Episode 23 - Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana

قسط نمبر 23 - آ بیل مجھے لتاڑ - ڈاکٹر محسن مگھیانہ

                   بلی کی آنکھیں اور دُھند 

موسم اور محبت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ پہلے محبوب کو پانے کے لیے ابرکرم سے پہلی درخواست یہ کی جاتی تھی کہ ذرا تھم تھم کے برس تاکہ ہمارا محبوب ہمارے گھر یا پھر ملاقات کی جگہ پر بآسانی پہنچ سکے۔ پھر جب محبوب ”جائے محبت“ یہ پہنچ جاتاتو ابرکرم سے دوسری درخواست یہ کی جاتی ہے کہ ”آج اتنا برس کر وہ جانہ سکیں…“ تاہم اس میں اس خدشے کا بھی امکان ہوتا کہ اگر محبوب ابر کرم کے دھڑا دھڑ اور موسلادھار برسنے کی لمبی معیاد سے بروقت واپس گھر نہ پہنچ سکا تو یہ بھی امکان ہے کہ آئندہ کے لیے ہم اُس سے ملنے ملانے کو بالکل ہی ہاتھ نہ دھو بیٹھیں کہ اُسے پھر کبھی گھر والے ابرکرم کو آسمان پر دیکھ کر ہی گھر سے نکلنے کو منع کردیں… 
کہتے ہیں کہ ایسے ہی ایک شخص جب بھی کہیں جانے کا ارادہ کرتا تو بارش شروع ہوجاتی ہے اور وہ پھر بیچارہ گھر میں دوبارہ سے دبک کر بیٹھ جاتا۔

(جاری ہے)

وہ اس تماشے سے کافی تنگ آچکا تھا۔ پھر ایک مرتبہ جب وہ گھر سے باہر بازار کے لیے نکلاتو ڈرتے ڈرتے آسمان کی طرف دیکھا تو پھر سے بادلوں کا ایک ٹکڑا نظر آیا۔ وہ آسمان کی طرف نگاہ کر کے بولا ”بادل جی! میں تو گھر سے صرف سودا سلف لینے نکلا ہوں کسی دورسرے شہر نہیں جارہا …“یقینا بادل بھی اس کی یہ معصومانہ بات سن کر مسکرادیا ہوگا۔ 
ٹھنڈے ملکوں میں تو برفباری اس قدر شدید ہوتی ہے کہ وہ یہ دُعا مانگتے ہوں گے کہ برفباری سے پہلے اُن کا محبوب اُن کے گھر پہنچ جائے اور پھر ایسی برفباری ہو کہ سارے راستے بلاک ہوجائیں لیکن آخر ان ٹھنڈے ملکوں کے محبوبوں اور محبوباؤں کو اس قسم کو بہانوں کی ضرورت ہی کیوں پیش آئے گی کیونکہ اس معاملے میں اُن کا ماحول پہلے ہی خاصا کھلا ڈلا ہے۔
البتہ ابرکرم اور برفباری کے بعد اب قدرت کی نئی فخریہ پیش کش دُھند ہے۔ اب تو یہ دُعا مانگی جاسکتی ہے کہ کسی طرح دُھند آنے سے پہلے محبوب اپنی منزل مقصود پر پہنچ جائے اور پھر اُس کے بعد ایسی دھند پڑے کہ و ہ چاہے بھی تو لوٹ کے نہ جاسکے۔ تاہم فی الحال تو یہ دُھند دسمبر اور جنوری میں خاص طورپر باعث رحمت کی بجائے باعث زحمت بنی ہوتی ہے۔
کبھی رات کو دھند میں گاڑی پر نکلنا ہو اور آگے رستہ سمجھائی نہ دینے پر بندہ کار سے نکل کے دیکھے اور اپنا ہی ”ہاسا نکل “ آجاتا ہے کہ بندہ پوری سڑک کو چھوڑ کر اُس کے کنارے ڈرائیور کررہا ہوتا ہے جہاں سے قریبی کھیت یا میدان میں گرنے یا قلا بازی کھاکر (اگر وہاں آبادی ہو) کسی کے گھر کے سامنے منہ کے بل گرنے کا سوفی صدامکان ہوتا ہے۔ خوش قسمتی سے و ہ گھر کسی نازنینا کا ہوتو بدقسمتی سے وہ ولوگ یہ بھی خیال کرسکتے ہیں کہ آپ دھند کا بہانہ بناکر جان بوجھ کر ”درِیار“ پر آگرے ہیں۔
 
ویسے تو کار والے موٹرسائیکل اور سائیکل والوں کو کبھی اتنی اہمیت نہیں دیتے مگر ایسی شدید دھند میں اُن پہ رشک کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ موٹر سائیکل یا سائیکل سوار کو سڑک اور راستہ نسبتاً صاف دکھائی دے رہا ہوتا ہے یوں یہ دھند ہمیں یہ بھی سبق دیتی ہے کہ کسی بھی انسان کو حقیرمت جانو۔ ہر کوئی اپنے حال میں خوش ہے ہوسکتا ہے یہ جو خوشی موٹر سائیکل سوار کو اُس سواری میں ملتی ہو کار والے کونہیں… پھر عام حالات یعنی صاف موسم میں کار والے ٹرک اور بس کے پاس سے پھر کر کے گزر جاتے ہیں اور انہیں اتنی زیادہ لفٹ نہیں کرواتے اس کے برعکس دھند کے موسم میں کار والے ٹرک، بس یا ویگن والے کو ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں کہ وہ اُن کی رہبری کریں کیونکہ ٹرک،بس اور ویگن والوں کو نسبتاً دھند میں بہتر نظر آرہا ہوتا ہے جس کی وجہ سے تکنیکی طورپر اُن کی ڈرائیونگ سیٹ کی اونچائی ہوتی ہے اور پھر یہ وجہ بھی کہ وہ پروفیشنل ڈرائیور ہوتے ہیں اور راستوں سے زیادہ مانوس ہوتے ہیں۔
دھند کے باعث کئی سال پہلے رستم سرگانہ میں دو ٹرینیں آپس میں ٹکرا گئی تھیں اور بہت زیادہ جانی نقصان ہوا تھا اس لیے اول تو دھند میں سفر سے گریز کرنا چاہیے اور اگر مجبوری ہو تو احتیاط بہت ضروری ہے۔ جیسے عام زندگی میں بہت سے مشکل سفر آتے ہیں جو حالات کی دُھند کی وجہ سے طے کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ 
ہم جو رات کو گیارہ بجے کلینک سے گھر جاتے سخت سردی اور دھند کا اسامنا کرتے ہیں تو ہماری رہبر سڑک کے درمیان میں لگی ” بلی کی آنکھیں“ (کیٹ آئیز) ہوتی ہیں جن کی چمک کی وجہ سے ہم راستے کا تعین کرپاتے ہیں۔
پر کیا کیجیے کہ نشے کی لت میں پڑے لوگ بلی کی یہ آنکھیں بھی نوچ کر لے جاتے ہیں۔ پہلے یہ کیٹ آئیز لوہے یا سٹیل کی ہوتی تھیں مگر اب پلاسٹک کی ریفلیکٹ کرتی پٹی کے ساتھ سڑک کے بیچ نصب ہوتی ہیں۔ نشئی اسے اکھاڑ کر چند روپوں کی خاطر بیچ دیتے ہیں وہ تو اپنا نشہ پورے کرنے کے چکر میں ہوتے ہیں مگر اس سے حادثات اور قیمتی جانوں کے ضیائع کا اندیشہ ہوتا ہے۔
 
ان نشئیوں کے دماغ پر تو نشے کی ”دُھند“ سنوار ہوتی ہے مگر کیا کیجیے کہ یہاں تو یہ کوئی اپنی دھند لیے پھرتا ہے۔ کبھی کبھی تو یہ بھی احساس نہیں ہوتا کہ یہ دُھند ہمارے اندر ہے۔ دُھند ہمارے اندر ہوتی ہے اور ہم آئینہ صاف کررہے ہوتے ہیں کہ شاید یہ آئینے کا قصور ہے کہ ہمیں اپنا ہی چہرہ صاف نظر نہیں آرہا ہوتا۔
رشتوں، دوستوں اور دوسروں کو پہچاننے کے لیے ہر ایک نے اپنے رنگ کی عینک لگائی ہوتی ہے اور پھر اسی پہ بس نہیں ان رنگین شیشوں کے اوپر بھی ایسی دُھند چھائی ہوتی ہے کہ لوگوں کے اصلی دل کے اندر تک جانا اوردل کی بات کھوج لانا ہی بہت مشکل ہوجاتا ہے جیسے ہم نے کہا تھا: 
اینے ڈونگھے لوکی محسن 
کی ویندھی ایہہ جھات نمانی 
(لوگ تو من کے اتنے گہرے ہیں کہ ہماری بیچاری نظر(جھاتی ) کہاں تک دیکھ سکتی۔)

Chapters / Baab of Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana