Last Episode - Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana

آخری قسط - آ بیل مجھے لتاڑ - ڈاکٹر محسن مگھیانہ

                                   باڈی گارڈ

وہ ہمارے پاس آئیں تو ہم حیران ہوکے دیکھتے رہے کہ اُن کے ساتھ گن مین بھی تھا۔ یہ تو ہمیں یقین تھا کہ اُنہیں ہماری طرف سے کوئی خطرہ نہیں تھا پھر ایک شاعرہ کے ساتھ گن میں ہونے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔اب بھلا محض حسن کی حفاظت کے لیے بھی ایسا انتظام کرنا جچتا نہیں تھا۔
اب رہی یہ بات کہ کہیں کوئی اُن کے شعر نہ چرالے جائے تو ہم یا کوئی اور مردانہ شاعر زنانہ شعر چراکے بھلا کیا کرتا جب کہ جھنگ میں اتنی زور ور کوئی شاعرہ دکھائی نہیں دے رہی تھی کہ زبردستی ریحانہ قمر کے شعر چرا لیتی۔ ہم نے یہ بھی سوچا کہ پچھلے دنوں شاعر کا پورا مسودہ اُس کی پالتو بکری کھاگئی تھی۔

(جاری ہے)

سوگن مین اس لیے بھی ضروری تھا کہ اس قسم کی کوئی واردات واقع پذیر نہ ہونے پائے۔

آج کل پاکستان میں بڑے لوگ ”شوشا“ کے لیے بھی حفاظتی گارڈ رکھ لیا کرتے ہیں۔ تاہم ریحانہ قمر کے اعزاز میں تو روٹری کلب جھنگ کا سالانہ مشاعرہ شکر گنج شوگر ملز میں ہونا قرار پایا تھا جہاں سیکورٹی کا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا اور محض ”شوشا“ والی توقع ان سے تھی نہیں۔ 
ہمارے استفسار پر سسپنس کو توڑتے ہوئے ریحانہ قمر نے ہمیں بتایا کہ چونکہ وہ امریکہ میں کاروبار کرتی ہیں اور یہاں ٹوبہ میں بھی ان کے کچھ بزنس پوانٹس ہیں تو خطرہ تو رہتا ہے نا… شکر ہے یہ بات کلیئر ہوگئی ورنہ ایسا بھی ممکن ہوسکتا تھا کہ اُن کا کلام کوئی چوری کرلے کیونکہ جب اُنھوں نے اپنے اعزاز میں اس منعقد ہونے والی شام میں کلام پڑھنا شروع کیا تو وہ اس قدر دل کو ٹھاہ کرکے لگنے والا تھا کہ اسے چوری کیے جانے کا بھی احتمال ہوسکتا ہے۔
 
یوں تو بیرون ملک سے آئے ہوئے ہر شاعر اور شاعرہ کی پاکستان میں خوب پذیرائی کی جاتی ہے اُس کے کئی عوامل ہوتے ہیں ایک تو یہی کہ کلام بڑاسَچا اور ُسچا ہو۔ دوسرے یہ کہ لوگ ان سے باہر کے ملکوں کے قصے سن لیں (گوکہ اب کیبل اور سیٹلائٹ ٹی وی کے چینلز کی وجہ سے دنیا سکڑ کر رہ گئی ہے اور باہر کی پل پل کی خبریں پہنچتی ہیں) البتہ کچھ کے دل میں یہ خواہش موجزن ہوتی ہے کہ موصوف یا موصوفہ بیرون ملک مشاعرہ میں مدعو کرلیں۔
یوں وہ بڑھ چڑھ کر کلام پر واہ واہ اور مکرر مکرر کرتے رہتے ہیں لیکن اگر شاعر کے کلام میں کوئی جدّت اور کوئی جذبیت نہ ہو تو ایسے شاعر وقتی طورپر تو چھا جاتے ہیں مگر اُن کی شہرت دیر پانہیں ہوتی۔ حیرت کی بات تو یہ تھی کہ روٹری کلب کے اس سالانہ مشاعرے میں جب ریحانہ قمر نے کلام پڑھنا شروع کیا تو سب نہ صرف واہ واہ کرنے پر مجبور ہوئے بلکہ جھوم اُٹھے۔
رات بھیگ چلی تھی۔ وہ اپنا کلام سناتی جارہی تھی لیکن سامعین کی طلب بڑھتی جارہی تھی۔ 
ریحانہ قمر کا شعری سفر ۱۹۹۶ء میں شروع ہوا جب اُن کا پہلا شعری مجموعہ ”سوچ کی دہلیز“ پر شائع ہوا یہ شاید ایک فطری امر ہے کہ بالی عمر یا میں ہی امریکہ چلے جانے پر اُنھوں نے پاکستان کو بہت مِس کرنا شروع کیا۔ گو وہاں اُن کے کاروبار کا کیلی فورنیا میں خاصا وسیع نیٹ ورک ہے مگر روح کی غذا کو وہ ترستی رہیں یہی وجہ تھی کہ جب اُن کا دوسرا شعری مجموعہ ”مگر تم اپناخیال رکھنا“ شائع ہوا تو اُس نے ادبی دنیا میں دھوم مچادی۔
جب شاعر کو پذیرائی ملتی ہے تو اُس کے فن کو بھی جلا بخشی جاتی ہے۔ یوں اُن کا یہ شعری سفر جاری رہا اور ”ہم پھرنہ ملیں شاید“، ”مرکے بھی تمہارے ہیں“، ”کاش تم سے کوئی بے وفائی کرے“ اور ”تم کہاں گم ہو زندگی میری“ جیسے شعری مجموعے منصئہ شہود پر آئے۔ اب تو اُن کی کلیات ”سیپیاں چنتے شام ہوئی“ بھی شائع ہو کر پذیرائی حاصل کرچکی ہیں۔ علاوہ ازیں اب تو وہ ملکوں ملکوں جا کے مشاعرے پڑھ چکی ہیں اور داد سمیٹ چکی ہیں۔
بھارت سے بھی انہیں بہت بڑے اعزاز کے ساتھ نوازا گیا ہے اعزاز کے ساتھ انعامی رقم بھی لاکھوں میں ہے۔ 
اس بار ریحانہ قمر جو پاکستان آئی ہیں تو اُنہیں ادبی تنظیموں نے ہاتھوں ہاتھ لیا ہے۔ لاہور،کراچی اور اسلام آباد،فیصل آباد سے ہوتی ہوئی وہ مسقط جا پہنچیں۔ ہمیں تو خطرہ تھا کہ وہیں سے امریکہ نہ چلی جائیں مگر پھر بھی وہ واپس آکر جھنگ تشریف لائیں اور دوبارہ سے فیصل آباد میں جا کر اپنی کیسٹ کی رونمائی کو پہنچیں۔
معاف کیجیے گا اب تو کیسٹ کا زمانہ ہی نہیں رہا۔ اب تو سی ڈی کی رونمائی ہوتی ہے۔ماشاء اللہ اُن کا کلام پاکستان اور ہندوستان کے بڑے بڑے گائیکوں نے گایا ہے اور عوامی حلقوں میں سی ڈیزکو خاصی پذیرائی ملی ہے۔ نمونے کے طورپر اُن کا کچھ کلام حاضر ہے۔ 
محبت سے مُکر جانا ضروری ہوگیا تھا 
پلٹ کر اپنے گھر جانا ضروری ہوگیا تھا 
نظر انداز کرنے کی سزا دنیا تھی تجھ کو 
ترے دل میں اُتر جانا ضروری ہوگیا تھا 
مکان تک تو مجھے چھوڑ کر گیا سورج 
پھر اس کے بعد جانے کدھر گیا سورج 
تجھے دل سے بھلا دینے کے قابل ہوگئی ہوں 
کہ میں خود کو یہ سزا دینے کے قابل ہوگئی ہوں
بادشاہا تیرے اعصاب پہ طاری میں تھی 
وہ بھی دن تھے کہ تری راجکماری میں تھی 
یہ بھی سچ کہ مجھے مار دیا ہے تو نے 
یہ بھی سچ ہے کہ تجھے جاں سے پیاری میں تھی 
درد کب تھا؟ وہ ترے دل میں جنوں تھا میرا 
اشک کب تھے؟ وہ تری آنکھ سے جاری میں تھی

Chapters / Baab of Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana