”یہ کس قسم کا کاروبار ہے؟“
اگرچہ گال، افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک کے معاشروں کی وسیع تفصیلات کی رپورٹ پیش کرتی ہیں، تاہم اس کے سب سے زیادہ اہم ذرائع واشنگٹن، اسلام آباد، اور کابل میں اندرونی لوگ اور حکام ہیں۔ اگرچہ مال کاسیان Malkasian کی کتاب دیہی صوبہ ہلمند میں افغان باشندوں پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کرتی ہے ، تاہم مال کاسیان وہاں اپنے قیام کے دوران ایک امریکی اہلکار کے طور پر کام کررہے تھے، اور ان کا تجزیہ اس پوزیشن کی عکاسی کرتا ہے۔
مگر اس سلسلے میں، آنند گوپال کی کتاب ”No Good Men Among the Living“ ان دونوں مذکورہ کتابوں کی نسبت ایک دلچسپ متبادل فراہم کرتی ہے۔ گوپال نے ظالمانہ جنگ کے تبدیل ہوتے حالات سے نبرد آزما افغانوں کی کہانیوں پر زیادہ توجہ مرکوز کی ہے…بشمول طالبان رہنماوٴں اور عسکریت پسندوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں موجود جنگجووٴں کے، جن تک گوپال، وال اسٹریٹ جرنل اور کرسچن سائنس مانیٹر کے ایک نمائندے کی حیثیت سے، رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
(جاری ہے)
بالکل اسی طرح جیسے مال کاسیان اور گال نے کیا ہے ، گوپال بھی پاکستانی طالبان کے خطرے سے نپٹنے پر زور دیتے ہیں۔مال کاسیان اور گال کے برعکس، گوپال یہ نہیں کہتے کہ پاکستان، افغانستان میں بگاڑکی بنیادی وجہ ہے۔ اور وہ اس عام تاثر کو بھی مسترد کرتے ہیں کہ افغان جنگ کے مقاصد صرف اس لیے حاصل نہیں ہوسکے کہ واشنگٹن نے اپنی توجہ عراق پر منتقل کرنے کے لیے اصل مقصد سے نظر ہٹالی تھی۔
وہ ایک مختلف مفروضہ بیان کرتے ہیں، اور وہ یہ کہ: ”طالبان کے خاتمے کے بعد، القاعدہ ملک سے فرار ہوگئی تھی… اپریل 2002 تک، گروپ(القاعدہ) کا قندھار یا باقی افغانستان میں کوئی وجود باقی نہیں تھا۔ اس دوران طالبان کا وجود ختم ہو چکا تھا… دہشت گردوں نے تمام کیمپ ختم کردئیے تھے یا اپنا مقصد ترک کر دیا تھا، اس کے باوجود امریکی خصوصی فورسز ایک واضح سیاسی مینڈیٹ کے ساتھ افغان سرزمین پر تھیں:یعنی یہ کہ دہشت گردی کو شکست دینی ہے۔
“
گوپال دعویٰ کرتے ہیں کہ، اس چیز نے واشنگٹن کو یوں پیش کیا کہ گویا وہ بوکھلایا ہوا ہے:”آپ ایک مخالف کے بغیر کوئی جنگ کس طرح کرسکتے ہیں؟“ وہ لکھتے ہیں کہ، اس کا جواب افغان جنگجو سرداروں کی طرف سے فراہم کیا گیا تھا، جنھوں نے اس صورت حال کو امریکیوں کی نادانستہ مدد کے ساتھ اپنی طاقت کو مضبوط کرنے، اور اس عمل کے دوران خود کو امیرکرنے کے موقع کے طور پر دیکھا۔
اس طرح کے لوگ ”وہاں بھی دشمن پیدا کردیں گے، جہاں کوئی دشمن نہ ہو۔“ وہ امریکیوں کو جھوٹی خفیہ معلومات فراہم کرتے رہے، جو اس کے لیے اُنھیں اچھی خاصی رقم ادا کرتے تھے۔ اس سب کا نتیجہ امریکہ اور نیٹو کے غیر موثر آپریشنز تھے، جنہوں نے عام افغانیوں کو بے دخل اور تقسیم کردیا… یہ پاکستان میں دوبارہ منظم اور 2005 ء میں واپس افغانستان میں داخل ہونے کے بعد، طالبان اور دیگر عسکریت پسندوں کے فائدہ اُٹھانے کے لیے مثالی حالات تھے۔
گوپال کے اس نظرئیہ میں وزن ہے کہ غیر مقبول سرداروں کے ساتھ امریکہ کی شراکت داری نے طالبان کی واپسی کے لئے راستہ کھولنے میں مدد دی تھی۔ لیکن گوپال یہ نتیجہ اخذ کرنے میں غلطی پر ہیں کہ امریکی قیادت میں ہونے والے حملے کے باعث، جب گروپ(طالبان) کے رہنماء اپنی سابقہ پناہ گاہوں میں واپس فرار ہو گئے، توافغانستان میں طالبان ”کا وجود ختم ہوگیا تھا“۔
طالبان کی پیدل فوج کے ہزاروں سپاہی، درمیانے درجے کے رہنماوٴں اور کمانڈروں کی خاصی تعداد کے ساتھ ، افغان دیہات اور پہاڑوں میں خاندانوں اور قبائل کی حفاظت میں محض روپوش ہوگئے تھے، تاکہ پھر کسی مناسب موقع پر دوبارہ جنگ کرسکیں۔ اور اگرچہ واشنگٹن کی طرف سے جنگجوسرداروں کو گلے لگانے کے عمل نے طالبان کو دوبارہ منظم ہونے کے بعد عوامی حمایت حاصل کرنے میں مدد دی، تاہم یہ عسکریت پسند،بیرونی مدد کے بغیر افغانستان میں طاقت کے ساتھ واپس آنے کے قابل نہیں ہوسکتے تھے۔
معمولی کامیابیاں
افغانستان میں امریکہ کی زیرِ قیادت مداخلت نے، تمام تر غلطیوں کے باوجود،افغانستان میں جاری افراتفری، انتہا پسندی پر مبنی ظلم اور دہشت گردوں کے پنپنے کی لہر کے ماحول کارُخ واپس موڑ دیا ہے، جو 1989 میں سوویت افواج کی واپسی کے ساتھ شروع ہوا اور 1996میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس میں تیزی آئی تھی۔
گذشتہ دہائی کے دوران،امریکی اتحاد نے، افغان عوام اور بین الاقوامی برادری کے دیگر ملکوں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرتے ہوئے، سوویت قبضے اور طالبان کی حکومت کے دوران پوری طرح تباہ ہوجانے والی افغان ریاست کے اداروں کی بحالی کے لئے ضروری جگہ اور وقت فراہم کیا ہے۔ اور گزشتہ موسم گرما میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے دو راوٴنڈز کے دوران پرجوش ووٹر ٹرن آوٴٹ نے ڈرامائی طور پر جمہوریت کے لیے عوام کی حمایت اور پاکستان کے حمایت یافتہ طالبان کی واپسی کی مخالفت کو ظاہر کیا ہے۔
اگرچہ کچھ بیرونی مبصرین انتباہ کرتے ہیں کہ افغانستان ایک ”ناکام ریاست“ بنتا جا رہا ہے ، لیکن بیشتر افغان باشندے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اُن کا ملک بین الاقوامی برادری کے ایک آزاد رکن کے طور پر دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا ہے۔ افغان ذرائع ابلاغ، اپنے سینکڑوں نجی ٹیلی وژن اور ریڈیو چینلوں کے ساتھ، اس خطے میں کسی بھی دوسرے ملک کے ذرائع ابلاغ کی طرح آزاد اور پُراثر ہیں۔
افغان سول سوسائٹی نے، خاص طور پر خواتین کے حقوق کے شعبے میں، کافی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ حالیہ صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے والوں میں سے ایک تہائی تعداد خواتین کی تھی۔ افغان اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں میں سے تقریبا ً40 فیصد لڑکیاں ہیں۔ افغان پارلیمانی ارکان کی ایک چوتھائی سے زیادہ تعداد خواتین پر مشتمل ہے… جبکہ اس کے مقابلے میں امریکی سینیٹ میں صرف 20 فیصد اور امریکی ایوان نمائندگان میں 18 فیصد خواتین موجود ہیں۔
اور افغان نیشنل پولیس کی آفیسر ٹریننگ اکیڈمی سے گریجویٹ بن کر نکلنے والی تازہ ترین کلاس میں بھی 51 خواتین شامل ہیں۔
اس طرح کی پیش رفت، امریکی قیادت میں ہونے والی مداخلت کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی تھی۔ تاہم ان کامیابیوں کی حفاظت کا تقریباً مکمل انحصار، نو تشکیل شدہ افغان حکومت پر ہو گا۔ بیسویں صدی کے اوائل کا زمانہ ملک(افغانستان) کے نئے رہنماوٴں کو توجہ مرکوزکرنے کے لئے ایک مفید ماڈل پیش کرتا ہے۔
کمیونسٹ دور سے پہلے، جو 1978 ء میں شروع ہوا ، افغانستان نے چار پُراستحکام اور سُست لیکن پائیدار جدیدیت پر مبنی دہائیوں کا لطف اُٹھایا ۔ ملک (افغانستان) نے یہ ترقی بڑی حد تک مرکزی حکومت اور خطے کے روایتی قبائلی ڈھانچے کے درمیان منفرد تعلقات کی وجہ سے حاصل کی تھی۔ اس وقت کی کابل کی حکومت، ملک کے اقتدار پر اجارہ داری نہیں قائم کیے ہوئے تھی بلکہ دیہی علاقوں میں اعتدال پسند قبائلی گروہوں اور علماء کو بھی اس نے اقتدار میں شریک کررکھا تھا۔
حکومت ان علاقوں میں سکولوں، کلینکوں، اور سڑکوں کے ذریعے خدمات فراہم کرتی تھی ، جبکہ ان علاقوں کے قبائلی عمائدین قدیم ضابطوں اور ر وایات کے مطابق اپنی برادریوں کا انتظام سنبھالتے ، سیکورٹی کو برقرار رکھتے، اور کابل میں پارلیمانی اجلاسوں میں شریک ہوتے تھے۔
نئی مرکزی حکومت کو یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ اس طرح کے توازن کو کیسے بحال کرنا ہے۔
بعض افغان نسبتاً زیادہ پارلیمانی نظام کے قیام کی وکالت کرتے ہیں، جس میں وزیراعظم ایک ایسی مرکز گریز ریاست کا سربراہ ہو، جو منتخب صوبائی اور ضلعی گورنروں کو ، اگرچہ محدود ہی سہی، مگر حقیقی اختیار منتقل کرے۔ بعض دوسرے (افغان) اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جب تک شورش جاری ہے، کابل میں سخت مرکزی طاقت برقرار رکھتے ہوئے سٹیٹس کو کی ضرورت رہے گی۔
غیر ملکی امداد کی صورت میں اربوں ڈالرز حاصل کرنے کے باوجود، کرزئی حکومت کی زیادہ تر افغانوں کو سکیورٹی یا اقتصادی فوائد فراہم کرنے میں ناکامی کو دیکھتے ہوئے،پارلیمانی راستہ زیادہ عقلمندانہ لگتا ہے۔
اگلے افغان صدر کو قبائلی جنگجو سرداروں سے بھی نپٹنا ہوگا،جن کی طاقت عام طور پر قبائلی یا مذہبی اتھارٹی کے بجائے بندوقوں اور پیسے پر زیادہ ٹکی ہوتی ہے۔
ان میں سے بعض کو حکومتی ڈھانچے میں ضم کرلیا گیا ہے، لیکن بہت سے اب بھی منشیات کی اسمگلنگ کے راستوں اور علاقوں کو کنٹرول کرتے اور بعض دفعہ طالبان کے ساتھ ساز باز بھی کرلیتے ہیں۔ان کی طاقت میں کمی کے لیے وقت اور دباوٴ و ترغیبات کے ایک مرکب کی ضرورت ہوگی۔ افغان عوام ایسی علامات کو بھی بغور دیکھ رہے ہونگے کہ نئی حکومت،اُن بدعنوان اہلکاروں کو برداشت کرتے رہنے کے بجائے انھیں ہٹانے کا ارادہ رکھتی ہے یا نہیں،جو کرزئی دور کی ایک حقیقت بن گئے تھے۔
زیادہ دباوٴ، زیادہ خطرات
اس سال کے آخر تک، توقع ہے کہ تقریباً 10 ہزار امریکی فوجی افغان سیکورٹی فورسز کو مشورہ دینے اور انسداد دہشت گردی مشن کے تحت ان کی مدد کرنے کے لیے، افغانستان میں ہی تعینات رہیں گے۔ لیکن موجودہ امریکی پالیسی کے مطابق، یہ تمام فوجی 2016 کے آخر تک واپس چلے جائیں گے۔ بہت سے افغان باشندوں اور میرے سمیت بیرونی مبصرین کا خوف یہ ہے کہ، ایک بارجب آخری امریکی فوجی اور میرینز بھی کابل چھوڑکر واپس چلے گئے تو اس کے ساتھ ہی افغانستان ایک بار پھر امریکی ایجنڈے سے غائب ہوجائے گا۔
پائیدار اقتصادی اور فوجی امداد کے بغیر، کمزور افغان ریاست شاید متحد نہ رہ سکے، اور ملک مکمل طور پر خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے۔
اس مصیبت سے بچنے کے لئے، واشنگٹن کو طویل مدت کے لئے افغانستان میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے، خواہ ملک(افغانستان) میں کوئی بھی امریکی لڑاکا افواج باقی نہیں رہتیں۔ 2012 میں، امریکہ اور افغانستان نے ایک اسٹریٹجک شراکت داری کے معاہدے پر دستخط کئے تھے، جو دس سال کے لیے ”دفاع اور سلامتی کے شعبوں میں قریبی تعاون“ کے لئے کہتا ہے۔
اوباما، اور جو بھی اُن کے بعد وائٹ ہاوٴس میں آتا ہے، اسے ، افغان فوج اور پولیس فورسز کو طویل المدت تک مدد اور تربیت فراہم کر کے اس عہد کو اچھی طرح نبھانا چاہیے۔
ایک افسوسناک گونج بن کر، بالکل اسی طرح جیسے 2003میں عراق نے امریکی توجہ افغانستان سے ہٹادی تھی، آج دولت اسلامیہ عراق و الشام کی جہادی اسلامی ریاست، جسے آئی ایس آئی ایس کے طور پر جانا جاتا ہے، اس نے اُبھر کر ایک بار پھر افغانستان کو ابتدائی صفحات سے ہٹادیا ہے اور واشنگٹن کی فوری اہمیت کی حامل ترجیحات کی فہرست میں نچلے درجے پر منتقل کردیا ہے۔
لیکن آئی ایس آئی ایس ISIS کا عروج صرف افغانستان کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے، کیونکہ یہ وہ میدان جنگ ہے جہاں امریکہ اور اس کے اتحادی سنی انتہا پسندی کی شکست کو یقینی بناسکتے ہیں اور اعتدال پسند اکثریت اور انتہاپسند وں کی معمولی تعداد کے درمیان مسلم دنیا کی کئی دہائیوں پر محیط جدوجہد میں توازن قائم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔