Episode 19 - Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana

قسط نمبر 19 - آ بیل مجھے لتاڑ - ڈاکٹر محسن مگھیانہ

                    ”باگاں دے رکھوالے گاہلڑ“

کہتے ہیں کہ ایک مہر صاحب بیمار ہوئے تو ایسے کہ بستر سے لگ گئے۔ہمارے یہاں زیادہ تر سیال قوم کے لوگ مہر کہلاتے ہیں۔ گوکہ دوسرے زمیندار لوگ بھی یہ لقب استعمال کرنے کے عادی ہیں۔ اکثر مہر صاحبان کا رجحان ”زمیندارہ“ کی طرف ہوتا ہے جہاں وہ خود اس لیے کام نہیں کرتے کہ کام کے لیے انھوں نے درجنوں یا سینکڑوں (اس کا انحصار اس پہ ہوتا ہے کہ وہ کہتے زیادہ مریعوں کے مالک ہیں) کرنے والے المعروف کمی رکھے ہوتے ہیں۔
سو مذکورہ مہر صاحب جب بیمار پڑگئے اور صاحب فراش ہوئے تو مختلف نوکروں کی مختلف ڈیوٹیاں لگ گئیں۔ کسے کے ذمہ ”حقہ دھرنا“ یعنی حقہ تازہ کرنا، کسی کے ذمے مہر صاحب کو غسل دینا تو کوئی کپڑے پہنانے، کوئی کنگھی کرنے، کوئی کھانا کھلانے پہ لگ گیا۔

(جاری ہے)

الغرض مختلف نوکروں کی ذمہ داریوں کی نوعیت مختلف تھی۔ 

کرملی کی ڈیوٹی یہ تھی کہ اُس نے پورے دن میں مہر صاحب کو ایک سیر دودھ پلانا تھا۔
تب دودھ سیروں میں ناپا تولا جاتا تھا اور اب لیٹرز اس کا پیمانہ آن ٹھہرا ہے۔ بیماری بڑھتی گئی اور سب ڈیوٹیاں دینے والے اپنی اپنی ڈیوٹیاں دیتے رہے۔ مہر صاحب بستر ضرور لگ گئے تھے مگر ابھی ذہنی طورپر فارغ نہیں ہوئے تھے انہیں شک ہوا کہ کرملی اُنہیں پورا سیر دودھ نہیں دیتا اور اس میں سے کچھ ”گھئیں (غائب) کر لیتا ہے۔ سو اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے اُنھوں نے متعلی کے ذمہ لگایا کہ تم اس بات کا کھوج لگاؤ کہ کرملی کتنی بے ایمانی کرتا ہے۔
اُن کاخیال تھا کہ کرملی اُنہیں سیر کی بجائے تین پاؤ دودھ دیتا ہے اور ایک پاؤ خود پی جاتا ہے۔ تاہم کیونکہ اکثر نوکر آپس میں ملے ہوتے ہیں تو متعلی نے کرملی سے کہا کہ ہمیں آپس میں اتحاد سے رہنا اور ”کھانا پینا“ چاہیے۔ سو دونوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ دونوں ایک ایک پاؤ حصہ لیں گے اور د وپاؤ مہر صاحب کو ذرا ساپانی ملا کر پلا دیں گے۔ وہ پوچھیں گے تو کہہ دیں گے کہ بھینسیں آج کل گرمی کی وجہ سے پانی زیادہ پی رہی ہیں سو دودھ بھی پتلا دے رہی ہیں۔
 
مہر صاحب کو دودھ پتلا ہونے کی یہ دلیل پسند تو نہ آئی لیکن بیماری کی مجبوری کی وجہ سے چپ ہورہے۔ یوں بیماری بڑھتی جارہی تھی اور دودھ گھٹتا جارہا تھا۔تنگ آکر انھوں نے ان دونوں کے اوپر تیسرا مخبر بھی رکھ لیا مگر وہ تینوں مل گئے اور اب مہر صاحب کے حصے میں محض ایک پاؤ دودھ رہ گیا۔ اب مہر صاحب اس قدر شدید بیمار ہوئے کہ بول بھی نہ سکتے تھے اور چوری کی نشاندہی بھی نہ کرسکتے تھے۔
بالآخر ارشارتاً چوتھے مخبر کو بھی رکھ لیا تو ”باگا دے رکھوالے گاہلڑ“ (باغوں کی رکھوالی گلہریاں) کے مصداق بالآخر یہ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ مل کر مہر صاحب کے ہونٹوں پہ ذرا سی بالائی لگادیتے تھے کہ دیکھنے والے یہ سمجھیں کہ مہر صاحب نے دودھ پی لیا ہے۔ 
ہمیں یہ حکایت اس لیے یاد آئی کہ پچھلے دنوں یہ خبر آئی کہ بے ایمانوں کو پکڑنے والے اور نیب نے اپنے ہی ایک افسر کو بے ایمانی کرتے ہوئے پکڑ لیا اور اُسے ”داخلِ حوالات“کر دیا۔
ہمارے آ س پاس تو یہ واقعات اس کثرت سے رونما ہوتے ہیں کہ اب لوگوں کو اس پہ حیرت نہیں ہوتی۔ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ جس افسر کو ”داخلِ حوالات“ کیا گیا ہے اُس کا کیس کتنے عرصے میں ”داخلِ دفتر“ ہوجاتا ہے۔ 
ہمیں یاد ہے کہ ہمارے ہسپتال کی نہایت ہی ایماندار ایم ایس سے جب اینٹی کریشن کے ایک افسر نے مہنگی دوائی لوکل پر چیز کرنے کا کہا تو ایم ایس صاحب نے بتایا کہ پہلے ہی ہسپتال لاکھوں روپے کی ایل پی(لوکل پرچیز) کا مقروض ہے اس لیے افسر کی انا کو شدید ٹھیس پہنچی اُس نے نہایت بدتمیزی سے رُعب ڈالتے ہوئے کہا کہ تم جانتے نہیں ہو میں اینٹی کریشن کا افسر ہوں اور تمہارا دماغ چند منٹوں میں درست کرسکتا ہوں۔
آگے سے ایماندار ایم ایس سے بھی برداشت نہ ہوا غصے سے کہہ بیٹھے ”تم لوگ اینٹی کریشن کے محکمے سے ہوتے ہوئے خود کرپشن کرتے ہو مجھ پہ کیا رعب ڈالتے ہو…“ تاہم اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ منٹوں میں تو نہیں چند دنوں بعد بھی بیچارے ایماندار ایم ایس پہ جھوٹا کیس ہوگیا اور وہ ہمیں معلوم ہے کہ کس طرح سے معاملہ رفع دفع ہوا۔ ہمارے یہ ایم ایس بیچارے ہر ہسپتال میں چھ مہنے سے زیادہ ٹکتے نہیں تھے بلکہ لوگ اُنہیں ٹکنے نہیں دیتے تھے اور بالآخر اُنہیں نوکری چھوڑنا پڑی۔ 
ہمارے ان مہر صاحب کی طرح ہمارا ملک بھی بیمار پڑا ہے اس کے حصے کا دودھ کئی کرملی اور متعلی مل کر پی لیتے ہیں اور اس کے منہ پہ ذرا سی بالائی مل دیتے ہیں۔ 

Chapters / Baab of Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana