Episode 30 - Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana

قسط نمبر 30 - آ بیل مجھے لتاڑ - ڈاکٹر محسن مگھیانہ

                             سب اچھا ہے

سب اس کا مذاق اُڑا رہے تھے لیکن ہمدردی کوئی نہیں کر رہا تھا۔اُسے لگتا تھا کہ آج اُس کی زند گی کا سب سے بڑا دن ہے۔ حالانکہ چند منٹ پہلے وہ اپنے آپ کو بہت بڑا خوش نصیب انسان گردان رہا تھا۔ پٹرول پمپ کے سامنے والی دُکان میں اونچی آواز سے سلمیٰ آغا گا رہی تھی۔
دِل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے
اُسے یوں لگنے لگا کہ آج واقعی اس کے دل کے سارے ارماں آنسوؤں کے سیلاب میں بہہ جائیں گے۔ پھر بھی اس نے ہمت نہ ہاری اور قطار میں کھڑا ہو گیا۔ اُس کے ساتھیوں نے قطار میں کھڑے لوگوں سے بھی دست بدستہ گزارش کی کہ اسے سب سے آگے آنے دیا جائے لیکن کوئی بھی ان کی بات ماننے کو تیار نہ ہوا۔

(جاری ہے)

انہوں نے ایمر جنسی سچوایشن کا بھی واسطہ دیامگر لائن میں کھڑا کوئی بھی بندہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ وہ بیچارہ خود واسطے دیتا رہا کہ خدا را اس کی مجبوری سمجھیں۔جو شادی شدہ تھے اُن سے استدعا کرتا رہا کہ جب تمہاری شادی ہوئی تھی تمہیں اس قسم کے مسئلے کا سامنا ہوتا تو پھر بھلا تم کیا کرتے۔ شادی شدہ لوگ ہنس کر اُسے کہتے ”ہم تو شادی کرکے ہی پچھتا رہے ہیں۔
بہتر ہے ابھی بھی موقع ہے بھاگ جاؤ“ اُس نے غیر شادی شدہ لوگوں کی بھی منت کی کہ مجھے پٹرول لے لینے دو میری بارات لیٹ ہوگئی ہے،کہیں لڑکی والے رشتے سے ہی نہ انکار کردیں مگر وہ کہتے جب ہمارا رشتہ طے ہوگا تو دیکھ لیں گے،شاید اُس وقت تک پٹرول کی نایابی کا یہ بحران بھی ختم ہوجائے۔ تاہم کوئی کہتا ”میں اپنے رکشے کے لیے اس کین سے پٹرول بھروانا ہے“ کوئی کہتا ”میں نوکری سے پہلے ہی لیٹ ہوگیا ہوں“ کوئی کہتا ہے میں نے تو مریض کو ہسپتال لے جانا ہے۔
وہ ہر طرف سے مایوس ہوگیا تو کسی نے خوشخبری سنائی کہ حکومت نے پٹرول کی کمی کے اس اچانک بحران سے نمٹنے کے لیے سی این جی کھول دی ہے تو وہ اپنی سجی سجائی کار کی طرف بھاگا۔ اُس کے سب باراتیوں نے دھکا لگایا۔ اتنی دیر تک سی این جی اسٹیشن پر بھی رش ہوگیا تھا تاہم وہاں پر موجود لوگ کچھ نرم دل دکھائی دیئے تو انھوں نے دُولہا کی گاڑی کو ترجیحی بنیادوں پر سی این جی بھروانے کی اجازت دے دی۔
البتہ اُس سی این جی سٹیشن والے نے کہا کہ پہلے پچھلے اُدھار کے ہزار روپے ادا کرو تو پھر ٹینکی بھردوں گا۔ اُس بے چارے نے کہا ”آج میری بارات جانی ہے تم بے شک ہزار کی بجائے دوہزار لے لو لیکن جلدی سے گیس بھر دو تاکہ میں ”منز ل دلہن“ تک پہنچ سکوں۔ 
ادھر دُلہا میاں اپنی پریشانی میں تھے، اُدھر وزیر اعظم اپنی پریشانی میں ماتھے پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے تھے کہ کس کو معطل کروں،اگر خزانے والوں نے پٹرول کمپنی والوں کو ادائیگی نہیں کی تو وہ وزیر بھی اپنا رشتہ دار ٹھہرا اُسے کیسے معطل کروں۔
پٹرولیم کا وزیر بھی پرانا دوست ہے اُسے معطل کروں تو وہ بھی ناراض ہوجائے گا اور پھر یہاں استعفوں کا رواج تو ہے نہیں کہ وزیر کسی بحران پر شرمندگی محسوس کرتے ہوئے خود ہی مستعفی ہوجائیں بلکہ وہ تو یہ کہتے ہیں کہ فلاں کے دور میں ایسا ہوا تووہ معطل نہیں ہوا یا استعفیٰ نہیں دیا تو ہم کیوں ایسا کریں۔آخر باہمی مفاہمت وگٹھ جوڑ سے چار بکروں کی قربانی کا فیصلہ ہوا بلکہ اُنہیں یہ یقین دلایا گیا کہ فی الحال تمہیں قربان نہیں کرتے ساتھ والے کمرے میں باندھ دیتے ہیں۔
فی الحال ہنگامی حالات ہیں، یہیں آرام کرو، جلد ہی تمہیں آزاد کردیا جائے گا۔ 
ویسے مختلف ادوار میں پاکستان میں سرمایہ دار یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اب کس جنس کا بحران پید اکیا جائے۔ ایک پارٹی کی حکومت اگر کسی وقت بحران پیدا ہونے سے پہلے پاور سٹیشن لگانے کا فیصلہ کرتی ہے تو اپوزیشن کھپ ڈال دیتی ہے کھا گئے بھئی کھاگئے،یہ کمیشن کھاگئے۔
پھر جب وہ حکومت میں آتے ہیں تو وہی بحران اُن کو ہی کھانے کو آجاتا ہے۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں مگر سرمایہ دار فیصلہ کرتے رہتے ہیں کہ اب کس چیز کا بحران پیدا کرنا ہے۔ حکومت کی توجہ بجلی سے ہٹتی ہے تو اس کا بحران پیدا ہو جاتا ہے۔ وہ اُدھر متوجہ ہوتی ہے تو گیس کا بحران جنم لیتا ہے۔ وہ اُسے سدھارتی ہے تو مارکیٹ سے چینی ناپید ہوجاتی ہے۔
چینی کے پیچھے پڑتی ہے تو اُسے ابھی سنبھالا ملتا ہی ہے کہ پٹرول ناپید ہوجاتا ہے ایسی شاید کوئی حکومت پاکستان کو نصیب ہی نہیں ہوئی کہ وہ ہر شعبہ پہ توجہ دے۔ یہاں تو حال پہ نظر نہیں رکھ سکتے تو مستقبل کے منصوبے کیا خاک بنائیں گے۔ ہمارے لیے سب سے زیادہ حیرت کی بات تو یہ ہوتی ہے کہ جب ہم یہ خبر سنتے ہیں کہ وزیر اعظم یا صدر نے بحران کا نوٹس لے لیا ہے اور وہ نوٹس بھی اُس وقت لیا جاتا ہے جب عوام دکھ سے ہلکان ہوچکی ہوتی ہے۔
اس سے یوں لگتا ہے کہ حکمران سو رہے ہوں اور اچانک اُسے کوئی جگا کے کہے کہ سرجی عوام کو حالت اب بہت بُری ہوچکی ہے۔ تھکن سے چور چور ہوچکے ہیں اب کہیں آپ ہی کا تختہ نہ اُلٹ دیں تو ایسے میں ہم ٹیلی ویژن پر یہ خبر چلوا دیتے ہیں کہ آپ نے اس بات کا نوٹس لے لیا ہے۔ عوام اس پہ خوش ہوجائے گی۔ آپ بے شک بعدازاں ”علانِ نوٹس“ پھر مراقبے میں چلے جائیں۔
یوں چند سیانوں کے مشورے سے یہ بحران وقتی طورپر ٹل جاتا ہے اور نئے بحران کے آنے تک حکومت کو سانس لینے کا زریں موقع مل جاتا ہے۔ 
نوٹس لینے کا مطلب تو کچھ یوں نکلتا ہے کہ حکمران کسی اور دنیا میں رہتے ہیں اور عوام کسی اور میں… یہ بھی حقیقت ہے کہ حکمرانوں کے ارد گرد ایسے ہجوم کی کمی نہیں ہوتی جو یقین دلاتے رہتے ہیں کہ ”سب اچھا ہے“۔ 

Chapters / Baab of Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana