Episode 18 - Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana

قسط نمبر 18 - آ بیل مجھے لتاڑ - ڈاکٹر محسن مگھیانہ

                               آپ کی تہذیب 

شام کا ایک اپنا سحر ہوتا ہے۔ اس سحر سے چرند پرند بھی بخوبی آشنا ہیں اسی لیے سورج ڈھلتے ہی وہ واپس اپنے گھروندوں کا رُخ کرتے ہیں جب کہ کچھ لوگ اسی وقت اپنے گھروں اور گھروندوں سے نکل کر باغ یا پارک کا رُخ کرتے ہیں۔ پرندے آرام کرنے گھر جاتے ہیں جبکہ فارغ انسان شام کو گھر سے نکل کر پارک میں جاکر آرام اور سکون محسوس کرتے ہیں۔
کنوارے تو اکیلے ہی گھر سے نکلتے ہیں اور وہاں جا کر کسی کا انتظار کرتے ہیں جب کہ شادی شد ہ بہادر لوگ اپنی ہی بیوی کو ساتھ لے کر شام کی سیر پہ نکل پڑتے ہیں۔ تا ہم اپنی ہی بیوی لے کر آنے والوں میں وہی شامل ہوتے ہیں جو یا تو نوبیاہتا ہوتے ہیں یا پھر اُن کے بیاہ کو اتنا زیادہ عرصہ گزرگیا ہو کہ اُنہیں یاد ہی نہ ہوکہ وہ میاں بیوی بھی ہیں۔

(جاری ہے)

 

اسی طرح کا ایک موخرالذ کر جوڑا شام کی سیر کو نکلا اور جلد ہی پارک کا ایک آدھ چکر لگا کر تھک ہار کر ایک بنچ پر بیٹھ گیا۔
جب بزرگ میاں صاحب کو سانس ذرا تھمی اور بیٹھنے کے بعد ذرا سکون محسوس ہوا تو اردگرد کے حالات کا جائزہ لینے لگے۔اُن سے تھوڑی ہی دور ایک نوجوان جوڑا سبز گھاس پر بیٹھا گپ شپ میں مصروف تھا۔ بزرگ پہلے تو اپنے طورپر اس تشخیص میں لگ گئے کہ یہ دونوں شادی شدہ ہیں بھی یا نہیں۔ سو بیٹھے بیٹھے انھوں نے اُن کی حرکات وسکنات اور اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ اندازہ لگا یا کہ ابھی ان کی شادی نہیں ہوئی اور فی الحال یہ ایک دوسرے پر کہانی ڈال رہے ہیں۔
تھوڑی ہی دیر میں اُنھوں نے محسوس کیا کہ یہ آہستہ آہستہ ایک دوسرے کے قریب آتے جارہے ہیں۔انہیں یاد آیا کہ اُن کی جوانی میں تو اس قسم کی سہولت میسر نہ تھی اور پھر ان دنوں اس طرح سے سر عام کوئی جسم سے جسم ملا کر بیٹھتا نہ تھا۔ پہلے تو اُنہیں حسرت ہوئی مگر جب اُس جوڑے کی حرکت زیادہ ہوئی تو انہیں جلن کے بعد ذراوحشت سی محسوس ہونے لگی۔ آخر اُن سے نہ رہا گیا اور بنچ سے اُٹھ کر اُس پیارے جوڑے کی طرف بڑھے قریب آکر مخاطب ہوکر کہنے لگے ”بیٹا کیا یہی آپ کی تہذیب ہے؟ “
اُس نوجوان نے بزرگ کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا ”نہیں انکل اس کا نام تہذیب نہیں یہ تو کوثر ہے۔
“ 
بزرگ بیچارے شرمندہ ہوکر واپس اپنے بنچ کی طرف چلے گئے جہاں اُن کا لٹکا منہ دیکھ کر اُن کی بیگم کہنے لگی ”میں نے کئی بار تمہیں سمجھایاہے کہ نئی نسل کے کاموں میں ٹانگ نہ اڑایا کرو“۔
سو یہ تہذیب اوراقدار وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں کچھ تو تبدیلیاں پرانی نسل کے لیے قابل قبول ہوتی ہیں مگر یہ اقدار اس قدر تیزی سے بدل رہی ہیں کہ اب تو چند سالوں میں ہی کوئی بھی نئی نسل پرانی ہو جاتی ہے۔
پہلے اقدار بدلنے میں صدیاں لگتی تھیں مگر اس سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ انہیں بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ سینما گھر جاتے ہوئے جھجک محسوس کیا کرتے تھے۔ہم بھی گھروالوں کیا بلکہ محلے والوں سے چھپ چھپا کر سینما جاتے۔ فلم دیکھنے جاتے تو چادر کی بکل مار لیتے کہ کوئی پہچان نہ لے۔ ایسے ہی ہمیں کئی اور دوست ”بکل شدہ“ نظر آتے تھے۔
مخبری کے ڈر سے گلیاں بدل بدل کر جایا کرتے تھے اور یقین مانیں فلم بھی کوئی ایسی ویسی دیکھنے نہیں جاتے تھے بلکہ آج کل کے حساب سے تو بڑی شریف فلمیں ہواکرتی تھیں۔ 
اب تو سینما جانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی کہ گھر بیٹھ کر آپ اس سہولت سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ پہلے یہ کیسٹ اور وی سی آر کی صورت میں تبدیلی آئی اور اب سی ڈی اور ڈی وی ڈی کی ارزاں سہولت دستیاب ہے۔
پھر اگر آپ یہ بھی نہ دیکھیں تو ہر چینل پر سہولت کسی نہ کسی طورپر دستیاب ہوتی ہے۔ پہلے تو آپ خبر نامے میں خبروں کے علاوہ کچھ نہ دیکھتے تھے۔ اب کبھی کسی پرانے خبرنامے (جو پی ٹی وی کی سولو فلائٹ کا زمانہ تھا) دیکھ لیں تو آپ خود ہی انہیں نہایت شریف قرار دیں۔ آپ فیملی کے ساتھ بیٹھے خبرنامہ دیکھنے پر اکتفا کرتے تھے مگر اب تو یہ بھی فیملی کے ساتھ دیکھنا دشوار ہوگیا۔
کترینہ کیف،کرینا کپور، شاہ رُخ یا سلمان خان وغیرہ کی سالگرہ یا نئی فلم ریلز ہونے کے بہانے ایسے ایسے ڈانس دکھائیں گے کہ جی کرتا ہے بندہ اپنے کپڑے اُتار کے ان کے جسم ڈھانپ دے لیکن اپنے کپڑے اتار نا پھر بدتہذیبی ہوجائے گی تو پھر یہی کر سکتے ہیں کہ ٹی وی پہ کپڑا ڈال دیں یا پھر چینل تبدیل کرکے ایسے چینل کی تلاش شروع کردیں جس میں سب نے پورے کپڑے پہنے ہوں۔ 

Chapters / Baab of Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana