Episode 21 - Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana

قسط نمبر 21 - آ بیل مجھے لتاڑ - ڈاکٹر محسن مگھیانہ

                                 وہم 

وہم کی بھی آخر کوئی حد ہونی چاہیے۔ جب اُس کا وہم حد سے بڑھا تو گھر والے بھی پریشان ہوگئے۔ اُسے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ برطانیہ کا وزیر اعظم نہیں ہے مگر وہ تھا کہ مانتا ہی نہیں تھا۔ گھروالے بھی مرتے کیا نہ کرتے اُسے پاگل خانے میں داخل دفتر کرا آئے۔
وہاں بھی دوائیوں سے اُس کا وہم نکالنے کی کوشش کی جانے لگی پھر ہوا یوں ایک بار اُس کے ملک کا اصلی وزیر اعظم وہاں کے دورے پہ آیا ویسے تو اپنے ملک کے وزیر اعظم کبھی پاگل خانے کے دورے پر گئے ہی نہیں کہ ایسا کام تو مغرب کے وزیر اعظم کرتے ہیں۔ یہاں تو لوگ اس وجہ سے بھی شکر میں پڑجاتے ہیں کہ یہ اصلی وزیر اعظم ہو کر بھی پاگل خانے کا جو دورہ کرنے آیا تو کیا واقعی اصلی ہے۔

(جاری ہے)

یہاں تو وہ بھی ایسے کام نہیں کرتا جس کو ذرا بھی شک ہو کہ وہ مستقبل میں کبھی وزیر اعظم بن سکتا ہے۔ تاہم جب اصلی وزیر اعظم اُس وہمی وزیر اعظم برطانیہ کے سامنے آیا۔ اس سے ہاتھ ملایا اور بتایا کہ وہ ملک کا وزیر اعظم ہے تو وہ پہلے مسکرانے اور پھر زور زور سے ہنسنے لگا…
اصلی نے پوچھا ”ہنستے کیوں ہو؟“ 
وہمی بولا ” یہاں آنے سے پہلے میں بھی یہی سمجھتا تھا…“ 
ڈاکٹر بیچارے خاصے شرمندہ ہوئے کہ اس نے تو ہماری بے عزتی کرادی ہے تاہم اصلی وزیر اعظم چونکہ نہایت منجھا ہوا سیاستدان تھا اور خاصی قوت برداشت کا حامل تھا تو وہ یہ بات بھی پچا گیا۔
البتہ اس وزیر اعظمی دورے کے بعد ڈاکٹر نے اصلی وزیر اعظم کی ہدایت پر اُس کا ”لگ کر“ اور مزید دلجمعی سے علاج کیا تو وہ اس کا وہم نکالنے میں کامیاب ہوگئے جس پر اُنھوں نے اپنی خفت مٹانے کے لیے یہ مثبت رپورٹ وزیر اعظم ہاؤس بھیج دی۔ جب یہ سابقہ وہمی وزیر اعظم ڈسچارج ہونے لگا تو ڈاکٹر نے نہایت فاتحانہ انداز میں اُس سے پوچھا ”کیوں بھئی! اب تو تم خوش ہونا۔
اب تو بالکل ٹھیک ہوگئے ہو۔“ 
تو یہ بولا ”سر جی میں ٹھیک تو ہوگیا ہوں مگر بہت بڑا نقصان ہوگیا ہے۔ پہلے میں برطانیہ کی سلطنت کا وزیر اعظم تھا آپ نے مجھے عام آدمی بنادیا ہے…“ 
کالج کے زمانے میں ہمارے کئی دوستوں کو وہم ہوجاتا تھا کہ فلاں لڑکی اُس کی محبت میں ”کانوں کان“ بلکہ ”نکونک“ مبتلا ہے بعض تو ہمیں آکے کہتے کہ یار وہ میری محبت کے پانی میں ”گوڈے گوڈے“ ڈوبی ہوئی ہے۔
تاہم بعض شریف لڑکوں کو تو ہمارے شرارتی دوست زبردستی اس وہم میں مبتلا کر دیتے تھے کہ فلاں لڑکی تمہارے پہ جان چھڑکتی ہے۔اُسے معلوم بھی ہوتا کہ ایسی کوئی بات نہیں مگر اتنے سارے دوستوں کے کہنے پر وہ بھی سوچتا اس حسین وہم میں مبتلا ہوئے ہیں، آخر کیا ہرج ہے۔
بعض لاگوں کو بلکہ یہ وہم تو اکثر کو ہوجاتا ہے کہ وہ سوتے وقت سوچتے ہیں کہ کیا اُنھوں نے باہر والے دروازے کو کنڈی لگائی بھی ہے یا نہیں۔
یا مقفل کیا ہے یا نہیں۔ وہ سونے سے پہلے بار بار تالے کو ہاتھ لگا کر دیکھتے ہیں۔ ایک آد ھ دفعہ دیکھ لینے میں اور ذرا سا وہم دور کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں مگر جب یہ وہم حد سے بڑھ جائے تو آبسیشن Obsassionکہلاتا ہے جو نفسیاتی بیماری کی ایک شکل ہے۔ 
مثبت وہم بھی خطر ناک ہے مگر خدا نخواستہ اگر کوئی منفی وہم میں مبتلا ہوجائے تو اُس سے بھی برُا لگتا ہے مثلاً کسی کو وہم ہو جائے کہ وہ بندر ہے تو وہ پھر ہر اُس درخت پہ چڑھ کر چھلانگیں مارنے لگتا ہے جو رستے میں آئے۔
اگر شہری بابو کو یہ وہم ہوجہاں یہ درخت دستیاب نہ ہوں تو وہ دیواروں پہ چڑھ جاتا ہے۔ یوں وہ لوگوں کے گھروں میں جھانکے،جاسوسی کرنے یا پھر چوری کے الزام میں دھر لیا جاسکتا ہے۔ تاہم جب کوئی پولیس والااُسے پکڑنے آئے گا اور وہ چھلانگ لگا کر اُس کے کندھے پر سوار ہوجائے گا تو پولیس والے کو بھی یقین ہوجائے گا کہ گوکہ یہ انسان ہی ہے مگر اسے بندر کا وہم ہوگیا ہے…“
اب ہم سب عوام بھلا کیا کریں کہ ہمارے ذہن میں یہ وہم بیٹھ گیا ہے کہ ہم کبھی سدھر نہیں سکتے۔
کرپشن کی دلدل اتنی گہری ہوچکی ہے کہ اس سے نکلنے کی صورت نظر نہیں آتی۔ جب کبھی کسی دوسرے ملک میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے تو اس وہم کی جڑیں اور بھی مضبوط ہوجاتی ہیں۔یہ نہیں کہ ہمارا جی نہیں چاہتا کہ ہم ترقی یافتہ قوموں کی صف میں سینہ تان کے کھڑے ہوں بس ہمیں شاید اپنے آپ یہ بھروسہ نہیں ہے۔ پھر بھی ہم یہ اُمید سینوں میں لےئے ہوئے ہیں کہ کوئی تو ایسا مسیحا آئے گا جو ہمارے سینوں سے یہ وہم باہر نکال پھینکے گا اور ہمیں مختلف نعروں پر نہیں ٹرخائے گا۔ 

Chapters / Baab of Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana