افغانستان کی جنگ سے دوسری اہم بات یہ سامنے آئی ہے کہ،امریکی فوج کی قابلیت اور جدید وسائل کے حوالے سے کی جانے والی بے انتہا تعریفوں کے حوالے سے ظاہر کیے جانے والے یہ خدشات کہ، ان کی وجہ سے فوج کے سینئر کمانڈرز اپنی عقل و دانش کے گھمنڈ میں انتہائی خودسر ہوچکے ہیں، بالکل درست ہیں۔ ”انسدادِ بغاوت COIN“ ماڈل شک و شبہ سے بالاتر اس جذبہ کے ساتھ اپنایا گیا تھا کہ فوجی کمانڈرز کے حوالے سے ایسی سوچ کو سرے سے رد کردیا جاتا تھا۔
کمانڈرز کے ایسے بے شمار خطوط یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کیسے وہ ذہن کو چکرا دینے والے سیاسی ومعاشی بحران کے باوجود کہتے رہے ہیں کہ اُن کے ملٹی بلین(اربوں) ڈالرز لاگت کے غیرمعینہ مدت تک جاری رہنے والے اخراجات پر مبنی منصوبوں(جنہیں کمانڈر کے ایمرجنسی رسپانس پروگرام کے طور پر جانا جاتا ہے) پر فوری عمل کیا جانا چاہیے تاکہ مختلف اعتبار سے بیان کیے گئے ”انسدادِ بغاوت COIN“ ثمرات کا حصول ممکن ہوسکے۔
(جاری ہے)
فوجی کمانڈرز نے اس پروگرام کو انتہائی اونچے درجے کے معاشی منصوبوں تک پہنچادیا اور انہی ”انسدادِ بغاوت COIN“ ثمرات کے نام پر قندھار میں ڈیزل جنریٹربجلی گھر جیسے پراجیکٹس پر کام شروع کردیا۔امریکی فوج کے معاہدوں کی شفافیت بہتر بنانے کے لیے شروع کیے گئے پروگرام کا نام بھی حیرت انگیز طور پر ”انسدادِ بغاوت معاہدوں کا قیام یا COIN contracting“ رکھ دیا گیا۔
اور یوں ایک خاص گروپ کی سوچ کو عمومی خیال قراردیا جاتا رہا۔
”انسدادِ بغاوت COIN“ حکمتِ عملی محض ایک نام سے صفت بنی، اور پھر اس کا ضرورت سے زیادہ استعمال، ثقافتی انقلاب کے دوران وفادارسرخ گارڈز کی جانب سے ماؤکے نظرئیہ اشتراکیت کے حق میں لگائے جانیوالے مسلسل نعروں کی پیروڈی کی صورت اختیار کرگیا۔ افغانستان میں امریکی فوج کے سابق کمانڈر اور بعدازاں افغانستان میں امریکی سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے،مجھے سفارت خانے کے ایسے سویلین شعبوں اورایجنسیوں کے سربراہوں کے لیے اپنے دل میں تعریف و توصیف کے بہت زیادہ جذبات محسوس ہوئے ،جو ان پہلے سے تیار کردہ ”ڈاکٹرائن“ نظرئیات سے چمٹے نہیں رہے، بلکہ اُنھوں نے اپنی محنت سے ایسے تجزئیے تیار کیے جو واضح طور پر اُن کے فوجی ہم عصروں کے تیار کردہ تجزئیوں کی نسبت زیادہ اچھے اور حقیقت پر مبنی تھے۔
مکمل خوروخوض سے تیار کیے گئے منصوبے عام طور پر آپریشنل کامیابیوں کا سبب بنتے ہیں، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی فوج منصوبہ بندی کے لحاظ سے اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ تاہم یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ کسی منصوبے کی تیاری کے پیچھے کارفرما، اندازوں اور خطرات کے تجزئیات کو بھی انتہائی مضبوط اور ہرطرح کے خیالات پر مبنی ماحول میں مستقل طور پر جانچا جانا چاہیے، تاکہ آخر میں یہ نہ ہو کہ کمانڈزر غلط اندازوں پر مبنی جنگ لڑرہے ہوں۔
امریکی فوج اور سویلین اربابِ اختیار کو مستقبل میں ایسی غلطیوں سے بچنے کے راستے تلاش کرنا ہونگے۔
آخر میں،اگرچہ کہ امریکہ کو فوجی مہمات کے اصول و ضوابط کا ازسر نو جائزہ لینا ہے،تاہم یہ ضروری نہیں کہ افغانستان اور عراق میں بروئے کار لائے جانے والی تمام تکنیکوں اور ذرائع کو وہ بالکل ہی مسترد کردے۔ناکام اور اندرونی طور پرکمزور ریاستیں امریکہ اور عالمی امن کے لیے خطرے کا باعث بنتی رہیں گی، چنانچہ ان کا توڑ کرنے کے لیے امریکہ کے پاس محض ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے یا پھر بہت ہی زیادہ تعداد میں فوجیوں اور سویلین اہلکاروں کو فیلڈ مینویل 3-24کے تحت جنگ میں اُتارنے کے علاوہ بھی کئی دوسرے راستے ہیں۔
عراق اور افغانستان میں سرج آپریشنز کے دوران اپنائی گئی ”انسدادِ بغاوت COIN“ حکمتِ عملی کا جذبات سے بالاتر ہوکر کیا گیا تقابلی جائزہ، ایسے مہنگے ایڈونچرز سے درست سبق حاصل کرنے میں فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔
افغانستان میں جنگ کے دوران امریکہ کے سفارتی اہلکاروں، جنگی حکمتِ عملی کے ماہرین،اور میدانِ جنگ میں لڑنے والے فوجیوں کی حاصل کی گئی کامیابیوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔
امریکی بے شک تخلیقی صلاحیتوں اور نت نئے خیالات سے مالا مال لوگ ہیں، اور یہ خوبیاں ہماری فوج اور سویلین شعبوں میں کام کرنے والی ٹیموں میں بھی صاف نظر آتی ہیں۔ انہوں نے متعدد بار سیکورٹی،گورننس اور ترقیاتی شعبوں میں مشکل چیلنجز کا انتہائی دلیری اور مہارت سے مقابلہ کرتے ہوئے بے شمار ایسے طریقے دریافت کیے ہیں جو بے حد دلچسپ اور جدید پروگرامز پر مشتمل ہونے کے ساتھ اکثر کم خرچ بھی ہوتے ہیں۔
ان امریکیوں کے اس وسیع تر تجربے کو، جو انہوں نے بے شمار قربانیوں اور مہنگی قیمت ادا کرکے حاصل کیا ہے، مستقبل میں امن و امان کے مسئلے سے دوچار ملکوں اور جہاں صورت حال متقاضی ہو، استعمال کیا جاسکتا ہے اور کرنا چاہیے۔
حتمی طور پر،سب سے ضروری کام یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ضرورت کے مطابق عمل کیسے کرنا ہے۔یہ کہا جاتا ہے کہ امریکہ نے بالکل اُسی طرح جیسے جنوبی ایشیاء کی تاریخ میں 40برس پہلے بھی ہوچکا، افغانستان میں اچھے ارادوں کے باوجود،غیرارادی طور پر تبدیلی لانے کے لیے نیم نوآبادیاتی طریقے اختیار کیے۔
یہ شاید کچھ زیادہ ہی سنگدلانہ بات ہے،لیکن اگر اسی طرح کے غیرمشروط ”انسدادِ بغاوت“ منصوبوں پر، سیاسی طور پر جواب دہ بنائے بغیر عمل کیا جاتا رہا تو یہ ملک کو اسی سمت میں لے جاتے رہیں گے۔ چنانچہ اگلی بار کسی مجوزہ ”انسدادِ بغاوت COIN“ منصوبے پر فیصلے سے قبل، امریکیوں کواس کے تمام جملہ امور کے بارے میں بلا امتیاز اور شفاف غوروخوض پر زور ضرور دینا چاہیے۔
#…#…#
اقوام متحدہ کی ناکامی
عالمی ادارے کے مقاصد کیا تھے اور یہ انھیں حاصل کیوں نہیں کرسکا؟
(ندیم منظور سُلہری)
ندیم منظور سُلہری، نیویارک امریکہ میں مقیم پاکستانی صحافی ہیں۔ اُنھیں امریکہ کے متعدد صحافتی و تحقیقاتی اداروں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ بھی حاصل ہے۔ نیز وہ اقوام متحدہ، وائٹ ہاؤس،پنٹاگان اور امریکی سینیٹ سمیت متعدد عالمی اداروں کے ساتھ کام کرچکے ہیں۔
.۔۔۔
ہتھیاروں اور طاقت میں اضافہ کے ساتھ جب مختلف ممالک کے درمیان خون ریز جنگوں کے امکانات بڑھ گئے اور ایک پُرامن دنیا کا قیام ایک خواب دکھائی دینے لگا تو یہ احساس تمام ممالک میں بیدار ہوا کہ ایک ایسے ادارے کی سخت ضرورت ہے جہاں تمام ممالک اپنے باہمی اختلافات کو جنگ کی صورت حال تک پہنچنے سے پہلے ہی مذاکرات اور باہمی گفت و شنید و مشاورت سے حل کرسکیں۔
چنانچہ اسی مقصد کے تحت 1919میں لیگ آف نیشنز (اقوام متحدہ کی پیش رو تنظیم) کی بنیاد رکھی گئی تاکہ عالمی تعاون کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ امن اور سلامتی کے حصول کو یقینی بنایا جاسکے۔ مگر جب یہ تنظیم دوسری عالمی جنگ کو روکنے میں ناکام رہی تو اس کا وجود ختم ہوکر رہ گیا۔
دوسری عالمی جنگ کی تباہی اور اس کے انسانی زندگیوں پر ہونے والے بدترین اثرات نے جنگ کے بعد تمام ملکوں کو ایک بار پھر یہ احساس دلایا کہ جنگ کے بغیر اختلافات کے حل کے لیے زیادہ سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
چنانچہ ایک موثر اور طاقتور عالمی ادارے کے قیام کا تصور ذہن میں رکھ کر کچھ اصول ترتیب دئیے گئے۔ تاہم ایک ایسے ادارے کے لیے اصول مرتب کرنے سے لیکر اس کے مقاصد کے تعین اور ادارے کا ڈھانچہ تشکیل دینے تک کا عمل خاصا طویل تھا۔ اس کے لیے ایک بلیوپرنٹ تیار کیا جانا تھا اور پھر کافی ملکوں کی طرف سے اس کی منظوری بھی ضروری تھی۔
1942 میں نئے سال کے آغاز پر، صدر روزویلٹ، وزیر اعظم ونسٹن چرچل، سوویت یونین کے میکسم لیتفینوف اور چین کے ٹی وی سونگ نے ایک مختصر دستاویز پر دستخط کئے، جسے بعد میں اقوام متحدہ کے اعلامیہ کے نام سے جانا گیا اور اگلے دن بائیس دیگر ممالک کے نمائندوں نے بھی اس پر دستخط کردئیے۔
اس اہم دستاویز نے دستخط کرنے والی حکومتوں کوجنگ سے ہر ممکن حد تک بچنے کی کوشش کرنے اور علیحدہ امن قائم کرنے کے خلاف پابند بنادیا۔
اصل چھبیس ممالک جنھوں نے دستخط کیے، وہ یہ تھے: ریاستہائے متحدہ امریکہ، برطانیہ اور شمالی آئر لینڈ، سوویت سوشلسٹ جمہوریہ کی یونین، چین، آسٹریلیا، بیلجیم، کینیڈا، کوسٹا ریکا، کیوبا، چیکوسلواکیہ، ڈومینیکن ریپبلک، ال سلواڈور، یونان، گوئٹے مالا، ہیٹی، ہونڈوراس، بھارت، لکسمبرگ، ہالینڈ، نیوزی لینڈ، نکاراگوا، ناروے، پانامہ، پولینڈ، جنوبی افریقہ، اور یوگوسلاویہ۔
اس طرح مکمل عملی اتحاد اٹلانٹک چارٹر کے اصولوں کی روشنی میں تشکیل پایاتھا، اور اقوام متحدہ کے اعلامیہ کی پہلے شق کہتی تھی کہ، دستخط کرنے والے ملکوں نے،صدر ریاستہائے متحدہ امریکہ،وزیراعظم برطانیہ اور وزیراعظم شمالی آئرلینڈ کی طرف سے مورخہ 14 اگست، 1941 کو جاری کیے جانے والے اعلامیہ، جسے اٹلانٹک چارٹر کے نام سے جانا جاتا ہے،میں بیان کردہ مقاصد اور اصولوں کی پابندی کا عہد کیا ہے۔
بہرحال ابھی اقوام متحدہ کے قیام کے مقاصد اور اس کے دائرہٴ کار کا تعین کیا جانا تھا۔اس مقصد کے لئے، چین، برطانیہ، سوویت یونین اور امریکہ کے نمائندے 7 اکتوبر، 1944کو ”ڈمبرٹن اوکس Dumbarton Oaks“ واشنگٹن امریکہ میں جمع ہوئے اور انھوں نے اس بارے میں تفصیلی بحث کے بعد ہر چیز کو حتمی شکل دی۔ اس کے بعد ایک عالمی تنظیم کا ڈھانچہ قائم کرنے کی تجاویز چاروں ملکوں کے نمائندوں کی طرف سے اقوام متحدہ کے تمام ملکوں اور ان کے عوام کے مطالعہ اور اس پر غورو خوض کے لیے پیش کر دی گئیں۔
ڈمبرٹن اوکس تجاویز کے مطابق، اقوام متحدہ کے نام سے قائم کی جانے والی تنظیم چار بنیادی اداروں پر مشتمل ہونا تھی۔سب سے پہلے تمام ارکان پر مشتمل جنرل اسمبلی کا قیام عمل میں لایا جانا تھا۔ پھر گیارہ ارکان پر مشتمل ایک سلامتی کونسل قائم کی جانی تھی۔ سلامتی کونسل کے بارے میں تجاویز میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ان گیارہ میں سے پانچ ارکان سلامتی کونسل کے مستقل رُکن ہونگے اور باقی چھ ارکان کو دو سال کی مدت کے لیے جنرل اسمبلی کے باقی ارکان میں سے منتخب کیا جائے گا۔
تیسرا ادارہ انصاف کی ایک بین الاقوامی عدالت کی صورت میں قائم کیا جانا تھا، اور چوتھا ایک سیکرٹریٹ تھا۔جنرل اسمبلی کے ماتحت کام کرنے والی ایک اقتصادی و سماجی کونسل بھی قائم کی جانی تھی۔
منصوبہ کے بنیادی مقاصد و اصول یہ تھے کہ مستقبل کی جنگوں کو روکنے کی ذمہ داری سلامتی کونسل کو سونپی جائے گی۔ جنرل اسمبلی بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینے اور فلاح و بہبود کو ممکنہ طور پر نقصان پہنچانے والے حالات پر غور، تبادلہٴ خیال اور ان کے مطابق اقدامات کرنے کے لئے سفارشات پیش کرے گی۔
یہ عمومی اصولوں کی روشنی میں… امن و سلامتی، اور تخفیف اسلحہ برقرار رکھنے میں تعاون کے مسائل پر غور کرے گی۔ لیکن یہ کسی بھی ایسے معاملے پر سفارشات نہیں دے سکے گی جس پر سلامتی کونسل کی طرف سے غور کیا جا رہا ہوگا ، اور کارروائی سے متعلق تمام سوالات سلامتی کونسل کو پیش کیے جائیں گے۔
سلامتی کونسل میں ووٹنگ کے اصل طریقہٴ کار سے متعلق ایک اہم ترین سوال پر ڈمبرٹن اوکس میں ہونے والی بحث کے دوران کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا اور اس کا جواب مستقبل میں ہونے والی بحث کے دوران تلاش کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔
ڈمبرٹن اوکس کے منصوبے کا ایک اور اہم اصول یہ تھا کہ رکن ممالک کے درمیان جنگ کو روکنے اور جارحیت پر مبنی کارروائیوں کو دبانے کا کام انجام دینے کے لیے سلامتی کونسل کے زیرِاختیار مسلح افواج تیار رکھی جائیں گی۔ عمومی طور پر اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ اس طرح کی فوج کی عدم موجودگی ہی دراصل، امن کے تحفظ میں لیگ آف نیشنز کی مہلک کمزوری رہی تھی۔
ڈمبرٹن اوکس تجاویز پر تمام حلیف ممالک میں مکمل طور پر غورو خوض کیا گیا۔ برطانوی حکومت نے ان تجاویز کی ایک تفصیلی تفسیر جاری کی، اور امریکہ میں، محکمہٴ خارجہ نے متن کی 19لاکھ کاپیاں تقسیم کیں اور تجاویز کی وضاحت کرنے کے لیے مقررین، ریڈیو پروگراموں اور موشن پکچر فلموں کا اہتمام کیا۔ مختلف ممالک جیسے کہ، آسٹریلیا، بیلجیم، کینیڈا، چیکوسلواکیہ، فرانس، ہالینڈ، نیوزی لینڈ، ناروے، پولینڈ، جنوبی افریقہ کی یونین، روس، برطانیہ اور امریکہ کی طرف سے تبصرے اور تعمیری تنقید بھی سامنے آئی۔
پریس اور ریڈیو کے ذریعے ہونے والی فعال بحث نے حلیف ممالک میں وسیع پیمانے پر عوام کو امن کے لئے نئی منصوبہ بندی کے امتیازات وخصوصیات پر فیصلہ کرنے میں مدد دی۔ ان مباحثوں میں زیادہ توجہ اس نئے منصوبے اور لیگ آف نیشنز کے عہد کے درمیان فرق پر مرکوز کی گئی، عام طور پر اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ ایک مسلح فوج کو سلامتی کونسل کے زیر اختیار رکھنے کافیصلہ قابل ذکر بہتری ہے۔
ڈمبرٹن اوکس تجاویز میں باقی رہنے والے ایک اہم خلاء کو پُر کرنا ابھی باقی تھا: یعنی سلامتی کونسل میں ووٹنگ کا طریقہٴ کار کیا ہوگا؟۔ اس کا فیصلہ یالٹا، کریمیا میں کیا گیا، جہاں چرچل، روز ویلٹ اور اسٹالن نے، اپنے وزرائے خارجہ اور فوجی سربراہان کے ساتھ، کانفرنس میں ملاقات کی تھی۔ 11 فروری، 1945 کو، کانفرنس میں اعلان کیا گیا کہ اس سوال کو حل کرلیا گیا ہے ، اور اسی سلسلے میں سان فرانسسکو کانفرنس طلب کر لی گئی۔
تینوں رہنماؤں نے کانفرنس کے بعد اعلان کیا کہ،”ہم نے حل تلاش کرلیا ہے۔امن و سلامتی برقرار رکھنے کے لئے اتحادی ممالک کے ساتھ جلدازجلد ایک عام بین الاقوامی تنظیم کے قیام کے ساتھ … ہم نے اتفاق کیا ہے کہ ڈمبرٹن اوکس مذاکرات میں پیش کردہ تجاویز کی روشنی میں تنظیم کا چارٹر تیار کرنے کے لیے، 25اپریل 1945کوسان فرانسسکو، امریکہ میں اقوام متحدہ کے رُکن ممالک کی کانفرنس بُلائی جائے۔
“
5 مارچ، 1945 کو دعوت نامے بھیج دئیے گئے، اور جن ممالک کو دعوت دی گئی تھی انھیں اسی وقت یالٹا میں سلامتی کونسل میں ووٹنگ کے طریقہٴ کار پر ہونے والے معاہدے کے بارے میں بھی بتادیا گیا تھا۔
اس کے فوراً بعد، اپریل کے آغاز میں، امریکی صدر روز ویلٹ کا اچانک انتقال ہوگیا جن کے تدبر کا سان فرانسسکو کانفرنس کے منصوبہ کی تشکیل میں بہت اہم کردار تھا۔
اُس وقت یہ خطرہ بھی محسوس کیا گیا کہ شاید کانفرنس کو ملتوی کردیا جائے گا، لیکن صدر ٹرومین نے پہلے سے کیے گئے تمام انتظامات کو تکمیل تک پہنچانے کا فیصلہ کیا، اور کانفرنس کو مقررہ تاریخ پر شروع کر دیا گیا۔
25 اپریل 1945 ء سے 26 جون 1945 ء تک سان فرانسسکو، امریکہ میں پچاس ملکوں کے نمائندوں کی یہ کانفرس منعقد ہوئی۔ اس کانفرس میں ایک بین الاقوامی ادارے کے قیام پر اتفاق کرلیا گیا اور پچاس ممالک کے نمائندوں نے اس کے چارٹر پر دستخط کردئیے۔
پولینڈ جو اس اجلاس میں اپنے ملکی حالات کی وجہ سے نمائندہ نہیں بھیج سکا تھا اُس نے 15اکتوبر 1945کو چارٹر پر دستخط کیے۔ چنانچہ اقوام متحدہ کا منشور یا چارٹر مرتب کرلیا گیا۔ لیکن اقوام متحدہ 24 اکتوبر 1945 ء کو باقاعدہ طور پر معرض وجود میں آئی۔
اقوام متحدہ کا نام امریکہ کے سابق صدر مسٹر روز ویلٹ نے تجویز کیا تھا۔
بعدازاں وقت کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے رُکن ممالک کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلاگیا اور زیادہ سے زیادہ ممالک اس عالمی ادارے کے تحت شامل ہوتے چلے گئے۔ آج اس کے رُکن ممالک کی تعداد 193ہے۔