Episode 25 - Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana

قسط نمبر 25 - آ بیل مجھے لتاڑ - ڈاکٹر محسن مگھیانہ

                                رنگ 

ٹریفک سگنل پر لال بتی جل اُٹھی توا یک طرف کی ٹریفک رُک گئی۔ اتفاق سے سب سے پہلے رُکنے والی کار کو ایک خوب صورت خاتون چلا رہی تھیں۔ وہ اپنی دُھن میں مگن لال بتی کو دیکھ رہی تھی اور باقی ساری ٹریفک اُس کے حسن کو داد دیتی ہوئی اُسے دیکھ رہی تھی۔
تاہم یوں لگا کہ وہ حسین خاتون دنیا ومافیہا سے بے خبر کہیں کھو گئی تھی، کیونکہ بتی لال سے پیلی اورپیلی سے سبز بھی ہوچکی مگر وہ کسی اور دنیا میں کھوئی ہوئی تھی۔ اُس سے پچھلی کار میں بیٹھی خاتون لال پیلی ہوتی رہی لیکن اگلی کار والی نے ہری جھنڈی نہ دکھائی۔ اسی اثنا میں بتی پھر سبزسے لال ہوگئی۔ ساری ٹریفک درہم برہم ہوگئی ٹریفک سارجنٹ فوراً بھاگا بھاگا آیا اور کار کے شیشے پہ دستک دی۔

(جاری ہے)

حسین خاتوں نے حیرت سے پوچھا ”کیا ہوا۔؟“
سارجنٹ بولا ”آپ سبز بتی پر کیوں رُکی رہیں۔ کیا گاڑی کو کوئی مسئلہ ہے؟“ 
وہ بڑے نازے سے بولی ”نہیں گاڑی کو تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن مجھے ایک مسئلہ ہے…“ 
” وہ کیا ؟“ 
”میں اس بات پہ حیران ہوں کہ مارکیٹ میں اتنے زیادہ رنگ دستیاب ہیں اور حکومت کو سگنل لگانے کے لیے بس محض یہی تین رنگ دستیاب ہیں۔
”بی بی یہ کپڑے کی دکان تو نہیں جہاں آپ رنگ پسندکرنے آئی ہیں۔“ ٹریفک سارجنٹ نے جھنجھلا کر کہا۔ 
”ایگزیکٹلی۔ میں بھی یہی کہنے لگی تھی کہ اس سے زیادہ تو کپڑے والے کے پاس رنگ ہیں۔ دیکھیں آپ حکومت کو میری طرف سے بہتر رنگوں کو بتیاں لگانے کا مشورہ ضرور دینا۔ 
بیچارے سارجنٹ کو اور کچھ نہ سوجھی تو سبز بتی جلتی دیکھ کر ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا ” ٹھیک ہے میڈم اب آپ چلیں۔
آپ کی تجویز اوپر تک پہنچ جائے گی…“ 
رنگ پسند کرنے کے اس زنانہ عمل نے تو ایک بیچارے چور کو پھنسا ہی دیا۔ جب جج صاحب نے اُس سے پوچھا ”تم ایک ہی دکان میں بار بار چوری کرنے کیوں جاتے ہیں آخر گارمنٹس کی اس دکان والے نے تمہارا کیا بگاڑا ہے۔“ تو وہ روہانسا سا ہوکر بولا ”جج صاحب میں بیگم کے ہاتھوں مجبور تھا۔“ 
جج نے پوچھا ”وہ کیسے ؟“ 
چور بولا ”سرجی! میں ایک زنانہ سوٹ چوری کر کے لایا تو اُس کا رنگ میری بیگم کو پسند نہیں آیا… دوسرا لایا وہ رنگ بھی اُس کی پسند کا نہ تھا، تیسرے کے بارے میں کہنے لگی کہ یہ کلر مجھ پر سوٹ نہیں کرتا اس لیے کوئی اور سوٹ لاؤ، سو جج صاحب جب بیگم کے اصرار پر چوتھی دفعہ سوٹ کا رنگ تبدیل کرنے گیا تو پکڑا گیا۔
۔۔“ 
تاہم کیا کیجیے کہ ہر کوئی اپنی ہی پسند کے رنگ میں رنگا جانا چاہتا ہے۔ ہم میں اپنے مزاج کے مطابق اور سہولت کے موافق رنگ پسند کرتے ہیں۔ ہم نے تو نفی اثبات کے فلسفے کو بھی نہیں سمجھا۔ ہم اپنی ذات کی نفی تونہیں کرنا چاہتے مگر اللہ سے ہر شے اثبات میں مانگتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ سب کچھ ہمارے ہی رنگ میں ڈھل جائے۔
آپ پوری کائنات کی زمین کو تو ہموار نہیں کرسکتے مگر آپ پاؤں میں جوتی تو پہن سکتے ہیں کہ اس پہ چلنے کے قابل ہوسکیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہنگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا چڑھے۔ کبھی رنگ ساز کو غور سے دیکھیں تو اسے بھی کپڑے پہ رنگ چڑھانے کے لیے بہت سے جتن کرنے پڑتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ بغیر محنت کے ہم پہ ایسا رنگ چڑھے کہ دنیا دیکھتی رہ جائے۔
ایسے یہ کئی لوگ اپنے اوپر رنگ تو نہیں چڑھا سکتے لیکن کہیں ”چن چڑھا“ بیٹھتے ہیں۔ 
ویسے تو رنگ رنگیلے حضرات کو بھی اپنے پہ رنگ چڑھاتے یا پھر گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہوئے شدید احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے جیسے رنگ رلیاں منانے والے ایک صاحب کو کسی خاتون کا سریلی آواز میں فون آیا تو فوراً رومانس کی رگ پھڑک اُٹھی۔
خاتون نے پوچھا۔ ”کیا آپ شادی شدہ ہیں؟“ 
اُس نے سوچا شادی شدہ کہنے سے بھلا رومانس کیا آگے بڑھے گا سو بولے ”جی میں تو ابھی کنوارا ہوں…“ 
پھر کیا تھا آواز بدل کر دوسری طرف سے بیگم بول رہی تھی بولی ’اچھا تو تم بیگم کو بھی نہیں پہچانتے۔ گھر آؤ تو میں بتاؤں کہ تم کب سے کنوارے ہو…“ 
تاہم جب کسی دوسری حسینہ نے ایسا پوچھا تو اس نے کہہ دیا کہ میں ہوں تو شادی شدہ مگر میری بیگم بڑی کپتی ہے، اُس نے ناک میں دم کیا ہوا ہے، زندگی اجیرن کررکھی ہے، شومئی قسمت کہ یہ بھی اُس کی بیگم آواز بدل کر بول رہی تھی پھر جو گھر آکر اُس پر محبت کے یہ رنگ اُترے اور بیگم کی مار سے جسم پر جو نیلگوں رنگ اُبھرے وہ دیکھنے کے لائق تھے۔
سورنگ بدلنے، رنگ پسند کرنے، اپنے یہ رنگ چڑھانے تک، رنگ پھینکنے، محفل میں رنگ سجانے اور زندگی کو رنگیں بنانے کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ 

Chapters / Baab of Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana