Episode 25 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

ان اہم کامیابیوں کے باوجود ،JIEDDOکی طرف سے مہیا کی گئی زیادہ توجہ اور رقم کافی نہ تھی۔ اگرچہ فوج نے جیمرز کا استعمال کیا اور اپنے فوجی قافلوں میں بکتربندگاڑیوں کی تعداد بڑھادی،مگرسرکش باغیوں نے بھی زیادہ موثر دیسی ساختہ بم بنانے کے طریقے تلاش کرکے امریکی گاڑیوں اور ان میں موجود فوجیوں کو ناقابل قبول حد تک غیرمحفوظ بنادیا۔ اس سے قبل،فیلڈ کمانڈرز نے نئی اور زیادہ محفوظ گاڑیاں تیار کرنے پر زور دیا تھا، مگر پنٹاگان کے اندر یہ گمان پایا جاتا تھا کہ ایسی گاڑیاں جنگ ختم ہونے سے پہلے بنائی جاسکیں گی اور نہ ہی ان کے لیے سرمایہ فراہم ہوسکے گا ،اس لیے اُن کے خیال میں وہ غیرضروری تھیں۔
 
 ایسے شکوک و شبہات محض محکمہٴ دفاع کے حکام تک ہی محدود نہ تھے۔

(جاری ہے)

2012میں،نائب صدر جوزف بائیڈن نے یاد کرتے ہوئے بتایا تھا کہ جب وہ ایک سینیٹر تھے، تو کیپٹل ہل کے اُن کے بہت سے ساتھیوں(سینیٹرز) نے دیسی ساختہ بموں سے بچاؤ کے لیے تیار کی جانے والی مہنگی گاڑیوں کی مخالفت کی تھی۔ اُنھوں نے ایک سینیٹر کی بابت بتایا جن کااستدلال تھا کہ چونکہ جنگ ختم ہونے کے بعد ایسی گاڑی کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی،اس لیے یہ گاڑیاں رقم کا سراسر ضیاع تھیں۔

بائیڈن نے تبصرہ کیا کہ،”کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ فرینکلن روزویلٹ کو یہ بتایا جائے کہ،”ہمیں فلاں دن اتنی تعداد میں جہازوں کی ضرورت ہے،مگر ایک بار لینڈ کرنے کے بعد ہمیں اُن سب کی دوبارہ ضرورت نہیں رہے گی۔ چنانچہ ہم اُنھیں کیوں بنائیں؟“ 
 یہ 2007میں ہی ممکن ہوسکا کہ گیٹس نے…اُس وقت عراق میں ملٹی نیشنل کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ریمنڈ اوڈیرنو کے زور دینے پر لاگت سے قطع نظر سڑکوں پر سفر کرنے والے فوجیوں کو لاحق خطرات کم کرنے کے لیے حل تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔
گیٹس نے اسے ”محکمہٴ دفاع کے خریداری و حصول اشیاء پروگرام کے سب سے ترجیحی شعبہ“ کا نام دیا،اور فوری طور پر ان گاڑیوں…جو کہ”mine-resistant, ambush-protected“یا MRAPگاڑیوں کے نام سے پہچانی جانے لگی تھیں،کی تیاری اور انھیں میدان جنگ تک پہنچانے کا کام تیز تر کرنے کے لیے ٹاسک فورس تشکیل دی۔سب سے پہلے جان ینگ کی سربراہی میں جو محکمہٴ دفاع میں انڈر سیکرٹری برائے خریداری،ٹکنالوجی اور لاجسٹکس تھے، اور بعدازاں جب میں اس عہدے پر فائز ہوا تو میری سربراہی میں ،ایم آر اے پی ٹاسک فورس نے تیزی سے کام کرتے ہوئے سرخ فیتہ کاٹنے کے لیے ”غیرمعمولی اقدامات“ کیے ،دفاعی صنعت کو تیز دوڑایا اور گاڑیوں کی فراہمی کا کام انجام دیا۔
کانگریس کی حمایت(جس میں خاصی فراخدلانہ فنڈنگ بھی شامل تھی) اور پنٹاگان کے سینئرترین حکام کی توجہ کی وجہ سے، ہم نے سب سے زیادہ توجہ ایم آر اے پی گاڑیوں کی تیزی سے تیاری پر مرکوز رکھنے کا فیصلہ کیا، اورکم اہم چیزوں پر ، جیسے کہ ایک گاڑی کتنے فوجیوں کو لے جاسکتی ہے اور اُن کی دوسری قسم کی لڑائیوں میں افادیت وغیرہ، پر سمجھوتہ قبول کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔
ہم نے صرف پختہ ٹکنالوجی کو لائق توجہ سمجھا اور مینوفییکچررز کا انتخاب اُن کی گاڑیوں کو جلد ازجلد میدان جنگ تک پہنچانے کی اہلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا۔ ٹاسک فورس نے صنعت کی ان رکاوٹوں کا اندازہ لگایا اور اُنھیں ختم کرنے میں مدد کی جو اس سارے عمل کو روک سکتی تھیں…مثال کے طور پر دو ٹائر بنانے والے اداروں کی پیداواری صلاحیت کو تیزکرنے کے لیے ادائیگی کرکے اور فوج کو خاص طور پر پختہ سٹیل خریدنے کی اجازت دینے کے لیے قواعد و ضوابط میں چھوٹ دیکر۔
گروپ نے مختلف فوجی شعبوں میں گاڑیوں کے پُرزوں…جیسے کہ کنگرے،جیمرز اور رابطے کے آلات، کو معیاری بنانے پر بھی کام کیاتاکہ میدان جنگ تک ان گاڑیوں کی فراہمی کا کام تیز تر بنانے کے ساتھ ایسا آرام دہ ڈیزائن بھی تیار کیا جائے جو بعدازاں بہتری لانے اور اپ گریڈ کیے جانے کے بھی قابل ہو۔
ان کوششوں کے نتیجے میں ،ہم 27ماہ کے اندر عراق کے لیے 11,500ایم آر اے پی گاڑیاں بنانے اور بذریعہ سمندر وہاں پہنچانے میں کامیاب ہوئے ،نیز صرف 16ماہ کے دوران افغانستان کے لیے ہرطرح کے علاقے میں کارآمد 8ہزار ایم آر اے پی گاڑیاں تیار کی اور پہنچائی گئیں۔
مجموعی طور پر ہم نے دونوں محاذ جنگ پر 24ہزار خصوصی گاڑیاں بہم پہنچائی ہیں، جو دوسری جنگ عظیم کے بعدایسا سب سے بڑا دفاعی حصول کا پروگرام ہے جسے فیصلے سے لیکر صنعتی پیداوار تک ایک سال کے عرصے میں مکمل کیا گیا۔ ان گاڑیوں نے نہ صرف ہزاروں جانیں بچائی ہیں بلکہ یہ بھی ثابت کیا ہے کہ کانگریس اور حکومتی انتظامیہ کی مکمل حمایت حاصل ہوتو کیا کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
 
ٹاسک فورسز ایسی ضروریات کے لیے ایک پسندیدہ ماڈل بن گئی ہیں جنہیں روایتی طریقہٴ کار سے ہٹ کر ہی پورا کیا جاسکتا ہے۔ ان کے موثر استعمال کی ایک اور مثال ”انٹیلی جنس،نگرانی اور ابتدائی معائنہintelligence, surveillance, and reconnaissance (ISR)“ کی صلاحیتیں بہتر بنانے کے لیے دیکھنے میں آیا۔ محکمہٴ دفاع نے اپنے پہلے سے موجود آئی ایس آر کی صلاحیتوں کے انتظام اور ان کی تقسیم کا بھرپور طریقہٴ کار وضع کررکھا تھا ،لیکن نئی آئی ایس آر صلاحیتوں کے حصول اور انھیں میدان جنگ میں بروئے کار لانے کے حوالے سے اُسے زیادہ تجربہ نہیں تھا،خاص طور پر نچلی سطح پر حکمت عملی کے حوالے سے۔
ایساکرنے کے لیے ”گیس والے طیاروںaerostats “ اور بغیر پائلٹ طیاروں کو بروئے کار لائی جاسکنے والی اشیاء کے طور پر دیکھنے کی ضرورت تھی، مصنوعی سیارے کے بجائے زرہ بکتر کے طور پر سمجھنے کی…یعنی انھیں ایسے ہتھیار کے طور پر دیکھنے کی ضرورت تھی جسے فوری طور پر زمین پر اُتارا جاسکے اور زمین پر موجود فوجی یونٹس اُنھیں استعمال کرسکیں نہ کہ صرف خفیہ ایجنسیاں۔
اسی لیے گیٹس نے 2008میں آئی ایس آر ٹاسک فورس قائم کی ،جس نے کامیابی کے ساتھ آئندہ پیش آسکنے والی ضروریات اور ٹکنالوجی کے استعمال کے مواقع کا اندازہ لگانے میں مدد دی اورپھر معمول کی رکاوٹوں کو نظرانداز کرتے ہوئے، اس کے نتیجے میں ضروری سمجھے جانے والے آئی ایس آر آلات کے حصول اور اُنھیں میدان جنگ میں پہنچانے کا کام انجام دیا۔
 ٹاسک فورسز نے مخصوص انفرادی مسائل حل کرنے کے لئے بخوبی کام کیا،لیکن جنگ کے زمانے میں کچھ مسائل پیچیدہ نوعیت کے ہوتے ہیں،کیونکہ فوجی تنازعات پہلے الگ الگ سمجھے جانے والے معاملات کے درمیان کی حدود کو بھی مٹادیتے ہیں۔
چنانچہ گیٹس پنٹاگان کی طرف سے معمول کے طریقے سے فوج کو مدد فراہم کرنے میں ناکام رہنے سے جھنجلاہٹ کا شکار ہوگئے۔
 اسی کے تناظر میں،اُنھوں نے نومبر2009میں ”کاؤنٹر۔آئی ای ڈی سینئر انٹیگریشن گروپ (ایس آئی جی)“ قائم کیا،جس کی سربراہی ڈائریکٹر آف آپریشنز فار دی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے ساتھ مشترکہ طور پر مجھے سونپی گئی۔ یہ گروپ محکمہٴ دفاع کے سینئر عہدیداروں پر مشتمل تھا جو انسدادِ آئی ای ڈی کے تمام اقدامات کی ترجیحات اور ضروریات کا تعین کرنے کے لیے ہر تین ہفتوں بعد ملاقات کرتے تھے۔
گیٹس نے جلد ہی اندازہ لگالیا کہ صرف انسداد آئی ای ڈی اقدامات کے لیے ہی نہیں بلکہ جنگ لڑنے کی تمام فوری ضروریات کے تعین کے لیے اس طرح کی اعلیٰ سطحی توجہ کی ضرورت تھی۔ چنانچہ جون 2011میں، اُنھوں نے انسداد ِ آئی ای ڈی ایس آئی جی کو ”وارفائٹر ایس آئی جی“ میں تبدیل کردیا،جو میدان جنگ کے مسائل کا حل تلاش کرنے، ان کے حل پر اُٹھنے والے اخراجات کی ادائیگی کے لیے وسائل کا تعین کرنے اور درست خریداری و حصول آلات کا کام انجام دینے والا سینئرترین حکام پر مشتمل پنٹاگان کا مرکزی ادارہ بن گیا۔
 
 گیٹس نے جلد ہی وارفائٹر ایس آئی جی کے مینڈیٹ میں مزید اضافہ کرتے ہوئے اس میں اُن چیزوں کا اندازہ لگانے کی ذمہ داریاں بھی شامل کردیں جنہیں مشترکہ ہنگامی آپریشنل ضروریات کہا جاتا ہے۔ یہ وہ ضروریات ہیں جو اُن صورتوں میں اُبھر کر سامنے آسکتی ہیں جب جنگ تو جاری نہ ہو مگر کسی بھی وقت شروع ہوسکتی ہو،جیسے کہ جزیرہ نما کوریا کے ساتھ درپیش صورت حال ہے۔
ہم جوائنٹ ایمرجنٹ آپریشنل نیڈز اور جوائنٹ ارجنٹ آپریشنل نیڈز کے اس سارے نظام کو ”دی فاسٹ لین“ کہتے ہیں۔یہاں تک کہ جب کسی فاسٹ لین پراجیکٹ کی بالکل درست لاگت اورحتمی تفصیلات پیشگی طور پر پوری طرح معلوم نہ ہوپاتیں،تب بھی ہم نے نظام کو اس کے سر پر کھڑا کرتے ہوئے، اسے شروع کردیا۔دوسرے لفظوں میں،”پہلے ضرورت کا تعین پھر اس کا حصول“ کے بجائے یہ ”پہلے حصول پھر ضرورت کا تعین“ تھا۔
2012کی سرکاری احتساب آفس کی ایک رپورٹ کے مطابق، ”وارفائٹر ایس آئی جی“ نے فاسٹ لین کے ساتھ ملکر پنٹاگان کے اندردُور اندیشی کی صلاحیت بڑھادی ہے، جس کی وجہ سے پراجیکٹس کے لئے فنڈز کی فراہمی میں لگنے والا اوسط دورانیہ نو مہینے سے کم ہوکر ایک مہینہ رہ گیا ہے۔ رپورٹ سے پتہ چلا کہ جن اقدامات کے لیے محکمے کی طرف سے فنڈز فراہم کیے گئے اُن کی تعداد فنڈز سے محروم رہنے والے اقدامات کی نسبت چار گُنا زیادہ تھی۔
یہ نظام ہر طرح سے کامل تو نہیں ہے،لیکن اس نے پنٹاگان کی بدنام زمانہ سُست بیوروکریسی کو پھرتی کا وہ انجکشن ضرور لگادیا ہے، جس کی اسے اشد ضرورت تھی۔
 لچک کی ضرورت 
پنٹاگان کے لیے اب چیلنج یہ ہے کہ ان فوائد کو ہاتھ سے نہ جانے دے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ افغانستان اور عراق سے حاصل ہوئے سبق بھُلا نہ دئیے جائیں۔جیسا کہ وارفائر ایس آئی جی نے ظاہر کیا ہے،واضح ترین طور پر ملنے والا سبق یہ ہے کہ جنگ کے زمانے میں حصول و خریداری کی منصوبہ بندی اُس وقت بہترین طور پر کام کرتی ہے جب سینئر رہنما اس پر توجہ دے رہے ہوں۔
کیونکہ صرف اعلیٰ حکام ہی اُن خطرات کا اندازہ لگاسکتے ہیں جو معمول کے طریقہٴ کار سے ہٹ کر چلنے سے پیش آتے ہیں۔ عملی طور پر،اس کا مطلب ہے کہ محکمے کے اعلیٰ عہدیداروں کا کام محض پالیسی ہدایات جاری کرنا ہی نہیں ہے…بلکہ اُنھیں مخصوص خطرات اور صلاحیت کے فرق پر بھی توجہ مرکوز رکھنا پڑے گی۔اُنھیں لازمی طور پر ایسا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا، حتیٰ کہ اس وقت بھی جب پراجیکٹس اُن ایشوز سے جن سے اُنھیں عام طور پر نپٹنا پڑتا ہے،سائز اور گنجائش میں چھوٹے ہوں،اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ زندگیوں کا تحفظ اور جنگ میں فتح داؤ پر لگی ہے۔
 
 مزیدبراں،ایسا کوئی ڈھانچہ ضرور ہونا چاہیے جس کے مطابق اعلیٰ حکام اس طرح کے پراجیکٹس کو وقت اور توجہ دیا کریں۔ معمول کے حصول و خریداری عمل کو نظرانداز کرنے والے طریقے اُس صورت میں جاری نہیں رہ سکتے اگر اُن کا نحصار صرف کسی خاص شخصیت کی طرف سے ملنے والی حمایت پر ہوگا۔بہترین خیالات بھی اُس وقت تک حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتے جب تک کہ اُنھیں سُود مند بنانے کے لیے واضح طریقہٴ کار نہیں ہونگے…خاص طور پر محکمہٴ دفاع میں، جو تنظیم اورضابطوں کا پرچار کرتا ہے۔
 
 اور آخر میں محکمے کو اُن ابتدائی اداروں کو برقرار رکھنا چاہیے جو بالآخر افغانستان اور عراق میں کامیاب ثابت ہوئے، جیسے کہ وار فائٹر ایس آئی جی اور جے آر اے سی۔
بلاشبہ پنٹاگان مناسب فنڈز کے بغیر کسی بھی طرح کے آلات اور ٹیکنالوجی کو حاصل نہیں کرسکتا،اور بجٹ کا موجودہ عمل میدان جنگ میں پیش آنے والے فوری نوعیت کے مسائل کے حل کے لیے آلات و ٹیکنالوجی کی تیاری اور اُسے فوج تک پہنچانے کی اجازت نہیں دیتا۔
محکمہٴ دفاع نے اس طرح کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کئی میکانکی عمل ترتیب دے رکھے ہیں اور اُسے ان سب کو لازماًجاری و ساری رکھنا ہوگا۔
سب سے پہلے،کانگریس کو معمول کے مجموعی مقاصد کے لیے محدود مقدار میں فنڈز فراہم کرنے کا عمل جاری رکھنا ہوگا، جیسے کہ وہ فنڈز جو ایم آر اے پی گاڑیوں اور انسداد آئی ای ڈی بم جیسے اقدامات کے لیے فراہم کیے گئے، ایک ایسا عمل جو فوج کولیبارٹری سے صلاحیتیوں کے حصول سے لیکر اُنھیں میدان جنگ میں پہنچانے کے لیے ضروری لچک فراہم کرتا ہے ۔
اس طرح کے طریقہٴ کار کے لیے مختار ادارہ فی الحال موجود ہے،مگر وہ 2015میں ختم ہوجائے گا۔
دفاعی بجٹ کے کچھ فیصد کو تیزی سے منتقل کرنے کی اہلیت نے…جسے پنٹاگان میں ”ری پروگرامنگ“ کے نام سے جانا جاتا ہے… محکمے کو ایسی بہت سی صلاحیتوں کے حصول کے لیے ادائیگیوں کے قابل بنایا ہے جن کا احاطہ کوئی مخصوص فنڈ نہیں کرتا تھا۔ری پروگرامنگ کانگریس کے فنڈز کی منظوری کے کردار کو برقرار رکھتے ہوئے، انتہائی اہمیت کے حامل پراجیکٹس کو، برسوں کے بجائے ہفتوں اور مہینوں کے اندرآگے بڑھانے کے قابل بناتی ہے۔
ایک اور اہم طریقہ جسے کانگریس کو ضرور اپنے پاس رکھنا چاہیے وہ کانگریس کی منظور کردہ ”تیزرفتار حصول و خریداری“ اتھارٹی کو برقرار رکھنا ہے،جووزیر دفاع کو انتہائی اہمیت کی حامل ضروریات کے لیے 500بلین امریکی ڈالر کے بجٹ میں سے 200ملین ڈالرز سالانہ کی از سر نو امداد کی اجازت دیتا ہے۔ کانگریس منظور کردہ حصول و خریداری کے منصوبوں کے دائرہ کار کو وسعت دیکر اور اس اتھارٹی کے تحت دستیاب فنڈز کی فراہمی میں اضافہ کر کے پنٹاگان کی فوری رد عمل کی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی میں مدد کر سکتی ہے۔
 
محدود وسائل کے اس دور میں، کانگریس کے کچھ ارکان محکمہ دفاع کو بجٹ میں زیادہ صوابدیدی اختیارات دینے کے بارے میں جائز خدشات رکھتے ہیں۔ تاہم، ایک موٴثر لچکدار فنڈ کے لئے ضروری رقم محکمہ کے کل بجٹ کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے … بس اتنا کہ اس سے فوری نوعیت کے اقدامات کا آغاز کیا جاسکے،جبکہ منصوبوں کے لیے مجموعی فنڈز کے حصول کے لیے روایتی طریقوں کے ذریعے مہینوں پر مبنی عرصہ ہی لگتا ہے۔
پنٹاگان کی طرف سے سابقہ لچک دار یا فیاضانہ فنڈز کا کامیابی سے استعمال و انتظام اس کی ایسے فنڈز کو ذمہ داری سے استعمال کرنے کی صلاحیت کا ثبوت ہے۔لچک دار اور فیاضی پر مبنی فنڈز اور صحیح ڈھانچہ تشکیل پانے کے باوجود، پنٹاگان کو جلد سے جلد خطرات کی نشاندہی میں بھی اپنی صلاحیت بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب اگلے دس سے پندرہ برسوں کی جنگی سرگرمیوں کے لیے نہیں…بلکہ اس سے مراد وہ سرگرمیاں ہیں جو محکمہ اپنے چار سالہ دفاعی جائزے میں اس وقت انجام دیتا ہے۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط