Episode 32 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 32 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

تخفیف کی حکمت امریکہ کو آگے بڑھنے کے لیے اخراجات میں لازماًکمی کرنا ہوگی(جوزف ایم پیرنٹ۔ پال کے میکڈونلڈ)
جوزف ایم پیرنٹ یونیورسٹی آف میامی میں پولیٹیکل سائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔پال کے میکڈونلڈ ویزلے کالج میں پولیٹیکل سائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔۔۔۔
سرد جنگ کے تناظر میں، امریکہ کی خارجہ پالیسی ایک گہری تبدیلی سے گزری ہے۔
کسی سپر پاور کے مقابلہ کی طرف سے بے فکر ہوجانے کی وجہ سے، امریکہ کے عزائم اپنی سابقہ حدود سے بھی زیادہ آگے بڑھ گئے تھے۔ واشنگٹن نے اپنے کسی بھی حریف کی نسبت زیادہ تیزی سے فوجی اخراجات میں اضافہ کیا، نیٹو کی توسیع کی، اور انسانی ہمدردی کے مشن پر دنیا بھر میں افواج کو بھیجنے کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے، اپنے اہم اتحادیوں کو دُور کرلیا۔

(جاری ہے)

ان رجحانات میں نائن الیون کے بعد زیادہ اضافہ ہوا جب امریکہ افغانستان اور عراق میں جنگ کے لئے گیا، اس نے دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کو پھیلادیا، میزائل دفاعی پروگرام کو تیز کیا، اور دُور راز علاقوں میں نئے فوجی مراکز قائم کیے۔
تاہم، آج امریکی طاقت کمزور پڑنا شروع ہو گئی ہے۔ اب جبکہ دوسری ریاستوں کی اہمیت میں اضافہ ہورہا ہے، امریکہ کی غیر منظم اخراجات کی عادات اور خارجہ پالیسی کے نہ ختم ہونے والے منصوبے ملک کو مشکلات کا شکار کررہے ہیں۔
آسمان سے باتیں کرتے سرکاری قرضوں اور ٹی پارٹی تحریک اُبھرنے سے، بجٹ میں تخفیف کے حامی واشنگٹن کے گرد گھیرا تنگ کررہے ہیں۔ اس سال کے اوائل میں، اپنا عہدہ چھوڑنے سے پہلے، وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے اگلے پانچ سال کے دوران 78 ارب ڈالر کی کٹوتی کا اعلان کیا تھا، اور حال ہی میں قرض کی زیادہ سے زیادہ حد کا معاہدہ، دس سال کے دوران دفاعی بجٹ میں ایک اور 350 ارب ڈالر کی کٹوتی کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔
مالیاتی قواعد میں اضافہ کرتے ہوئے، یوں لگتا ہے کہ واشنگٹن نے حدود میں رہنے والی خارجہ پالیسی اور تکثیریت کے ثمرات کو نئے سرے سے دریافت کرلیا ہے۔ اس نے، افغانستان اور عراق میں اپنے جنگی مقاصد کو محدود کرلیا ہے، نیٹو کی توسیع کو اپنے ایجنڈے سے نکال دیا ہے، اور لیبیا میں حملوں کی قیادت فرانس اور برطانیہ کو سونپ دی ہے۔
لیکن اگر امریکہ کے پالیسی سازوں نے اس کی طاقت میں کمی کے ردعمل کے طور پر ملک کے دفاعی منصوبوں میں کمی کی ہے، تو انھیں ابھی تخفیف کو بطور حکمت عملی مکمل طور پر اپنانا ہے اور اخراجات میں (خاص طور پر فوجی اخراجات میں) واضح کمی کو لاگو کروانا ہے،واشنگٹن کی خارجہ پالیسی ترجیحات کی ازسر نو وضاحت کرنی ہے، اور امریکہ کے دفاعی بوجھ کو زیادہ سے زیادہ اس کے اتحادیوں کی طرف منتقل کرنا ہے۔
اصل میں، وزیر دفاع لیون پنیٹا نے خبردار کیا ہے کہ قرض کی زیادہ سے زیادہ حد کے معاہدے سے بڑھ کر دفاعی اخراجات میں کٹوتی، تباہ کن ہو گی۔انھوں نے کہا کہ، ”یہ ہمارے قومی دفاع کو کمزور کرے گا۔اس سے دنیا بھر میں اپنا اتحاد برقرار رکھنے کی ہماری صلاحیت کو نقصان پہنچے گا“۔ یہ نقطہ نظر امریکی فیصلہ سازوں کی نسل در نسل روایتی سوچ کی عکاسی کرتا ہے: جب یہ اقتدار میں آتے ہیں تو، انھیں ”زیادہ“ ہمیشہ بہتر لگتاہے۔
بہت سے حکام اس بات سے ڈرتے ہیں کہ بیرون ملک امریکہ کے اثر و رسوخ کو کم کرنے سے ظلم وجبر میں اضافہ ہوگا اور تجارت میں کمی واقع ہوگی۔ اور مختلف انٹرسٹ گروپ بھی اس خیال کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ امریکہ کی خارجہ مصروفیات میں اچانک کمی سے اُنھیں کئی چیزوں سے محروم ہونا پڑے گا۔
سچ تو یہ ہے، کہ بیرون ملک تباہی اور اندرون ملک تقسیم کی پیش گوئیوں سے ہٹ کر، دانشمندانہ تخفیف کی پالیسی نہ صرف امریکی خارجہ پالیسی کے اخراجات کو کم کرے گی بلکہ اس سے ایک زیادہ معقول اور پائیدار حکمت عملی بھی وجود میں آسکے گی۔
ماضی میں، وہ عظیم طاقتیں جنہوں نے اپنے کم ہوتے وسائل کے مطابق اپنے مقاصد کو محدود کرلیا، ان طاقتوں کی نسبت طاقت کی سیاست کے سمندر میں کامیاب رہیں جو مہنگے اور ضرورت سے زیادہ خواہشات پر مبنی مقاصدسے چمٹی رہیں۔آج، امریکہ کی دُور دراز علاقوں میں فوجی مہمات میں کمی، امریکی مخالفین کو نرم کرے گی، ممکنہ تنازعہ کے مقامات کا خاتمے کرے گی، اور اس سے اجتماعی دفاع میں زیادہ اہم کردار ادا کرنے کے لئے امریکی اتحادیوں کی حوصلہ افزائی ہوگی…اور یہ سب جغرافیائی سیاست میں امریکی غلبے کو برقرار رکھتے ہوئے اور امریکہ کے بوجھ میں کمی کرتے ہوئے ممکن ہوگا۔
تخفیف کی پالیسی کے لیے بین الاقوامی عدم استحکام یا واشنگٹن میں ایندھن کے معاملے پر جانبدارانہ تلخی کو مدعو کرنے کی ضرورت نہیں۔اس سے اگر کچھ حاصل ہوگا تو وہ ہے… اصلاحات اور بحالی کے لیے مواقع کی فراہمی، اسٹریٹجک لچک میں اضافہ، اور امریکی قیادت کی قانونی حیثیت کی تجدید۔
زوال: غلط فہمی یا مقدر؟
طاقت کئی طرح کی ہوتی ہے اور اس کی پیمائش بہت مشکل ہے، لیکن اس حوالے سے پیمائش کے جو پیمانے طویل مدت میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، وہ ہیں…حریفوں کے مقابلے میں کسی ملک کی فوجی صلاحیت اور اسکی اقتصادی طاقت۔
ان معیارات کو استعمال کرتے ہوئے، اس حوالے سے ایک مضبوط کیس بنایا جانا چاہیے کہ اگرچہ امریکی زوال حقیقی ہے،مگر، اس کی شرح معمولی ہے۔
امریکہ اپنی فوجی افرادی قوت اور ہارڈویئر میں اتنی زیادہ سرمایہ کاری کرتا ہے جتنی کہ دوسرے تمام ممالک ملکر بھی نہیں کرتے۔جیسا کہ ماہر سیاسیات بیری پوزن دلیل دیتے ہیں، ”اس بات نے امریکہ کو ”دارالعوام کی قیادت“ کرنے کی اجازت دی ہے۔
بحری آبدوزوں اور طیارہ بردار بحری جہازوں کے وسیع بیڑے کے ساتھ، امریکہ سمندروں کو کنٹرول کرتا ہے… یہاں تک کہ اُن پانیوں کو بھی جو اس کے علاقے میں نہیں ہیں اور ان کو بھی جو اس کے خصوصی اقتصادی زون کے باہرواقع ہیں۔ اس کے لڑاکا طیاروں اور بغیر پائلٹ ہوائی گاڑیوں(ڈرونز) نے اسے بغیر کسی مقابل کے فضائی برتری دلادی ہے۔ اور بیرونی خلا اور سائبر سپیس کے شعبوں میں اس کا غلبہ بھی تقریباً اتنا ہی متاثر کن ہے۔
لیکن فوجی سرمایہ کاری پر امریکہ کے ”منافع(فائدے)“ میں کمی آ رہی ہے۔ افرادی قوت اور ٹیکنالوجی کے اخراجات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومتی احتساب کا محکمہ اپنی رپورٹ میں کہتا ہے کہ، سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے، ہتھیاروں کے حصول کے لئے فنڈز کی فراہمی میں 57 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ ان کے حصول کی لاگت میں اوسطاً 120 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
کانگریشنل ریسرچ سروس کے مطابق، 1999 اور 2005 کے درمیان، ایک حاضر سروس ڈیوٹی ممبر کے اخراجات کی حقیقی لاگت میں 33 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دریں اثنا، غیرمحدود دفاعی اخراجات کے فوائد ، اخراجات کے مطابق حاصل نہیں ہوسکے۔جیسا کہ گیٹس کہتے ہیں، امریکی دفاعی ادارے”نائن الیون کے بعد کی دہائی کے بغیر کسی سوال جواب ،مالی امداد کی درخواستوں کی منظوری کے عادی ہوچکے ہیں“،جس سے فضول خرچی اور ناقص کارکردگی کا کلچر فروغ پارہا ہے، جسے وہ ” ایک نیم جاگیردارانہ نظام… جس میں وسائل مختص کرنے کے لیے مرکزی میکانزم کے بجائے کئی جاگیریں کام کرتی ہیں“قرار دیتے ہیں۔
گزشتہ دہائی کا رجحان پریشان کن ہے: فوجی اخراجات بڑھنے سے، بیرون ملک امریکی کامیابیاں کم ہوگئی ہیں۔واضح طور پر جاننے کے لیے غور کیجئے، امریکہ دنیا کی بہترین مسلح، اورسب سے زیادہ ہنر مند فوج کو میدان میں اُتارنا جاری رکھے ہوئے ہے۔ افغانستان اور عراق کی جنگوں کا رُخ مڑ گیا ہے، لیکن ٹوٹا نہیں ، تمام رضاکار فورس، اور اس مضبوط قوت کو برقرار رکھنے کا بوجھ ناقابل قبول طور پر گراں نہیں ہے۔
2012 کے لئے مجوزہ 553 ارب ڈالر کابیس لائن دفاعی بجٹ، وفاقی بجٹ کے صرف 15 فیصد اور جی ڈی پی کے پانچ فیصد سے بھی کم حصے کی نمائندگی کرتا ہے۔ (ان اعدادو شمار کی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے،غور کیجئے کہ سوشل سیکورٹی اخراجات کے لئے 2012 کا مجوزہ بجٹ 760 ارب ڈالر سے بڑھ گیا تھا)۔ اس کے باوجود موجودہ رجحانات امریکہ کے لیے اس کے قائدانہ کردار کواس آسانی سے قائم رکھنا مشکل بنادیں گے، جس طرح وہ ماضی میں کرتا آیا ہے۔
فوجی حکمت عملی اور ٹیکنالوجی میں تبدیلیاں امریکہ کی برتری کو ختم کررہی ہیں۔ انٹی شپ کروز میزائلوں کے پھیلاوٴ نے، امریکی بحریہ کا مخالفین کے ساحلوں کے قریب کام کرنا مشکل بنادیا ہے۔اسی طرح زمین سے فضا میں مار کرنے والے جدید ترین میزائلوں نے مخالفانہ محاذ وں پر امریکی فضائی برتری برقرار رکھنے کی لاگت میں اضافہ کردیا ہے۔ قوم پرست اور قبائلی دراندازی کی تحریکیں ، جنہیں چھوٹے ہتھیاروں کی تیز رفتارتجارت کے ذریعے ایندھن فراہم کیا جاتا ہے… روایتی زمینی فورسز کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنا مشکل ثابت ہورہا ہے۔
امریکہ کا دفاعی غلبہ زیادہ مہنگا ہورہا ہے، اور یہ سب اس وقت ہورہا ہے جب دیگر ریاستوں اور سرگرم گروہوں کے لیے واحد سپر پاور کو چیلنج کرنا کم مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔
ملک کے فوجی غلبے کو درپیش ان چیلنجوں سے ہٹ کر، کمزور اقتصادی حالت بھی امریکی طاقت کی کمی میں حصہ ڈال رہی ہے۔ امریکی معیشت اب بھی دنیا میں سب سے بڑی معیشت ہے، لیکن پھر بھی اس کی پوزیشن خطرے میں ہے۔
1999 سے 2009 کے درمیان، عالمی جی ڈی پی میں امریکہ کا حصہ(خریداری کی طاقت کے لحاظ سے اندازے کی بنیاد پر)23فیصد سے کم ہوکر 20فیصد کی شرح پر آگیا،جبکہ عالمی جی ڈی پی میں چین کا حصہ 7 فیصد سے بڑھ کر 13 فیصد تک جاپہنچا۔اگر یہ رجحان جاری رہا، تو2016 تک چین کی معاشی پیداوار امریکہ سے زیادہ ہوجائے گی۔ چین پہلے ہی امریکہ سے زیادہ توانائی استعمال کرتا ہے، اور یہ مطالبات زور پکڑ رہے ہیں کہ بین الاقوامی ریزرو کرنسی کے طور پر ڈالر کی جگہ کئی کرنسیوں پر مشتمل ایک نظام ہونا چاہیے جس میں یورو اور یوآن بھی شامل ہوں۔
امریکہ کی مالی پوزیشن خطرے میں ہے، اور کوئی مانے یا نہ مانے ”Standard & Poor“ کا معاملہ امریکی ٹریژری بانڈز کی قدر میں کمی کا ایک جواز تھا۔ 2001 سے 2009 کے درمیان، امریکہ کا وفاقی قرض جی ڈی پی کی شرح کے لحاظ سے دوگنا سے بھی زیادہ…یعنی 32 فیصد سے 67 فیصد ہوگیا، اور ریاستی اور مقامی حکومتوں کے قرضے بھی بہت زیادہ ہیں۔ درآمدات پر امریکی انحصار نے،قرضوں کے حصول کی بلند شرح کے ساتھ مل کر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی راہ ہموار کی ہے…جو 2006 میں جی ڈی پی کے چھ فیصد سے زیادہ تھا۔
طاقت دولت کا پیچھا کرتی ہے، اور پیسہ امریکہ کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔
موجودہ حالات تمام تر عذاب اور اُداسی پر مبنی نہیں ہیں۔ بہت زیادہ وفاقی قرضوں کے باوجود، امریکہ نے 2010میں سود کی خالص ادائیگیوں پر بجٹ کا پانچ فیصد سے بھی کم خرچ کیا تھا، پھیلاؤ کو قرضوں کے اخراجات کی حد تک محدود رکھنے نے دیگر اخراجات کو پورا کرنے میں مدد دی ہے۔
امریکہ اب بھی کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں اشیاء اور خدمات کی زیادہ برآمدات کرنے والا ملک ہے اور دنیا کے سب سے بڑے مینوفیکچرر کے لحاظ سے چین کے پیچھے بہت قریب ہی ہے۔ مارکیٹ کی شرح تبادلہ کے لحاظ سے ، امریکی معیشت اب بھی چین کی معیشت کے حجم سے دوگنا زیادہ ہے، اور چین کو کئی ایسی رکاوٹوں کا سامنا ہے جو اس کے عروج کی رفتار کو سُست کر سکتی ہیں…مثال کے طور پر، ملکی سطح پر بدامنی، اسٹاک اور ہاوٴسنگ کے شعبوں میں مصنوعی عروج، کرپشن، عمر رسیدہ آبادی، بہت زیادہ بچت، اور جدت کا غیرمصدقہ سابقہ ریکارڈ۔
اس کے باوجود مجموعی تصویر واضح ہے: امریکہ کی اقتصادی بالادستی اب یقینی نہیں رہی، اور یہ غیر یقینی صورتحال اس کے جغرافیائی سیاست پر غلبے کو کم کرے گی۔
اس کے نتیجے میں، امریکہ سامراجی طاقتوں کے لیے ایک جانے پہچانے نمونے میں گر گیا ہے… یعنی،حد سے زیادہ اخراجات، ضرورت سے زیادہ پھیلاؤ اور ضرورت سے زیادہ خوش فہمی۔ لیکن امریکہ کے پاس وسائل سے مالا مال معیشت اور ایک لچکدار فوج ہے…گویا یہ گہرے زوال میں نہیں ہے۔
اب، اسے ایک ہم آہنگ خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے۔
سلطنت کی کہانیوں کے خلاف مزاحمت
امریکی فوجی اور معاشی غلبے میں مسلسل کمی کے باوجود، بہت سے مبصرین خبردار کرتے ہیں کہ خارجہ پالیسی کے موجودہ نقطہ نظر میں تیزی سے تبدیلی تباہ کن ہو گی۔ مورخ رابرٹ کاگن تنبیہہ کرتے ہیں کہ ”دفاعی اخراجات میں کمی… امریکی اتحادیوں کے اوسان خطا کردے گی اور ان سے زیادہ سے زیادہ تعاون حاصل کرنے کی کوششیں ضائع ہوجائیں گی“۔
صحافی رابرٹ کپلن زیادہ خوفناک انداز میں انتباہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ، ” (امریکہ کی) دنیا کے ساتھ مشغولیت کم کرنے کے نتائج،انسانیت کے لئے تباہ کن ہوں گے“۔ لیکن سٹیٹس کو کے یہ محافظ ،تشفی یا الگ تھلگ ہونے کو تخفیف سے الجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ امریکہ کے بیرون ملک منصوبوں میں ایک دانشمندانہ کمی، مہلک خطروں کا مقابلہ کرنے اور اپنے دوستوں اور اتحادیوں کو ساتھ ملا کر چلنے میں رکاوٹ پیدا نہیں کرے گی۔
بے شک، اس طرح کی تخفیف طویل مدتی ترقی کے فروغ کے لیے ملک کو عظیم تر اسٹریٹجک لچک اور مفت وسائل عطا کرے گی۔
تخفیف کے مخالفین کی طرف سے ظاہر کی گئی ایک کسی حد تک زیادہ قابل توجہ تشویش یہ ہے کہ اس طرح کی پالیسی دفاعی صلاحیت کو کمزور کر سکتی ہے۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ، دفاعی بجٹ کم کرنا یا فوجوں کی پوزیشن تبدیل کرنا، امریکہ کو کمزور نظر آنے والا اورعجیب پوزیشن میں لاکھڑا کرے گا“۔
کپلن تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ،” اس طرح کے ایک الگ ارادے کا ہر اشارہ علاقائی لڑاکا ملکوں کی حوصلہ افزائی کر سکتا ہے۔“ اس بے چینی کی جڑ یہ مفروضہ ہے کہ دشمن کی مہم جوئی روکنے کا بہترین طریقہ آگے بڑھ کر دفاع کرنا ہے…یعنی دشمن کی سرحدوں کے قریب بڑے اڈوں میں فوجی اثاثوں کی تعیناتی، جو خاردار تاروں کا کام کرتے ہیں، یا کچھ آنکھوں کے لیے، یہ امریکہ کی ایک عظیم دیوارکے طور پر کام کرتے ہیں۔
اس پوزیشن کے حوالے سے بہت سے مسائل موجود ہیں۔پہلی بات تو یہ کہ، جن پالیسیوں نے حالیہ برسوں میں امریکہ کو مسائل میں مبتلا کیا ہے وہ آگے بڑھنے والی (جارحانہ) تھیں نہ کہ ، غیر فعال یا دفاعی ۔ امریکہ کی قیادت میں عراق پر حملے نے جرمنی اور ترکی جیسے اہم امریکی اتحادیوں کو دُور کردیا، اور اس سے ایران کی علاقائی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔
نیٹو کی مشرق کی طرف توسیع نے اتحاد کو کشیدہ اور جارجیا اور یوکرائن میں روس کے عزائم کو تیز کیا ہے۔
زیادہ عمومی طور پر، امریکہ کی دُور دراز علاقوں کی طرف پیش قدمی کی مہمات اب عظیم طاقت کے کسی خطہ پر قبضہ کی راہ میں اہم رکاوٹ نہیں رہیں۔ دراصل،کسی علاقے پرقبضہ کرنا اور اسے قائم رکھنا پہلے کی نسبت کہیں زیادہ مہنگا ہوچکا ہے، اور عظیم طاقتوں کے لیے مزید توسیع میں بہت کم فائدہ یا دلچسپی رہ گئی ہے۔
امریکہ کے اہم اتحادیوں نے اپنی علاقائی حدود کے دفاع اور شورش کے شوقین پڑوسیوں کو مرعوب کرنے کے لیے ضروری وسائل تیار کرلیے ہیں۔بلاشبہ، تخفیف کی پالیسی لاپرواہ حریفوں کو غیر متوقع اور غیر محتاط پالیسیاں اختیار کرنے پر اکسا سکتی ہے، جیسا کہ ریاستیں کبھی کبھی کرتی ہیں۔ لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تو، روایتی ہتھیاروں میں امریکہ کی برتری اور طاقت کے اظہار کی اس کی صلاحیتیں،فوری امریکی مداخلت کے آپشن کو یقینی بناتی ہیں۔
اس طرح کے نتائج مہنگے ثابت ہونگے ، لیکن تخفیف کی پالیسی کے خطرات کا موازنہ جمود کے خطرات سے کیا جانا ضروری ہے۔ مشکل مالی حالات میں،امریکہ کے لیے ترجیحات کا تعین کرنا ضروری ہے۔ ایک سپر پاور کے لیے سب سے بڑا خطرہ کسی علاقائی بحران میں تاخیر سے داخل ہونا نہیں ہے،بلکہ شاہانہ انداز کے بہت زیادہ طول کھینچنے کا فتنہ ہے۔ اور یہی وہ جال ہے جس میں القاعدہ جیسے مخالفین امریکہ کو پھنسانا چاہتے ہیں۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط