Episode 26 - Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana

قسط نمبر 26 - آ بیل مجھے لتاڑ - ڈاکٹر محسن مگھیانہ

                           قطری قطرہ قطرہ 

لوگ بھی ایسے ہی بے پرکیاں اُڑاتے رہتے ہیں مثلاً کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستانی شیخ بہت کنجوس ہوتے ہیں اور عربی نسل شیخ بڑے فیاض ہوتے ہیں۔ ہم جب اپنے شیخ دوستوں کا بادل نخواستہ دفاغ کرتے ہیں تو آگے سے وہ مشہور قصہ سنادیتے ہیں کہ کسی عربی شیخ کو خون کی ضرورت تھی اتفاق سے وہاں ارد گرد کسی کا منفی یعنی نیگیٹو خون نہیں تھا تو ایک پاکستانی شیخ کا خون عربی شیخ سے میچ کر گیا۔
پاکستانی شیخ نے بخوشی عطیہ دے دیا اور ”مفت عطیہ“ کے معاوضے کا انتظار کرنے لگا۔ عربی شیخ بہت خوش ہوا تھا اُس نے اُسے ایک گھڑی کے ساتھ ایک ہزار ریال بھی تحفے میں دیئے تو مفت خون دینے والے کی باچھیں کھل اُٹھیں اور دونوں ہنسی خوشی اپنے اپنے گھر رخصت ہوگئے۔

(جاری ہے)

اتفاقاً کچھ ماہ بعد اُس عربی شیخ کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تو اُس کے سیکرٹری نے دوبارہ سے پاکستانی شیخ کو تلاش کیا اور خون کے عطیے کی درخواست کی جوکہ بخوشی قبول کرلی گئی۔

اب پاکستانی شیخ ”مفت عطیے‘ میں ملنے والی گھڑی اور ایک ہزار ریال سے بھی آگے کا خواب دیکھنے لگا۔ تاہم جب عربی شیخ ہوش میں آیا تو اُس نے پاکستانی شیخ کا بے حد شکریہ ادا کرتے ہوئے اُسے پھولوں کا ایک گلدستہ اور ساتھ ایک سوریال کا تحفہ دیا تو پاکستانی شیخ بے ہوش ہوتے ہوتے بچا۔ اُس سے یہ ”معاشرتی ناانصافی“ دیکھی نہ گئی اور بول اُٹھا ”یاشیخ یہ تو کھلا تضاد ہے۔
پہلے تو آپ نے قیمتی گھڑی اور ایک ہزار ریال دیئے تھے مگر اب کیا ہوا کہیں آپ کا کاروبار تو مندا نہیں پڑگیا۔ آگے سے عربی شیخ نے قہقہہ لگایا۔ ”نہیں نہیں… اب صرف اتنا فرق پڑا ہے کہ میری رگوں میں ایک پاکستانی شیخ کا خون دوڑ رہا ہے…“ 
تاہم چوں کہ ہمارے کئی شیخ دوست ایسے بھی ہیں جو حاتم طائی کی کی قبر پر لات مارنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
سوہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کچھ شیخ کنجوس نہیں ہوتے۔ البتہ جمعرات ۱۱دسمبر ۲۰۱۴ء کی صبح تک ہمیں یقین تھا کہ عربی شیخ بڑے شاہ خرچے اور کھلے دل کے مالک ہیں۔ جب اُس صبح ہمارے ڈسڑکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال جھنگ کے ایم ایس ڈاکٹر ممتاز سیال کا فون آیا کہ ہم نے بطور ہیڈ آف سرجیکل ڈیپارٹمنٹ اُن ے اور ای ڈی او ڈاکٹر طفر بلوچ کے ہمراہ ڈی سی اوراجہ خرم شہزاد کے ہاں جانا ہے جہاں قطر کے شہزادے آرہے ہیں اور ہم نے اٹھارہ ہزاری سے ملحقہ صحرا کے علاقہ میں ۷۵۰ بستروں کے جدید ہسپتال کی تجویز مع تفصیل پیش کرنا ہے تو ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ ہمارے زخمی ضلع (جس کے علاقے علیحدہ کر کے مزید چھوٹا کردیا گیا ہے) کی بھی بالآخر شنوائی ہوگئی ہے۔
دراصل متحدہ عرب مارات،سعودی عرب اور قطرہ وغیرہ کے شہزادے ضلع جھنگ کے صحرائی علاقے میں شکار کھیلنے آتے ہیں، ہمارے یہاں یہ صحرا اُچ گل امام، واصو استانہ، ماچھی وال اور کوٹ شاکر کے علاقوں میں دور دور تک پھیلا ہو اہے جہاں بے چارے نایاب پرندے اُڑتے ہیں اور اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ اُنہیں مارنے کے لیے لوگ دوردوراز کے ملکوں سے بھی آتے ہیں۔
 
ہم محکمہ صحت،تعلیم اور ضلع کے دیگر افسران کے ساتھ ڈی سی او میٹنگ روم میں اُن کے منتظر تھے۔ انتظار کی گھڑیاں کچھ طویل ہوئیں مگر زیادہ طویل ہونے سے بچ گئیں کہ بالآخر محض دو ڈھائی گھنٹے کی تاخیر سے قطری شہزادے تشریف لے آئے۔ دو کارنگ تو سفید ہی تھا مگر ایک مٹیالے رنگ کا تھا جس نے باقی دو کی طرح عربی لباس تو پہنا ہوا تھا مگر ہمیں تھوڑا تھوڑا شک ہورہا تھا کہ وہ پاکستانی ہے اُس نے بالآخر روانی سے اردو بول کر ہمارا سسپنس توڑہی دیا۔
 
ہم لوگوں نے ۷۵۰ بستروں کے ماڈرن ہسپتال کی نہ صرف خوب صورت بریفنگ دی بلکہ اُس کے قیام کے لیے علاقے کی ضروریات کا رونا روتے ہوئے خوب تبلیغ بھی کی تاہم ہم نے محسوس کیا کہ وہ چھوٹے چھوٹے سے کام کر کے زیادہ خوش ہونا چاہ رہے تھے۔ جب ہم نے او رڈی پی او ذیشان اصغر نے یہ کیا کہ ہسپتال کے ساتھ عملے کی رہائشوں کی بھی ضرورت ہے کیونکہ بڑے بڑے ایکسپرٹ اسپیشلسٹ ڈاکٹر دور دوراز کے ضلعوں سے بھی خدمت کے لیے آئیں گے تو بڑے قطری شہزادے نے خاصہ منہ بنایا اور کہا کہ یہ ہماری ذمہ داری نہیں۔
تاہم تھوڑی دیر میں ہمیں محسوس ہوا کہ وہ اتنے بڑے بڑا جیکٹ کی حامی بھرنے کو تیار نہیں تو ہم نے جیب میں چھپائی ہوئی متبادل تجویز باہر نکالی کر چلیں ہمارے سول ہسپتال کو ہی اپ گریڈ کردیں جہاں نیوروسرجری اور بچوں کے علیحدہ وارڈ کی اشد ضرورت ہے اور دوسری ضروریات مثلاً ایم آر آئی اُن کی سخاوت کی منتظر ہیں۔ اس پہ وہ قدرے قائل دکھائی دیئے اور یوں ہم سب کا پروگرام ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال کے دورے کا بنا تاکہ موقعہ دیکھ کر فیصلہ کیا جائے کہ کہاں پہ یہ جدید ڈیپارٹمنٹ بنیں گے۔
تاہم ہسپتال کے دورے کے بعد انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ سرو ے کے لیے جلد ہی اپنی ٹیم بھیجیں گے۔ 
اس دن بھر کی ملاقات کے دوران اُن کے پاکستانی اسسٹنٹ کی کوشش تھی کہ ہم کوئی چھوٹا موٹا کام کروانے پر ہی راضی ہو جائیں اور وہ دو چار سکولوں کی چار دیواری بنا کر یا ٹائلٹس بناکر سرخرو ہو لیں مگر ہم سب ٹھان بیٹھے تھے کہ اگر وہ کچھ دینا چاہتے ہیں تو ایسا دیں کہ لگے کچھ دیا ہے، ٹرخایا نہیں۔
اُن کے ساتھ بیٹھے بیٹھے اور پھر سول ہسپتال میں چلتے چلتے ہیں شک ہوا کہ کہیں انہیں بھی تو کسی پاکستانی شیخ کا خون نہیں لگ گیا۔ کیونکہ ہمیں معلوم ہوا تھا کہ پچھلے دنوں دوران شکار حادثہ ہوا ہے اور ایک شہزادے کی کوئی ہڈی چٹخ گئی تھی جس کی وجہ سے اُنہیں احساس ہوا کہ یہاں صحرا میں بھی کوئی ہسپتال ہونا چاہیے۔پاکستانی شیخوں کو تو ہم یونہی بدنام کیے جاتے ہیں ہمیں اس دن احساس ہوا کہ اب کنجوسی کے جراثیم عربی النسل شہزادوں میں بھی سرایت کر گئے ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ یہ ”جراثیم کنجوسی“ محض چند منصوبوں کے لیے ہیں نہ کہ تفریح کی باقی اقسام کے لیے ہم اُس دن بہت حیران ہوئے کہ اب یہ قطری قطرہ قطرہ کرکے امداد دے کر ہم پر احسان چڑھانا چاہتے ہیں۔
اللہ کرے کہ وہ صدق دل سے یہ تعاون کریں اوراسے احسان نہ سمجھیں اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکرانہ ادا کریں ورنہ ہم اپنے تئیں تو پہلے بھی جی رہے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کررہے ہیں، پھر بھی اگر قطری شہزادے واقعی دریادل ہوتے ہوئے صحرا میں بڑا سا جدید ہسپتال بنا دیتے ہیں تو وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے کہ انہیں کسی پاکستانی شیخ کا خون نہیں لگا اور ابھی بھی وہ دکھی انسانیت کا درد محسوس کرتے ہیں۔

Chapters / Baab of Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana