Episode 26 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 26 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

بلکہ اس کا مطلب ہے کہ محکمہ اس بات کا تعین کرنے کے قابل ہو کہ کسی بھی خاص وقت میں میدان جنگ میں موجود فوجیوں کو کن چیزوں کی ضرورت ہے۔ جنگی کمان یا ہیڈکوارٹرز کی سطح پر سٹاف عموماً اس بات کا اندازہ کرنے میں سُست ثابت ہوتا ہے کہ کوئی نیا خطرہ کب واقعی خطرناک بن چکا ہے۔ کسی جنگ کے دوران،پنٹاگان کو مستقل طور پر جنگی چالوں کے ماحول پر نظر رکھنی چاہیے اور یہ جائزہ لینا چاہیے کہ نئے محرکات کس طرح مہم پر اثرانداز ہورہے ہیں۔
”وارفائٹر ایس آئی جی“ جیسے اقدامات میدان میں موجود فوجیوں اور محکمے کی اعلیٰ قیادت کے درمیان ایک فوری رابطہ قائم کردیتے ہیں، اور اس قابل بناتے ہیں کہ میدان جنگ میں پیش آنے والے چیلنجز کی طرف فوری طور پر اعلیٰ سطح کے عہدیداروں کی توجہ دلائی جائے تاکہ وہ ان کے مطابق حل پر عمل کرسکیں۔

(جاری ہے)

اس کی ایک مثال نئی قسم کی جسمانی حفاظتی ڈھال کے ڈیزائن کی تیاری اور اسے فوجیوں تک پہنچانے کے لیے فوری آپریشنل ضرورت کے مشترکہ عمل کا تیزی سے انجام دیا جانا تھا، جو دراصل زمینی حالات کے تناظر میں میدان جنگ کے خطرات کی تیاری کو درست کرنے کے لیے اُس وقت انجام دیا گیا جب ابھی باغیوں کو اس کی خبر بھی نہیں تھی۔

اس کی ایک اور مثال، خصوصی طور پر تیار کی جانے والی جنگی گاڑیوں MRAPSکی فوجیوں کی طرف سے ملنے والے ردعمل اور اُن کی رائے کے مطابق مسلسل ایڈجسٹمنٹ تھی۔کوئی اضافی چیز نہیں رکھی گئی تھی،حتیٰ کہ کھڑکیوں کی پوزیشننگ بھی وارفائٹر ایس آئی جی کے لیے بہت ہی چھوٹی تھی۔ 
اس کے علاوہ،پنٹاگان کو پورے اُفق پر گہری نگاہ رکھنی ہوگی، ضروریات کا اندازہ اوراپنی صلاحیتوں میں خلاء کا بروقت اندازہ لگانا ہوگا،اس سے پہلے کہ وہ سنگین خطرات بن جائیں۔
اس حوالے سے نتائج فوری تحقیق اور ترقی پر مبنی ہونے چاہئیں، خاص طور پرنئی اور بہتر ٹکنالوجیز پر مبنی تجربات اور ابتدائی نمونے بنانے کے ذریعے حاصل کیے جانے چاہئیں۔سائنس اور ٹکنالوجی پر جلد سرمایہ کاری اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ضرورت پڑنے پرپنٹاگان کے پاس کچھ چیزیں موجود ہوں گی، تاکہ اُس وقت جب پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہو، اُسے غیرضروری چیزوں سے ایسے منصوبوں کی ابتدا نہ کرنی پڑے۔
پنٹاگان نے جس ٹکنالوجی کے بارے میں پہلے سے تحقیقات کررکھی ہیں، اُس نے ایشیاء اور مشرق وسطیٰ میں اُسے مشترکہ ہنگامی آپریشنل ضروریات کے عمل کیلئے تیزی سے کام کرنے کے قابل بنایا ہے۔ ان میں ہتھیاروں کے نظام کو بہتربنانے والی ٹیکنالوجیز بھی شامل ہیں، جو اس قابل بناتی ہیں کہ ان ہتھیاروں کو ہمارے فوجی ہتھیاروں اور آلات کو جام کردینے والے ماحول میں بھی استعمال کرسکتے ہیں، ایسی بھی جو ریڈارز کی صلاحیت کو بہتر بنا کر خطرات کا پتہ لگانے اور فوری خبردار کرنے کے قابل بناتی ہیں، اور پھر ایسی ٹیکنالوجیز بھی جو دشمن کی طرف سے الیکٹرانک ڈیوائسز کے ذریعے ہمارے جہازوں اور ہتھیاروں کا پتہ لگانے سے بچنے کے نئے اور بہتر طریقے فراہم کرتی ہیں۔
اسی طرح، محکمہ فوری طور پر ایشیا پیسیفک کے علاقے میں ابھرتے ہوئے خطرات کے مطابق اپنی رفتاربرقرار رکھتے ہوئے پیٹریاٹ میزائل دفاعی نظام میں بہتری کا عمل شروع کرنے کے قابل ہوسکا تھا۔
ایک بار پنٹاگان ممکنہ خطرات کی نشاندہی کردے تو اس کے رہنماؤں کو ان کے جوابات کو منظور کرلینا چاہیے،کیونکہ اُن لوگوں سے جو جنگ کے حالات سے دُور ہوں،یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ایسی درخواستوں کی ترجیحات کا تعین اور ان پر فیصلہ کرنے کے لیے درکار تمام تربصیرت رکھتے ہونگے۔
اس مرحلے پر وقت اصل چیز ہوتی ہے…مثال کے طور پر مخصوص جنگی گاڑیوں MRAPکی ضرورت کی نشاندہی زمینی فوجوں نے اُسی وقت کردی تھی جب اُنھیں سڑکوں کے کنارے نصب بموں کا سامنا کرنا پڑا تھا، مگر رہنماؤں نے اس درخواست پر عمل کرنے سے پہلے اسے بہت لمبے عرصہ تک التواء میں ڈالے رکھا۔ جیسے ہی کسی ضرورت کا فوری نوعیت کی حامل ہونا طے ہوجائے،تو پنٹاگان کو اس کے ممکنہ حل تک پہنچنے کے طریقے کو بہتر بنانا چاہیے۔
عام طور پر اس طرح کے اندازوں کے لیے کئی وقت طلب مرحلوں سے گزرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے کہ مارکیٹ سروے کرنا، ایسے ایونٹس منعقد کروانا جن کے ذریعے فوج مختلف اشیاء فراہم کرنے والوں کو اپنی ضروریات سے آگاہ کرسکے، بولیاں طلب کرنا اور پھر اس کے بعد مہینوں پر محیط انتخاب کا عمل۔ معمول کے اوقات میں تو یہ نظام پنٹاگان کو مارکیٹ میں دستیاب بہترین ٹکنالوجی کو بہترین قیمت پر خریدنے کے قابل بناتا ہے۔
لیکن ہنگامی صورتوں میں، اسے اُس طرح کی ٹکنالوجی پر ہی اکتفا کرنا ہوگا جو بس اچھی ہو…یعنی ایک نامکمل حل، جو بہرحال ایک خلاء کو پُر کرتا ہے۔ 
تبدیل ہوتے میدان جنگ کے مطابق خود کو ڈھالنا
افغانستان اور عراق نے پنٹاگان کو کام کرنے کے اپنے روایتی طریقوں کو ایک طرف رکھنے کے لیے خاصے محرکات فراہم کیے ہیں۔ آخرکار واشنگٹن میں کسی کے لیے بھی اُس وقت فنڈز فراہم کرنے سے انکار کرنا یا اقدامات کو روکنا ممکن نہیں ہوسکتا جب جنگ میں مصروف ہمارے مردوں اور عورتوں کو ان کی ضرورت ہو۔
لیکن اُس وقت کیا ہوگا جب ہمارا آخری فوجی بھی افغانستان سے نکل جائے گا اور خریداری و حصول کا سُست عمل ،زندگی موت کا مسئلہ نہیں لگے گا؟بس جنگوں سے سبق سیکھنا ہی کافی نہیں ہے،پنٹاگان کو جنگوں سے سیکھے گئے ان اسباق کو اداروں کے تحت لانا چاہیے تاکہ اُسے اُس وقت اُنھیں نئے سرے سے شروع کرنے کی ضرورت نہ پڑے جب اگلی بار اُن سے متعلقہ صورت حال کا سامنا ہو۔
درحقیقت ان تبدیلیوں میں سے بہت سی ایسی ہیں جنہیں فوری طور پر اپنانے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے ملک کو ممکنہ نئے خطرات کا سامنا ہے۔ 
پنٹاگان میں میرے آخری سال کے دوران،لیون پنیٹا اور اُن کے بعد چک ہیگل کی قیادت میں، ہم نے گذشتہ دہائی کے کامیاب اقدامات کو آگے بڑھانے کے لیے مختلف ماڈلز کا جائزہ لیا۔پہلا امکان جس پر ہم نے غور کیا وہ یہ تھا کہ پنٹاگان افغانستان اور عراق کی جنگوں سے پہلے جس طریقے سے کام کررہا تھا،اُس کوبہتر بنایا جائے مگر زیادہ تر اُسے ویسے ہی چھوڑدیا جائے،اور ملٹری سروسز کو اپنی فوجوں کے لیے خود ذمہ دار رہنے دیا جائے۔
یہ طریقہٴ کار پنٹاگان کو کسی نئی مستقل تنظیم کی تخلیق سے بچنے میں مدد دیگا،جو کہ قناعت و سادگی کے زمانے میں ایک بہت اہم فائدہ ہوگا۔
فوج کے اداروں میں ذمہ داریاں تقسیم کرنے سے اُن میں سے ہر ادارہ کو زمینی،فضائی اور بحری جنگ سے متعلق گہرے علم سے آراستہ کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ ملٹری سروسز کے ادارے اپنی طویل مدتی جدیدیت کی ضروریات کے مطابق ترجیحات کی طرف جھکاؤ رکھنے لگتے ہیں…جنگی کمانڈروں کے برعکس، جو خاص طور پر میدان جنگ کی فوری ضروریات کے بارے میں فکرمند ہوتے ہیں…اور یوں وہ تیزی سے حرکت کرنے اور خطرات مول لینے کے لیے پوری طرح بہترین آلات سے لیس نہیں ہوسکیں گے۔
اس منصوبے کے تحت،پھر بھی فوج کے اداروں اور جنگی کمانڈروں کے درمیان اختلافات کے حل کا کوئی واضح طریقہٴ کار نہیں ہوگا۔فوج کے اداروں کے درمیان خریداری اور حصول کے اختیارات تقسیم کرنے کا نتیجہ غیرضروری اخراجات اور خلاء کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔ 
ایک متبادل ماڈل یہ ہوسکتا ہے کہ ایک بالکل نئی ایجنسی بنائی جائے جس کے پاس فوری خریداری و حصول اور معاہدے کرنے کے اختیارات ہوں۔
ایسا ادارہ میدان جنگ کی ضروریات کا اندازہ لگا کر،اُن کے مناسب حل کا تعین کرکے اور اس کے مطابق ضروری ٹکنالوجی اور آلات کی خریداری کرکے، براہ راست جنگی کمانڈروں کو مدد فراہم کرسکے گا۔اگرچہ یہ طریقہٴ کار پہلے ماڈل کی بہت سی خامیوں کو درست کردے گا، یہ ایک بالکل نیا ادارہ تخلیق کردے گا، جس کی اپنی بیوروکریسی ہوگی اور بالاتر اخراجات ہونگے،جو محدود بجٹ کے اس دور میں پنٹاگان کوغیرضروری چیزوں سے پاک کردیں گے۔
لیکن ایک نئی مرکزی ایجنسی ہوسکتا ہے فوجی اداروں کی بھرپور مہارت کے مقابلے میں خود کو الگ تھلگ پائے۔ چنانچہ ہم نے آخرمیں دونوں ماڈلز کے فوائد پز مبنی مخلوط طریقہٴ کار اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے تحت وارفائٹر ایس آئی جی باقاعدگی سے ملاقاتیں جاری رکھیں گے،جے آر اے سی اُنھیں مدد فراہم کرے گا، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ پنٹاگان کی اعلیٰ قیادت میدان جنگ کی ضروریات کی طرف تیزی سے ردعمل پر توجہ مرکوز رکھے۔
JIEDDOاور ISRٹاسک فورسز کو چھوٹا کردیا جائے گا مگر اُنھیں ہنگامی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پنٹاگان کی مستقل طلب کو پورا کرنے کے لیے برقرار رکھا جائے گا۔ مشترکہ فوری آپریشنل ضروریات اور مشترکہ ہنگامی آپریشنل ضروریات کے لیے فنڈز کی فراہمی کے طریقہٴ کار کو اداروں کے تحت منظم کرنے کے لیے مہتمم کا دفتر بھی کام کررہا ہے۔ ان تمام طریقہٴ کار پر عمل سے محکمے کے اعلیٰ رہنماؤں کو فنڈز کے ری پروگرام اور تیزی سے خریداری کے اختیار کو استعمال کرنے کے قابل ہوجانا چاہیے۔
ان ڈھانچوں کو زیادہ مستقل حیثیت دینے سے،پنٹاگان کو اُمید ہے کہ وہ افغانستان میں آپریشن کے خاتمے کے کافی عرصے بعد فوجیوں کی فوری ضروریات کو پورا کرنے کی اپنی صلاحیت واپس حاصل کرلے گا۔یہ پہلے ہی خلیج فارس میں امریکی بحریہ کے مراکز پر ایران کی طرف سے speedboats کی صلاحیت استعمال کرنے کا جواب دینے کے لئے، گولہ بارود اور پانیوں میں کارروائی کے لیے ٹارگٹنگ سسٹمز کو اپ گریڈ کرنے کے لیے مشترکہ ہنگامی آپریشنل ضروریات کے عمل کو استعمال کررہا ہے۔
 فوج نے بھی ایک تیز اثر بم کی صلاحیت میں بہتری کے لیے نمونہ جات بنائے ہیں،جو اسے مشکل ترین مقامات،اور گہرائی میں دبائے گئے آلات و سہولتوں کو نشانہ بنانے کے قابل بنائے گا۔ اور پچھلے سال محکمہٴ دفاع نے میدان جنگ میں استعمال کیا جاسکنے والا ”ہائیڈرو لیسزز سسٹم“ بنانے کافیصلہ کیا، جو کہ ایک کہیں بھی لے جایا جاسکنے والا سسٹم ہوگا، جو کیمیائی ہتھیاروں کے ذخائر کو، جہاں کہیں بھی وہ ملیں،تباہ کرسکتا ہے۔
یہ نظام مشترکہ ہنگامی آپریشنل ضروریات کے عمل کے تحت ترتیب دیا گیا تھا،امریکہ کے اس بات کو جاننے سے بھی کئی مہینے پہلے کہ اُسے شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی تباہی پر تبادلہٴ خیال کرنا پڑے گا۔یہ نظام ضرورت پڑنے پر استعمال میں لانے کے لیے تیار ہے… یہ ایک ایسی صلاحیت ہے جس نے امریکی حکومت کو اپنے حالیہ اقوام متحدہ کے مذاکرات میں اس امکان کو بھی شامل کرنے کے قابل بنادیا تھا۔
 ان طریقوں کو اداروں کے تحت منظم کرنے سے اُنھیں مرکزی کمان کے علاوہ بھی بروئے کار لایا جاسکے گا،جس نے گذشتہ دہائی کے دوران زیادہ تر لڑائی کی نگرانی کی ہے… یہ ایک خاص طور پر متعلقہ عنصر ہے کیونکہ اوباما انتظامیہ ایشیاء پیسفک کے علاقے کے لیے ازسر نو توازن کے کام کو جاری رکھے ہوئے ہے اور دنیا کہ دوسرے خطّوں مثلاً افریقہ سے آنے والے خطرات پر زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
مثال کے طور پر،JIEDDOنے پہلے ہی امریکہ کی افریقہ کے لیے کمان کی مدد کا آغاز کردیا ہے،اور اُس کی مہارت مالی اور صومالیہ جیسے ممالک میں آئی ای ڈی بموں سے لڑنے میں کام آئے گی۔ 
جب جنگیں ختم ہوجاتی ہیں ،تو لیڈرز اکثر اگلے چیلنج کی طرف بڑھنے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں۔ اسی لیے ضروری ہے کہ افغانستان اور عراق میں انتہائی مشکلات اُٹھا کر حاصل کیے گئے اسباق کو مستقلاً اداروں کے تحت دے دیا جائے ،جبکہ ابھی اُن سے حاصل ہوئے تجربات بھی بالکل تازہ ہیں۔ ان جنگوں کے ابدائی برسوں کے دوران بہت ہی زیادہ انسانی جانیں محض اس لیے ضائع ہو گئی تھیں کیونکہ پنٹاگان ہر لمحہ بدلتے میدان جنگ کے ساتھ چلنے میں ناکام رہا تھا۔ مگر اسے کبھی بھی یہ غلطی دُہرانی نہیں چاہیے۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط