Episode 17 - Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana

قسط نمبر 17 - آ بیل مجھے لتاڑ - ڈاکٹر محسن مگھیانہ

                          الارم بجنے دو 

الارم بجنے اور اُس کا گلہ گھونٹنے کا شاندار منظر خصوصی طورپر ہاسٹلز میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ خاص طورپر سردیوں کے دنوں جب صبح سویرے اُٹھنے کا الارم لگایا ہوتا ہے اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ صبح وقت پر اُٹھ کر کالج جانے کی تیاری کی جائے یا پھر کل جو کالج آنے کے بعد رات تک آوارہ گردی کرتے رات کو تھک ہارکر سوگئے ہوں تو پڑھنے کے لیے صبح سویرے ایک چھٹانک برابر یعنی چند منٹ پہلے (اُٹھ کر) ذرا سی کتاب کھول لی جائے اور پھر بعد میں تیار ہولیا جائے۔
البتہ امتحان کے دنوں میں تو الارم فجر کی نماز کے لیے خصوصی اہتمام کے طورپر لگایا جاتا ہے کہ کم از کم اللہ میاں ان دنوں تو ہم سے خوش رہے۔

(جاری ہے)

 

اصل منظر تو وہ دیدنی ہوتا ہے جب الارم بج اُٹھتا ہے تو اُس وقت وہ الارم دنیا کا سب سے بڑا دشمن لگتا ہے جو ہمیں آرام کرتا دیکھ نہیں سکتا بلکہ کسی بیرونی سازش کے تحت ہمارے آرام میں خلل ڈال رہا ہوتا ہے۔
سو ایک ہاتھ بڑے غصے سے رضائی سے نکلتا ہے اور الارم کی تلاش کرتا ہے کیونکہ اس وقت نیند میں آنکھیں کھولنا مناسب نہیں لگتا ورنہ آنکھ کھول لی تو دوبارہ سے نیند کیسے آئے گی۔ اب الارم ہے کہ مسلسل بجا جارہا ہے اور ہاتھ ہے کہ اُسے مسلسل تلاش کررہا ہے۔ آخر کار ہاتھ کامیاب ہوجاتا ہے اور الارم کا گلہ گھونٹ دیا جاتا ہے۔ پہلے پہل تو الارم والی گھڑیاں سرہانے والے میزپر رکھی ہوا ہوتی تھیں جن کے الارم کی بڑی ظالم قسم کی آواز ہوتی تھی۔
لگتا تھا ساری دھرتی ہل رہی ہے اورالارم کی منحوس آواز سر پر ہتھوڑے مار رہی ہے۔ تاہم اب اس الارم نے ذرا مہذب شکل اختیار کرلی ہے اور موبائل فون میں گھس آیا ہے۔ چونکہ یہ موبائل فون مغرب (بلکہ مشرق کے بھی کچھ غیر ملکوں) سے آیا ہے اور ہم نے نہیں بنایا ہے تو الارم بھی نازک طبع ہے۔ اب تو یہ بستہ میں ہمارا ساتھی ہوتا ہے اور الارم بجنے پر اس کی تلاش آسانی ہوتی ہے پھر جدید دور کی میربانی کی وجہ سے گھڑی کو تھپڑ نہیں مارنا پڑتا بلکہہاتھوں کے لمس سے ہی یہ خاموش کر ا یا جاسکتا ہے۔
کیونکہ اب اگر کسی کے پاس ٹچ سسٹم والا موبائل نہیں تو کوئی پرانے زمانے کی مخلوق لگتا ہے۔ تاہم نجانے اگلے چند سالوں میں اس کی کوئی نئی شکل نکل آئے اور ٹچ سسٹم کے موبائل رکھنے والے زمانہ قدیم کے باسی لگیں۔ 
خیر اب تو یہ سہولت بھی میسر ہے کہ ریپیٹ پہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر الارم پہ اٹھنے والا بندہ ذرا زیاد ہ ہی ڈھیٹ واقع ہواہے تو یہ بار بار اُسے جگاتا رہے۔
اب ریپیٹ پر لگانے سے یا تو بندہ تنگ آکر اُٹھ ہی جائے گا یا ڈھٹائی،سستی اور کاہلی کی اخیر ہوجائے تو موبائل کی بیڑی بھی جواب دے جائے گی۔ ایسے میں جب کہ الارم بجنا شروع ہوتا ہے تو بندہ آنکھیں تو نہیں کھولتا لیکن حسب استطاعت منہ سے کچھ نہ کچھ تو ضرور بولتا ہے۔ اب یقینا صبح سویرے ایسے میں منہ سے پھول تو جھڑیں گے نہیں اور کچھ نہ کچھ تو الم غلم منہ سے نکلے گاہی۔
یہاں سے بھی کسی بھی شخص کی پرسنیلیٹی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے پیارے منہ سے کیا کیا الفاظ برآمد کرتا ہے۔ 
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ہمیں زندگی میں اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی صورت میں الارم کرتا رہتا ہے۔ جسے یا تو ہم سمجھ نہیں پاتے یا خود سے بھولے بن جاتے ہیں۔ اگر ہم سمجھ نہیں پاتے تو جب کچھ ایسا ویسا ہوجاتا ہے تو تب سمجھ میں آتا ہے کہ ہم اس وقت کیوں نہ سمجھے جب کسی اشارے کے الارم سے ہمیں خبر دار کیا گیا ہے۔
تاہم وہ اشاروں کنایوں کا وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ کچھ سمجھ دار لوگ اس سے اگلے اشارے پہ سمجھ جاتے ہیں اور دوسرے ایسے اشاروں کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں تا آنکہ وہ کوئی بہت بڑا نقصان اُٹھا لیتے ہیں تب وہ روتے ہیں،ٹسوے بہاتے ہیں لیکن تب چڑیاں کھیت چگ گئی ہوتی ہیں۔ 
یہی رویہ ہمارا قومی سطح پر نظر آتا ہے۔ کوئی سیلاب یا تباہی ٓتی ہے ہم اُس کے لیے کوئی کمیشن بناتے ہیں۔
کہیں پہ کوئی جان لیواواقعہ ہوتا ہے ہم انکوائری کرواتے ہیں۔ اکژ یہ انکوائری والے بیچارے بڑی محنت سے تمام حالات و واقعات کا جائزہ لے کر ایک رپورٹ تشکیل دیتے ہیں۔ جب تک رپورٹ آتی ہے ہم وہ واقعہ وہ دکھ بھول چکے ہوتے ہیں اس لیے اس رپورٹ کو داخل دفتر کردیتے ہیں یا پھر پڑھتے ہیں تو غور سے نہیں پڑھتے یا غور سے پڑھتے ہیں تو کئی مصلحتیں سامنے آجاتی ہیں اور ہم چپ رہتے ہیں اور پھر وہی حادثہ ددوبارہ رونما ہوجاتا ہے۔
ہم من حیث القوم خود ہی الارم لگا کے اُس پر اُٹھنا بھول جاتے ہیں۔ ہمیں تو مسجدوں سے پانچ وقت آذان کی آواز الارم کی صورت آتی ہے مگر ہم کان نہیں دھرتے جو کان دھرتے ہیں اُن میں سے کتنے ایسے ہیں جو نماز میں اللہ سے جو وعدے کرتے ہیں وہ وفا کرتے ہیں۔ ہمارا رویہ یہی رہتا ہے کہ الارم بجتاہے تو بجنے دو…

Chapters / Baab of Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana