Episode 7 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 7 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

عدالتوں اور جماعتوں کی ریاست
جدید آزاد جمہوریتوں میں حکومت کی تین شاخیں ہوتی ہیں…یعنی ایگزیکٹو، عدلیہ اور قانون ساز ادارے(مقنّنہ)…اور سیاسی اداروں کی ان تین شاخوں سے آگے… ریاست، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت، جیسے اصول جُڑے ہیں۔ ایگزیکٹو وہ شاخ ہے جو قوانین کے نفاذ اورپالیسی کے اطلاق کے لیے طاقت استعمال کرتی ہے۔ عدلیہ اور مقننہ طاقت کی نگرانی کرتے ہیں اور اسے عوامی مقاصد کے راستے پر گامزن کرتے ہیں۔
امریکہ نے اپنے اداروں کی ترجیحات کے حوالے سے، حکومتی طاقت پر عدم اعتماد کی طویل روایت کے ساتھ…ہمیشہ ریاست پر طاقت کی نگران قوتوں یعنی عدلیہ اور مقننہ کو ترجیح دی ہے۔
ماہرسیاسیات اسٹیفن سکوورونک نے انیسویں صدی کی امریکی سیاست کو”عدالتوں اور جماعتوں کی ریاست“ کا نام دیا ہے، جہاں حکومت کے افعال، جو یورپ میں نوکر شاہی کی ایگزیکٹو شاخ انجام دیتی تھی،امریکہ میں وہ ججوں اور منتخب نمائندوں کے ذریعے انجام دئیے گئے۔

(جاری ہے)

پورے ملک میں بروئے کار لائے جانے کے قابل ایک جدید، مرکزی اور میرٹ کی بنیاد پر بیوروکریسی کی تخلیق کی ابتدا صرف 1880 کی دہائی میں کی گئی ، اور پیشہ ور سرکاری ملازمین کی تعداد میں نئی (بیوروکریسی کی)شروعات کے نصف صدی بعد آہستہ آہستہ اضافہ ہوا۔فرانس، جرمنی، اور برطانیہ جیسے ممالک میں اس طرح کی تبدیلیاں کہیں بعد میں اور بے حد ہچکچاہٹ کے بعداختیار کی گئیں۔
ایک زیادہ جدید انتظامی ریاست کی طرف تبدیلی کے ساتھ بیسویں صدی کے وسط کی دہائیوں کے دوران حکومت کے حجم میں بھی بہت زیادہ اضافہ سامنے آیا تھا۔ مجموعی طور پر ٹیکسوں اور سرکاری اخراجات دونوں کی سطح میں 1970 کی دہائی کے بعد سے بہت زیادہ تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے: 1980 ء میں صدر رونالڈ ریگن کے انتخاب کے بعد شروع ہونے والے فلاحی ریاست کے خلاف شدید ردعمل کے باوجود، ”بڑی حکومت“ کو ختم کرنا بہت مشکل لگتا ہے۔
لیکن بیسویں صدی میں حکومت کے دائرہ کار میں نظر آنے والے بظاہر ناقابل واپسی اضافہ نے، نظر نہ آنے والے انداز میں اس کے معیار میں زوال کو جنم دیا ہے۔ یہ اس وجہ سے بہت زیادہ ہوا ہے کہ امریکہ بعض طریقوں سے واپس ”عدالتوں اور جماعتوں کی ریاست“ کے نظام کی طرف لوٹ آیا ہے، یعنی ایسی ریاست کی طرف جس میں عدلیہ اور مقننہ نے ایگزیکٹو کے بہت سے کاموں کو غصب کرلیا ہے اور حکومت کے نظام کو مکمل طور پر بے ربط اور غیرفعال بنادیا ہے۔
عدالتوں کی کہانی ان مختلف افعال کو بتدریج عدالتی عمل کے تحت کرنے اور اس رجحان میں مسلسل اضافے سے متعلق ہے،جو دیگر ترقی یافتہ جمہوریتوں میں انتظامی بیوروکریسی کے ذریعے انجام دئیے جاتے ہیں، اور یہ عمل ایک دھماکے کی صورت مہنگی قانونی چارہ جوئی، فیصلہ سازی کی سُست روی، اور انتہائی متضاد قوانین کے نفاذ کی طرف لے جارہا ہے۔ امریکہ میں آج عدالتیں، حکومت پر نگرانی کا کام کرنے کے بجائے، حکومت کی توسیع کے لئے متبادل ذریعہ بن گئی ہیں۔
کانگریس کی طرف سے متوازی طور پر حکومت کے اختیارات کو غصب کیا گیا ہے۔مفادات رکھنے والے گروپوں نے، اپنی صلاحیتیں کھو کر،بدعنوان قانون سازوں کو براہ راست رشوت کے ذریعے، قانون سازوں کو پکڑنے اور کنٹرول کرنے کے دوسرے ذرائع کا پتہ چلا لیا ہے۔ یہ مفاد پرست گروہ ، معاشرے میں اپنے مقام سے کہیں ہٹ کے اثرورسوخ استعمال کرتے ہیں،ٹیکسوں اور اخراجات کے تناسب کو بگاڑتے،اور بجٹ کو جوڑتوڑ کرکے اپنے حق میں کرنے کی صلاحیت کے بل پر مجموعی خسارے کی سطح میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔
وہ پبلک مینجمنٹ کے معیار کو اُن کئی طرح کے مینڈیٹ کے ذریعے کم کردیتے ہیں، جن کی حمایت کے لیے وہ کانگریس کو مجبور کرتے ہیں۔
دونوں مظاہر…یعنی انتظامی امور کا عدالتی عمل کے تحت انجام پانا اور مفاد پرست گروہوں کی طرف سے اثر و رسوخ کا پھیلاوٴ… لوگوں کے حکومت پر اعتماد کو کمزور کرتے ہیں۔حکومت پر بد اعتمادی مسلسل جاری رہتی ہے اور خود بخود پنپتی رہتی ہے۔
ایگزیکٹو اداروں پر بد اعتمادی انتظامیہ پر مزید قانونی پابندیوں، کے مطالبات کی طرف لے جاتی ہے، جو حکومت کے معیار اور افادیت کو کم کر دیتی ہیں۔اس کے ساتھ ہی، حکومتی خدمات کے لیے مطالبات ، ایگزیکٹو پر نیا مینڈیٹ مسلط کرنے کے لیے کانگریس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ جنہیں پورا کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔ یہ دونوں عمل نوکر شاہی کی خود مختاری میں کمی کی طرف لے جاتے ہیں، جو نتیجتاً ایک متعصب،پابندیوں میں بندھی ہوئی ،غیرتخلیقی اوربے ربط حکومت کی طرف جاتے ہیں۔
اس کانتیجہ نمائندگی کا بحران لیکر آتا ہے، جس میں عام شہری یہ محسوس کرتا ہے کہ جمہوری سمجھی جانے والی ان کی حکومت اب صحیح معنوں میں ان کے مفادات کی عکاسی نہیں کرتی ہے اور وہ ایک مبہم قسم کی اشرافیہ کے قبضہ میں ہے۔ اس رجحان کے بارے میں ستم ظریفی اور عجیب بات یہ ہے کہ نمائندگی کا یہ بحران ان اصلاحات کی وجہ سے اتنے بڑے پیمانے پر پیدا ہوا ہے، جنہیں نظام کو زیادہ جمہوری بنانے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔
درحقیقت ان دنوں، امریکی ریاست کی گنجائش سے بہت زیادہ قانون اوربہت زیادہ جمہوریت ہے۔
جب جج ہی غیر مہذب ہوگئے
بیسویں صدی کے امریکہ کی تاریخ میں ایک عظیم موڑ سپریم کورٹ میں پیش ہونے والا 1954کا براؤن بمقابلہ تعلیمی بورڈ مقدمہ تھا، جس نے 1896کے پلیسی وی بمقابلہ فرگرسن مقدمے کے فیصلے کو کالعدم قرار دلا دیا تھا۔براؤن کے مقدمے کا فیصلہ سماجی حقوق کی تحریک کا نقطہٴ آغاز تھا۔
جس نے نسلی مساوات کے لئے رسمی طور پر راہ میں حائل رکاوٹیں ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اور اس نے افریقی نژاد امریکیوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دی۔اس کے بعدنئے سماجی قوانین کو نافذ کرنے کے لیے عدالتوں کے استعمال کے ماڈل کی بہت سی دیگر سماجی تحریکوں نے بھی تقلید کی…ماحولیاتی تحفظ اور صارفین کی حفاظت سے لیکر خواتین کے حقوق اور ہم جنس پرستوں کی شادی تک کے لئے اسی ماڈل سے استفادہ کیا گیا۔
 بہادری کی اس داستان سے امریکی اس قدر آشنا ہیں کہ وہ اس بات سے آگاہ ہی نہیں ہوپاتے کہ یہ طریقہ کار سماجی تبدیلی کے لیے کس قدر عجیب ہے۔ براوٴن کے کیس میں ایک نجی رضاکارانہ تنظیم ”نیشنل ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف کلرڈ پیپل“ نے والدین اور ان کے بچوں کے ایک چھوٹے گروپ کی جانب سے ٹاپیکا کینساس تعلیمی بورڈکے خلاف کلاس ایکشن مقدمہ دائر کیا تھا۔
یہ پہل ظاہر ہے نجی گروپ کی طرف سے ہی کی جانی تھی کیونکہ ریاستی حکومت اور امریکی کانگریس دونوں کا راستہ ہی الگ تھلگ رکھنے والی قوتوں نے روک رکھا تھا۔ NAACP نے اپیلوں کی صورت مقدمہ کو سپریم کورٹ تک آگے بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا، جہاں مقدمہ کی پیروی مستقبل کے سپریم کورٹ کے جج جسٹس تھرگڈ مارشل نے کی۔امریکہ کی عوامی پالیسی سے متعلق جو بات منطقی طور پر سب سے اہم تبدیلی بن کر سامنے آئی وہ صرف اس لیے نہیں تھی کہ کانگریس نے لوگوں کی نمائندہ ہونے کے ناطے اس کے حق میں ووٹ دیا بلکہ غیر سرکاری افراد کی طرف سے اپنے طور پر عدالتی نظام کے ذریعے قوانین تبدیل کرنے کے لیے مقدمہ میں فریق بننا تھا۔
اس کے بعد ہونے والی تبدیلیاں جیسے کہ شہری حقوق ایکٹ اور ووٹنگ رائٹس ایکٹ کانگریس کی کارروائی کا نتیجہ تھیں، لیکن ان معاملات میں بھی، قومی قوانین کے نفاذ کی ابتدا، نجی پارٹیوں اور عدالتوں پر چھوڑ دی گئی تھی۔
عملی طور پرایسی کوئی دوسری لبرل جمہوریت نہیں ہے جو اس انداز میں کام کرتی ہو۔تمام یورپی ممالک، بیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں نسلی اقلیتوں، خواتین اور ہم جنس پرستوں کی قانونی حیثیت کے حوالے سے اسی طرح کی تبدیلیوں سے گزرے ہیں۔
لیکن فرانس، جرمنی، اور برطانیہ میں، یہ معاملات طے کرنے کے لیے عدالتوں کا استعمال نہیں کیا گیا، بلکہ ایک پارلیمانی اکثریت کی حیثیت سے کام کرنے والی قومی وزارت انصاف کے ذریعے یہ مقصد حاصل کیا گیا تھا۔ قانون سازی کے اصول میں تبدیلی کی حوصلہ افزائی سماجی حلقوں اور میڈیا نے عوامی دباوٴ کی صورت میں کی تھی، لیکن اسے حکومت نے خود تکمیل تک پہنچایا تھا نہ کہ نجی پارٹیوں نے انصاف کے نظام کے ساتھ مل کر یہ کام انجام دیا۔
امریکی طریقہ کار میں فریب اس تاریخی ترتیب کی وجہ سے آیا ہے جس سے اُس کے تینوں بنیادی ریاستی ادارے وجود میں آئے۔ فرانس اور جرمنی جیسے ممالک میں، سب سے پہلے قوانین تشکیل دئیے گئے، اس کے بعد ایک جدید ریاست اور پھر ان کے بعد جمہوریت۔امریکہ میں اس کے برعکس،سب سے پہلے انگریزی عام قوانین کی ایک بہت گہری روایت آئی، اس کے بعد جمہوریت، اور پھر ان کے بعد ایک جدید ریاست کی تعمیر شروع ہوئی۔
اگرچہ ان اداروں میں سے آخری یعنی جمہوریت کی ابتدا، ”پروگریسیو دور“ اور ”نیوڈیل“ کے دوران کردی گئی تھی،مگر امریکی ریاست ہمیشہ ہم پلہ یورپی یا ایشیائی ریاستوں کی نسبت کمزور اور کم اہلیت کی حامل رہی ہے۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ،قیام کے بعد سے ہی امریکی سیاسی کلچر ایگزیکٹو اتھارٹی پر بد اعتمادی کے گرد تعمیر کیا گیا ہے۔
اس تاریخ نے قانونی امور کے ممتاز سکالر رابرٹ کاگن کے الفاظ میں ”معاندانہ قانونی عمل“ کے نظام کو جنم دیا ہے۔
وکلاء نے جمہوریہ کے آغاز کے بعد سے ہی امریکی عوام کی زندگی میں ایک غیرمعمولی کردار ادا کیا ہے، ان کا کردار 1960اور 1970کی دہائیوں میں سماجی تبدیلی کے ہنگامہ خیز برسوں کے دوران ڈرامائی طور پر زیادہ وسیع تر ہوتا گیا۔ کانگریس نے اس دور میں شہری حقوق اور ماحولیات کے حوالے سے دو درجن سے زیادہ معاملات پر قانون سازی کی، جو مصنوعات کی حفاظت سے لیکر زہریلے فضلہ کی صفائی، اور نجی پنشن فنڈز سے لیکر پیشہ ورانہ حفاظت اور صحت جیسے مسائل کا احاطہ کرتے تھے۔
اس عمل نے ایک بہت بڑی ریگولیٹری ریاست کی آئینی توسیع کردی، جو کاروبار کرتی ہے، اور کنزرویٹو پارٹی آج تک اس بارے میں انتہائی جوش کے ساتھ شکایات کرتی ہے۔ 
اس کے باوجود اس نظام کو انتہائی مشکل بنادینے والی چیز بہت زیادہ ضابطے نہیں ہیں بلکہ وہ قانونی راستہ ہے جس کے تحت یہ نظام کام کررہا ہے۔کانگریس نے حروف تہجی کے انداز میں نئی وفاقی ایجنسیوں، جیسے کہ کمیشن برائے یکساں روزگار ، ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی، اور پیشہ ورانہ حفاظت اور صحت کی انتظامیہ ،کی تخلیق کی منظوری تو دی لیکن یہ واضح طور پر ان اداروں کو قانون بنانے اور اس کے نفاذ کے لیے وہ طاقت دینے پر تیار نہیں تھی جو یورپی یا جاپانی ریاستی اداروں کو حاصل ہے۔
کانگریس نے اس کے بجائے عدالتوں کونگرانی اور قانون نافذ کرنے کی ذمہ داری سونپ دی۔ کانگریس نے جانتے بوجھتے جماعتوں کی انتہائی بڑی تعداد کے حق مطالبہ(یعنی جسے مقدمہ کا حق حاصل ہو) کو زیادہ وسیع کرکے، قانونی چارہ جوئی کی حوصلہ افزائی کی۔ان(جماعتوں) میں سے بہت سی کسی مخصوص قانون سے صرف معمولی حد تک متاثر ہوئی تھیں۔
مثال کے طور پر وفاقی عدالتوں نے جس طرح 1964 کے سول رائٹس ایکٹ کے ٹائٹل سات کو دوبارہ لکھا ، اسے ماہرسیاسیات آر شیپ میلنیک نے ”بین الاقوامی امتیازی سلوک پر بنیادی توجہ مرکوز کرنے والے ماضی کے ایک کمزور قانون کو ماضی میں روا رکھے جانے والے امتیاز کے بدلے کے طور پر مضبوط مینڈیٹ میں تبدیل کرنا“ قرار دیا ہے۔
ماہر سیاسیات سین فرہنگ وضاحت کرتے ہیں کہ ” بجائے قوانین کے نفاذ کے لیے مناسب قوت رکھنے والی وفاقی بیوروکریسی فراہم کرنے کے، سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی کا اہم مقصد قانونی عمل کی زیادہ سے زیادہ نجکاری کرنا تھا۔اُنھوں نے ٹائٹل سات کے غالب انداز میں اطلاق کے لیے نجی مقدمات قائم کیے، اور یوں ایک ایسا انجن تیار کردیا جو آنے والے وقتوں میں ان کی توقع سے بھی کہیں بڑھ کر نجی قانونی چارہ جوئی سے نفاذ کی طرف لے جانے والا تھا۔
“مجموعی طور پر، نجی اداروں کی طرف سے قوانین کے نفاذ کے مقدمات، جو 1960کی دہائی میں ہر سال 100 سے بھی کم تعداد میں بڑھتے تھے، 1980کی دہائی میں ہر سال ایسے مقدمات کی تعداد میں 10ہزار کا اضافہ ہونے لگا، اور 1990کی دہائی کے آخر میں یہ مقدمات ہر سال 22ہزار کی تعداد سے بڑھ رہے تھے۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط