Episode 11 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 11 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

بچاؤ کا کوئی راستہ نہیں
 امریکی سیاسی نظام وقت کے ساتھ زوال کا شکار ہوا ہے کیونکہ اس کا چیک اینڈ بیلنس پر مبنی روایتی نظام مزید گہرا اور تیزی سے اڑے رہنے والا بن گیا ہے۔ تیز سیاسی تقطیب کے ماحول میں، یہ مرکز گریز نظام اکثریت کے مفادات کی نمائندگی کرنے کے کم قابل رہ گیا ہے اور یہ مفادات رکھنے والے(انٹرسٹ) گروپوں اور سرگرم تنظیموں کے خیالات کو ضرورت سے زیادہ نمائندگی فراہم کرتا ہے، جو اجتماعی طور پر خود مختار امریکی لوگوں میں اضافہ نہیں کرتے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ امریکی سیاسی نظام تقطیب(ایک ہی سمت میں گامزن رہنے والا) کا شکاراور غیرفیصلہ کن ثابت ہوا ہو۔ انیسویں صدی کی وسطی دہائیوں میں، یہ اپنے زیرنگیں علاقوں میں غلامی کی توسیع کے بارے میں فیصلہ نہیں کرسکا تھا، اور پھر صدی کی بعد کی دہائیوں میں یہ فیصلہ نہیں کرسکا تھا کہ کیا یہ ملک بنیادی طور پر زرعی معاشرہ ہے یا صنعتی۔

(جاری ہے)

چیک اینڈ بیلنس کا میڈیسونین نظام، اور انیسویں صدی میں ابھر کر سامنے آنے والا کلائنٹیلسٹک،جماعتوں پر مبنی سیاسی نظام … ایک الگ تھلگ، وسیع پیمانے پر زرعی ملک پر حکومت کے لئے موزوں تھے۔تاہم وہ شدید سیاسی بحران کو حل نہیں کرسکے،جو غلامی کی توسیع کے سوال پر سامنے آیا تھا، اور نہ ہی وہ بین البراعظم سطح کی معیشت،جوتیزی سے نقل و حمل اور مواصلات کی نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ جڑ رہی ہے ، کے تقاضوں کو پورا کرسکے۔
 آج ایک بار پھر امریکہ اپنے سیاسی اداروں کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے۔ چونکہ امریکی عوام حکومت پر اعتماد نہیں کرتے، اس لیے وہ عمومی طور پر اسے فیصلے کرنے کا اختیار دینے پر تیار نہیں ہوتے، جیسا کہ دوسرے جمہوری ممالک میں بھی ہوتا ہے۔ اس کے بجائے کانگریس پیچیدہ قوانین کی منظوری دیتی ہے جو حکومت کی خودمختاری کو کم کرتے اور فیصلہ سازی کو سُست اور مہنگا بنادیتے ہیں۔
اس کے بعد حکومت اچھی کارکردگی نہیں دکھا پاتی،جس سے لوگوں کے حکومت پر عدم اعتماد کی توثیق ہوجاتی ہے۔ ان حالات میں، لوگ زیادہ ٹیکس دینے سے ہچکچاتے ہیں، جن کے بارے میں وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت اُنھیں آسانی سے ضائع کردے گی۔ مگر مناسب وسائل کے بغیر، حکومت ٹھیک طرح سے کام نہیں کرسکتی، اور اس سے ایک بار پھر خود کو مطمئن کرنے کی پیش گوئی پوری ہوجاتی ہے۔
اس زوال کے رجحان کو واپس موڑنے کے راستے میں دو رکاوٹیں کھڑی ہیں۔ پہلی تو سیاسی معاملہ ہے۔ امریکہ میں بہت سے سیاسی فنکار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ نظام ٹھیک کام نہیں کررہا، لیکن اس کے باوجود اُن کا گہرا مفاد اس میں ہے کہ جو چیز جیسے ہے ویسے ہی رہے۔ کسی بھی جماعت کے لیے خود کو مفادات رکھنے والے(انٹرسٹ) گروپ کے پیسے تک رسائی سے محروم کرنے میں سود مند نہیں ہے، اور انٹرسٹ گروپ بھی ایسا نظام نہیں چاہتے جس میں وہ پیسے سے اثرورسوخ نہ خرید سکیں۔
چنانچہ جیسا 1880کی دھائی میں ہوا تھا، ایک اصلاحات کرنے والے اتحاد کو اُبھر کر سامنے آنا ہوگا جو گروپوں کو موجودہ نظام میں شراکت کے بغیر متحد کرے۔ مگر اس طرح کے بیرونی گروپوں کے درمیان اجتماعی عمل کا جذبہ پیدا کرنا انتہائی مشکل ہے…اُنھیں ایک قیادت اور واضح ایجنڈے کی ضرورت ہے، اور یہ دونوں چیزیں ہی اس وقت دستیاب نہیں ہیں۔
دوسرا مسئلہ نئے خیالات سے متعلق ہے۔
حکومتی غیرفعالیت کے مسئلے سے نپٹنے کا روایتی امریکی طریقہ جمہوری شراکت کو وسیع کرنا اور شفافیت لانا رہا ہے۔ مثال کے طور پر یہ 1970کی دہائی میں ہووا تھا جب اصلاحات نے زیادہ آزاد پرائمریز، عدالتوں میں شہریوں کی زیادہ رسائی، کانگریس کی کارروائی کی ہمہ وقت میڈیا کوریج کا راستہ ہموار کیا، حتیٰ کہ کیلی فورنیا جیسی ریاستوں نے غیر متوجہ حکومت کے الزام سے جان چھڑانے کے لیے بیلٹ کے استعمال جیسے اقدامات کو وسعت دی۔
لیکن جیسا کہ ماہر سیاسیات بروس کین نے نشاندہی کی ہے، زیادہ تر شہریوں کے پاس وقت ہوتا ہے اور نہ ہی وہ ایسا پس منظر یا رجحان رکھتے ہیں کہ عوامی پالیسی کے پیچیدہ مسائل پر قابو پا سکیں…شراکت میں توسیع نے محض بہت ہی منظم سرگرم گروپوں کے لیے زیادہ طاقت حاصل کرنے کی راہ ہموار کی ہے۔ اس مسئلہ کا واضح حل یہ ہوگا کہ جمہوری اصلاحات میں سے کچھ واپس لے لی جائیں، لیکن کوئی یہ تجویز دینے کی جرأت نہیں کرتا کہ ملک کی ضرورت کم شراکت اور شفافیت ہے۔
 
مایوسی پر مبنی حتمی بات یہ ہے کہ اس بات کے پیش نظر کہ ملک میں سیاسی بے چینی کس قدر، ازخود مضبوط تر ہورہی ہے اور نفع بخش تعمیری اصلاحات کے امکانات کس قدر کم ہیں، امریکی سیاست کا زوال اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ کوئی بیرونی دھچکہ آکر حقیقی اصلاحی اتحاد کی تشکیل اور اس کو عمل شکل دینے کا کام نہیں کرتا۔ 
افغانستان میں جنگ کا خاتمہ
فوج کے مرحلہ وار انخلاء کی ناکامی سے کیسے بچا جاسکتا ہے
(سٹیفن بڈل)
سٹیفن بڈل، جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں پالیٹیکل سائنس اور انٹرنیشنل افےئرز کے پروفیسر اور کونسل آن فارن ریلیشنز اسسٹنٹ سینئر فیلو فار ڈیفنس پالیسی ہیں۔
 
افغانستان میں موجود عالمی طاقتیں اس سال کے آخر تک سیکورٹی کی ذمہ داری مقامی افغان فوج اور پولیس کو سونپنے کی تیاری کررہی ہیں۔ امریکی صدر باراک اوباما کا یہ دعویٰ ہے کہ 2009سے اب تک کی جنگی کامیابیوں سے ہی ذمہ داری مقامی فورسز کو منتقل کرنا ممکن ہوسکا ہے، اور اس کے ساتھ ہی ”اس طویل جنگ کا ذمّہ دارانہ اختتام ہوجائے گا۔“ مگر حقیقت میں یہ جنگ اس سال میں ختم نہیں ہوگی، اگرچہ امریکہ کا کردار جزوی یا مکمل طور پر ختم ہوجائے گا مگر افغانستان میں جنگ جاری رہے گی اور اس کے حتمی نتیجہ کے بارے میں کچھ بھی یقین سے کہنا ممکن نہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ طرزِ عمل جاری رکھا جائے۔ امریکی جنگی دستوں کے انخلاء کے بعد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز ہوجائے گا۔ افغان نیشنل سیکورٹی فورسز اسی صورت جنگ جاری رکھنے میں کامیاب ہوسکیں گی اگر امریکی کانگریس اُنہیں لڑائی جاری رکھنے کے لیے ہر سال کروڑوں ڈالر کی ادائیگی کرتی رہے۔
یوں یہ جنگ دراصل طالبان اور امریکی کانگریس کے درمیان ”برداشت کی حد“ کی جنگ بن جائے گی۔ اگر طالبان لیڈر ملاعمر کے مقابلے میں،کانگریس نے زیادہ قوّت برداشت کا مظاہرہ نہ کیا تو ظاہر ہے کہ افغان نیشنل سکیورٹی فورس کے لیے فنڈز کم ہوتے جائیں گے اور نتیجتاً افغان فورسز کے لیے اپنے قدم جمائے رکھنا ممکن نہ رہے گا۔ اس مرحلے پر افغانستان با آسانی تباہی کی دلدل میں دھنس جائے گا۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ جنگ ہم ہار جائیں گے اور امریکی اہداف ملیا میٹ ہوجائیں گے۔ اس حکمتِ عملی کے تحت افغانستان میں جاری جنگ کو اگر ایسی افغان حکومت کو سونپا جاتا ہے جس کے پاس اسے جیتنے کے لیے فوجیوں کا خرچ برداشت کرنے کی استطاعت بھی نہیں، تو یہ پالیسی اس لڑائی کو ”ذمہ دارانہ انجام“ تک پہنچانے کا باعث نہیں بنے گی۔ یہ اُس حکمت عملی سے ملتی جلتی ہے،جسے نکسن انتظامیہ ویتنام جنگ کے اختتامی مراحل میں قبول کرنے پر تیار تھی،یعنی امریکی فوج کے انخلاء اور نتیجتاً اس کے مقامی اتحادی کی شکست کے درمیان ایک ”مناسب وقفے“ کی پالیسی ۔
 
 موجودہ افغان صورتِ حال کے صرف دو متبادل حل ہیں،اور دونوں ہی خوشگوار نہیں ہیں۔ ایک یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ واقعی سنجیدہ مذاکرات کیے جائیں۔ یہ کوئی اکثیر اعظم قسم کا نسخہ تو نہیں ہے مگر ایک مکمل شکست سے بچنے کا واحد حل ضرور ہے۔ اوباما حکومت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ گذشتہ ایک برس سے ایسے مذاکرات کے لیے کوشاں ہے۔ مگر اوباما حکومت نے اب تک ایک حقیقی معاہدے کی تشکیل کے لیے ضروری چیز یعنی اپنے سیاسی وسائل کو استعمال نہیں کیا۔
ایک ایسے معاہدے کے لیے جو امریکہ کے لیے قابل قبول ہو، نہ صرف افغانستان بلکہ امریکہ میں بھی سخت سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہے جس پر اب تک اوباما انتظامیہ نے کام ہی شروع نہیں کیا۔ امریکہ کے لیے دوسرا قابل دفاع طریقہ یہ ہے کہ اپنے نقصانات کم سے کم کرتے ہوئے،اور مشاورتی مشن کی صورت میں موجودگی برقراررکھے بغیر، فوری طور پر افغانستان سے نکل جائے، اور افغانستان کے لیے امداد میں معقول کمی کردے۔
فوری اور مکمل انخلاء سے شاید امریکہ کی ساکھ کوتو نقصان پہنچے گا مگر سُست روی سے نکلنے پر ہونے والی شکست کا نتیجہ بھی مختلف نہ ہوگا اور اس کے لیے خزانے اور فوجیوں کی جانوں کا نقصان بھی زیادہ اُٹھانا پڑے گا۔ اور پھر امریکہ کا فوری انخلاء اگرچہ متعدد افغانیوں کی جان اور بعض سے اُن کی آزادی چھین لینے کا سبب بنے گا مگر ان نتائج کو کچھ عرصہ تک ملتوی کرنے کے لیے لڑتے رہنے سے ایک ہارے ہوئے مقصد کے لیے امریکی فوجیوں کی جانیں غیرضروری طور پر قربان ہوں گی۔
 
اوباما حکومت نے ان دونوں راستوں کو منتخب نہیں کیا،اور ایک پائیدار حل کے لیے ضروری خطرہ مول لینے یا سیاسی ذرائع کو بروئے کار لانے کی پالیسی اختیار کرنے کی بجائے درمیانی راستے کا انتخاب کیاہے۔ مگر وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے اور اوباما انتظامیہ کو اپنا لائحہ عمل منتخب کرلینا چاہیے۔ ایک حقیقی معاہدے کے لیے قیمت ادا کرنا فوری انخلاء سے بہتر راستہ ہے،مگر یہ دونوں بہرحال جنگ کو غیر نتیجہ خیز چھوڑ کرفرار ہونے سے بہترحل ہیں۔
امریکہ کے لیے بغیر کسی نقصان کے ہارنااتنی بُری صورت نہیں ہوگی، مگر زیادہ قیمت ادا کرکے ہارنا یقینا بہت بُرا ہوگا۔اسی لیے قلیل وقتی پالیسی کے تحت سیاسی ذرائع استعمال کیے بغیر افغان فورسز کو جنگ سے نبرد آزما ہونے کی ذمہ داری سونپنے کی غیر دُور اندیش حکمت عملی ، افغانستان سے مرحلہ وار انخلا ء کے منصوبہ کی ناکامی کا سبب بن سکتی ہے۔
 
آنیوالا غیر نتیجہ خیز تعطل
افغانستان میں برسر پیکار اتحادی قوتوں نے سیکورٹی کی ذمہ داریاں افغان فورسز کو سونپنے کا طویل مدتی منصوبہ بنا رکھا ہے۔ مگر اصل منصوبہ یہ تھا کہ ایسا کرنے سے قبل، فوجی آپریشن کے ذریعے فوجی لحاظ سے اہم علاقوں کو طالبان سے آزاد کرالیا جائے گا اور مزاحمت کو اس حد تک کمزور کردیا جائے گا کہ جب افغان حکومت کو ذمہ داری سونپی جائے تو جنگ تقریباً ختم ہوچکی ہو۔
مگر ایسا نہ ہوسکا۔ آپریشن سے اہم پیش رفت ضرور ہوئی مگرامریکی انخلاء کے کم وقت اور طالبان کی مزاحمت کے باعث فوجی لحاظ سے اہم علاقوں پر کنٹرول کے خلاف مزاحمت کاروں کی اتنی تعداد موجود ہے کہ جو 2014کے بعد بھی بہت کافی ہوگی۔ چنانچہ افغانستان کی سرکاری فورسز کو توقع سے کہیں زیادہ مشکل کام انجام دینا ہوگا۔
یہ کام جن فورسز کو انجام دینا ہے وہ مختلف گروپوں پر مشتمل ہیں۔
افغان نیشنل سیکورٹی فورسز کے بہترین دستوں کو تو طالبان کے مضبوط ٹھکانوں کو ختم کرنے کے لیے فوجی ایکشن کے قابل ہونا چاہیے، مگر دوسری یونٹس میں کرپشن اور جذبے کی کمی ہے جو اُنہیں افغانستان کے اچھے مستقبل کے حصول میں معاون کی بجائے بذاتِ خود ایک مسئلہ بنا دیتی ہے۔ 
مقابلے کے اعتبار سے، یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اے این ایس ایف (افغان نیشنل سیکورٹی فورسز) سرج آپریشن کے نتیجے میں قبضہ میں لیے گئے تمام یا اکثر علاقوں پر قبضہ برقرار رکھ سکیں گی مگر وہ اس سے زیادہ آگے بڑھ کر افغان حکومت کی عملداری کو بڑھانے کی اہلیت نہیں رکھتیں۔
اگرچہ اتحادی فوجوں کے انخلاء کے بعد غالباًطالبان فوری طور پر کابل کی طرف مارچ نہیں کریں گے، اور جنگ اُس وقت تک جُوں کی تُوں جاری رہے گی، جب تک کہ کوئی اے این ایس ایف کو لڑائی جاری رکھنے کے لیے اخراجات مہیا کرتا رہے گا۔
یہ اخراجات کافی زیادہ ہوں گے اور کانگریس کو ان میں سے زیادہ تر کی ادائیگی کرنا ہوگی۔ اتحادی فوجوں کا ہمیشہ سے یہی ماننا ہے کہ اے این ایس ایف کو سرج آپریشن سے ملنے والی کامیابیوں کو برقرار رکھنے کے قابل بنانا اس قدر مہنگا ہوگا جس کے اخراجات افغان حکومت خود برداشت نہیں کرسکتی۔
مالی سال 2013میں اے این ایس ایف کا آپریٹنگ بجٹ ساڑھے چھ بلین ڈالرز تھا جو افغان حکومت کے مجموعی ریونیو سے دوگنا زیادہ بنتا ہے۔ چنانچہ اے این ایس ایف کو لڑائی جاری رکھنے کے قابل بنانے کے لیے زیادہ تر پیسہ باہر سے مہیا کرنا ہوگا،اور اس میں سب سے زیادہ امریکہ کا حصّہ ہوگا۔ 
 اصولی طور پر اے این ایس ایف کو فنڈز کی فراہمی پر خرچ ہونے والی رقم نسبتاً کم ہونی چاہیے۔
زیادہ تر اندازوں کے مطابق سیکورٹی کی ذمہ داریاں مقامی فورسز کو سونپے جانے کے بعد ، امریکہ کو اپنے حصّے کے طور پر قریب چار سے چھ بلین ڈالرز سالانہ اے این ایس ایف کو مہیا کرنے ہوں گے… جو کہ بظاہر 2011میں یہ جنگ صرف امریکی فوجیوں کے ذریعے لڑنے پر اُٹھنے والے 120بلین ڈالرز کے اخراجات کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ لیکن جُوں جُوں ہم 2011سے آگے بڑھتے جائیں تو یہ فرق کم ہوتا چلا جاتا ہے اور دیگر کئی طرح کے موازنہ جات ذہن میں آنے لگتے ہیں۔
مثال کے طور پر اسرائیل کے لیے سالانہ امریکی امداد مالی سال 2013میں 3.1بلین ڈالرز تھی، جبکہ اے این ایس ایف کی امداد کے ضمن میں، یقیناایک لمبے عرصہ کے لیے اس سے کہیں زیادہ رقم درکار ہوگی۔ اور اسرائیل کے برعکس جسے واشنگٹن میں بہت مضبوط سیاسی حمایت حاصل ہے، افغانستان کی فوجی امداد کے لیے امریکی سیاست میں قطعاً حقیقی آئینی حمایت موجود نہیں ہے۔
افغانستان کے لیے امداد کا دفاع کرنا اس وقت اور بھی مشکل ہوجائے گا جب اگلی دفعہ افغان حکومت کا کوئی کرپشن سکینڈل اخبارات کی زینت بنا، یا قرآن کی حادثاتی شہادت پر افغانیوں کے احتجاج کی خبریں سامنے آئیں، یا امریکی امداد وصول کرنے والے افغانی کے ہاتھوں امریکی مشیر کے مارے جانے کا واقعہ رُونما ہوا، اور یا پھر افغان صدر کی طرف سے مقامی سیاست کا کھیل کھیلتے ہوئے امریکی جذبات کو مجروح کیا گیا۔
ایسے وقتی بحرانوں کے رُونما ہونے کو جھٹلایا نہیں جاسکتا اور ان میں سے کوئی ایک بھی رُونما ہوا تو وہ افغانستان کی امداد کے لیے کانگریس کی حمایت کو بہا لے جائے گا۔ میں نے حال ہی میں افغانستان سے دلچسپی رکھنے والے 70کے قریب کانگریس کے سینئر ارکان سے گفتگو کی اور اُن سے پوچھا کہ آپ میں سے کتنے افراد ایسے ہیں جن کے خیال میں ایسا کوئی بحران پیدا ہونے کی صورت میں اے این ایس ایف کے بجٹ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔
اُن میں سے کسی نے بھی اس سے اتفاق نہیں کیا۔ 
اگر مستقبل قریب کی بات کی جائے تو غالباً کانگریس اے این ایس ایف کو اُتنی امداد کی منظوری دے دیگی جتنی وائٹ ہاؤس کی طرف سے درخواست کی جائے گی۔ مگر جُوں جُوں وقت گزرے گا، ان تصرفات میں کٹوتی ہونے لگے گی۔فنڈز میں کٹوتی ہوتے ہی اے این ایس ایف میں شامل فوجیوں کی تعداد اس کے زیرِ تسلط علاقوں پر قبضہ جمائے رکھنے کے لیے درکار ضروری تعداد سے کم ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا،نہ ہی امدادی فنڈز کے کم ہونے سے اس ادارے کے کئی نسلی گروہوں میں تقسیم ہونے میں زیادہ دیر لگے گی۔
ان دونوں صورتوں میں افغانستان 1990کی دہائی کے خانہ جنگی کے دور میں واپس لوٹ جائے گا، جو اسے عسکریت پسندوں کی وہی جنت نما پناہ گاہ میں تبدیل کردے گا،جسے روکنے کے لیے امریکہ 2001سے جنگ لڑ رہا ہے۔
افغان فورسز کی امداد کے لیے کانگریس میں سیاسی حمایت حاصل کرنا کچھ عرصہ قبل اُس وقت ممکن تھا جب امریکی حکومت یہ سمجھ رہی تھی کہ افغانستان میں سیکورٹی کی ذمہ داریاں افغان فورسز کو منتقل کرنے سے پہلے کیا جانے والا فوجی سرج آپریشن طالبان کو تباہی کے دہانے تک پہنچادے گا۔
امریکہ کو اُس صورت میں بھی اے این ایس ایف کو کروڑوں ڈالرز دینا پڑتے،مگر اُس صورت میں جنگ نسبتاً بہت کم وقت میں ختم ہوجاتی۔ اس کے بعد یہ بھی ممکن ہوتا کہ اے این ایس ایف کے بڑے حصّے کو غیر فعال کرکے باقی بچ جانے والے فوجیوں کو امن برقرار رکھنے والی انتظامیہ میں تبدیل کردیا جاتا۔اُس صورت میں امدادی رقم بھی انتہائی محدود ہوجاتی اور کانگریس کے ذریعے اس فنڈنگ کو منظور کرانا بھی انتہائی آسان کام ہوتا۔
مگر 2014میں یہ صورت حال نہیں ہوگی۔بلکہ منظرنامے پر ایک غیریقینی مدت تک جاری رہنے والی غیرنتیجہ خیز جنگ کے امکان کی وجہ سے اے این ایس ایف کی فنڈنگ کے لیے سیاسی حمایت کا حصول انتہائی دشوار ہوگا۔ اور کسی معاہدے کے بغیر ،یہ امداد اُسی صورت میں طالبان کے جنگ جاری رکھنے کے جذبے پر غالب آسکے گی اگر کانگریس سے ہم انتہائی حوصلے و برداشت کی توقع رکھ سکیں۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط