرلیتے ہیں۔
ایسے سست رفتار اور بہانہ خور لوگ ہر وقت ہر طرح بہانہ گھڑنے کے ماہر ہوتے ہیں تبھی تو بل گیٹ نے ایک مرتبہ (شاید ایک ہی مرتبہ… معلوم نہیں دوبارہ کیوں نہیں کیا…شاید یہ کہنے کا تجربہ ٹھیک نہ رہا ہو) کہا تھا کہ میں مشکل سے مشکل کام ان سست الوجود لوگوں کو دے دیتا ہوں کیوں کہ یہ مشکل کام کرنے کے بھی آسان طریقے دھونڈلیتے ہیں۔ 
اسی فوارہ چوک میں ہر قربانی کی عید پہ بھیڑ بکریوں کا میلہ لگا کرتا ہے لیکن معلوم ہو اکہ یہاں تو سوائے جمعہ کے ہر روز انسانوں کا میلہ لگتا ہے جہاں اُن کا بھاؤ تاؤ کر کے کوئی انہیں اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔
نجانے ہماری قوم کیوں ان بھیڑ بکریوں کی میلے کی طرح لگتی ہے کہ کوئی مرضی سے ہانک کے انہیں اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ لوگوں کا بھی کیاکہیے کہ محنت سے جی چرانا خاص طورپر اپنے ملک میں ایک عادت سی بن جاتی ہے۔ کوئی تیز طرار ہے تو وہ اتنا تیز کہ زبردستی کسی کے گلے پڑتا ہے۔ کوئی سست ہے تو ایسا کہ نہ اُسے اپنے مستقبل کی پروا ہے اور نہ اپنے خاندان کی اورنہ اپنے پاکستان کی۔ اگر ہم سب بحیثیت قوم صرف چند ذہن لوگوں (جن کی ویسے بھی اتنی قدر نہیں اور اپنے طورپر مایوس پھرتے ہیں) اور چالاک سمجھ دار سرمایہ کاروں پہ ہی ترقی کا سارا بوجھ لاددیں گے تو پھر بھلا ”نیاپاکستان“ کیسے بنے گا۔ 

Chapters / Baab of Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana