Episode 24 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 24 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

پنٹاگان کو چلانے کا صحیح طریقہ ،فوجیوں کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ اُنھیں کیسے فراہم کی جائے؟( ایشٹن بی کارٹر)
 ایشٹن بی کارٹر، امریکہ کے موجودہ وزیر دفاع ہیں۔ وہ ایک ماہر طبیعیات اور ھاورڈ یونیورسٹی میں سائنس اور بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر بھی رہے ہیں۔۔۔
جنگ لامحالہ غیرمتوقع مسائل لاکھڑے کرتی ہے۔پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی طرف سے زہریلی گیس کا استعمال ہو یا ویتنام کی جنگ کے دوران شمالی ویت نام کی طرف سے اپنے فضائی دفاع کے نظام کا حیرت انگیز طور پر موثر استعمال، امریکہ کو جنگ میں ہمیشہ ایسے غیرمتوقع خطرات کا سامنا کرنا پڑا ہے جن پر فوری جواب کی ضرورت تھی۔
امریکہ کی زمینی افواج کو دشمن کی تبدیل ہوتی حکمت عملی کے ساتھ مستقل طور پر خود کو اپنے پاس دستیاب وسائل کی مناسبت سے ڈھالنا پڑتا رہا ہے۔

(جاری ہے)

اس کے باوجود محکمہٴ دفاع کا وہ شعبہ جو ان فوجیوں کو تربیت فراہم کرتا اور اُنھیں اسلحے سے لیس کرتا ہے، وہ شاذونادر ہی اُتنا لچکدار اور فیاض ثابت ہوا ہے جس کی ضرورت تھی۔ 

یہ ایک ایسی غیرمتوقع بات ہے جو اس ادارے کی دیواروں سے باہر موجود زیادہ تر لوگوں کے لیے حیرانی کا باعث ہوگی…پنٹاگان جنگ کے دوران سامنے آنے والی فوری نوعیت کی ضروریات سے نپٹنے کے لیے مناسب اہلیت نہیں رکھتا۔
امریکی محکمہٴ دفاع نازک اور حساس معاملات پرطویل مدتی لائحہ عمل بنانے میں تو کافی اچھا ٹریک ریکارڈ کھتا ہے، جو کسی بھی ممکنہ دشمن کے خلاف امریکہ کو کوالٹی کے اعتبار سے حاصل واضح برتری کی صورت میں نظر آتا ہے۔ اگرچہ محکمہٴ دفاع اب بھی فوجی نظام کے اخراجات کو محدود رکھنے میں مشکلات کا شکار ہے،تاہم اس نے ٹیکس ادا کرنے والے کو زیادہ بہتر قوت خرید کا مالک بنانے کے لیے خاصا کام کیا ہے۔
پنٹاگان بھی ضرورت کے مطابق ٹکنالوجی کو ترقی دینے کا بانی ہے، بالخصوص مصنوعی اعضاء کی پیوند کاری ، دماغی کی اندرونی چوٹوں اوردماغی چوٹوں کے بعد ذہنی دباؤ کے مسائل کے علاج کے حوالے سے۔ 
لیکن یہی نظام جو مستقبل کی ضروریات کا اندازہ لگانے میں برتری دلاتا ہے،وہ میدان جنگ میں فوجوں کوتیزی سے ٹکنالوجی اور آلات فراہم کرنے کے معاملے میں کم اہلیت کا حامل ثابت ہوا ہے۔
میں نے ،پہلے محکمہٴ دفاع میں انڈر سیکرٹری برائے حصول صلاحیت،ٹکنالوجی اور لاجسٹکس اور پھر دفاع کے ڈپٹی سیکرٹری کے طور پر، گذشتہ پانچ برس زیادہ تر اسی خامی سے نمٹنے کے لیے کوشش کرتے گزارے ہیں۔ عراق کی جنگ ختم ہونے اور افغانستان میں جنگ بھی اختتام کے قریب پہنچنے کی وجہ سے، یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ان جنگوں کے دوران فوری نوعیت کی ضروریات کو پورا کرنے سے پنٹاگان کو کیا چیز روکے ہوئے تھی،اس کی کوششوں سے ہم کونسے ایسے پائیدار سبق حاصل کرسکتے ہیں جو ہمیں زیادہ بہتر ردعمل ظاہر کرنے والا بناسکیں،اور کیسے ایسے صحیح اداروں کو قائم کیا جاسکتا ہے، جو مستقبل کے خطرات کے خلاف اُس وقت کامیابی یقینی بنائیں جب فوری ردعمل بہت اہم ہو۔
صلاحیتوں کی خریداری
افغانستان اور عراق میں، پنٹاگان نے ایسے آلات کے حصول کو بہت کم اہمیت دی جو اُس وقت تک غیر ضروری ہوسکتے تھے جب تک اُن کی تیاری مکمل ہوتی۔میدان جنگ میں کسی نئی صلاحیت کو متعارف کروانے کے لیے تین اہم اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے…یعنی پہلے یہ فیصلہ کرنا کہ کس چیز کی ضرورت ہے اور اس بات کا انتخاب کرنا کہ مختلف متبادل اشیاء میں سے کس چیز کا حصول زیادہ ضروری ہے،دوسرا یہ کہ ان چیزوں پر اخراجات کی ادائیگی کے لیے سرمایہ مہیا کرنا،اور تیسرا اس صلاحیت کو میدان میں بروئے کار لانا(جس میں اس کا فوجیوں تک پہچانا اور اُنھیں اس کے استعمال کی تربیت دینا بھی شامل ہے)۔
گزشتہ دہائی کے دوران، ان میں سے ہر اقدام کو تیزی سے انجام دینے کی کوششوں کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں آتی رہی ہیں،جو نتیجتاًپنٹاگان کی طرف سے میدان جنگ میں مصروف عمل امریکی زمینی فوجوں کی ضروریات فوری طور پر پوری کرنے کے لیے ضروری اقدامات کی راہ میں بھی رکاوٹ ڈالتی رہی ہیں۔ 
افغانستان اور عراق کی جنگوں کے آغاز میں ، پنٹاگان نے دو سنگین غلط اندازے قائم کیے۔
پہلا یہ کہ،اُس کا خیال تھا یہ جنگیں چند مہینوں کے اندر ختم ہوجائیں گی۔ اسی طرح،چونکہ نئی صلاحیتوں کے حصول اور ان سے استفادہ کرنے میں عام طور پربرسوں لگ جاتے ہیں،اس لیے پنٹاگان نے افغانستان اور عراق کے حالات کے لیے مخصوص ایسے آلات کے حصول و خریداری کو جواپنی تیاری تک غیرمتعلقہ ثابت ہوسکتے تھے، زیادہ اہم تصور نہیں کیا۔ دوسرا یہ کہ،پنٹاگان نے محض فوج بمقابلہ فوج کی روایتی لڑائی کے لیے تیاری کی تھی…اُس کی یہ تیاری صرف عراق جنگ کے ابتدائی مرحلوں کے لیے کارآمد تھی۔
نتیجتاً، امریکی فوج ایک ایسے دشمن کے ساتھ لڑنے کے لیے پوری طرح تیار نہیں تھی جو نہ تویونیفارم پہنے ہوئے تھا،اور نہ ہی جس کے پاس کمانڈ سنٹرز یا روایتی تنظیمی ڈھانچہ ہی تھا۔ پنٹاگان ابتدا میں یہ سمجھنے میں ناکام رہا کہ ان لڑائیوں کے لیے بالکل نئی ٹکنالوجی اور آلات کی ضرورت تھی،جب یہ واضح ہوگیا کہ خودکار دھماکہ خیز آلات(آئی ای ڈی) اور عارضی بغاوت کی حکمت عملی محض ضرر رساں سرگرمیوں سے بڑھ کر ہیں… وہ امریکی مقاصد کے لیے اسٹریٹجک خطرات تھے۔
 
ان جنگوں کی غیرمتوقع نوعیت اور طوالت…خاص طور پراُن کا طویل انسداد بغاوت لڑائی میں تبدیل ہوجانے کی وجہ سے…ان کے لیے ایسے حل کی ضرورت تھی جس کی پنٹاگان نے منصوبہ بندی نہیں کی تھی۔
 ”ضروریات“ کو لکھنے کا معمول کا عمل،جو اس بات کے تعین کا تھکادینے والا عمل ہے کہ فوج کو نئی ٹیکنالوجی اور مستقبل کے خطرات کے تجزئیے کی روشنی میں کن چیزوں کی ضرورت ہے،افغانستان اور عراق میں یہ عمل کافی نہیں تھا۔
اُس کی وجہ یہ ہے کہ پنٹاگان میں رائج نظام جسے ”ضروریات کا تعین پھر ان کا حصولRequire then Acquire“ کے نام سے جانا جاتا ہے،یہ نظام ہر معاملے میں پہلے مکمل معلومات کا مطالبہ کرتا ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک ہرچیز بالکل واضح نہیں ہوجاتی اُس وقت تک کچھ بھی خریدا نہیں جاسکتا۔ 
 اس کے علاوہ،ملٹری سروسز اور جنگی کمان کے درمیان کاموں کی تقسیم نے پنٹاگان کی فوری ضروریات کے لیے فنڈز مختص کرنے کی صلاحیت کو پیچیدہ بنادیا ہے۔
ملٹری سروسز عام طور پر سرمایہ کاری کرتے ہوئے مستقبل کی قابلیت کی ضروریات،فوج کے ڈھانچے اور اسے جدید بنانے جیسے عوامل کو مدنظر رکھتی ہیں،جبکہ جنگی کمان آج کی جنگوں کو اپنے پاس موجود آلات کے ساتھ لڑتے ہوئے زیادہ تر فنڈز اُن چیزوں پر خرچ کرتی ہے جو آپریشنز کے لیے ضروری ہوں،نہ کہ آلات کی ترقی یااُن کے حصول پر۔ محکمہ کے اندر بنیادی طور پر ایسا کوئی ڈھانچہ نہیں تھا جو فوری اور طویل مدتی ضروریات کے درمیان خلاء کو پُر کرنے کا کام کرسکتا۔
 اگلا سبب فنڈز کی فراہمی میں تاخیر کی صورت میں سامنے آیا۔پنٹاگان عام طور پر فنڈز کے لیے درخواستوں کو کم ازکم دوسال پہلے ہی تیار کرلیتا ہے۔ اسے کانگریس کے سامنے تفصیلی بجٹ پیش کرنے ہوتے ہیں اور اس کے بعد انتظار کرنا ہوتا ہے کہ کسی بھی پروگرام کو شروع کرنے سے پہلے اس کے لیے درکار رقم کو معقول تسلیم کرکے جاری کرنے کی منظور دے دی جائے۔
یہ طویل وقفہ فوری ضروریات کے لیے ادائیگی کو مشکل بنادیتا ہے۔ مزیدبراں،پنٹاگان کے پاس ایسی نئی ضروریات پر رقم خرچ کرنے کیلئے بہت کم گنجائش ہوتی ہے جو اُس کے بجٹ کی حدود سے باہر ہوں۔ کسی بھی مد میں قابل ذکرفنڈز کی منتقلی کے لیے پنٹاگان کو کانگریس کی منظوری کی ضرورت ہوتی ہے،جس پر مہینوں لگ سکتے ہیں۔ یہ عمل پنٹاگان کے اندر اور ملک بھر میں وسائل کے لیے غیرسُودمند مقابلہ کا سبب بنتا ہے،جہاں وہ لوگ جن کا پیسہ منتقل کیا جاتا ہے،اپنی آوازوں کو احتجاج کے ذریعے سُنانے میں کامیاب رہتے ہیں۔
کانگریس کی طرف سے رقم مختص کردئیے جانے کے ساتھ ہی مشکلات ختم نہیں ہوجاتیں۔ اس کے بعد بھی کچھ خریدنے کے لیے محکمہٴ دفاع کے عہدیداروں کو اُن قوانین ،ضوابط اور پالیسیوں کے پیچیدہ جال میں راستہ بنانا پڑتا ہے،جو آئندہ سالوں میں پیچیدہ ہتھیاروں کے نظام اورآلات کی بڑے پیمانے پر خریداری کے آغاز کیلئے ضروری ہیں۔ یہ نظام مینوفیکچررز کے درمیان منصفانہ مسابقت کو فروغ دینے اور ٹیکس دہندگان کے ڈالرز کی قوت خرید کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا تھا…لیکن فوری طور پر آگے بڑھنے کے لیے نہیں۔
پھریہ کہ، خریداری کے ذمہ دار عہدیدار خطرات مول لینا پسند نہیں کرتے، کیونکہ اگر کچھ غلط ہوجاتا ہے تو اُنھیں ذاتی حیثیت میں احتساب کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔چنانچہ لاگت،کارکردگی اور خریداری کے بڑے منصوبوں کے درمیان توازن کا سوال ہو تو سب سے آخر میں اسی چیز پر سمجھوتہ کیا جاتا ہے جس میں خطرہ کم سے کم ہو۔دوسری طرف مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی چیز کی خریداری و حصول میدان جنگ کے لیے ضروری ہے، تو اس صورت میں تاخیر کا ہردن فوجیوں کی زندگی اور اُن کی حفاظت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
آخری مشکل یہ کہ،فوری طور پر نئی صلاحیتوں کو میدان جنگ میں بروئے کار لانے کے لیے پنٹاگان کو آلات،تمام متعلقہ چیزیں اور اسے قابل عمل رکھنے کا کام انجام دینے والے ضروری اہلکاروں کی نقل و حرکت کیلئے فوری معاہدے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خشکی سے محصور افغانستان میں،جہاں قدیم خستہ حال سڑکیں اور چند ریلوے لائنیں ہیں،یہ کام خاص طور پر بہت مشکل تھا۔
وہاں تعینات فوجیوں کو نئے آلات سے استفادہ کرنے کی تربیت دینے کی بھی ضرورت تھی کیونکہ یہ آلات اُس وقت موجود ہی نہیں تھے جب اُنھیں تعیناتی کے لیے تیار کیا جارہا تھا۔ 
”فوجی حالتِ جنگ میں ہیں،لیکن پنٹاگان نہیں“ 
2004میں پنٹاگان، جسے افغانستان اور عراق میں متحرک دشمن کا سامنا تھا،اُس نے بالآخر یہ سمجھ لیا کہ اُسے ان کے خلاف کام کرنے کے لیے بہتر طریقے کی ضرورت ہے۔
اُس برس، پال وولف وٹز نے، جو اُس وقت نائب وزیردفاع تھے،فوری خریداری کا مشترکہ سیل قائم کیا، ایک باہم ملکر عمل کرنے والا ادارہ جوامریکہ کی مرکزی کمان کی فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں میدان جنگ میں مصروف عمل فوجیوں کی ضروریات کا اندازہ لگانے کے قابل تھا،جو افغانستان اور عراق دونوں کی نگرانی پر مامور تھا اور ملٹری سروسز کی طرف سے رد عمل کا بھی خیال رکھتا تھا۔
”جوائنٹ ریپڈ ایکوئیزیشن سیل Joint Rapid Acquisition Cell“ یا مختصراً ”جے آر اے سی JRAC“نے محکمہٴ دفاع کے اندر مختلف ضروریات کی ترجیحات طے کرنے،مسائل کے حل کی نشاندہی اور نئے آلات کیلئے فنڈز کی فراہمی اور اُنھیں میدان جنگ میں میں بروئے کار لانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ 
وولف وٹزنے ضروریات کے تعین اور وسائل مختص کرنے کے سُست اور تاخیری نظام کو بھی تیز بنایا۔
اُنھوں نے فوری آپریشنل ضروریات کے لیے مشترکہ عمل بھی تشکیل دیا تاکہ پوری فوج میں فوجیوں کی صلاحیتوں میں خلاء کو ختم کیا جاسکے،جسے نظرانداز کرنافوجیوں کی جان اور جنگی مشن کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا تھا۔ ”جے آر اے سی“ نے اس کے بعد فنڈز تلاش کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے میں مدد دی کہ کسی ملٹری سروس یا ایجنسی کو سپانسر کا کام سونپ کر درست آلات میدان جنگ میں پہنچ سکیں۔
اس کے باوجود،زمینی جنگ شروع ہونے پر،یہ بات واضح ہوگئی کہ جے آراے سی کی طرف سے نئی ضروریات کے عمل میں تعاون کے باوجودمعمول کا نظام نہ تو فوجی کمان کی ضروریات کے مطابق تیزرفتاری سے عمل کرپارہا تھا اور نہ ہی وہ متاثرکن نئی ٹکنالوجی کا فائدہ ہی اُٹھانے کے قابل تھا۔ جیسا کہ وزیردفاع رابرٹ گیٹس نے بعدازاں کہا کہ،”ہمارے فوجی تو حالتِ جنگ میں ہیں لیکن پنٹاگان نہیں۔
“ 
فوری نوعیت کے حالات میں،پنٹاگان کو مشکلات کے ایسے نامکمل حل پر اکتفا کرنا پڑتا جوبہرحال خلاء کو پُر کرسکیں۔ 
 افغانستان اور عراق میں اس کمزوری کو اُجاگر کرنے والے اُبھرتے ہوئے خطرات میں سے ایک آئی ای ڈی تھا،یہ ایک طرح کا دیسی ساختہ بم تھا جسے سرکش گروہ عموماً امریکی فوجیوں کو نشانہ بنانے کے لیے سڑکوں کے ساتھ ساتھ اُس وقت رکھ دیا کرتے ،جب وہ(امریکی فوجی) سب سے زیادہ غیرمحفوظ ہوتے تھے۔
آئی ای ڈی بم ہی دونوں جنگوں میں امریکہ کی 60فیصد سے زیادہ جنگی ہلاکتوں کا سبب بنے ہیں۔ اُنھیں جو چیز اس قدر مہلک ہتھیاربناتی ہے وہ یہ کہ ان بموں کو بنانا آسان ہے اور یہ آسانی سے دستیاب اشیاء کی مدد سے بنائے جاسکتے ہیں، جیسے کہ کھادوغیرہ۔ اُن کا پتہ لگانا بھی مشکل ہے اور ان بموں کو بہت آسانی سے اردگرد کے علاقے میں چھپایا جاسکتا ہے،جیسے کہ ردی کی ٹوکری میں یا حتیٰ کہ مُردہ جانوروں کے ڈھانچوں میں۔
 
 ان جنگوں سے بہت عرصہ پہلے،آئی ای ڈی بم شمالی آئرلینڈ اور چیچنیا کے گوریلا جنگجوؤں اوردہشت گردوں کا منتخب ہتھیار رہے ہیں، اور اُن کا بے جوڑ جنگوں میں استعمال بڑے پیمانے پر دیکھنے میں آیا ہے۔ مگر بڑے پیمانے پر دستیاب نئی ٹکنالوجی،جیسے کہ وائرلیس ٹرانسمیٹرز،الیکٹرانک ٹریگرز اور طویل مدت تک کام کرنے والی بیٹریوں کے حامل ڈیٹونیٹرز نے افغانستان اور عراق میں ان کی کارکردگی اور صلاحیت میں تیزی سے مزید اضافہ کردیا ہے۔
ان جنگوں میں ایسے بموں کے استعمال کی بہت زیادہ افادیت نے پنٹاگان کے اوسان خطا کردئیے اور دونوں مہمات کو سنگین خطرے سے دوچار کردیا تھا،خاص طور پر جب سے فوجیوں کی اموات پر امریکی عوام کا برداشت پر مبنی روئیہ مختصر اور آسان جنگ کی توقعات کے باعث تبدیل ہوگیاتھا۔ 
2006میں،اس خطرے سے امریکی فوجوں کو زیادہ بہتر طور پر محفوظ بنانے کے لیے، اُس وقت کے نائب وزیر دفاع گورڈن انگلینڈ نے فوج میں کوششوں کو آگے بڑھاتے ہوئے آئی ای ڈی کے توڑ کے لیے مشترکہ تنظیم (جوائنٹ آئی ای ڈی ڈیفیٹ آرگنائزیشن JIEDDO) تشکیل دی،جو براہ راست اُنھیں جواب دہ تھی۔
کانگریس نے اُن کے خیال کی توثیق کی اور دیسی ساختہ بموں کا مقابلہ کرنے کے لیے 22بلین ڈالر مختص کیے…یہ قانون ساز نمائندوں کی طرف سے تیز رفتار منصوبوں کے لیے نسبتاً فراخدلانہ طور پر فراہم کیے گئے فنڈز کی چند مثالوں میں سے ایک تھی۔اس کے بعد سے JIEDDOنے کئی حل پیش کرکے زندگیاں بچائی ہیں،جیسے کہ زمین میں چھپائے گئے دیسی ساختہ بموں کا سراغ لگانے والے سنسرز اور الیکٹرانک جیمرز جو، ان بموں کو پھٹنے سے روکتے ہیں۔
اس تنظیم نے فوجی اداروں کے ارکان کے لیے اہم انسداد آئی ای ڈی تربیت کے لیے اخراجات بھی اُٹھائے ہیں اور شایدجوسب سے اہم کام کیا ہے وہ یہ کہ دشمن کے اُن نیٹ ورکس کا تجزئیہ کرنے کے لیے فنڈز فراہم کیے ہیں جو دیسی ساختہ بموں کے حملوں کے ذمہ دار ہیں،جس نے امریکی فوجوں کو اُس خطرے سے نپٹنے کے قابل بنادیا ہے جو پہلے ایک نامعلوم خطرہ لگ رہا تھا۔
 
JIEDDOنے پنٹاگان کی طرف سے میدان جنگ میں بروئے کار لائے گئے انسداد آئی ای ڈی بم نظام کی تعداد کو دوگنا کرنے اور اس کے ساتھ ساتھ اس نظام کو میدان جنگ میں پہنچانے میں لگنے والے اوسط وقت کو بھی نصف کرنے میں بے حد مدد کی ہے۔ان کوششوں سے دیسی ساختہ بموں کے حملوں کی تعداد میں کمی آئی ہے، اور نتیجتاً ہلاکتوں کی تعداد میں 500فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔
نیزJIEDDOنے دیسی ساختہ بموں سے ہونے والے حملوں کی شدت کو کم کرنے میں بھی مدد دی ہے۔نئے حفاظتی زیرجامہ کے لیے فنڈز مہیا کرکے JIEDDOنے 2010سے 2011تک ایسے دیسی بموں کے حملوں میں جنسی عضو کو نقصان پہنچنے سے زخمی ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد میں اندازاً32فیصد کمی ممکن بنائی۔ والٹر ریڈ میڈیکل سنٹر میں میری ملاقات ایک ایسے سپاہی کے والد سے ہوئی تھی جو اُس وقت یہ حفاظتی زیرجامہ پہنے ہوئے تھا جب اُس کا پاؤں ایک دیسی ساختہ بم پر پڑگیا۔ اُس کے باپ نے ہسپتال کے دالان میں مجھ سے ملاقات کی، میرے گلے لگا اور کہا،”میرے بیٹے کو ہمیشہ چلنے کے لیے مصنوعی اعضاء استعمال کرنا پڑیں گے،لیکن شکر ہے کہ کم ازکم ابھی بھی میرے دادا بننے کا امکان موجود ہے۔ “

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط