Episode 23 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 23 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

تاہم سنوڈن کی طرف سے ظاہر کیے گئے رازوں کا راہول ساگر کے معیار کے مطابق انتہائی غیرتسلی بخش ہونا یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ساگر کا فریم ورک حقیقت میں کس قدر پابندیوں پرمبنی اور اسٹیبلشمنٹ کا طرف دار ہے، اور کیوں ساگر کے تجویز کردہ ریگولیٹری سیٹ اپ سے کم سخت کسی سیٹ اپ کی ضرورت ہے۔ بہرحال، دسمبر میں ایک وفاقی جج نے سنوڈن کی طرف سے بے نقاب کی گئی کچھ سرگرمیوں کو خلاف آئین قرار دے دیا ۔
اور ایوان نمائندگان کے ارکان کی قریب نصف تعداد نے سنوڈن کے ظاہر کیے گئے رازوں کی ایک نرم توثیق کرتے ہوئے،ریکارڈ پر جاکر ایک بل کے حق میں ووٹ دئیے جس کے تحت ظاہر کی گئی کچھ سرگرمیوں کے لیے فنڈز جاری نہ کرنے کی منظوری دی گئی۔ ساگر کے فریم ورک میں رہتے ہوئے نہ صرف سنوڈن کی ”لیکس“جیسے معمولی درجے کے ظاہر شدہ رازوں کو سنبھالنا مشکل ہے بلکہ بہت بڑے رازوں کے منظرعام پر آنے کو سنبھالنا بھی مشکل ہے۔

(جاری ہے)

منتخب عہدیدار چھوٹے درجے کے خفیہ معاملات کے حوالے سے خود کو ملنے والے اختیار کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُنھیں پریس کے سامنے لاتے رہیں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ استغاثہ اُنھیں الزام دے گا اور نہ ہی اُن کے ساتھ کام کرنے والے اُن پر کوئی قدغن لگائیں گے۔ بے شک، ہرلمحہ بڑھتی فاضل تعداد میں ایسے راز موجود رہتے ہیں۔ حکومت کی تازہ ترین رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ ”خفیہ رازوں کی اخذکردہ درجہ بندی کے فیصلوں“ میں سے 95ملین سے زیادہ فیصلے مالی سال 2012میں کیے گئے تھے، اخذ کردہ درجہ بندی ایسی دستاویز ،خط و کتابت یا اشاعت کو کہتے ہیں جسے خفیہ رازوں میں شمار کیا جاسکے کیونکہ اس میں قبل ازیں خفیہ رازوں کی درجہ بندی میں شامل معلومات ہوتی ہیں یا اُن کی تشریح کی گئی ہوتی ہے۔
اس وقت،1.4 ملین افراد ،جن میں سنوڈن جیسے 4لاکھ 83ہزار ٹھیکیداربھی شامل ہیں، رازوں کے اس دیوہیکل پہاڑ میں شامل اہم ترین رازوں پر دسترس رکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے امریکیوں کو شکرگزار ہونا چاہیے کہ مزید راز منظر عام پر نہیں آئے۔
 رازوں کو منظر عام پر لائے جانے کا طریقہٴ کار ہر اُس شخص کو معلوم ہونا چاہیے جو اخبار پڑھتا ہے۔قریب ہر روز رپورٹرز ”موجودہ اور سابق سرکاری عہدیداروں“ کے نام ظاہر کیے بغیر اُنھیں نمایاں جگہ دیتے ہیں(جیسا کہ خبروں میں عام طور پر کوئی بات بتانے کے لیے طریقہ اختیار کیا جاتا ہے) ، جو پھر اپنے اعلیٰ عہدیداروں کی اجازت سے سرکاری رازوں کا انکشاف کرتے ہیں۔
ان مجاز انکشاف کرنے والوں کی طرف سے مہیا کردہ معلومات غیرمجاز انکشاف کرنے والوں کی افشا کردہ معلومات سے کم اہم نہیں ہوتیں، مگر چونکہ ان مجاز انکشاف کرنے والوں کے” انکشافاتLeaks“ سے ریاست کے مفادات کو فائدہ پہنچتا ہے ،لہٰذا انھیں برداشت کرلیا جاتا ہے۔سرکاری عہدیدار قومی سلامتی کے راگ کی ایجاد سے کافی عرصہ پہلے سے، ریاست کے مفادات کو فائدہ پہنچانے یا دوسرے زیادہ اہم رازوں کو محفوظ رکھنے کے لیے رپورٹرز کو راز فراہم کرتے آرہے ہیں۔
جیسا کہ امریکی سائنسدانوں کی فیڈریشن میں حکومتی خفیہ منصوبوں پر پراجیکٹ کے ڈائریکٹر سٹیون آفٹرگڈ نے لکھا ہے، ” وہ ایساپالیسی کو متاثر کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس کی وضاحت کرنے کے لیے، اس کے دفاع اور اس پر عمل درآمد ممکن بنانے کے لیے کرتے ہیں۔“ وہ مزید لکھتے ہیں،”اگرچہ یہ عام تصور سے مختلف لگتا ہے(اور حقیقت میں باقاعدہ طریقہٴ کار کی خلاف ورزی کرتا ہے مگر) حتیٰ کہ بعض دفعہ حکام قومی سلامتی کو بہتر بنانے کے لیے رازوں کی صورت درجہ بند کی گئی حالیہ معلومات کو بھی منظرعام پر لے آتے ہیں۔
“ 
انکشافات کا کڑھاؤ
اگر راہول ساگر کی طرف سے رازوں کے انکشاف کو ضابطوں کے تحت لانے کی تجویز صحیح حل نہیں ہے، تو پھر اس کا علاج کیا ہے؟ کوئی بھی اتنا معصوم نہیں ہوسکتا جو یہ یقین کرلے کہ راز بولنے والے خود اپنی نگرانی کریں گے… جیسا کہ ریان لیزا نے دسمبر میں اسے اخبار نیویارکر میں ایسے بیان کیا ہے،”انٹیلی جنس کمیونٹی کی تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قانون کی روح اور اس کے پیغام کی خلاف ورزی کرنے پر آمادہ رہے ہیں،حتیٰ کہ نگرانی کے باوجود بھی۔
“ ساگر نے ایک پورا باب اس بارے میں حقائق بیان کرنے کے لیے مختص کیا ہے کہ کیوں رازداری کے ضوابط کے لیے عدالتوں سے رجوع نہیں کیا جاسکتا…”وہ رازوں کا تجزئیہ کرنے کے لیے درکار مہارت نہیں رکھتیں، اور پھر اُنھیں ایک کھلا ادارہ تصور کیا جاتا ہے جو عوامی سطح پر اپنا کام انجام دیتا ہے۔نہ ہی امریکی عوام کانگریس سے ایگزیکٹو برانچ کی نسبت بہت زیادہ بہتر کام کرنے کی توقع کرسکتے ہیں۔
“وہ ایک اور پورے باب میں دلائل دیتے ہوئے کہتے ہیں۔”کانگریس ایک نگران کے طور پر تو کام کرسکتی ہے، لیکن یہ سوچنے کی کوئی وجہ نہیں کہ یہ صدر کی نسبت زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرے گی۔ خاص طور پر جب وہ جانتی ہے کہ باہر کے لوگ اُس کے فیصلوں پر دوسری رائے قائم نہیں کرسکتے۔“
اس وجہ سے سیٹی بجانے والے اور پریس کے نمائندے رازوں کو محفوظ رکھنے کے حوالے سے صدر کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
ساگر اس آپشن کو رد کرتے ہیں۔اگرچہ وہ ایسے انکشافات کی منظوری دیتے ہیں جو اقتدار کے غلط استعمال کو روک سکیں،مگر وہ (حکومت کے اندر اور اردگرد موجود بہت سے لوگوں کی طرح) یقین رکھتے ہیں کہ صحافیوں کے پاس بھی عوام تک غیرمجاز انکشافات ذمہ داری سے پہنچانے کے لیے درکار بڑی تصویر کی ضروری سمجھ بوجھ کی کمی ہے۔
میں اس سے اتفاق نہیں کرتا،(لیکن اس وقت ایک صحافی ہونے کے ناطے ، میں اختلاف ہی کروں گا)، کیونکہ جہاں میں بیٹھا ہوں، یہاں سے ایسا لگتا ہے کہ اس بارے میں پریس خاصا ذمہ دار رہا ہے…مثال کے طور پر ،جنوری 2011میں آرمی پرائیویٹ، جسے اب چیلسی میننگ کے نام سے جانا جاتا ہے، کی طرف سے چرائی گئی فائلوں کی رپورٹنگ کرتے ہوئے، رائٹر میں میرے ساتھی صحافی مارک ہوزن بال نے ، جو کہ قومی سلامتی کے امور کے رپورٹر ہیں،امریکی حکومت کے اندرونی جائزوں کا حوالہ دیا، جو ظاہر کرتے تھے کہ میننگ کی طرف سے بہت بڑی تعداد میں منظرعام پر لائی جانے والی سفارتی کیبلز ”امریکی مفادات کو بیرون ملک بہت کم نقصان پہنچاسکی ہیں“ اور”ان سے چند عدد حقیقی انٹیلی جنس راز ہی عوامی سطح پرظاہر ہوئے ہیں“۔
اسی طرح پنٹاگان کے کاغذات کی اشاعت سے، انکشافات نے نقصان سے زیادہ شرمندگی پیدا کی تھی۔
اسی طرح سنوڈن کے انکشافات کے حوالے سے، صحافیوں اور دوسرے لوگوں کے لیے یہ کہنا بہت جلدی ہوگا کہ ان سے امریکہ کی قومی سلامتی کو کس قدر نقصان پہنچا ہے۔ مگر وہ انکشاف کرنے والا سب سے ”نادر“ ہے جس کی ”کارکردگی“ نے ایوان نمائندگان کے ارکان کی تقریباً نصف تعداد کو اور ساتھ ہی ساتھ صف اول کی انٹرنیٹ کمپنیوں…گوگل، مائیکروسافٹ،فیس بُک،ایپل، ٹوئیٹر، لنکڈ اِن،یاہو اور اے او ایل…کو بھی متحد کردیا ہے…جنھوں نے دسمبر کے اوائل میں ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے سنوڈن کے ساتھ کام کرنے والے صحافیوں کی طرف سے ظاہر کی گئی حکومتی جاسوسیوں کے خلاف احتجاج کیا۔
اپنی کتاب کے آخر میں، ساگردُکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ،ریاستی رازداری کا مسئلہ شاید حل نہ ہوسکے۔ لیکن اُن کی جامع تحقیق پڑھنے کے بعد،ایک مختلف، نسبتاً زیادہ ممکنہ نتیجہ اُبھر کر سامنے آتا ہے… وہ یہ کہ کوئی دبانے والا مسئلہ ہے ہی نہیں، یا پھر یہ کہ،پہلی ترمیم نے پریس کی آزادی کو رازداری کے قوانین پر فوقیت دیکر مسئلے کو حل کردیا ہے۔
ہاں، یہ درست ہے کہ رپورٹرز کو عدالتوں کے سامنے اپنے خفیہ ذرائع کی شناخت ظاہر کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے، لیکن جیسا کہ راہول ساگر مشاہدہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں،”کسی رپورٹر،ایڈیٹر یا پبلشر پر آج تک رازوں کی درجہ بندی میں شمار کی گئی معلومات شائع کرنے پرمقدمہ نہیں چلایا گیا۔“ حتیٰ کہ ایسے مقدمات میں بھی جن میں صحافیوں نے باہمی گفتگو کی خفیہ معلومات ظاہر کی تھیں،جو کہ وفاقی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے،استغاثہ کے وکیلوں نے پھر بھی اُن کے خلاف الزامات دائر کرنے سے انکار کردیا۔
ساگر کے مطابق،پریس کے نمائندے با آسانی بچ نکلتے ہیں کیونکہ حکومت اُن لوگوں سے نہیں لڑنا چاہتی جو بیرل کے حساب سے سیاہی خریدتے ہیں، یا پھر وہ ان پر مقدمہ بناکر عدالت میں مزید رازوں کو ظاہر نہیں کرنا چاہتی۔تاہم زیادہ ممکن ہے،یہ اس لیے ہو کیونکہ حکومت کو خوف ہوتا ہے کہ اگر پہلی ترمیم رازداری کے قوانین کے ساتھ براہ راست ٹکراتی ہے تو ،یہ اُن پر غالب آجائے گی اور اُنھیں کمزور کردے گی۔
ساگر کو صدر اور پریس کے درمیان اندرونی اور ”بے اصول مقابلے“ میں گہری مایوسی دکھائی دیتی ہے۔ وہ پریس کو ”سیلف سنسرشپ“ پر بہتر طور پر عمل کرتا دیکھنا چاہتے ہیں،خاص طور پر جب انکشافات ایسے قوانین توڑنے کو ظاہر کریں جو حکومتی طاقت کی حقیقی خلاف ورزی کے زمرے میں نہ آتے ہوں۔ مگر وہ واضح طورپر ایسی ”سیلف سنسر شپ“ کی کمزوری کو تسلیم کرتے ہیں… ایسے معلومات ظاہر کرنے والے جنہیں ایک اشاعت کے بعد رد کردیا جائے، اُس وقت تک اپنی معلومات کو آگے بڑھاتے رہتے ہیں جب تک کہ اُنھیں کوئی لینے والا نہیں مل جاتا۔
وہ لکھتے ہیں، صدر کے عہدے پر فائز ہونے والے،زیادہ کھلے عام انداز میں حکومت کرکے ، اپنے فائدے کے لیے ظاہر کروائی جانے والی خفیہ معلومات کو روک کر،اورقانون کی حکمرانی پر عمل کرکے، نہ صرف اپنی ساکھ کو بہتر بناسکتے ہیں بلکہ انکشافات کی خواہش کو بھی کم کرسکتے ہیں۔ لیکن یہاں پھر وہی بات سامنے آتی ہے کہ،اس طرح کا ذاتی نظم و ضبط آسانی سے نہیں آتا۔
سرکاری انکشافات کو تقسیم کرنے سے حاصل ہونے والے سیاسی فائدے،اکثر صدور کے لیے انتہائی تحریص آمیز ہیں۔حتیٰ کہ اگر کبھی صدور اس خواہش کے خلاف مزاحمت کریں، تو بیوروکریسی میں شامل دوسرے عناصر، اکثر ادارہ جاتی فوائد حاصل کرنے کے لیے انکشافات کے بڑھتے ہوئے ذخیرے میں سے لُوٹ مار کرلیتے ہیں۔
 راز بنانا اور اُن کا انتظام کرنا، ہمیشہ سیاسی طاقت حاصل کرنے کا زبردست طریقہ ہوتا ہے،اور سیاستدان اس طاقت کے جتنا قریب جاتے ہیں، اُتنا ہی اس کے سحر میں گرفتار ہوتے جاتے ہیں۔
ایسی ہی ایک صورت حال ہے کہ…جیسا کہ پروپبلکا (ProPublica)نے گذشتہ موسم گرما میں تفصیلات بیان کیں،امریکی سینیٹ کے رُکن کے طور پر اوباما ،ایسے بہت سے ناکام اقدامات کے شریک سپانسر یا حمایتی رہے، جو نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے بہت سے نگرانی کے پروگراموں کو رازداری کا لبادہ پہنانے میں کمی کردیتے۔ صدر بننے کے بعد،اوباما نے اپنے اصلاح پسند رجحانات کو دبالیا ہے۔
اور آج،وہ اُنہی پروگراموں کے محافظ اور نگران ہیں۔ 
جیمز میڈیسن کا ایک جملہ چوری کرکے رقم کررہا ہوں کہ،”جہاں طاقت کی فراوانی ہوتی ہے“، تقریباً کوئی بھی رہنما موقع میسر آنے پر اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر دُور نکل جانے سے خود کو روک نہیں سکتا۔ اور اگر آپ امریکہ کے صدر ہوں تو، ایسے مواقع دن میں کئی بار زوردار آواز میں دستک دیتے ہیں۔ سنوڈن کا سبق، اور جس سبق کی طرف راہول ساگر اشارہ کرتے ہیں مگر اُسے اپنانے سے انکار کرتے ہیں، یہ ہے کہ ،قانون توڑنے والوں سے لیکر پریس تک کی طرف سے گڈمڈ شدہ امریکہ کا ”انکشافاتLeaks“ کا نظام، دراصل بے بدل آخری حربہ ہے۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط