Episode 22 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 22 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

براہ راست دکھاؤ اور افشا ہونے دوسنوڈن دور میں ریاستی راز(جیک شیفر)
جیک شیفر معروف امریکی صحافی اور صحافتی تنظیم پالیٹیکو(Politico) کے لیے مضامین تحریر کرتے ہیں۔ وہ اس سے قبل بین الاقوامی نیوزایجنسی رائٹر کے لیے کام کرچکے ہیں اور مشہور کالم ”پریس باکس“ بھی لکھتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد رسائل و جرائد کی ادارت کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔
۔۔۔
امریکی حکومت کچھ ایسی صلاحیتیں رکھتی ہے جو اس کی خفیہ معلومات ظاہر کرنے کی طاقت سے کہیں زیادہ قوی ہیں۔ حتیٰ کہ جب عدلیہ اور کانگریس جیسے ادارے بھی ایگزیکٹو برانچ پر چیک اینڈ بیلنس کے اختیار کا استعمال کرتے ہیں، تب بھی امریکہ کی خفیہ ”مشین“ بعض پروگراموں اور پالیسیوں سے متعلق بحث کو روکنے کا راستہ تلاش کرلیتی ہے۔

(جاری ہے)

 

عوام کی رسائی بہت کم یا بالکل ہی نہ ہونے کی وجہ سے، امریکی حکومت بے شمارمشتبہ دہشت گردوں کو اغوا کرچکی ہے، اس نے خفیہ قیدخانے بنا رکھے ہیں، ”تفصیلی“ تفتیش کرتی رہی ہے، قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اس نے ٹارگٹ کلنگ بھی کی ہے۔
گذشتہ موسم گرما میں، نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے کنٹریکٹر ایڈورڈ سنوڈن کی طرف سے ناسا کے کمپیوٹرز سے چُرائی گئیں سینکڑوں،ہزاروں دستاویزات صحافیوں کو دئیے جانے کے بعد، عام لوگوں کو حکومت کے اضافی اور ممکنہ طور پر پُرفریب خفیہ پروگراموں کے بارے میں پتہ چلا…جن میں،بغیروارنٹ کے گفتگو ریکارڈ کرنے والے آلات(wiretaps) کا استعمال، عوام کے معلومات خفیہ رکھنے والے سافٹ وےئر کو کمزور کرنا، فون اور ای میل اکاؤنٹس سے حاصل کردہ ڈیٹا جمع کرنا اور اسے محفوظ کرنا، اور انٹرنیٹ پر ہونے والے رابطوں کو ریکارڈ کرنا، شامل تھا۔
 
خفیہ مشین (Secrecy machine) دراصل امریکہ کے دشمنوں کو قابو کرنے کے لیے ڈیزائن کی گئی تھی۔ مگر اس عمل کے دوران ہی اس نے خود کو تبدیل کرتے ہوئے ریاست کے اندر نظر نہ آنے والی ریاست کی شکل اختیار کرلی ہے۔جیسا کہ سنوڈن کی فائلوں سے ظاہر ہوتا ہے، یہ خفیہ مشین ہمیشہ اپنا گشت جاری رکھنے کے لیے نئی سرحدیں دریافت کرکے، ہر سال نیا روپ اختیار کرتے ہوئے خود کو زیادہ بڑا اور طاقتور کرلیتی ہے اور اسے عدلیہ یا کانگریس کی طرف سے بہت کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پرنسٹن کے ماہرسیاسیات راہول ساگر نے اپنی نئی کتاب”Secrets and Leaks“ میں بڑی مہارت سے اس خفیہ کاری میں اضافے اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کو دستاویزی شکل دی ہے۔اُنھوں نے اپنی جامع تحقیق کے ذریعے روایتی جنگ کے دور سے آج کے زمانے تک معلومات کو خفیہ رکھنے اور اُنھیں عیاں کرنے کی پوری تاریخ بیان کی ہے۔ اس ماہرانہ دستاویز سے بڑھ کر، اُنھوں نے کتاب میں اس خفیہ کاری کے عمل کا قانونی تجزئیہ کیا ہے اور ایک قوانین و ضوابط پر مشتمل خاکہ مہیا کرنے کی کوشش کی ہے جو حکومت کو جوابدہ بنانے اور امریکہ کو محفوظ ملک برقرار رکھنے میں مدد دے گا اور ساتھ ہی امریکیوں کی شہری آزادی کے تحفظ میں مدد کرے گا۔
البتہ ایسی معلومات کے افشا ہونے سے جو نقصان ہوتا ہے اُسے زیادہ اہمیت دیتے اور اُنھیں روکنا کتنا مشکل ہوگا اسے کم اہمیت دیتے ہوئے، راہول ساگر ایسی سفارشات پیش کرتے ہیں جو نتیجتاً انتہائی ناقابل عمل اور بہت زیادہ پابندیوں پر مبنی ہیں۔ 
 رازداری کا حلف
ساگر دریافت کرتے ہیں،ایک سرکاری اہلکار کے لیے کب راز ظاہر کرنا جائز ہوتا ہے؟ اُن کا جواب روایتی بھی ہے اور دلیرانہ بھی…کیونکہ وہ ضرور یہ جانتے ہیں کہ کتنے قارئین ایسی مثالیں تلاش کرسکیں گے جو اُن کے سوال کی منطق پر پوری اُترسکیں گی۔
وہ لکھتے ہیں،خفیہ مواد کو غیرمجاز طور پر ظاہر کرنا غیرقانونی ہی رہنا چاہیے، کیونکہ کوئی ایک اہلکار یقین کے ساتھ یہ نہیں جان سکتا کہ کس راز کو ظاہر کرنا بالآخر عوامی مفاد میں ہوگا۔ رازوں کو ظاہر کرنے کے خلاف قوانین کو برقرار رکھنے کی بابت دلائل دینے کے بعد، ساگر پانچ ضوابط کا تعین کرتے ہیں، جن پر پورا اُترنے کے بعد ہی حکام کسی راز کو ظاہر کرتے ہوئے قوانین کو نظراندازکرسکتے ہیں ۔
سب سے پہلے تو یہ راز شواہد پر مشتمل ہونا چاہیے نہ کہ سُنی سُنائی باتوں پر مبنی، یہ غیرمتناسب طور پر عوام کے تحفظ کے لیے خطرہ نہیں ہونا چاہیے، یہ جس قدر ممکن ہو پیمانے اور گنجائش کے اعتبار سے محدود ہو، راز ظاہر کرنے والا لازماً اپنی شناخت ظاہر کرے اور تمام ذرائع بروئے کار لاکر یہ ثابت کرے کہ اُس نے راز نیک نیتی سے ظاہر کیا نہ کہ خود اپنے یا اپنے ساتھیوں کے فائدے کے لیے۔
 
سنوڈن کا معاملہ اس قدر تاخیر سے رونما ہوا کہ راہول ساگر اُسے اپنی کتاب Secrets and Leaks میں شامل نہیں کرسکے، ماسوائے ایک سرراہ ”فٹ نوٹ“ کے،تاہم یہ واقعہ ساگر کے فریم ورک کا دلچسپ اور واضح جائزہ پیش کرتا ہے۔ سنوڈن کی طرف سے یک طرفہ طور پر معلومات کو ظاہر کرنے کا عمل، ساگر کے ضابطوں کے معیار پر پورا نہیں اُترتا، ”نیشنل سیکورٹی ایجنسی NSA“ کا اہلکار ہونے کے ناطے، سنوڈن کسی بھی طرح اپنے اعمال کے عوامی مفاد پر اثرات کے توازن کا فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔
نہ ہی اُن کے اعمال ساگر کے ضوابط میں شامل پہلی شرط پر پورا اُترتے ہیں…اگرچہ سنوڈن نے بڑے پیمانے پر جس نگرانی کو ظاہر کیا، ہوسکتا ہے وہ اُن کے بہت سے ہم وطنوں کے لیے بدحواس کردینے والے دھچکے کا باعث ہو، مگر ہوسکتا ہے کہ وہ غیرقانونی نہ ہو۔ 
جیسا کہ نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جیمز کلیپر نے اکتوبر کے اواخر میں اس بات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ،”ہمیں یقین ہے کہ ہم قانون کے پابند رہے ہیں۔
“ یہ دیکھتے ہوئے کہ قابل اطلاق قوانین کیا کہتے ہیں اور جس طرح اُن کی خفیہ تشریح اور (خاصی آزادی کے ساتھ) اطلاق کیا گیا ہے، ہوسکتا ہے کلیپر نے بالکل ٹھیک کہا ہو۔این ایس اے کی طرف سے خفیہ معلومات جمع کرنا، اُنھیں محفوظ رکھنا اور انٹرنیٹ کے ذریعے ذاتی ڈیٹا کی ٹیرابائٹس کا تجزئیہ، ان سب کے لیے اُسے صدر، نگرانی کے ذمہ دار ارکان کانگریس، اور 1978 میں این ایس اے اور ایف بی آئی کی طرف سے وارنٹ جاری کرنے کے لیے قائم کی گئی خصوصی عدالت،”فارن انٹیلی جنس سرویلنس کورٹ“نے اجازت دی تھی۔
ہوسکتا ہے نیشنل سیکورٹی ایجنسی کا نگرانی کا پروگرام غلط ہو اور چوتھی ترمیم میں بیان کردہ اقدار کی نفی کرتا ہو، جو غیرمعقول تلاش اور ضبطگی پر پابندی لگاتی ہے ،مگر اسے غلط کام یا طاقت کا غلط استعمال نہیں کہا جاسکتا۔ یہ اُسی طرح کا معاملہ نہیں ہے، جیسا کہ ،کہہ لیجئے، صدر رچرڈ نکسن کا اندرون ملک نگرانی کا پروگرام یا واٹرگیٹ نقب زنی کا معاملہ تھا، جسے رچرڈ نکسن نے نیشنل سیکورٹی آپریشن کے حصّے کے طور پر منتقل کرنے کی کوشش کی تھی۔
سنوڈن کی طرف سے ظاہر کی گئی معلومات راہول ساگر کی دوسری شرط پر با آسانی پوری اُترتی ہیں…آپ نیشنل سیکورٹی ایجنسی کی دستاویزات کی سینکڑوں بلکہ ہزاروں نقول کو سُنی سُنائی نہیں کہہ سکتے۔ مگر قانونی طور پر معلومات ظاہر کرنے کی ساگر کی تیسری شرط…کہ جو معلومات ظاہر کی گئی ہیں وہ عوام کی حفاظت کو غیر متناسب طور پر خطرے میں نہ ڈالتی ہوں… اس قدر مبہم ہے کہ یہ آپ کے اس صفحے کا مطالعہ کرتے کرتے ہی غائب ہوجاتی ہے۔
تنقیدساگر کے لیے غیرمتوقع نہیں ہوگی ، جو رازوں کے اظہار کو کنٹرول کرنے کے لیے بہترین نہیں تو ایک اچھے فریم ورک کے خواہش مند ہیں۔جیسا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں،عوام کے تحفظ کے لیے خطرے کی پیمائش ماضی میں انتہائی پُرفریب رہی ہے، وہ 1979کے ایک معاملے کا حوالہ دیتے ہیں، جس میں امریکی حکومت کو عارضی بندش کا حکم نامہ ملا، جس میں،بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے میگزین ”دی پروگریسیو “ کو ایسے آرٹیکل کو چھاپنے سے روکا گیا تھا جس میں ہائیڈروجن بم بنانے کا تفصیلی ڈیزائن بیان کیا گیا تھا۔
(میگزین میں بتایا گیا طریقہ عوام سے سُنی سُنائی اور خفیہ ذرائع سے حاصل کردہ معلومات پر مبنی تھا،لیکن 1946 کے جوہری توانائی کے ایکٹ کے تحت ، اس طرح کی معلومات کو سرے سے ہی خفیہ قرار دیا گیا تھا)۔ اپنے فیصلے میں جج رابرٹ وارن نے کہا کہ اگر پروگریسیو گروپ کا یہ آرٹیکل چھپ جاتا تو یہ امریکہ کی قومی سلامتی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتا۔
“ لیکن یہ کیس اُس وقت ایک اہم مسئلہ بن گیا جب ایک اور اشاعت میں اسی طرح کی معلومات شائع ہوگئیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ وارن کی طرف سے ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کی پیش گوئی کبھی عملی شکل اختیار نہیں کرسکی۔
حکومت نے بھی 1971میں ایسا ہی سنگین انتباہ جاری کیا تھا، جب سولیسیٹر جنرل ارون گرس ورلڈErwin Griswold نے سپریم کورٹ کے سامنے ”پنٹاگان پیپر کیس“ میں دلائل دئیے تھے۔
ان کاغذات میں،جنہیں فوجی تجزئیہ کار ڈینیل ایلس برگ منظر عام پر لائے تھے، ویت نام جنگ کے حوالے سے امریکی حکومت کی خفیہ اضافی تفصیلات موجود تھیں۔ ارون گرس ورلڈ کا اصرار تھا کہ ان کاغذات کی اشاعت قومی سلامتی کوشدید نقصان پہنچائے گی۔ لیکن 1989میں،اُنھوں نے واشنگٹن پوسٹ میں چھپنے والے اپنے مضمون میں اپنے اس دعوے کو خود ہی رد کردیا۔
اُنھوں نے لکھا،”مجھے ان کاغذات کی اشاعت سے کبھی قومی سلامتی کو خطرے کے آثار نظر نہیں آئے۔“ اُنھوں نے مزید کہا کہ،”بے شک، یہ آثار نظر نہیں آئے حالانکہ میں نے تجویز کیا تھا کہ ایسا خطرہ حقیقتاً موجود تھا۔“ گرس ورلڈ اب بھی ایسے محدودخفیہ درجہ بندی کے اختیارات کی حمایت کرتے ہیں، جن کی مدد سے…تشکیل کے دوران فوجی منصوبوں،دوسرے ملکوں کی حکومتوں سے ہونے والے مذاکرات، اور ہتھیاروں سے متعلق تفصیلات… کومحفوظ رکھا جاسکے۔
مگر وہ ان کے سوا کسی چیز کو اس درجہ بندی میں شامل کرنے کے حق میں نہیں۔اُنھوں نے لکھا کہ،”خفیہ مواد کے ساتھ تھوڑا بہت تجربہ رکھنے والے کسی بھی شخص پر فوراً یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ ہمارے ہاں حد سے زیادہ خفیہ درجہ بندی کی جاتی ہے اور یہ کہ ایسی خفیہ درجہ بندی کرنے والے کا اہم ترین مقصد قومی سلامتی سے متعلق نہیں ہوتا بلکہ حکومت کی کسی نہ کسی معاملے میں شرمندگی کو چھپانا ہوتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر نہ تو ہائیڈروجن بم سے متعلق رازوں کی اشاعت نے قومی سلامتی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور نہ ہی پنٹاگان کے کاغذات کی اشاعت نے، تو پھر کن رازوں کا ظاہر کرنا نقصان کا باعث بنا ہے؟ ۔ظاہر ہے،ایسے راز بہرحال موجود ہیں۔ فوجوں کی تعیناتی کے مقامات، جنگ کی منصوبہ بندی، باہمی رابطے کے کوڈ،کوڈ کریک کرنے کی ملکی کاوشوں کی حیثیت،بعض ہتھیاروں کے نظام کی صلاحیتوں،یا جاری فوجی آپریشن کے بارے میں تفصیلات یقینا قومی سلامتی کو نقصان پہنچاسکتی ہیں، حتیٰ کہ ان کا نتیجہ امریکی فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
مگر اس طرح کے رازوں میں اضافہ پریس اور سیٹیاں بجانے والوں کی نسبت غیرملکی جاسوسوں اور دشمن غیرملکی قوتوں کے لیے زیادہ دلچسپی کا باعث ہوتا ہے۔
 بجاتنقید کے طور پرکہا جاتا ہے کہ سنوڈن نے ایجنسی کے طریقہٴ کار کو ظاہر کرکے،نگرانی کے اُن ذرائع کو بے نقاب کردیاجو نیشنل سیکورٹی ایجنسی القاعدہ کے باہمی رابطوں کو پکڑنے کے لیے استعمال کرتی ہے، کیونکہ بغیر کسی شک و شبہ کے، ان خفیہ معلومات کے اظہار نے دہشت گرد تنظیموں کو نگرانی سے بچنے کے لیے نئے طریقے سیکھادئیے ہیں۔
مگر یہ تنقید ایسی نہیں جو، لاجواب کردے…وائٹ ہاؤس کے جائزہ پینل کا اجلاس گذشتہ برس نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے نگرانی کے طریقوں کی جانچ پڑتال کے لیے منعقد ہوا، جس کے مطابق، فون ریکارڈز کے بڑی تعداد میں جمع کیے جانے نے خاص طور پر کوئی حملے نہیں روکے۔ اس کی رپورٹ کے ”فٹ نوٹ“ میں لکھا گیا ہے کہ ”ایسی کوئی مثال موجود نہیں، جس کے بارے میں نیشنل سیکورٹی ایجنسی اعتماد کے ساتھ کہہ سکتی کہ اگر میٹا ڈیٹا کولیکشن پروگرام نہ ہوتا تو اس کا نتیجہ مختلف ہوسکتا تھا۔
“ چنانچہ ہاں، سنوڈن نے دہشت گردوں کو کچھ دیا، لیکن اُس نے کروڑوں امریکیوں کو اس سے کہیں بڑھ کر دیا، جن کا ڈیٹا اُن کی مرضی کے بغیر جمع اور محفوظ کیا جارہا تھا۔
جیسا کہ ضرورت سے زیادہ خفیہ درجہ بندی کے نقاد مسلسل کہتے ہیں، ریاستی رازوں کی صورت مخصوص کیے جانے والے مواد کی اکثریت عام دنیاوی،بے ضرر اور واضح چیزوں پر مشتمل ہے۔جیسے کہ مشتبہ دہشت گردوں کے خلاف امریکہ کے ڈرون حملے، جو تمام خبروں سے آگاہ رہنے والے صارفین کے عام علم میں ہونے کے باوجود تکنیکی طور پر راز میں تھے،حتیٰ کہ صدر باراک اوباما نے بالآخر اپریل 2012میں ڈرون پروگرام کو تسلیم کرلیا۔
درحقیقت، جیسا کہ سینیٹر ڈینیل پیٹرک موئنی ہان نے 1998میں اپنی کتاب(Secrecy: The American Experience) میں دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ،حد سے زیادہ رازداری درحقیقت پالیسی سازوں کو باخبر فیصلے کرنے کے لیے درکار قابل قدر معلومات سیکھنے سے روک کر، قومی سلامتی کو نقصان پہنچاسکتی ہے۔اُنھوں نے صدر ہیری ٹرومین کی مثال دی، جنھیں امریکی فوج اور ایف بی آئی نے، امریکہ میں جاری روسی جاسوسی کے باہم رابطوں کو پکڑنے کی دستاویزات ”Venona decryptions“سے متعلق آگاہ نہیں کیا تھا کیونکہ اُن کے خیال میں صدر کی رہائش گاہ یعنی وائٹ ہاؤس سے رازوں کے منظرعام پر آجانے کے بہت زیادہ امکانات تھے۔
 
چوتھی شرط(ضابطے) میں، کہ کسی راز کا ظاہر کیا جانا پیمانے کے لحاظ سے جس قدر ممکن ہوسکے محدود ہو،سنوڈن یہاں بھی پورے نہیں اُترتے ، تاہم خاص طور پر چوری شدہ رازوں کے حجم کے اعتبار سے( کیونکہ اب تک ان کا صرف معمولی حصّہ ہی کھل کر عوام کے سامنے آسکا ہے)۔ اخبار ”دی گارڈین“ کے ایڈیٹر ایلن رس برجر کے مطابق، اُن کے اخبار نے سنوڈن سے حاصل ہونے والی 58ہزار فائلوں میں سے صرف ایک فیصد شائع کی ہیں۔ اور پانچویں شرط کے اعتبار سے،اگرچہ سنوڈن نے اپنی شناخت ظاہر کی ہے،مگر اُن کے اعمال کو محض سول نافرمانی کا نام دیا جاسکتا ہے، یہ بات مدنظر رکھتے ہوئے کہ وہ روس فرار ہوگئے،بجائے اس کے کہ خود کوفیصلے اور نظام کے اندر رہتے ہوئے سزا کے لیے پیش کرتے۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط