Episode 17 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 17 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

منشور اور اہداف
اقوام متحدہ کے چارٹر کی ابتدا میں اس کے مقاصد کے بارے میں لکھا ہے کہ :ہم اقوام متحدہ کے لوگوں نے مصمم ارادہ کیا ہے کہ آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے بچائیں گے جو ہماری زندگی میں بنی نوع انسان پر دو مرتبہ بے انتہا مصیبتیں لا چکی ہے۔ انسانوں کے بنیادی حقوق پر دوبارہ ایمان لائیں گے اور انسانی اقدار کی عزت اور قدرومنزلت کریں گے۔
مرد اور عورت کے حقوق برابر ہوں گے۔ اور چھوٹی بڑی قوموں کے حقوق برابر ہوں گے۔ ایسے حالات پیدا کریں گے کہ عہد ناموں اور بین الاقوامی آئین کی عائد کردہ ذمہ داریوں کو نبھایا جائے۔ آزادی کی ایک وسیع فضا میں اجتماعی ترقی کی رفتار بڑھے اور زندگی کا معیار بلند ہو۔
یہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے رواداری اختیار کریں۔

(جاری ہے)

ہمسایوں سے پر امن زندگی بسر کریں۔

بین الاقوامی امن اور تحفظ کی خاطر اپنی طاقت متحد کریں۔ نیز اصولوں اور روایتوں کو قبول کر سکیں۔ اس بات کا یقین دلائیں کی مشترکہ مفاد کے سوا کبھی طاقت کا استعمال نہ کیا جائے۔ تمام اقوام عالم اقتصادی اور اجتماعی ترقی کی خاطر بین الاقوامی ذرائع اختیار کریں۔
اقوام متحدہ کے مقاصد
اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق اس کے مقاصد یہ ہیں:
# مشترکہ مساعی سے بین الاقوامی امن اور تحفظ قائم کرنا۔
# قوموں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو بڑھانا۔
# بین الاقوامی اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور انسانوں کو بہتری سے متعلق گتھیوں کو سلجھانے کی خاطر بین الاقوامی تعاون پیدا کرنا، انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے لیے لوگوں کے دلوں میں عزت پیدا کرنا۔
# ایک ایسا مرکز پیدا کرنا جس کے ذریعے قومیں رابطہٴ عمل پیدا کر کے ان مشترکہ مقاصد کو حاصل کر سکیں۔
# آرٹیکل نمبر 2 کے تحت تمام رکن ممالک کا مرتبہ برابری کی بنیاد پر ہے۔
سلامتی کونسل
سلامتی کونسل یا سکیورٹی کونسل اقوام متحدہ کا سب سے اہم عضو ہے۔ اس کے کل پندرہ ارکان ہوتے ہیں، جن میں سے پانچ مستقل ارکان جو کہ فرانس، روس، برطانیہ، چین اور امریکا ہیں اور ان کے پاس کسی بھی معاملہ میں راے شماری کو تنہا رد یعنی ویٹو کرنے کا حق حاصل ہے۔
ان کے علاوہ اس کے دس غیر مستقل اراکین بھی ہیں جن کو جنرل اسمبلی دو دو سال کے لیے منتخب کرتی ہے۔ انھیں فوری طور پر دوبارہ منتخب نہیں کیا جاسکتا۔
طاقت ور ممالک کا غلبہ
لیگ آف نیشنز کی ناکامی کے بعد اقوام متحدہ کا قیام اس مقصد کے تحت لایا گیا تھا کہ جنگ سے ہر ممکن حد تک بچا جاسکے اور باہمی اختلافات کو جنگ کی صورت حال تک پہنچنے سے پہلے حل کرلیا جائے۔
مگر اس مقصد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کے بڑے اور طاقت ور رُکن ممالک ہیں جنھوں نے اس عالمی ادارے کو اپنے مقاصد کے حصول اور مفادات کے تحفظ کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ اقوام متحدہ کے ان طاقت ور ارکان کی تعداد پانچ ہے جو کسی بھی ایسی قرارداد کو ویٹو کرنے کا اختیار رکھتے ہیں جسے ارکان کی اکثریت متفقہ طور پر منظور کرچکی ہو۔یہ ویٹو پاور رکھنے والے ممالک چین، فرانس، روس (سابق سوویت یونین)، برطانیہ، اور ریاستہائے متحدہ امریکہ ہیں۔
ان ممالک کے پاس یہ طاقت اس لیے ہے کہ یہ اس ادارے کے بانی رُکن اور دوسری عالمی جنگ کے بعد اس کی بنیاد رکھنے والے ہیں۔ بدقسمتی سے ، یہ غیر جمہوری روایت کئی وجوہات کی بناء پر اقوام متحدہ کو ناکام بنارہی ہے۔ سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ، قوموں کے درمیان صرف ایک حقیقی جمہوریت ہی غیر جانبدار اور منصفانہ فیصلے کرسکتی ہے۔ چنانچہ، اقوام متحدہ کے مکمل ڈھانچہ میں اہم تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
لیکن ایسا ہونے کا بھی امکان نہیں ہے کیونکہ ویٹو کا حق رکھنے والے ممالک متفقہ طور پر غیرجانبداری کی خاطر اس حق کو ترک کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ اسی لیے اقوام متحدہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ،”جب دو چھوٹے ممالک کے درمیان مسئلہ اقوام متحدہ میں آتا ہے تو مسئلہ ختم ہوجاتا ہے،جب ایک ملک طاقت والا اور ایک چھوٹا ہو تو چھوٹے ملک کو ختم کردیا جاتا ہے، اور جب دو بڑی طاقتوں کے درمیان مسئلہ ہو تو اقوام متحدہ ختم ہوجاتی ہے“۔
اس بات کا عملی مظاہرہ کئی مواقع پر دیکھنے میں آیا ہے،بالخصوص سرد جنگ کے زمانے میں جب دنیا واضح طور پر دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔چنانچہ اس وقت اجتماعی تحفظ کا تصور جسے اقوام متحدہ کے منشور میں اہم ترین حیثیت حاصل تھی ایک بار پھر ناکام ہوتانظر آرہا تھا۔ بے شمار مواقع پر سیکورٹی کونسل کو عظیم طاقتوں نے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔
امریکہ اور روس دونوں ہی اپنے اپنے حلقہٴ اثر میں شامل علاقوں میں امن قائم رکھنے کے خواہاں تھے اور اُنھیں دوسرے کے مفادات کی کوئی پرواہ نہ تھی۔سپرپاورز کے درمیان اختلافات ترقی پذیر ممالک کو اپنے حلقہٴ اثر میں شامل کرنے کے لیے زیادہ شدت کے ساتھ اُبھر کر سامنے آئے، اور ان کی وجہ سے ہی پراکسی جنگیں شروع ہوئیں۔ یہ مقابلہ بلاشبہ سیکورٹی کونسل میں بھی نظر آیا مگر پانچ بڑی طاقتوں کو حاصل ویٹو کے اختیار کی وجہ سے کسی تنازع کا کوئی حل نہ نکل پاتا۔
1956میں ہونے والا نہر سوئس کا تنازع،1946سے 1975تک ویت نام میں جاری رہنے والی صورت حال،1979میں چین اور ویت نام کے درمیان ہونے والی جنگ،اور 1979کے بعد سے افغانستان میں شروع ہونے والی جنگ کے دوران اقوام متحدہ کی اپنے مقاصد میں ناکامی اور بڑی طاقتوں کی طرف سے اس عالمی ادارے کو محض اپنے مفادات کے حصول کا ذریعہ سمجھنے کی حقیقت عیاں ہوجاتی ہے۔
اس دوران اقوام متحدہ عملی طور پر غیر موثر ہوکر رہ گئی تھی۔
ویٹو پاور
اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے پانچ مستقل ارکان…امریکہ، برطانیہ،روس، چین اورفرانس ویٹو کا حق رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی کسی بھی قرارداد یا تجویز پر عملدرآمد کو روک سکتے ہیں، خواہ جنرل اسمبلی کے ارکان کی اکثریت اس کے حق میں ہو۔
چنانچہ اس ویٹو کے استعمال نے متعدد مواقع پر کسی مسئلہ کے حل کے لیے عملدرآمد کو تعطل کا شکار کیا ہے۔1946سے 2007تک، امریکہ اور روس نے ویٹو پاور کو 124دفعہ استعمال کیا۔ امریکہ نے 82دفعہ کئی نازک معاملات پر بھی اقوام متحدہ کے رُکن ممالک کی طرف سے پیش کردہ متفقہ قرار دادوں کو ویٹو کیا ہے۔ امریکہ نے اسرائیل کے خلاف کسی بھی اقدام کی ہمیشہ مخالفت کی ہے اور عرب ممالک کی طرف سے پیش کی جانے والی قراردادوں کو ہمیشہ ویٹو کرتا آیا ہے۔
اس نے اقوام متحدہ کی طرف سے پاکستان میں ڈرونز کے استعمال کو غلط قرار دئیے جانے کی متفقہ قرارداد کے باوجود حملے روکنے سے انکار کیا ہے۔ امریکہ کی طرح روس اور چین بھی متعدد مواقع پر اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ویٹو کا استعمال کرتے آئے ہیں۔ اسی لیے بے شمار عالمی مبصرین کی طرف سے یہ تنقید کی جاتی ہے کہ سلامتی کونسل کے پانچ ارکان کا ویٹو کا حق ختم کیا جائے تاکہ اس ادارے کو پوری دنیا کے ممالک کی حقیقی نمائندہ تنظیم بنایا جاسکے جو جمہوری انداز میں یکساں طور پر سب کی نمائندگی کرسکے۔
ویٹو پاور کا حالیہ استعمال شام کے بحران کے دوران دیکھنے میں آیا ہے، جب ستمبر 2013میں روس اور چین نے شام کے خلاف معاشی پابندیوں کی قرارداد کو ویٹو کردیا تھا۔ 
کیا اقوام متحدہ امریکہ کا ”ہتھیار“ بن کر رہ گئی ہے؟ 
 امریکہ اُن اہم ابتدائی ممالک میں شامل تھا جنہوں نے سب سے پہلے اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کیے۔ اس وقت امریکہ اقوام متحدہ کے بجٹ میں سب سے زیادہ حصہ ڈالنے والا ملک ہے اور اس نے تنظیم کے بجٹ(2013سے 2015) کا 22فیصد بوجھ اپنے کندھوں پر اُٹھا رکھا ہے۔
سن 2000ء میں اقوام متحدہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ کسی ایک ملک پر انحصار ختم کرنا چاہتی ہے اس لیے کوئی ملک اس کے بجٹ میں زیادہ سے زیادہ 22فیصد حصہ ڈال سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے بعد سب سے زیادہ حصہ ڈالنے والا ملک جاپان ہے جو تقریباً 10فیصد بوجھ اُٹھاتا ہے، اس کے بعد جرمنی ہے جو تقریباً 7فیصد حصہ ڈالتا ہے۔پچھلی کچھ دہائیوں کے دوران امریکہ کا اقوام متحدہ پر اثر و رسوخ نمایاں رہا ہے۔
عراق اور افغانستان میں فوجی ایکشن کو نہ روک پانا اقوام متحدہ جیسے ادارے کی بڑی ناکامی مانا جاتا ہے جس کی تشکیل کا مقصد امن کا قیام تھا۔
اقوام متحدہ کے بجٹ میں اپنے نمایاں حصے کے علاوہ امریکی حکومت اور اس کے بڑے ادارے اقوام متحدہ کے زیراہتمام کام کرنے والے متعدد پروگراموں کے لیے بھی بھاری فنڈز فراہم کرتے ہیں، جیسے کہ یونیسیف، ڈبلیو ایچ او، اور عالمی پروگرام برائے خوراک۔
چونکہ اقوام متحدہ کے پروگراموں میں امریکہ کا حصہ سب سے زیادہ ہے، اس لیے امریکہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ بھی اُٹھاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی زیادہ تر ایجنسیاں امریکی مفادات کے لیے کام کرتی ہیں۔
اقوام متحدہ کی بڑی ناکامیاں
 اقوام متحدہ پر کی جانے والی تنقید میں سے ایک یہ ہے کہ تنظیم اپنے رُکن ممالک کے درمیان مسلح تصادم کو روکنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
اقوام متحدہ کا ماضی میں امریکی مفادات کو پروان چڑھانے کا ذریعہ بنے رہنا اس تنقید میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔1975سے 1979کے دوران کمبوڈیا کے انتہا پسند کمیونسٹ رہنما کیمار روچ نے ساری اپوزیشن کو اپنے راستے سے ہٹادیا اور 2.5ملین سے زیادہ کمبوڈین شہریوں کو قتل کرادیا۔ اور پھر جب ویت نام نے مداخلت کرکے کمبوڈیا کی حقیقی انتظامیہ کو سامنے لانے کی کوشش کی تو اقوام متحدہ نے ویت نام کے عمل کی شدید مذمت کی تھی اور 1994تک کیمار روچ کی حمایت کرتی رہی، صرف اس لیے کہ ویت نام اور امریکہ کے درمیان حالات کشیدہ تھے۔
1994میں، روانڈا کا قتل عام بھی ایسی ہی ایک مثال ہے، جب روانڈا کے قریب 10لاکھ باشندوں کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے اور وہاں موجود امن فورسز کو طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں دی گئی۔ چونکہ اقوام متحدہ کا یہ عمل امریکہ کی طرف سے مداخلت نہ کرنے کی پالیسی کے باعث تھا، اس لیے انسانی جانوں کی حفاظت سے غفلت اقوام متحدہ کی ساکھ پر گہرا دھبہ ہے۔
 
1995میں بوسنیا کی جنگ کے دوران ہونے والا قتل عام ، دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ میں ہونے والا سفاک ترین واقعہ ہے۔ بوسنیا میں اقوام متحدہ نے مسلمانوں کے لیے بہت سے محفوظ علاقے قائم کرنے کا اعلان کیا مگر یہ ادارہ اُنھیں تحفظ دینے میں بُری طرح ناکام رہا اور سربیا نے ہزاروں مسلمانوں کو بے رحمانہ طور پر ہلاک کردیا۔ اقوام متحدہ نے بوسنیا کے باشندوں کو تحفظ دینے پر مامور اپنی مسلح افواج کو عین وقت پر ہٹالیا تھا۔
بوسنیا کے ہزاروں باشندوں کے قتل عام پر آنکھیں بند کیے رکھنا اقوام متحدہ کی اہم ناکامی تھا۔
اقوام متحدہ نے1990کی دہائی کا آغاز بڑی اونچی اُمیدوں کے ساتھ کیا تھا۔ سرد جنگ اور اس کے ساتھ ہی سوویت یونین اور روس کی اُس طویل محاذ آرائی کا بھی خاتمہ ہوچکا تھا جس نے برسوں تک سلامتی کونسل کو مفلوج کیے رکھا تھا۔ اب اُمید کی جارہی تھی کہ اقوام متحدہ زیادہ موثر طور پر اپنا کردار ادا کرسکے گی۔
امریکی صدر بش نے اس وقت نیو ورلڈ آرڈر کی بات کی تھی۔ جبکہ صدارتی اُمیدوار بل کلنٹن نے اقوام متحدہ کو زیادہ اختیارات دینے اور اس کی اپنی ملٹری فورس قائم کرنے کی تجویز دی تھی۔ مگر اب کوئی امریکی عہدیدار ایسی کوئی بات کرنے پر تیار نہیں۔ وہ اقوام متحدہ کے امن کے قیام میں ناکامیوں کے ریکارڈ کی وجہ سے مایوس نظر آتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے خود ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں اس ادارے کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں اور اس کی ناکامیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
عراق جنگ کے حوالے سے امریکہ نے جس طرح اقوام متحدہ اور سیکورٹی کونسل کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا وہ اب نہ صرف پوری دنیا پر عیاں ہوچکا ہے بلکہ امریکی حکام خود اس کی وجہ سے امریکہ کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان اور عراق جنگ کے کئی برس بعد بھی مسئلہ کا مستقل حل ممکن نہ ہونے پر امریکی حکومتوں کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
صدام حسین کی طرف سے بڑی تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری کا الزام لگا کر امریکہ نے پہلے تو اقوام متحدہ کو مجبور کیا کہ عراق کے خلاف پابندیاں عائد کی جائیں اور بعدازاں اس نے جنگ کے لیے بھی یہی جواز فراہم کیا۔ مگر جنگ کے دوران یا اس کے خاتمے کے بعد کسی طرح بھی یہ ثات نہیں ہوسکا کہ صدام حسین کے پاس ایسے کوئی ہتھیار تھے یا وہ انہیں تیار کررہا تھا۔
پھر عراق کو ہتھیاروں سے نجات اور صدام حسین کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کے امریکی وعدے بھی جھوٹے ثابت ہوئے اور عراق آج صدام حسین کے دور سے کہیں زیادہ بدامنی اور عدم استحکام کا شکار ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ 1990کی دہائی کے بعد سے اقوام متحدہ ایک بحث مباحثہ کا مرکز، انسانی مسائل کے حوالے سے کوششوں کی تنظیم اور عظیم طاقتوں کے درمیان ڈپلومیسی پر مبنی زور آزمائی کے لیے مخصوص ادارہ بن کر رہ گیا ہے۔
 
اقوام متحدہ کے نقاد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پچھلی کئی دہائیوں کے دوران ایسے متعدد مواقع آئے ہیں جب اقوام متحدہ فوری طور پر ایکشن لینے، مسلح تصادم کو روکنے اور بڑی طاقتوں کو من مانیاں کرنے سے روکنے میں ناکام رہی ہے اور ایک عالمی ادارے کے طور پر اسے جس فعال انداز میں تمام رُکن ممالک کے مفادات کا یکساں تحفظ کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کرسکی۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط