Episode 18 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 18 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

 مسئلہ کشمیر اور اقوام متحدہ
 1947 ء میں ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں بھارت اور پاکستان کی ریاستوں کا قیام عمل میں آیا، مگر اس تقسیم میں موجود بہت سے سقم اور خرابیوں نے وقفے وقفے سے دونوں نئے ممالک کے تعلقات کو متاثر کیا ہے۔ ان میں سب سے اہم اور نمایاں مسئلہ کشمیر رہا ہے جس نے ابتداء سے ہی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا کیے رکھی ہے اور آج بھی اسی کی وجہ سے دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان تصادم کا خطرہ جُوں کا تُوں موجود ہے۔
تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان وائسرائے لارڈ ماوٴنٹ بیٹن نے 3 جون 1947 کو کیا تھا، اور اسی کے ساتھ ہی مسئلہ کا آغاز ہوگیا تھا۔منصوبے میں کہا گیا تھا کہ شاہی ریاستیں جن کی تعداد 564ہے، وہ اپنے لوگوں کی مرضی اور جغرافیائی حالات کی مناسبت سے پاکستان یا بھارت جس سے چاہیں الحاق کرسکتی ہیں۔

(جاری ہے)

کشمیری اپنی غالب مسلم آبادی، جغرافیائی قربت اور پاکستان کے ساتھ ثقافتی، مذہبی اور نسلی وابستگیوں کی بناء پر پاکستان کی جانب زیادہ مائل تھے۔

تاہم اس الحاق کی راہ میں مہاراجہ ہری سنگھ رکاوٹ تھا۔ اس دوران کشمیریوں نے مہاراجہ کی جابرانہ حکومت کے خلاف بغاوت کردی، جس پر ہری سنگھ نے بھارتی قیادت سے مدد کی درخواست کی۔ بھارت نے سری نگر میں اپنے فوجی دستے بھیج دئیے اور ظلم وجبر کے ساتھ بغاوت کو دبانا شروع کر دیا اور ہری سنگھ کے ساتھ ملی بھگت سے کشمیر کے بھارت سے الحاق کا پروانہ حاصل کرلیا۔
ماوٴنٹ بیٹن نے الحاق کے بارے میں فیصلے کو امن وامان کی صورتحال معمول پر آنے تک موخر کردیا۔اس دوران بھارتی فوجیوں نے بے رحمی سے کشمیری عوام کو قتل کرنا شروع کر دیا اور چھ ماہ کے اندر تقریباً 80 ہزارافراد ہلاک اور7ہزار سے زائد گھروں سے فرار ہو گئے تھے۔
بھارت نے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ سے خود جنوری 1948میں رجوع کیا تھا۔17 جنوری 1948 کو دونوں طرف کے دلائل سُننے کے بعد اقوام متحدہ نے اپنی پہلی قرارداد میں دونوں ملکوں پر صورتحال کو بہتر بنانے اور ایسے کسی بھی عمل سے باز رہنے پر زور دیا جس سے صورت حال میں مزید بگاڑ پیدا ہوسکتا ہو۔
اس کے بعد، اقوام متحدہ نے ایک کمیشن(UNCIP) مقرر کیا کہ وہ معاملے کی تحقیقات کرائے اور لوگوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لئے رائے شماری کو یقینی بنایا جائے۔ جس وقت اقوام متحدہ نے یہ نئی قرارداد پیش کی،اس وقت تک، کشمیر پر صورت حال بدتر ہوچکی تھی اور دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر تھے۔ لہٰذا، UNCIP نے ضروری سمجھا کہ پہلے دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر کروایا جائے ، جس پر جنوری 1949میں عمل کیا گیا۔
جب سیز فائر ہوا تو بھارت کشمیر کے دو تہائی حصے پر قبضہ کرچکا تھا جبکہ باقی جس حصے پر پاکستان نے پیش قدمی کی تھی اُسے آزاد کشمیر کا نام دیا گیا۔ سیزفائر کے بعد بھی اقوام متحدہ نے اس بات پر زور دیا کہ کشمیری عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ کشمیری عوام کو کبھی بھی ان کا حق خودارادیت نہیں دیا گیا۔بھارت نے کھلے بندوں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو قبول کرنے سے انکار کیا کیونکہ وہ کشمیری عوام کو ان کے مستقبل کے فیصلے کا اختیار دینے سے خوفزدہ تھا اور جانتا تھا کہ کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔
بھارت نے مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا ہے اور اقوام متحدہ سمیت کسی بھی غیرجانبدار فریق کی ثالثی کو بھی ماننے سے انکار کرتا آیا ہے۔ اس مسئلہ پر اقوام متحدہ کا کردار بھی انتہائی افسوسناک ہے جو اپنی ہی قراردادوں پر عمل درآمد کروانے میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ ایک غیرجانبدار عالمی ادارے کے طور پر کام کرنے کے بجائے بڑی طاقتوں کے اثرورسوخ اور مفادات کے تحت کام کرتی ہے۔
چونکہ اس وقت امریکہ واحد سپرپاور ہے اور اس کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے اس لیے وہ اقوام متحدہ کو کشمیر کے مسئلہ پر فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرنے دیتا۔ امریکہ نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے۔ مگر بھارت اول تو پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر تیار نہیں ہوتا اور اگر کبھی کسی دباؤ کے تحت تیار ہو بھی جائے تو کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیکر مذاکرات کا محض ڈھونگ کرتا ہے۔
اسی لیے 66برس گزر جانے کے باوجود مسئلہ کشمیر جُوں کا تُوں ہے۔ اسی مسئلے کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کئی بار جنگ کرچکے ہیں اور اب بھی ایٹمی طاقتوں کے درمیان یہی مسئلہ وجہ تنازع ہے مگر افسوس کہ اقوام متحدہ اس مسئلہ کو حل کرانے میں بُری طرح ناکام ہے۔
 فلسطین کا مسئلہ
1967میں فلسطین پر اسرائیل کے غاصبا نہ قبضے اور نہتے فلسطینی عوام پر اسرائیلی فوج کے ظلم و ستم پر اقوام متحدہ کا کردار اس قدر شرمناک ہے کہ خود اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان اس بارے میں یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ”فلسطین کے معاملے پر اقوام متحدہ کی ناکامی نے اس کی ساکھ کو گہری چوٹ پہنچائی ہے اور اس مسئلہ کی وجہ سے دنیا اس ادارے کی غیرجانبداری کے بارے میں سوال اُٹھاتی رہے گی“۔
کسی دوسرے مسئلے پر اس قدر کاغذی کام نہیں کیا گیا جس قدر کے بے گھر اور مقبوضہ فلسطین کی حالت زار پر اقوام متحدہ کے تحت انجام دیا گیا ہے۔لیکن یہ ادارہ فلسطین پر اپنی سینکڑوں قراردادوں کا احترام نہیں کرواسکا۔
اقوام متحدہ میں جاری طاقت کی سیاست اور مفادات کا کھیل سب سے زیادہ مسئلہ فلسطین سے ہی بے نقاب ہوا ہے اور اس مسئلہ کے مستقل اور پائیدار حل میں اقوام متحدہ کی مسلسل ناکامی ادارے کی ساکھ پر بدنما داغ بن چکا ہے۔
اس حوالے سے اقوام متحدہ کی مداخلت کا راستہ روکنے میں ہمیشہ امریکہ نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔واشنگٹن نے مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے پیش کی جانے والی 40سے زائد قراردادوں کو ویٹو کیا ہے، جن میں سے کچھ تو اس کے یورپی اتحادیوں کی طرف سے پیش کی گئی تھیں۔ آج کے مشرق وسطیٰ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امریکہ کی ان پالیسیوں نے کسی بھی فریق کی عملی طور پر مدد نہیں کی بلکہ صرف صورت حال کو سنگین تر بنایا ہے۔
اس کی مسلسل حمایت کی وجہ سے اسرائیل کی جارحیت اور ظلم و بربریت بڑھتی جارہی ہے۔
سرد جنگ کے دوران ہونے والی محاذ آرائی نے بھی اسرائیل…فلسطین و عرب تنازعہ میں اقوام متحدہ کو مفلوج کیے رکھا ہے۔ اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ 1947 سے1990 کے درمیان جنرل اسمبلی کی طرف سے منظور کردہ 690 قراردادوں میں سے نصف کو کیوں نظر انداز کر دیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ اسرائیل کی واضح جارحیت اور بے رحمانہ ظلم و نا انصافی کے باوجود اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر کو حل کیوں نہیں کراسکی ، نیز اقوام متحدہ میں عرب و یورپی ممالک کی طرف پیش کی جانے والی سینکڑوں قراردادیں بھی غیرموثر رہی ہیں۔
اس کا مختصر جواب ہے ”دوہرا معیار “۔
 بوسنیا، کوسوو، صومالیہ، کویت، عراق، افغانستان، ایران، شام اور حال ہی میں، لبنان، جنوبی سوڈان سمیت سرد جنگ کے بعد کے تمام بڑے تنازعات میں، اقوام متحدہ کی براہ راست مداخلت دیکھی گئی۔ لیکن صرف فلسطین کے مسئلہ میں ایسا نہیں ہوا۔اس کی بڑی وجہ امریکی مالی تعاون سے سفارتی عمل کا ملتوی کیا جانا ہے۔
امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے کبھی بھی اقوام متحدہ کو فلسطین کے معاملے پر منصفانہ اور غیرجانبدارانہ کردار ادا نہیں کرنے دیا۔نہ صرف فلسطین اسرائیل تنازعے کو اس عالمی ادارے کے اختیارسے باہر نکال دیا گیا بلکہ، اسرائیل سے متعلقہ تمام اہم قراردادوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔
امریکی آشیرباد کی وجہ سے ہی اسرائیل اقوام متحدہ کی طرف سے ہر تنبیہ، ہدایت اور سفارش پر مبنی قراردادکو نظرانداز کرکے نہتے فلسطینیوں کا قتل عام کرتا رہا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔
اسرائیل نے کبھی بھی، انسانی ہمدردی اور سیاسی مداخلت کے لئے اپیل اور مطالبات پر کان نہیں دھرے۔وہ مقبوضہ علاقے خالی کرنے پر تیار ہوتا ہے اور نہ ہی فلسطینیوں کو آزادانہ زندگی بسر کرنے دیتا ہے بلکہ جب چاہتا ہے فلسطینیوں پر خوفناک حملے شروع کردیتا ہے اور دنیا خاموش تماشائی بن کردیکھتی رہتی ہے۔ اقوام متحدہ کے غیرفعال اور بڑی طاقتوں کے سامنے بے بسی کا اس سے بڑا ثبوت اور کوئی نہیں ہوسکتا۔
کیا کِیا جانا چاہیے؟ 
 اقوام متحدہ کا بنیادی مقصد امن کا قیام اور جنگوں کو روکنا ہے۔ نیز عالمی سطح پر ایک بہتر باہمی ماحول قائم کرنا اوراختلافات کو لڑائی کی صورت حال تک پہنچنے سے پہلے حل کی طرف لے جانا ہے۔ ان مقاصد کا حصول اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک اقوام متحدہ بڑی طاقتوں کے اثر سے خود کو آزاد نہیں کرالیتی اور ایک غیرجانبدار، آزاد اور منصفانہ تنظیم کے طور پر اپنا کردار بحال نہیں کرتی۔
اس ضمن میں سب سے اہم اقدام بڑی طاقتوں کے ویٹو کے حق کا خاتمہ کرنا ہے۔ تاکہ اقوام متحدہ میں تمام فیصلے جمہوری انداز میں تمام رُکن ممالک کی اکثریتی حمایت سے ہوسکیں۔ امریکہ کے واحد سپر پاور کے طور پر دنیا بھر میں اپنی طاقت کے بل پر مرضی کے فیصلے مسلط کرنے سے بہت سے مسائل پیدا ہورہے ہیں اور بے شمار اُبھرتی ہوئی طاقتیں اب اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے دیگر متوازی ادارے قائم کررہی ہیں۔
اگر اب بھی اقوام متحدہ اسی طرح بڑی طاقتوں کے ہاتھوں یرغمال بنی رہی تو اس کا انجام بھی لیگ آف نیشنز جیسا ہی ہوگا اور اس کی جگہ جلد کسی دوسرے موثر ادارے کے قیام پر زور دیا جانے لگے گا۔
#…#…#
وعدے جنہیں پورا کرنا ضروری ہے 
بہتر ترقیاتی اہداف کی تیاری
(بیورن لومبرگ)
بیورن لومبرگ کوپن ہیگن بزنس اسکول میں اسسٹنٹ پروفیسر، کوپن ہیگن کانسینسز سنٹر کے ڈائریکٹر، اور کتاب ”Cool It:The Skeptical Environmentalist's Guide to Global Warming“ کے 
مصنف ہیں۔
۔۔
اقوام متحدہ کے ہمیشہ بہت سے اہداف، مقاصد، اور اعلامیے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، شاید آپ کو پتا بھی نہیں ہوگا کہ سال 2014 فیملی فارمنگ کا عالمی سال اور قلمیات (Crystallography ) کا عالمی سال بھی تھا۔ یا یہ کہ آپ اس وقت روڈ سیفٹی کے لئے اقدامات کی دہائی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اس طرح کے اقدامات زیادہ تر اچھے ارادوں کو ظاہر کرتے ہیں لیکن بہت کم نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں۔
1950 سے 2000 کے درمیان، اقوام متحدہ کی کم از کم 12قراردادوں میں یکساں تعلیم کے لیے اقدامات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 1961 میں، نام نہاد ادیس ابابا پلان کے ذریعے عہد کیا گیا تھا کہ دو عشروں کے اندر، افریقہ میں پرائمری تک سکول کی تعلیم ”سب کے لیے یکساں، لازمی اور مفت “ ہوگی۔ بیس سال بعد بھی، تمام افریقی بچوں میں سے تقریباً نصف سکول نہیں جارہے تھے۔
صنفی مساوات سے لیکر دنیا میں امن کے قیام تک،بے شمار دیگر کوششوں کے بارے میں بھی کامیابیوں کے اتنے ہی بلند و بالا وعدے کیے گئے تھے، جو کبھی بھی حقیقت کا روپ نہیں دھار سکے۔
لیکن 2000 میں، کچھ انتہائی غیر معمولی ہوا: اقوام متحدہ نے اپنے سب سے اچھے عزائم کو زیادہ پختہ صورت میں آگے بڑھایا۔100 ریاستوں اور 47 حکومتوں کے سربراہ…تاریخ میں عالمی رہنماوٴں کی سب سے بڑی میٹنگ کے طور پر… اقوام متحدہ کے ملینیم اجلاس کے لئے نیویارک میں اُترے اور انھوں نے حوصلہ مندی کے متقاضی چیلنجوں کی ایک مختصر فہرست تیار کی جنہیں بعد میں ملینیم ڈویلپمنٹ گولز(ایم ڈی جیز) کے نام سے جانا گیا۔
غربت کم کرنے،بیماری سے لڑنے، بچوں کوسکول میں داخل کروانے اور اسی طرح کے دیگر مقاصدکو… بنیادی طور پر نو مخصوص، قابل پڑتال اہداف میں شامل کرلیا گیا، اور انھیں ایک مشکل ڈیڈ لائن : 31دسمبر ، 2015 سے مشروط کردیا گیا۔
بعد کے سالوں میں، حکومتوں، بین الاقوامی اداروں اور نجی فاوٴنڈیشنز نے اربوں ڈالر کے ساتھ ان مقاصد کی حمایت کی ہے، اور بہت بہتری بھی آئی ہے۔
دنیا میں بھوک کے شکار لوگوں کی تعداد کو نصف کرنے کا وعدہ اس کی ایک مثال ہے۔ 1990 ء میں، جب تمام اہداف کا آغاز ہوا، ترقی پذیر دنیا میں رہنے والوں میں سے تقریباً 24 فیصد بھوک سے مر رہے تھے۔ 2012 تک، یہ تعداد کم ہوکر تقریباً 15 فیصد پر آگئی تھی۔اگر موجودہ رجحان برقرار رہا، تو 2015 کے آخر تک یہ تعداد 12.2 فیصد تک آجائے گی، یعنی ہدف کے قریب پہنچ جائے گی۔
اب جبکہ ڈیڈ لائن قریب آرہی ہے، بحث کا رُخ اس طرف ہورہا ہے کہ اب آگے کیا ہونا ہے۔ انتہائی مخیر بل گیٹس سمیت بعض دیگر افراد، موجودہ مقاصد پر توجہ مرکوز رکھنے کی حمایت کرتے ہیں…اور خاص طور پر ایم ڈی جی دوم شروع کرنے کے حق میں ہیں۔ بہت سے دیگر افراد چاہتے ہیں کہ بڑی تعداد میں مسائل پر توجہ دی جائے۔ اعلیٰ سطحی پینل، ورکنگ گروپس، اور محققین کی ایک متفکر جماعت پہلے ہی باہم مقابل سفارشات کے پلندوں کی چھانٹی میں مصروف ہے۔
ایک آن لائن ٹریکر کے مطابق، ان کوششوں کے نتیجے میں 1400سے زیادہ مجوزہ اہداف سامنے آئے ہیں۔
 1400اہداف مقرر کرنے کا مطلب ہے کہ آپ کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے، اور اس لیے حکومتوں کو مشکل فیصلے لینے کی ضرورت ہے، اُنھیں اس بارے میں فیصلہ کرنا ہے کہ کن اہداف پر سرمایہ کاری سب سے زیادہ سُودمند رہے گی۔بے شک، صرف معاشیات کی بنیاد پر ہی اگلی ڈیڑھ دہائی کے لیے دنیا کے اہم ترین ترقیاتی مقاصد کا تعین نہیں کرنا چاہیے۔
لیکن اخراجات کو نظر انداز کرنے سے مشکل فیصلے غائب نہیں ہوجاتے؛ بلکہ ایسا کرنا ان کو کم واضح بنادیتا ہے۔ مشترکہ پس منظر کے حامل نکات کے بغیر، اہداف کے سب سے زیادہ عوامی تعلقات کی قیمت رکھنے والے مقاصدکی طرف جھُکاؤ کے زیادہ امکانات ہونگے…جیسے کہ سب سے زیادہ پُرکشش جانوروں،مزاحیہ ترین فلموں،مشہور شخصیات کے نمایاں ترین معاہدے کرانے والوں کی طرف۔اوریہ خطرہ ہوسکتا ہے کہ دنیا اس یادگار موقع کو ضائع کردے، کیونکہ آئندہ کے اہداف کا سیٹ اس بات کو متاثر کرسکتا ہے کہ اگلے 15 سالوں کے دوران ڈونرز امداد کی مد میں دیے جانے والے ایک اندازے کے مطابق 2.5 ٹریلین ڈالر کو کس طرح خرچ کرتے ہیں۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط