استعمال کے حوالے سے اندازے
2ارب ڈالر کا منصوبہ،مین ہیٹن پراجیکٹ کابینہ کے اکثر ارکان اور تقریباً پوری کانگریس سے خفیہ رکھا گیا تھا۔ سیکرٹری برائے جنگ ہینری ایل سٹیمسن جو ایک با اعتماد ریپبلکن تھے،اورتما م لوگوں میں یکساں طور پر قابل احترام سمجھے جانے والے آرمی چیف آف سٹاف جنرل جارج سی مارشل نے اس پراجیکٹ کے بارے میں کانگریس کے چند ایک رہنماؤں کو ہی آگاہ کیا تھا۔
اُنھوں نے رقم مختص کرنے والی کمیٹیوں کے اہم ترین ارکان سمیت زیادہ تر ارکان کانگریس کے علم میں لائے بغیر محکمہٴ جنگ کے بجٹ کے لیے درکار مخصوص رقم…بہت کم جانچ پڑتال کے ساتھ… فراہم کردی تھی۔ قانون ساز اور ایگزیکٹو برانچوں کے چند مردوں نے قومی مفاد کے تصور پر اتفاق کرکے رقم مختص کرنے کے معمول کے عمل کو تبدیل کرلیا تھا۔
(جاری ہے)
مارچ1944میں، جب ایک ڈیموکریٹک سینیٹر نے ایک سپیشل انویسٹی گیشن ٹیم کی سربراہی کرتے ہوئے اس مہنگے پراجیکٹ کی چھان بین کی کوشش کی تھی، سٹیمسن اپنی ڈائری میں اُس شخص کے بارے میں چڑچڑے پن سے کہتے ہیں کہ ” وہ پریشان کُن اور خاصا ناقابل بھروسہ تھا…وہ باتیں تو روانی سے کرتا مگر عمل خود غرضی سے کرتا تھا “۔
وہ آدمی اس وقت کے سینیٹر ہیری ایس ٹرومین تھے۔ مارشل نے اُنھیں پراجیکٹ کی تحقیقات نہ کرنے پر قائل کیا، اور یوں ٹرومین کو اس وقت تک اس سے زیادہ کچھ پتہ نہ چل سکا کہ یہ پراجیکٹ کسی نئے ہتھیار کی تیاری سے متعلق ہے، جب تک کہ وہ اچانک 12اپریل 1945کو عہدہ صدارت پر فائز نہیں ہوگئے۔
1945کے اوائل میں،اُس وقت ایف ڈی آر کے ” اسسٹنٹ صدر“ برائے داخلہ امور اور انتہائی معتبر ڈیموکریٹک سیاستدان جیمز ایف بائی ارنس نے شکوک کا اظہار کرنا شروع کیا کہ مین ہیٹن پراجیکٹ وقت اور پیسہ کا ضیاع تھا۔
اُنھوں نے صدر روز ویلٹ کو خبردار کیا کہ ”اگر یہ منصوبہ ناکام ثابت ہوا، تو اس کے نتیجے میں سخت تحقیقات اور تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔“ بائی ارنس کے شبہات پر بہت جلد سٹیمسن اور مارشل نے قابو پالیا تھا۔ محکمہٴ جنگ کی ایک خفیہ رپورٹ، کچھ مبالغہ کے ساتھ صورت حال کا خلاصہ کچھ یوں بیان کرتی ہے کہ”اگر پراجیکٹ کامیاب ہوجاتا ہے تو اس پر کوئی تنقید نہیں ہوگی۔
لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا، تو پھر وہ اس کے سوا اور کسی چیز کے بارے میں تحقیقات نہیں کریں گے۔“
اگر روزویلٹ زندہ رہتے، تو اس طرح کا گھات لگائے بیٹھا سیاسی دباؤ دشمن کے خلاف یہ ہتھیار استعمال کرنے کے اُن کے ارادے کی بڑی قوت کے ساتھ تصدیق کرادیتا…یعنی وہ مفروضہ جس کا اندازہ وہ پہلے ہی لگا چکے تھے۔وہ ،قریب 2ارب ڈالرخرچ کرنے، قیمتی ترین مواد کو دوسرے جنگی اداروں سے اس منصوبے کی طرف منتقل کرنے جو شاید اس سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوسکتا تھا، اور کانگریس کو بائی پاس کرنے جیسے اقدامات کا دفاع اور بھلا کیسے کرسکتے تھے؟ایک ایسی قوم کے سامنے جو اس وقت بھی سائنسدانوں پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھی، اگر بم کے استعمال سے اس پراجیکٹ کی قدرو قیمت کو واضح نہ کیا جاتا تو مین ہیٹن پراجیکٹ ایک بہت بڑا ضیاع لگ سکتا تھا۔
صدر ٹرومین جنہیں یہ پراجیکٹ ورثہ میں ملا، وہ سٹیمسن اور مارشل دونوں پر اعتماد کرکے ایسے سیاسی دباؤ کے سامنے زیادہ غیرمحفوظ تھے۔ اور ایف ڈی آر کی طرح نئے صدر نے با آسانی یہ تصور کرلیا کہ بم کو استعمال کیا جائے گا اور کیا جانا چاہیے۔ٹرومین نے اس اندازے کے بارے میں کبھی کوئی سوال نہیں اُٹھایا۔اُن کے وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے سے پہلے بیوروکریسی میں ہونے والی پیش رفتوں نے اُن کے یقین کو مزید پختہ کردیا۔
اور ان کے معاونین، جو زیادہ تر صدر روز ویلٹ کی انتظامیہ سے ہی لیے گئے تھے، وہ بھی ایسا ہی یقین رکھتے تھے۔
اہداف کا چناؤ
جوہری منصوبے کا کنٹرول حاصل کرنے کو بیتاب، گرووزGrovesکو 1945کے موسم بہار کے آغاز میں مارشل کی طرف سے نئے ہتھیار کے اہداف منتخب کرنے کی اجازت مل گئی۔گرووز اور ان کے ساتھیوں کو کافی عرصہ سے یہ اندازہ ہوچکا تھا کہ وہ ایک نئی شدت کے حامل ہتھیار پر غور کر رہے تھے، جو ممکنہ طور پر اتنی شدت کے برابر قوت کا حامل ہوسکتا تھا کہ ” کم ازکم 25سو بمباروں نے عام بم اُٹھا ئے ہوئے ہوں“۔
” اور وہ یہ تصور کیے بیٹھے تھے کہ ایٹم بم کا دھماکہ زمین سے اچھی خاصی بلندی پر کیا جائے گا، اور بنیادی طور پر اس بات پر انحصار کررہے تھے کہ دھماکے کے اثرات مادی قسم کے ہونگے، تاکہ کم سے کم ممکنہ صلاحیت سے بھی زیادہ سے زیادہ ڈھانچوں(مکانات اور فیکٹریوں) کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جاسکے۔“
27اپریل کو ، ہدف کمیٹی ، جو گرووز، جنرل لورس نورسٹاڈ جیسے فضائیہ کے لوگوں، اور عظیم ریاضی دان جان وون نیومین جیسے سائنسدانوں پر مشتمل تھی…اس کے ارکان نے یہ طے کرنے کے لیے پہلی ملاقات کی کہ جاپان کے کس مقام پر اور کیسے بم گرانا ہے۔
وہ اس قیمتی ہتھیار کو ضائع کرنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتے تھے، اور اس لیے اُنھوں نے فیصلہ کیا کہ جاپان میں موسم گرما کے دوران خراب موسمی حالات کے باوجود، جب بم تیار ہوجائے تو اسے ریڈار کے ذریعے نہیں بلکہ آنکھوں کے سامنے گرایا جائے۔
اچھے اہداف زیادہ نہیں تھے۔ وہ جانتے تھے کہ، ائر فورس بڑے منظم انداز میں درج ذیل شہروں پر اس اہم مقصد کے ساتھ بمباری کررہی تھی کہ وہاں ایک پتھر بھی دوسرے کے اوپر جما نہیں چھوڑنا…ٹوکیو، یوکوہاما، ناگویا، اوساکا، کیوٹو، کوبی، یاواٹا اور ناگاساکی…وہ سمجھتے تھے کہ ائرفورس تمام اہم جاپانی شہروں کو تباہ کرنے کے لیے کام کررہی ہے… اُس کا مطمعٴ نظر یہ ہے کہ بمباری کرکے ٹوکیو کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے۔
“
1945کے آغاز تک، دوسری جنگ عظیم…خاص طور پر بحر الکاہل میں…عملی طور پرایک مکمل جنگ بن چکی تھی۔ ڈریسڈن کی طرف سے فائر بموں کے استعمال نے امریکی ائرفورس کے لیے ایک مثال قائم کرنے میں مدد کی تھی،کہ وہ امریکی عوام کی حمایت کے ساتھ عالمی سطح پر جاپانی شہریوں کی بڑی تعداد کو ہلاک کرڈالیں۔غیرفوجیوں کو حملے سے استثنیٰ کے حوالے سے جو اخلاقی اصرار پہلے کیا جاتا تھا وہ اب اس وحشیانہ جنگ میں دم توڑ رہا تھا۔
مارچ کی نو دس تاریخ کو ٹوکیو میں ، امریکہ کے فضائی حملے میں قریب 80ہزارعام جاپانی شہری مارے گئے تھے۔ امریکہ کے بی۔29طیاروں نے شہر کے گنجان آباد علاقوں پر پٹرول کی جیلیاں برسائیں تھیں تاکہ شہر میں آگ کا بے قابو طوفان پھیل جائے۔ اس نئے جنگی ہتھیار کو یورپ سے باہر اور جاپان کے خلاف استعمال کرنا آسان رہا ہوگا کیونکہ بہت سے امریکی شہریوں اور رہنماؤں کے لیے جاپانی شہری ”زرد رنگت والے کم حیثیت انسان“ تھے۔
اس نئے اخلاقی تناظر میں، جہاں دشمن کے لوگوں کو بڑی تعداد میں ہلاک کرنا زیادہ اہم لگ رہا تھا، کمیٹی نے بم کے اہداف کے طور پر ”وسیع تر آبادی والے، کم سے کم تین میل قطر کے حامل بڑے شہری علاقوں“ کو منتخب کرنے پر اتفاق کیا۔ 27اپریل کو ہونے والی گفت و شنید میں چار شہروں پر توجہ مرکوز کی گئی…ہیروشیما، جو کہ اس وقت سب سے بڑا ایسا ہدف تھا، جو اکیسویں بمبار کمانڈ کی ترجیحی لسٹ میں تھا اور نہ اسے اب تک نشانہ بنایا گیا تھا، اس لحاظ سے اس پر سنجیدگی سے غور کی ضرورت تھی…یوتا، جو اپنی سٹیل کی صنعت کی وجہ سے مشہور تھا…یوکوہاما، اور ٹوکیو،جو ایک امکانی ہدف ہوسکتے تھے مگر عملی طور وہ پوری طرح بمباری اور آگ کا نشانہ بن چکے تھے…اور عملاً اب وہاں صرف محل کی بنیادیں ہی کھڑی رہ گئی تھیں “۔
اُنھوں نے فیصلہ کیا کہ دیگر علاقوں پر زیادہ غور کرنے کی ضرورت ہے ، جیسے کہ …ٹوکیو بے، کاواساکی،یوکوہاما، ناگویا، اوساکا، کوبی، کیوٹو، ہیروشیما، کورے،یوتا،کوکورا،شیمو نوسیکی، یاماگوچی،کوما موتو، فوکوکا، ناگاساکی، اور ساسیبو۔
اہداف کا انتخاب اس بات پر منحصر تھا کہ بم اپنا سفاکانہ کام کیسے انجام دیتا ہے…یعنی دھماکے سے، گرمی اور تابکاری کے اثرات کیا ہوتے ہیں۔
مئی کی گیارہ اور بار ہ تاریخ کو دوسری بار کی ملاقاتوں میں ، لاس ایلاموس لیبارٹری کے ڈائریکٹر ماہر طبیعیات جے رابرٹ اوپن ہیمر نے اس بات پر زور دیا کہ بم کا مواد بذات خود ہی اتنا مہلک تھا کہ جو شاید اربوں جان لیوا ہتھیاروں کے برابر تھا اور یہ کہ اس بم سے مہلک تابکاری پھیلے گی۔ بم کا دھماکہ فضا میں کیا گیاتو ”وہ ہدف کے ساتھ واقع علاقے میں یا تو ابتدائی متحرک مواد اور یا پھر تابکاری اثرات والے عناصر کا بڑا حصہ پھیلائے گا، مگر نشانہ بننے والے علاقے میں جو اہلکاربم کی زد میں آئیں گے،بلاشبہ تابکاری کے اثرات اُنھیں متاثر کریں گے۔
“ اُنھوں نے تسلیم کیا کہ، یہ واضح نہیں تھا کہ تابکاری کے اثرات رکھنے والے زیادہ تر مواد کا کیا ہوگا…ہوسکتا تھا یہ گھنٹوں بادلوں کی صورت دھماکے والے علاقے کے اوپر موجود رہتا،یا پھر اگر بم موسلا دھار بارش یا بہت زیادہ نمی کے موسم میں پھٹتا اور بارش کا سبب بن جاتا تو ”زیادہ تر متحرک مواد ہدف بننے والے علاقے میں نیچے آپہنچتا۔“
اوپن ہیمر کی رپورٹ نے یہ واضح نہیں کیا تھا کہ تابکاری کی وجہ سے آبادی کا ایک بڑا حصّہ مارا جائے گا یا پھر صرف تھوڑی تعداد میں لوگ اس سے متاثر ہونگے۔
اس وقت تک جیسا کہ محدود ریکارڈ ظاہر کرتا ہے، ہدف مقرر کرنے والی کمیٹی کے کسی رکن نے اس معاملے پر غور کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ اُنھوں نے غالباً یہ سوچ لیا تھا کہ بم دھماکہ زیادہ تر نشانہ بننے والوں کو تابکاری کے جان لیوا اثرات پھیلنے سے پہلے ہی ہلاک کرڈالے گا۔
اہداف پر غور کرتے ہوئے اُنھوں نے ٹوکیو میں شہنشاہ کے محل پر بمباری کے امکان پر بھی غور کیا تھا اور ”اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ ہم اس کی سفارش نہیں کریں گے لیکن یہ کہ اس بمباری کے لیے کسی بھی طرح کا عمل فوجی حکمت عملی کے ذمہ داران کی طرف سے ہونا چاہیے۔
“ اُنھوں نے محل پر بم کے استعمال کے موثر ہونے کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کا فیصلہ کیا۔
ہدف کا تعین کرنے والی کمیٹی نے اپنے چار اہم ترین اہداف منتخب کیے… کیوٹو، ہیروشیما، یوکوہاما، اورکوکورا آرسنل۔اس پوشیدہ معنی کے ساتھ کہ نی گاتا، جو ائر فورس کے 509ویں گروپ کی ٹائٹن بیس سے خاصا دُور شہر تھا، وہ پانچویں ہدف کے طور پر رکھا جاسکتا تھا۔
کیوٹو، جو قدیم ہونے کے ساتھ سابقہ دارالحکومت اور مقدس شہر بھی تھا، اور جس کی آبادی تقریباً دس لاکھ تھی،وہ کمیٹی کے لیے سب سے زیادہ پُرکشش ہدف تھا۔ کمیٹی مختصراً نوٹ میں کہتی ہے کہ، ”نفسیاتی اعتبار سے، اس کا فائدہ یہ ہے کہ کیوٹو جاپان کے لئے ایک دانشورانہ مرکز ہے اوراس طرح وہاں موجود لوگ، اس طرح کے ہتھیار کی اہمیت کی تعریف کرنے کے لئے زیادہ مناسب ہیں۔
“ مطلب یہ تھا کہ ایٹم بم کے حملے کے بعد کیوٹو میں موجود لوگوں میں سے جو زندہ بچیں گے اور انھوں نے اس خوفناک واقعہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوگا ، تو ان کی بات پر جاپان میں ہر جگہ اعتبار کیا جائے گا۔
سب سے اہم چیز کے طور پر ، گروپ نے زور دیا کہ”جاپان کے خلاف زبردست نفسیاتی اثر ڈالنے کے لیے، بم کو ایک دہشت ناک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔
“ اور دنیا کو، بالخصوص روس کو خبردار کرنے کے لیے کہ امریکہ کے پاس ایک نئی طاقت موجود ہے۔ اس سے ہونیوالی اموات اور تباہی نہ صرف بچ جانے والے جاپانیوں کو ہتھیار ڈالنے کے لیے ایک دھمکی بنا دے گی بلکہ یہ اضافی فائدے کے طور پر دوسرے ملکوں، خاص طور پر سوویت یونین کو بھی اہم پیغام دے گی۔ مختصراً یہ کہ امریکہ جنگ کا جلد خاتمہ کرسکتا تھا اور ساتھ ہی جنگ کے بعد کی دنیا کو مرضی کی شکل بھی دے سکتا تھا۔
دو ہفتوں بعد، 28مئی کوکمیٹی کے تیسرے اجلاس تک، اُنھوں نے معاملات کو حتمی شکل دے لی تھی۔ اُنھوں نے بالترتیب کیوٹو، ہیروشیما اور نی گاتا کو اہداف کے طور پر چُنا تھا اور ہر شہر کے مرکز کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اُنھوں نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ صنعتی علاقوں کو نشانہ بنانا ایک غلطی ہوگی کیونکہ ایسے اہداف کم تھے، شہر کے بیرونی حصّوں پر موجود تھے اور خاصے منتشر تھے۔
وہ یہ بھی جانتے تھے کہ بمباری اس قدر غیر واضح تھی کہ بم با آسانی اپنے ہدف کو ایک میل کے پانچویں حصے کے برابر فاصلے سے خطا کرسکتا تھا، اور وہ یہ بات یقینی بنا نا چاہتے تھے کہ بم اپنی طاقت کا مظاہرہ کرے گا اور اسے ضائع نہیں کردیا جائے گا۔
کمیٹی جانتی تھی کہ ان کے منتخب کردہ تینوں شہر ائرفورس کے معمول کے اہداف کی فہرست میں سے نکال دئیے جائیں گے، اور اُنھیں ایٹم بم کے لیے چھوڑ دیا جائے گا۔
لیکن کمیٹی کے ارکان کو ”بمباری کی اُس وقت کی اور مستقبل کی شرح کے بارے میں مطلع کردیا گیا تھا ، کہ جاپان پر سٹریٹجک بمباری کو یکم جنوری 46ء تک مکمل کرنے کی توقع تھی، چنانچہ مستقبل میں ایٹم بم کے اہداف کی دستیابی ایک مسئلہ بن جائے گی۔“ مختصر یہ کہ جاپان کو بم کا نشانہ بنادیا گیا۔