Episode 29 - Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana

قسط نمبر 29 - آ بیل مجھے لتاڑ - ڈاکٹر محسن مگھیانہ

                                  حاضری 

کسی دور دراز کے علاقے کی ٹیچر منہ اندھیرے شہر سے ویگن میں بیٹھی اور میلوں کا فاصلہ طے کر کے سکول کے قریب پکی سڑک پر اُتر گئی کہ آگے سکول کو کچاراستہ جاتا تھا اور ویگن وہاں تک نہیں جاسکتی تھی۔ وہ تیز تیز قدم اُٹھاتی ہوئی جارہی تھی کیونکہ اُسے معلوم ہوا تھا کہ اس ضلع کا سب سے بڑا نیا افسر حاضر یوں کے بارے میں خاصی سختی کرتا ہے۔
وہ تقریباً بھاگتی ہوئی سکول کی طرف بڑھ رہی تھی کہ کیا دیکھتی ہے کہ پکی سڑک پر ایک سرکاری گاڑی رُکی ہے اور اُس میں سے ایک افسر نما شخص بھاگ کر اُس کے سکو ل کی طرف آرہا ہے اور اُس کے پیچھے پیچھے اس کے دو مصاحب اُس کی تیز رفتاری کو پکڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔

(جاری ہے)

اُسے شک ہوا کہ یہ وہی بڑا سخت ضلعی افسر ہے سواُس نے اپنی رفتا اور بڑھا دی۔ ضلعی افسر کو بھی یہ یقین ہوگیا کہ یہ ٹیچر ہے اور آٹھ بجنے سے پہلے سکول پہنچ کر حاضری لگانا چاہتی ہے۔

اب دونوں میں مقابلہ شروع ہوگیا کہ کون پہلے سکول پہنچتا ہے۔ پھر آخر کو مردآخر مرد ہوتا ہے۔وہ بڑا ضلعی افسر بھی آخر مرد تھا اُس نے کھیتوں میں سے شارٹ کٹ لیا اور بھاگتا ہوا اُس بیچاری خاتون ٹیچر سے چند سیکنڈ پہلے سکول پہنچ گیا اور حاضری رجسٹر پر فاتحانہ انداز میں قبضہ کرلیا اب تو حاضری رجسٹر پر سر کار کا قبضہ ہوگیا تھا۔ یوں اُس بڑے ضلعی افسر نے اُس ریس میں ہاری ٹیچر کو ڈانتے ہوئے کہا کہ آپ پندرہ سیکنڈ دیر سے پہنچی ہیں اس لیے میں آپ کی غیر حاضری لگاتا ہوں۔
 
اس طرح کی خبطی افسر ناپید نہیں تو کمیاب بھی نہیں۔ جو اپنے دماغی خلل کی وجہ سے اپنے ماتحتوں کو تنگ کر کے روحانی سکون محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں دفاتر میں جسمانی حاضری بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔اکثر اس قسم کے ”خبطیانہ“ماحول میں ماتحت جسمانی طورپر تو حاضر ہوتے ہیں مگر ذہنی طورپر نہیں۔گوکہ اس بات سے کسی کو بھی انکار نہیں کہ ہم لوگ وقت کو اہمیت نہیں دیتے اور اس کی پابندی کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتے تاہم دو چار منٹ کی تاخیر تو کبھی کبھار ہوجائے تو اُسے معاف کردینا چاہیے۔
 
حاضری کی جسمانی قسم سے تو ہم سب واقف ہی ہیں مگر جن لوگوں نے ہڈ حرامی کی چادر اوڑھی ہو اُن سے بھلاکام لینا کون سا آسان کام ہے۔ اسی لےئے تو انگریزی محاورہ بنا تھا کہ آپ گھوڑے کو پانی تک تو لے جاسکتے ہیں مگر اسے پینے پر مجبور نہیں کرسکتے۔ ہمارے دفاتر میں ایسے گھوڑے بکثرت پائے جاتے ہیں جنہیں آپ لاکھ کوشش کے باوجود بھی پانی نہیں پلا سکتے۔
ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو آنکھوں آنکھوں میں یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ ”مینوں نوٹ وکھا میرا موڈبنے“ (مجھے کرنسی نوٹ کی جھلکی کراؤ تب میرا موڈ بنے کہ میں آپ کا کام کروں)۔ 
جو لوگ ہاسٹلز میں نہیں رہے اُنہیں شاید معلوم نہ ہو کہ ہاسٹلز کے میس کی ”حاضری“ کیا ہوتی ہے۔ یہ دفاتر کی حاضری سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔
محض ہوسٹلز میں تو ایک وقت میں کئی حاضریاں لگتی ہیں مثلاً محض چاول یا دال پکے تو ایک حاضری، گوشت پکے تو دو حاضریاں، دال چرغا پکے تو تین حاضریاں… ان ہاسٹلز میں تو ایک طالب علم میس مینجر ہوتا ہے جس کی بڑی ٹور شور ہوتی ہے۔ تاہم کیونکہ ہمارے ہاسٹلز کے طلبا بھی باقی معاشرے کے عکاس ہوتے ہیں تویہاں بھی ایسے طلبا ء ہوتے ہیں جو مونچھوں پہ ہاتھ پھیر کر (اگر مونچھیں رکھی ہوں… مونچھیں نہ ہوں تو رُعب ڈالنے کے لیے دوسرے طریقے بھی استعمال کئے جاتے ہیں) کہتے ہیں ”اوئے میری حاضری نہ لاویں“ (میری حاضری نہ لگانا)۔
مطلب یہ ہوتا ہے کہ بے شک میں جتنی مرضی ”حاضریاں“ کھاجاؤں میری ایک بھی حاضری نہیں لگنی چاہیے۔ دورغ برگردن راوی لوگ کہتے ہیں کہ ایسے لوگ بعد میں پولیس ( یا اس سے ملتے جلتے رُعب والے محکمے میں ) میں بھرتی ہوکر بڑے کامیاب افسر بنتے ہیں۔ 
کئی جگہ ان دفتری حاضریوں کے لیے بائیوں میڑک سسٹم بھی لگایا جاچکا ہے گوکہ انتخابات میں ابھی اس کی پوری قوم منتظر ہے (ماسوائے اُن کے جنہوں نے خود اسمبلیوں کا اُمیدوار بننا ہے کہ یوں اُن کی کامیابی کے امکانات معدوم ہوجائیں گے) ایک حاضری کی قسم وہ بھی ہے جو سائل بیچارے اُن کے درپہ جاکے دیتے ہیں جن سے اُنہیں کام ہوتا ہے ایسے سائلوں کا جمگھٹا صبح ہی سے ایم پی اے، ایم این اے اور وزیروں کے ڈیروں پہ دیکھنے کوملتا ہے تاہم ان بڑے لوگوں کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ رات دیر تک سونے کی وجہ سے ان کا صبح جلد اُٹھنا ممکن نہیں ہوتا اور پھر جب بادل نخواستہ اُٹھ جائیں تو غسل بھی فرمانا ہوتا ہے(واجب ہو یا نہ ہو) پھر تیار ہونے اور ناشتے کا عمل بھی بڑا وقت طلب ہوتا ہے۔
 
ایک حاضری اس سے بالکل مختلف نوعیت کی ہوتی ہے کہ جو لوگ روحانی طورپر بزرگوں،پیروں، فقیروں اور ولیوں کے ہاں خوش دلی سے اپنیدلی مراد پانے کو دیتے ہیں اُس میں کسی قسم کی بے دلی کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ روحانی سکون ملتا ہے۔ تاہم اُس کے لیے یہ ضروری ہے کہ خاص طورپر زندہ شخصیت کو باعمل اور شریعت کا حامل ہونا چاہیے۔
ورنہ سادہ لوح مرید دو نمبر پیروں سے بھی لٹتے دیکھے ہیں البتہ سب سے بڑی حاضری وہی ہوتی ہے جو ہم مدینے والی سرکار کے ہاں دیتے ہیں اور یہ حاضری ایسی ہے کہ اس کے لیے کسی پیسے یا ویزے کی ضرورت نہیں بس مدینے کی طرف منہ کر کے دُعا مانگنے کی ضرورت ہے۔ یہ روحانی حاضری ہمیں اللہ کے قریب کردیتی ہے کیونکہ وہی توو جہ تخلیق کائنات ہے۔ ہمارے پیارے نبی محمد نہ ہوتے تو یہ خدائی بھی نہ ہوتی کہ رب تعالیٰ کی ذات نے خود پیار کرنے کے لیے اس ذات کو تخلیق کیا لیکن اس روحانی حاضری کا فائدہ تبھی ہے جب اس حاضری کے بعد ہم اپنے آپ میں کوئی روحانی تبدیلی محسوس کریں اور پھر عملی زندگی میں اس کا مظاہرہ بھی کریں ورنہ دونمبر کی حاضری اللہ کو بھی پسند نہیں… 

Chapters / Baab of Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana