Episode 13 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 13 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

مچھلی یا پھر کانٹا بھی گیا
مذاکرات کے ذریعے کسی معاہدے پر پہنچنے کی دوسری رکاوٹوں کی طرح یہ بات بھی انتہائی تشویش ناک ہے کہ اس طرح کی ڈیل اب بھی امریکہ کے لیے افغانستان کے حوالے سے بدترین راستہ تصور کی جاتی ہے۔ اگر وائٹ ہاؤس ایک سنجیدہ معاہدہ کے ضمن میں ضروری کوششوں سے دامن بچانا چاہتا ہے تو پھر یہ وقت ہے کہ امریکہ اپنے نقصان کو کم سے کم کرتے ہوئے فوری طور پر افغانستان سے نکل جائے۔
کچھ لوگوں کے نزدیک اوباما حکومت کی موجودہ پالیسی پہلے ہی اسی طرز کے انخلاء کے پسِ پردہ طریقہٴ کار پر مبنی ہے۔ افغانستان میں امریکہ کی موجودگی بہت جلد محض آٹھ سے بارہ ہزار ایڈوائزرز اور ٹرینرز کی صورت میں باقی رہ جائے گی، اور اے این ایس ایف کے لیے امریکی امداد بھی شاید چار سے پانچ بلین ڈالرز سالانہ تک کم ہوجائے گی،جبکہ معاشی امداد کے ضمن میں یہ رقم کم ہوکر دو سے تین بلین ڈالرز رہ جائے گی، جبکہ مشیران اور ٹرینرز کی موجودگی پر اُٹھنے والے اخراجات غالباً آٹھ سے بارہ بلین ڈالر سالانہ ہونگے۔

(جاری ہے)

تاہم اس منصوبے پر عملدرآمد 2011میں ایک لاکھ امریکی فوجیوں کی افغانستان میں موجودگی کے باعث اُن پر خرچ ہونے والے 100بلین ڈالرز کی نسبت بہت کم خرچ ثابت ہوگا۔اور پھر یہ منصوبہ طویل مدت تک جاری رہنے والی غیرنفع بخش کوششوں کے باوجود امریکہ کی مکمل شکست کے مقابلے میں نسبتاً بہتر قابل قبول نتیجہ حاصل کرنے کا موقع فراہم کررہا ہے۔
واشنگٹن میں بہرحال،صرف 14سے20بلین ڈالرز سالانہ خرچ کم لاگت تصور ہوسکتا ہے۔
اگر اس سے پُرامن افغانستان کا مقصد حاصل ہوجاتا ہے تو یقینا یہ ایک کم قیمت سودا ہوگا۔لیکن جیسا کہ دکھائی دے رہا ہے،کسی معاہدے پر پہنچے بغیراس کا مطلب ہوگا کہ کئی سالوں کی جنگ کے بعد محض شکست کو ٹال کر لوٹ آنا۔ جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم نے بلا ضرورت اربوں کھربوں ڈالرز ضائع کردئیے۔ معاشی بحران کے ماحول میں،جہاں پری سکول پروگرام کے آغاز کے لیے 8بلین ڈالرز یا پیل گرانٹ سکالر شپس کے لیے 36بلین ڈالرز کی رقم پر تنازعات اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں ،وہاں محض اپنی شکست کو چھپانے یا اس کے سیاسی اثرات سے بچنے کے لیے افغانستان میں مزید کئی سال تک (فرض کرلیجئے پانچ سال تک) 70سے 100بلین ڈالرز سالانہ خرچ کرتے رہنے کا دفاع کرنا بہت مشکل ہے۔
اب بھی ایسے مقصد کے لیے امریکیوں کو جانے قربان کرنے کے لیے کہنا انتہائی مشکل ہے۔ فوجوں کے انخلاء کے بعد افغانستان میں ایڈوائزری مشن کو شدید خطرات کا سامنا ہوگا، اور اب بھی یہ خطرہ موجود ہے جب ہزاروں امریکی فوجی وطن لوٹنے کے لیے مارچ کررہے ہیں۔ اگر ناکامی ہی آخری نتیجہ کے طور پر سامنے آنی ہے تو بہت سے افغانی بہرحال مارے جائیں گے، مگر فوری اور تیز انخلاء سے کم ازکم کچھ امریکیوں کی جانیں بچائی جاسکیں گی جو سُست روی سے نکلنے پر بلاضرورت قربان ہوسکتی ہیں۔
 اس جنگ کو مختلف طور پر انجام تک پہنچانا بہتر ہوگا، یعنی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے معاہدے پر سمجھوتہ کرکے جنگ ختم کرنا۔ بلاشبہ طالبان کے ساتھ مذاکرات انتہائی مشکل اور پیچیدہ کام ہے، اور بہت ممکن ہے کہ امریکہ کی طرف سے طالبان کو تمام تر رعایتیں دئیے جانے کے باوجود یہ مذاکرات ناکام ہوجائیں۔ لیکن ایسی کوششوں کے بغیر کامیابی کا امکان بے حد کم ہے، اور اس کا نتیجہ ظاہری طور پر ایک سُست رفتارمگر زیادہ نقصان پر مبنی شکست ہوگا۔
اسی وقت افغانستان سے نکل جانا اُس کی نسبت کہیں بہتر پالیسی ہے۔
#…#…#
افغانستان میں باغیوں کیخلاف حکمت عملی کی رکاوٹیں
سکّے کا دوسرا رُخ
کارل ڈبلیو ایکن بیری
کارل ڈبلیو ایکن بیری …فری مین سپوگلی انسٹی ٹیوٹ سٹین فورڈ یونیورسٹی کے سنٹر فار انٹرنیشنل سیکورٹی اینڈ کوآپریشن میں انٹرنیشنل سیکورٹی کے شعبہ میں ولیم جے پیری کے معاون ہیں۔
وہ 2005سے 2007تک افغانستان میں اتحادی فوج کے کمانڈنگ جنرل کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، اور ساتھ ہی 2009سے 2011تک افغانستان میں امریکی سفیر کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دیتے رہے ہیں۔ 
نائن الیون کے بعد، دو مسلسل امریکی حکومتوں نے افغانستان کو عالمی توقعات کے مطابق ایک موثر اور دہشت گردوں کی پناہ گاہوں سے پاک ملک بنانے کے لیے بے انتہا کوششیں کی ہیں۔
یہ ”مقصد“ تو بالکل واضح تھا مگر اس کی تکمیل بہت مشکل ثابت ہوئی ہے۔حکام کو بعد ازطالبان ایک پائیدار افغان ریاست کی اہم ترجیحات طے کرنے اور پھر ان کے حصول کے لیے بہترین ذرائع بروئے کار لانے کے حوالے سے سخت مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ یہ کوئی حیران کُن بات نہیں ہے، کیونکہ امریکہ کو افغانستان پر قبضہ کے لیے ایک دُور دراز واقع پہاڑی خطّہ پرمہم جوئی کرنا تھی، یہ ایک ایسا خطّہ تھا جو حقیقی حدود کا حامل ہونے کے باوجود آئین و قوانین سے ماوراء تھا، جس کے لوگ باہم تقسیم اور زخم خوردہ ہونے کیساتھ ساتھ سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل کا شکار بھی تھے۔
ایسے حالات میں معمولی اہمیت رکھنے والے جنگی مقاصد کا حصول بھی تیز، آسان یا کم لاگت کا حامل نہیں ہوسکتا تھا۔ 
گذشتہ بارہ برسوں کے دوران امریکہ نے افغانستان میں جو مختلف طریقے اختیار کیے ہیں، ان میں سے اب تک سب سے زیادہ توقعات کی حامل اور زیادہ لاگت والی 2009میں اپنائی گئی حکمت عملی رہی ہے جس میں زمینی فوجی دستوں کے ذریعے سرج آپریشن کیا گیا تھا۔
کاؤنٹر ان سرجنسی (کوائن ڈاکٹرائن) یا باغیوں کے خلاف مخصوص حکمت عملی، افغانستان میں کیے گئے سرج آپریشن کی اصل بنیاد تھی۔ یہ حکمت عملی امریکی فوج نے افغانستان اور عراق کی جنگوں کے دوران ازسر نو ترتیب دی ، اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا گیا اور 2006میں ”فیلڈ مینویل 3-24“کے عنوان کے تحت کوڈی فائیڈ کرکے امریکی فوج اور بحریہ نے اسے مشترکہ طور پر شائع کیا۔
اس ازسر نو ترتیب شدہ حکمت عملی کے موثر ہونے پر فوج کی قیادت نے مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے، جنگ زدہ علاقے کے مقامی لوگوں کے ساتھ ہر سطح کے معاملات میں اسے بہترین حکمت عملی قرار دیا۔ ”فوجی حکمت عملی Military doctrine“ ان اصولوں کی نشاندہی کرتی ہے جن کی روشنی میں مسلح افواج فوجی مہمات،آپریشنز اور جنگوں میں حصّہ لیتی ہیں۔ اسے ناگہانی حالات کے لیے تیار کیا جائے یا پھر حالات کی مطابقت کے لحاظ سے، ملٹری doctrineکی حیثیت تجویز کرنے والے کی ہوتی ہے نہ کہ نسخہٴ عمل کی۔
وسیع تناظر میں بات کی جائے تو جدید ”COIN doctrine“ سویلین آبادی کے تحفظ،باغی رہنماؤں اور ان کے بنیادی ڈھانچے کا قلع قمع کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں اور ایک ایسی آئینی اور قابل مواخذہ مقامی حکومت کی تشکیل میں مدد دیتے ہیں جو بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی یقینی بنا سکے۔ ”فیلڈ مینویل 3-24“ بھی کاؤنٹر ان سرجنسی (COIN) یا انسداد بغاوت مہمات کی مدت اور لاگت کا تعین کرتا ہے۔
”بغاوتیں قدرتی طور پر طول پکڑتی ہیں،چنانچہ COINآپریشنز کی کامیابی کے لیے ہمیشہ اچھا خاصا وقت اور وسائل خرچ کرنا پڑتے ہیں۔“ 2007 میں عراق میں ہونے والے سرج آپریشن کی ظاہری کامیابی نے اس ڈاکٹرائن کی اہمیت میں اضافہ کردیا تھا۔ جب 2009میں اوباما انتظامیہ نے افغان پالیسی کو ازسر نو ترتیب دینے کا کام شروع کیا فوج کے بعض افسران نے ، جنہیں بااثر تھنک ٹینکس کے سویلین تجزئیہ کاروں کی بھرپور حمایت حاصل تھی،فیلڈ مینویل 3-24 کو کامیابی کے حصول کا ایک کارگر نسخہ قرار دیتے ہوئے اس کی طرف توجہ مبذول کروائی۔
جب صدر نے اس سال کے آخر میں مزید 30ہزار فوجی افغانستان بھیجنے کا حکم دیا تو فوج یہ سمجھنے میں حق بجانب تھی کہ ازسر نو ترتیب دئیے گئے آپریشنل پلان میں COIN doctrineکے اہم خواص کو بھی شامل کرلیا گیا ہے۔ جس مقصد کا اظہار کیا گیا وہ یہ تھا کہ افغان عوام کو ”صاف کرو،قبضہ جماؤ، اور تعمیر نو کرو“ کی حکمت عملی کے تحت تحفظ فراہم کیا جائے… دوسرے الفاظ میں یہ منصوبہ تیار کیا گیا تھا کہ باغیوں کو نکال باہر کیا جائے، انہیں باہر ہی رہنے پر مجبور کیا جائے اور نتیجتاً ملنے والے وقت اور جگہ کو استعمال کرتے ہوئے ایک آئینی حکومت قائم کی جائے، مناسب قابلیت کی حامل سیکورٹی فورسز تیار کی جائیں اور افغانستان کی معیشت کو بہتر بنایا جائے۔
”COIN doctrine“ کے طرف داروں کا دعویٰ تھا کہ باہر سے کی جانے والی مسلسل کوششوں کے ساتھ،افغان حکومت کے اثرورسوخ اور طاقت میں بتدریج اضافہ ہوتا جائے گا،نیز امریکی اور دیگر عالمی ممالک کی طرف سے مدد میں بتدریج کمی ہوتی جائے گی اور باغیوں کو بالآخر شکست ہوجائے گی۔
افغانستان میں سرج آپریشنز کے آغاز کو تین برس گزر چکے ہیں،مگر اب بھی سوال یہ ہے کہ COINحکمت عملی اور امریکہ کے افغانستان میں تجربہ کے نتائج کے حوالے سے ہم کیا کہہ سکتے ہیں؟ اس حکمت عملی کے حمایتی شاید کچھ حد تک اہمیت کی حامل یہ دلیل پیش کرسکتے ہیں کہ یہ تجربہ محدود اور بہت تاخیر سے کیا گیا…تاخیر سے اس لیے کہ افغان جنگ شروع ہونے کے آٹھ سال بعد تک بھی مقامی صنعتوں کو مضبوط بنانے کے COINطریقہٴ کار پر عمل شروع نہیں کیا گیا تھا۔
اور محدود اس لیے کہ تاخیر سے شروع کیے جانے کے بعد بھی سرج آپریشنز کے حجم اور دورانیہ کی حدود مقرر کی گئی تھیں، جس سے افغانستان کے دوستوں اور دشمنوں کا اندازہ کرنا اور بھی مشکل ہوگیا۔ پھر یہ کہ،اگرچہ صدر باراک اوباما نے2014تک افغانستان میں امریکہ کے جنگی آپریشنز ختم کرنے کے منصوبے کا اعلان کردیا ہے، مگر جنگ اب بھی جاری ہے اور اس کے نتائج کے بارے میں اب بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
تاہم COINحکمت عملی کے بنیادی اصولوں کے تجزئیے اور اس بات کابغور جائزہ لینے سے کہ یہ پالیسی کس حد تک کامیاب رہی،اوپر کیے گئے سوال کا جواب دینا ممکن ہے۔
افغانستان کے لیے مرتب کیا گیا COINسرج منصوبہ تین اہم اندازوں کی بنیاد پر تیار کیا گیا تھا: پہلا یہ کہ افغان عوام کو تحفظ فراہم کرنے کا مقصد بالکل واضح ہے، اس مقصد میں کامیابی کا حصول ممکن ہے اور اس مقصد میں کامیابی، جنگ میں بھی فیصلہ کُن ثابت ہوگی۔
دوسرا یہ کہ عالمی ممالک کی طرف سے اعلیٰ درجے کی بیرونی امداد اور تعاون کے نتیجے میں افغان حکومت کی قوت و اثرو رسوخ میں بتدریج اضافہ ہوگا۔ اور تیسرا یہ کہ امریکہ کی طرف سے اپنائی گئی COINحکمتِ عملی، افغان صدر حامد کرزئی کی طرف سے پسند کیے گئے سیاسی و فوجی اشتراک کے منصوبے کو لیکر مستقل کام جاری رکھ سکے گی۔ بدقسمتی سے یہ تینوں اندازے انتہائی غلط تھے، جن کی وجہ سے اُلٹا ”انسدادِ بغاوتcounterinsurgency “ مہم تیزی سے غیر مقبول ہوتی چلی گئی اور اسے جاری رکھنا انتہائی مشکل ہوگیا۔
مختصراً ”COIN“ حکمتِ عملی افغانستان میں بُری طرح ناکام رہی۔ 
افغان عوام کا تحفظ
”انسدادِ بغاوتCOIN“ حکمتِ عملی کا پہلا اصول یہ ہے کہ اُن علاقوں میں موجود مقامی لوگوں کو بچایا جائے جو سیاسی،معاشی یا فوجی لحاظ سے اہم سمجھے جاتے ہیں۔ سرج آپریشنز کے حمایتی کہتے تھے کہ اتحادی ممالک اور مقامی افغان سیکورٹی فورسز کے حفاظتی حصار میں،اچھی حکومت کا قیام ممکن ہوسکے گا،قانون کی بالادستی قائم ہوگی اور خوشحالی پھیل جائے گی۔
اُن کا یہ بھی ماننا تھا کہ اس طریقہٴ کار پر عمل کرنے سے جو مقامی عہدیدار منتخب اور نامزد کیے جائیں گے، اُن کے پیچھے مطمئن اور محفوظ افغان عوام کھڑے ہونگے اور افغانستان میں امن و استحکام فروغ پائے گا۔
 ”عوام کو تحفظ دو“ یہ نعرہ گاڑی پر لگے سٹیکر پر لکھا تو بہت اچھا لگتا ہے مگر اس کے ساتھ یہ سوال جُڑا ہے: کہ کن لوگوں سے تحفظ دیا جائے اور کس چیزکے خلاف تحفظ دیا جائے؟ یقینا افغانستان میں اس سے مُراد یہ تھی کہ مقامی لوگوں کو غارت گر ی کرنے والے سرکش طالبان سے تحفظ دیا جائے۔
مگر افغانستان میں موجود منشیات کے اسمگلروں، ضمیر فروش پولیس افسروں اور شکار کی تاک میں رہنے والے حکومتی عہدیداروں کا کیا کِیا جائے؟،اُن قبائل کا کیا کِیا جائے جو لڑائی میں مدد کے لیے طالبان سے جاملتے ہیں، جو افغان حکومت سے تعلق رکھنے والے قبائل سے زیادہ طاقتور ہیں؟ اور اُن نسلی بنیادوں پر ہونے والے فسادات کا کیا کِیا جائے جن کی جڑیں صدیوں پرانی ہیں؟ بے روزگار نوجوان باغی گروپوں میں با آسانی شامل ہوجاتے ہیں، تو کیا بے روز گاری کے خلاف لوگوں کو تحفظ نہ دیا جائے؟ صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں طالبان ہمیشہ ناکام رہے ہیں ، تو کیا موجودہ افغان حکومت کو اُن کے مقابلے میں زیادہ بہتر ظاہر کرنے کے لیے لوگوں کو بیماریوں کے خلاف تحفظ نہیں دینا چاہیے؟ 
یہ کسی مفروضہ کے بارے میں کیے جانے والے سوالات نہیں ہیں بلکہ یہ وہ حقیقی چیلنج ہیں جن سے افغانستان میں موجود امریکی فوج،سویلین سفارتی عہدیداروں اور جنگی مہمات کے ماہرین کو ”انسدادِ بغاوت حکمتِ عملی COIN doctrine“ پر عملدرآمد کرتے ہوئے ہر روز نپٹنا پڑتا ہے۔
2010کے اختتامی دنوں میں معروف کامیڈین کیتھلین میڈی گان نے ”یوایس اوUSO“ ٹیم کے ہمراہ افغانستان کا دورہ کرتے ہوئے صوبہ ہلمند میں قائم بیس کا مشاہدہ بھی کیا۔ اپنی مخصوص مزاحیہ صلاحیتوں کی آمیزش کے ساتھ کیتھلین نے بعد ازاں قریبی گاؤں میں تعینات امریکی بحریہ کے ایک نوجوان کیپٹن کے ساتھ اپنی ملاقات کی رُوداد بیان کی، جس نے کیتھلین کو انتہائی جوش و جذبے کے ساتھ بتایا تھاکہ کیسے وہ اور اس کی یونٹ اس گاؤں میں سکول تعمیر کررہے ہیں،ایک ہیلتھ کلینک قائم کررہے ہیں،لوکل گورنمنٹ سنٹر بنا رہے ہیں، پولیس فورس کی تربیت و اصلاح کررہے ہیں، لوگوں کی شکایات کا ازالہ کررہے ہیں،امریکی بحریہ کی خواتین پر مشتمل ٹیم کی مدد سے عورتوں کے حقوق کے حوالے سے نمایاں کام کررہے ہیں، زرعی پیداوار کو بہتر بنا رہے ہیں اور…“ ابھی کیپٹن کی فہرست جاری تھی کہ کیتھلین میڈی گان نے اسے ٹوکتے ہوئے پوچھا ، ”محترم کیپٹن،یہ بتائیے آپ اپنے شہر Detroitکب تشریف لارہے ہیں؟“
کیتھلین کا مذاق میں چھوڑا گیا تیر عین نشانے پر بیٹھا تھا۔
”عوام کا تحفظ“ ایک بے حد وسیع مفہوم رکھنے والا عمل ہے جس کی کوئی حد نہیں اور جو مسلسل کوششوں کے باوجود ازخود ہی ختم ہوسکتا ہے۔ مگر ”انسدادِ بغاوت COIN“حکمتِ عملی کے علمبردار اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خواہ مقاصد کا پوری طرح تعین نہ بھی کیا گیا ہو لیکن اگر اس طرح کی حکمتِ عملی پر قومی،صوبائی اور ضلعی سطح پر بھرپور طریقے سے اور یکساں طور پر عمل کیا جائے تو یہ آہستہ آہستہ طالبان کے پاؤں اُکھاڑ دے گی اور بلاشبہ اُن کی شکست کا سبب بن جائے گی۔
آج ہر فوجی افسر کو ، جو ماضی میں تشدد کی روک تھام کے لیے پیشہ ورانہ تربیت سے لیس ہوا کرتا تھا، اب اُسے بیسویں صدی کے مشہور فرانسیسی ماہرِ ”انسدادِ بغاوتCounterinsurgency“ ڈیوڈ گلولہ کے الفاظ میں ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ”ایک سماجی کارکن،ایک سول انجینئر، ایک سکول ٹیچر،ایک نرس، اور ایک بوائے سکاؤٹ بننے کے لیے بھی ہمہ وقت تیار رہے۔ مگر اس وقت تک، جب تک کہ اس کی جگہ کوئی دوسرا یہ کام کرنے والا نہیں مل جاتا۔
کیونکہ بہرحال بہتری اسی میں ہے کہ سویلین کام سویلین افراد کو ہی کرنے دئیے جائیں۔ “ جو مقام و اہمیت گلولہ کو ”انسدادِ بغاوت COIN“ ڈاکٹرائن کے جوشیلے طرف دار دیتے ہیں، اس کا تقاضا ہے کہ اس کے اوپر بیان کیے گئے رہنما اصولوں کا جائزہ لے لیا جائے۔ 
پہلی بات یہ ہے کہ، افغانستان میں امریکی فوج اور بحریہ کے اعلیٰ تربیت یافتہ لوگوں کو بطور سماجی کارکن تعینات کرنا یا اُنھیں ترقیاتی منصوبوں کے انتظام کی ذمہ داری سونپنا انتہائی مہنگا سودا ہے کیونکہ ان فوجیوں کو وہاں تعینات رکھنے پر بہت زیادہ خرچ آتا ہے۔
امریکی حکومت کو افغانستان میں موجود ہر فوجی پر سالانہ تقریباً ایک ملین ڈالر خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ جب سرج آپریشن پوری شدت سے کیا جارہا ہو، تو امریکہ کو قریب ایک لاکھ فوجی بروئے کار لانا پڑتے ہیں، جن پر تقریباً 100بلین ڈالر سالانہ خرچ ہوتا ہے۔ مزید براں، یہ سوچنا بالکل بچگانہ ہوگا کہ امریکی فوجی جنہیں مقامی زبان سے واقفیت ہے اور نہ ہی وہ افغان ثقافت سے ہی حقیقی آگاہی رکھتے ہیں، وہ چھ یا بارہ مہینے کے دورہ میں افغانستان کے دیہاتوں میں وہ سب کام کرسکیں گے جن کی ”انسدادِ بغاوت COIN“ حکمت عملی کی رو سے اُن سے توقع کی جاتی ہے۔
محض 21سالہ بحریہ کا سپاہی، جس کے لیے اپنی ”ساس“ کا دل جیتنا بھی انتہائی مشکل کام ہے، کیا اُس سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ایک اجنبی نسل کے پشتون بزرگ کا دل جیت لے گا؟ 

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط