Episode 35 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 35 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

بھارت کیساتھ تعلقات کی بحالی…امریکہ کو کیا کرنا چاہیے؟(نکولس برنز)
نکولس برنز ،ہارورڈ کینیڈی سکول آف گورنمنٹ میں ڈپلومیسی اور بین الاقوامی سیاست کی پریکٹس کے پروفیسر اور سیاسی امور کے سابق امریکی انڈر سیکرٹری ہیں۔۔۔۔
آنے والی صدی کے دوران ایشیاء میں امریکہ کے سٹریٹجک مفادات کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت بھارت کے ساتھ زیادہ جُڑے ہونگے۔
امریکہ اور بھارت دونوں ہی جمہوریت کا فروغ ، تجارت اور سرمایہ کاری کا پھیلاؤ، دہشت گردی کا خاتمہ اور سب سے بڑھ کر خطے میں چین کی بڑھتی فوجی قوت کو توازن میں لاکر خطے کو پُرامن دیکھنا چاہتے ہیں۔ امریکہ ایک مرکزی مقام کے نام پر ایشیاء میں اپنی موجودگی کو بڑھاتا ہے تو اس صورت میں بھارت ہی اس کا سب سے اہم حلیف ہوگا۔

(جاری ہے)

خاص طور پر ایشیا پیسیفک کے علاقے میں، بھارت ،امریکہ کی قیادت میں بننے والے آسٹریلیا، جاپان، جنوبی کوریا، اور دوسروں ممالک کے اتحاد میں شامل ہے۔

اور جنوبی ایشیاء کا طاقتور ترین ملک ہونے کی وجہ سے بھارت ”مصیبت زدہ“ افغانستان کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا پر مثبت اثر و رسوخ استعمال کرسکتا ہے۔ 
چنانچہ اوباما انتظامیہ کو اپنے باقی دو سال کے دوران بھارت کو اہم ترین ترجیح بنانا چاہیے۔ خاص طور پر اس لیے کہ بھارت اب تک امریکہ کی ایشیاء کے لیے توجہ اور وسائل کی ازسر نو توازن کی پالیسی میں نمایاں حیثیت کا حامل نہیں بن سکا۔
صدر باراک اوباما کی پہلی مدت صدارت کے دوران بہت سے بھارتی عہدیدار اس بات کی شکایت کرتے رہے کہ امریکہ چین کے ساتھ معاشی تعلقات اور پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے جیسے مقاصد کی وجہ سے، بھارت کو اس کے حریف ممالک پاکستان اور چین کی نسبت کم توجہ دیتا ہے ۔ اس منصفانہ یا غیر منصفانہ طور پر روا رکھی گئی عدم توجہ نے، بھارتی عہدیداروں کو ناراض کیا ہے اور واشنگٹن پر ان کے اعتماد میں کمی آئی ہے۔
 
نئی دہلی میں نئی حکومت کے قیام کے بعد، اوباما انتظامیہ کے پاس موقع ہے کہ وہ باہمی تعلقات کو بہتر بنائے۔ مئی میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں بھارتی عوام نے ووٹ کے ذریعے نریندرا مودی کو وزیراعظم منتخب کیا ہے، جو مغربی ریاست گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک ہندو قوم پرست رہنما ہیں، اور اُنھوں نے اشارہ دیا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ زیادہ مضبوط شراکت چاہتے ہیں۔
مگر یہ اسی وقت ممکن ہوسکے گاجب صدر اوباما اپنے خارجہ پالیسی کے ایجنڈے میں بھارت کو سب سے اوپر رکھیں گے اور بھارتی وزیراعظم مودی دونوں ملکوں کے درمیان مضبوط معاشی اور سیاسی تعلقات قائم کرنے کے لیے مسلسل اصلاحات کریں گے۔ اس ستمبر میں ہی دونوں رہنماؤں کی واشنگٹن میں ملاقات طے ہے۔ اور اس سے پہلے کہ دونوں ملیں، اُنھیں امریکہ بھارت تعلقات از سر نو منظم کرنے کے لیے پانچ اہم ترین خطوط پر سوچنا چاہیے:
یہ پانچ اہم خطوط… دو طرفہ تجارت کو فروغ دینے، باہمی فوجی تعاون کو مضبوط بنانے، اپنی سرزمین کو درپیش سلامتی کے خطرات کے خلاف متحد ہونے، امریکہ کے انخلاء کے بعد افغانستان میں استحکام قائم کرنے اور خاص طور پر موسمی تبدیلیوں جیسے بین الاقوامی چیلنجز سے نپٹنے کے لیے مشترکہ راہیں تلاش کرنا ہیں۔
یہ ایک جراتمندانہ ایجنڈا ہے، مگر یہ بھارت کو وہاں لے جائے گا، جہاں اُسے ہونا چاہیے…یعنی خطے میں امریکی پالیسی کے مرکز میں۔۔۔۔
 تعلقات کا زوال
بہت سے بھارتی عہدیدار جارج ڈبلیو بش کے دور صدارت کو امریکہ بھارت تعلقات میں خاص موڑ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ صدر بش نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلے دن سے ہی بھارت کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دی اور یہ دلیل دی کہ بھارت کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت، تجارتی سفر، جمہوری نظام اور بڑھتی ہوئی نوجوان آبادی خطے میں امریکی عزائم کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے۔
وہ سمجھتے تھے کہ دونوں ملک، جن کے سٹریٹجک حریف بننے کا دُور تک کوئی امکان نہیں، وہ اس حوالے سے بہت سے مشترکہ خیالات رکھتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں طاقت کا توازن کیسے برقرار رکھا جانا چاہیے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ بھارت کو ایک عالمی طاقت کے طور پر اُبھرنے میں مدد دینا واضح طور پر امریکی مفاد میں ہے۔ 
صدر بُش کے اس طرف توجہ دینے کے نتائج ڈرامائی تھے۔
امریکہ اور بھارت کے درمیان اشیاء اور خدمات کی باہمی تجارت کے حجم میں 2004کے بعد سے تین گنا اضافہ ہوگیا ۔ نیز اس کے بعد سے، دونوں ممالک کی حکومتوں نے اپنے فوجی تعلقات کو ڈرامائی طور پر مضبوط کیا اور خلائی تحقیق، سائنس اور ٹکنالوجی، تعلیم اور جمہوری طرز حکمرانی کے شعبوں میں نئے باہمی تعاون کے منصوبے شروع کیے۔ صدر بش نے امریکہ بھارت تعلقات کی تاریخ کے اہم ترین قدم …یعنی سول جوہری معاہدے کی تشکیل بھی کی، جس نے پہلی بار امریکی فرموں کو بھارت کے سول جوہری پاور سیکٹر میں سرمایہ کاری کی اجازت دے دی۔
( مجھے اس معاہدے کے دوران امریکہ کے اہم ترین مذاکراتی نمائندے کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا تھا)۔ اس معاہدے نے بھارت کی دنیا میں جوہری تنہائی کو ختم کرنے میں مدد دی، اور بھارت کو ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے کا حصہ نہ ہونے کے باوجود یہ اجازت مل گئی کہ وہ سول جوہری ٹکنالوجی کے شعبے میں تجارت کرسکے۔ اس کے بدلے میں بھارت نے پہلی بار باقاعدہ عالمی معائنے کے لیے اپنی سول جوہری صنعت کے دروازے کھول دئیے۔
اس معاہدے کا اصل حاصل دراصل بھارتی عوام کو یہ پیغام تھا کہ… امریکہ اُن کے ملک کو سنجیدگی سے لیتا ہے اور پچھلی دہائیوں کے سرد تعلقات کو بھول جانا چاہتا ہے۔ وسیع تناظر میں، یہ دراصل بھارت کے اُبھرتے ہوئے عالمی کردار کے لیے امریکی حمایت کا اشارہ تھا۔
جب اوباما نے کرسیٴ صدارت سنبھالی، تو اُنھوں نے صدر بش کے نقش قدم پر چلنا پسند کیا۔
کیونکہ بہرحال صدر بش کی بھارت نواز پالیسی کو ڈیموکریٹس کی مضبوط اور بہت کم دیکھنے میں آنے والی حمایت حاصل ہوئی تھی، جس میں اُس وقت کے امریکی سینیٹر جوزف بائیڈن، ہیلری کلنٹن اور خود باراک اوباما کی اُن کے دوسرے دور حکومت میں حمایت بھی شامل تھی۔ 2009میں اوباما نے اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ اور ان کی اہلیہ کو اپنی حکومت کے پہلے سرکاری مہمان کے طور پر مدعو کیا۔
اس کے بعد 2010میں اپنے نئی دہلی کے کامیاب سرکاری دورہ کے دوران اوباما بھارت کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کی درخواست کی منظوری دینے والے پہلے امریکی صدر بن گئے۔ 
اس اُمید افزا آغاز کے باوجود اوباما کی بھارت پالیسی کبھی بھی نقطہ عروج تک نہیں پہنچ سکی۔ حالانکہ ہیلری کلنٹن امریکی وزیرخارجہ کے طور پر ترقی اور عورتوں کے ایشوز پر نئی دہلی کے ساتھ ملکر کام کرتی رہی ہیں، مگر اوباما حکومت قابل فہم طور پر زیادہ اہمیت کے حامل مختصر مدت کے بحرانوں میں گھری ہوئی تھی، جو اُنھیں حکومت سنبھالتے ہی ورثہ میں ملے تھے۔
جیسے کہ عالمی اقتصادی کساد بازاری، عراق اور افغانستان کی جنگیں، اور ایک جوہری طاقت رکھنے والے ایران کا خطرہ۔ یہ گویا واشنگٹن کے مختصر مدت کے حامل بحرانوں میں پھنس کر طویل مدتی عزائم کو پیچھے دھکیلنے پر مجبور ہوجانے کی کلاسیک داستان ہے ۔ جب اوباما کی پہلی مدت صدارت ختم ہوئی تو بھارت امریکہ کی ترجیحی فہرست میں نیچے آ چکا تھا۔ اور بھارتی عہدیداروں نے اس بارے میں درپردہ شکایت کی، جسے وہ اپنے امریکی ہم منصبوں کی عدم توجہ کے طور پر دیکھتے تھے۔
 
تاہم صدر اوباما کے حوالے سے منصفانہ بات کی جائے تو بھارتی حکومت نے دو طرفہ تعلقات کے زوال میں زیادہ بڑا کردار ادا کیا ہے۔ 2010میں، بھارتی پارلیمنٹ نے ایک غیردانشمندانہ مشورے پر مبنی جوہری ذمہ داری کا قانون منظور کیا، جس نے جوہری پاور پلانٹس کے سپلائرز پر حادثہ کی صورت میں بھاری ذمہ داری تھوپ دی۔ اس قانون نے، جسے بھوپال میں امریکہ کے زیرملکیت چلنے والے پلانٹ میں ہونے والے ہولناک کیمیائی اخراج کے پچیس سال مکمل ہونے پر زیادہ حمایت ملی، سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح کردیا۔
امریکی اور دیگر عالمی فرموں کو بھارتی منڈیوں میں داخل ہونے سے روک کر اس قانون نے بھارت اور امریکہ کے درمیان طے پانے والے سول جوہری معاہدے پر عمل در آمد کو ناممکن بنادیا، اور اس عظیم معاہدے کی اہمیت کو ختم کرکے رکھ دیا جو دونوں ملکوں کے تعلقات میں مرکزی اہمیت کا حامل ہونا چاہیے تھا۔ واشنگٹن اور نئی دہلی کی حکومتیں اس تعطل کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔
 2012اور 2013میں اس وقت امریکہ بھارت تعلقات کو مزید نقصان پہنچا جب بھارتی معاشی ترقی میں واضح طور پر کمی واقع ہوئی، غیرملکی سرمایہ کار مایوس ہوگئے، انڈین نیشنل کانگریس کی حکومت کو کرپشن کے الزامات نے ہلاکر رکھ دیا اور وہ رٹیل، انشورنس، انرجی اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں اپنے وعدوں پر عمل درآمد میں ناکام ہوگئی۔ نئی دہلی نے غیردانشمندانہ طور پر غیرملکی سرمایہ کاروں پر امتیازی ٹیکس عائد کردئیے اور ایسے خود حفاظتی اقدامات کیے جنھوں نے باہمی تجارت کو روک دیا۔
امریکہ اور بھارت کے درمیان تلخ تجارتی جھگڑوں نے مرکزی اہمیت اختیار کرلی اور ان سیاسی و فوجی تعلقات کو پس پشت ڈال دیا جو بڑھتی شراکت کو جوڑے رکھنے کا باعث تھے ، اور ان جھگڑوں نے دونوں ملکوں کو کسی نئے اقتصادی معاہدے سے روکے رکھا۔
اس کے بعد سفارتی سطح پر دو انتہائی شدید طوفان آئے۔ 2013 کے دوران جب نریندرا مودی آنے والے انتخابات کے لیے سب سے مضبوط امیدوار بن کر اُبھر رہے تھے، بھارتی پریس نے وہ کہانی دوبارہ چھاپ دی کہ کچھ عرصہ قبل امریکہ نے نریندرا مودی کو اس لیے اپنے ملک میں داخل ہونے سے روک دیا تھا کہ 2002میں جب وہ گجرات کے وزیراعلیٰ تھے، وہ مسلم دشمن فسادات کو روکنے میں ناکام رہے تھے۔
اُس وقت مجھ سمیت بُش انتظامیہ کے اکثر عہدیدار اس فیصلے کو درست سمجھتے تھے، مگر مودی کے بہت سے حامیوں نے الزام لگایا کہ امریکہ کی طرف سے مودی کو ویزہ دینے سے انکار بھی دراصل بھارتیوں کو عزت و وقار نہ دینے کی ایک اور مثال تھی۔
پھر دسمبر 2013میں، امریکہ کے فیڈرل ایجنٹس نے نیویارک میں اُس وقت تعینات بھارتی قونصل جنرل دیویانی کھوبراگڑھی کو اپنی ملازمہ کے ویزہ کے حوالے سے جھوٹ بولنے کے الزام میں گرفتار کرلیا، جس سے بھارتی پریس اور عوام آگ بگولہ ہوگئے۔
یہ ایک کامل طوفان تھا مگر اس سے دامن بچایا جاسکتا تھا۔ امریکہ کو ویزے کے ایشو کو اس تنازعہ کی ابتدا میں ہی درپردہ طور پر حل کرنا چاہیے تھا تاکہ بھارت کی پہلے سے زخمی انا کو مزید بھڑکانے سے بچا جاسکتا، اور بھارتی حکومت کو، جس نے نئی دہلی میں قائم امریکی سفارت خانے کی سیکورٹی میں کمی کردی اور امریکی سفارت خانے کے سکول کے لیے اساتذہ کو ویزہ دینے سے انکار کرکے معاملے کو مزید بگاڑدیا…اسے نسبتاً صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔
مگر اس کے بجائے، دونوں ملکوں کی حکومتوں نے شعلوں کو مزید ہوا دی، اور بھارت میں کئی ہفتوں تک امریکہ مخالف اضطراب پر مبنی خبروں کا غلبہ رہا۔
 2014کی ابتدا تک، دونوں ملکوں کے درمیان باہمی اعتماد کا انہدام بالکل واضح دکھائی دیتا تھا، اور صدر اوباما اور نریندرا مودی جب ملیں تو اُنھیں ملکر اسی اعتماد کی بحالی کے لیے کام کا آغازکرنا چاہیے۔
اس کے ساتھ ہی، امریکی وزیر خارجہ جان کیری، سیکرٹری دفاع چک ہیگل، اور وزیر خزانہ جیک لیو کو عملاً اسی طرح پراجیکٹ منیجرز کے طور پر کام کرتے ہوئے دوطرفہ تعلقات کو راستے میں آنے والی رکاوٹوں سے نکال کر آگے لے جانا چاہیے، جیسے کہ سابق امریکی وزیرخارجہ کونڈالیزا رائس نے صدر بُش کی دوسری مدت صدارت کے دوران انتہائی مہارت کے ساتھ یہ کام انجام دیا تھا۔
اوپر سے نیچے تک حکومتی قیادت کے لیے امریکی بیوروکریسی کو یہ تحریک دینا ضروری ہے کہ وہ بھارت کو واپس امریکی توجہ کامرکز بنانے کے لیے کام کرے۔ 
اس دوران صدر اوباما، بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کو ایک رضامند شراکت دار کے طور پر تیار کریں گے۔ قابل ذکر طور پر، بھارتی وزیراعظم نے اب تک ویزہ مسترد کیے جانے کے ایشو پر عوامی سطح پر کسی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا اور نیک نیتی ظاہر کرتے ہوئے بجائے اوباما پر زور دینے کے کہ وہ پہلے نئی دہلی کا دورہ کریں،اُنھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ مئی میں واشنگٹن کا دورہ کریں گے۔
مودی نے پہلے ہی خود کو ایک غیرمعمولی طور پر مضبوط بھارتی رہنما کی حیثیت سے منوایا ہے، جو اپنے پیش رو رہنماؤں کی نسبت زیادہ عملی طور پر اپنے اعلیٰ اختیارات کو استعمال کریں گے۔ اُن کی طرف سے واشنگٹن کے ساتھ نئی دہلی کے تعلقات کو آگے بڑھانے کے واضح ارادے کے اظہار نے صدر اوباماکے لئے جواباً اقدامات کا ایک منفرد موقع پیدا کردیاہے۔
نادانوں…معیشت سب سے اہم ہے!
صدر اوباما کو، نریندرا مودی کی پہلی ترجیح…یعنی بھارتی معیشت کی بحالی پر توجہ دینی چاہیے۔
نریندرا مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی حالیہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر بھاری فتح حاصل کرنے میں اس لیے کامیاب ہوئی، کیونکہ بھارتی ووٹرز اپنے ملک کی سُست ترقی کی رفتار،کمزور انفراسٹرکچر اور حکمرانوں کی بے انتہا کرپشن کی وجہ سے مایوس ہوچکے تھے۔ نریندرا مودی کی بھاری اکثریت سے کامیابی کے ذریعے بھارتی عوام نے یہ واضح پیغام دیا کہ وہ ڈرامائی معاشی اصلاحات چاہتے ہیں اور مودی نے یہ کام کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
 
لیکن گذشتہ دو برس کے دوران، امریکہ اور بھارت کے تجارتی تنازعات نے دونوں ملکوں کے درمیان معاشی تعاون کو بے حد متاثر کیا ہے۔ امریکہ نے بھارتی تحفظات کے بارے میں جائز شکایات کی ہیں، اور دونوں حکومتوں نے شمسی پینل، سٹیل، اور زرعی مصنوعات جیسی اشیاء سے متعلق معاملات پر ایک دوسرے کے خلاف عالمی تجارتی تنظیم کے مقدمات دائر کیے ہوئے ہیں۔
حفاظتی تحفظات اُٹھاتے ہوئے، امریکہ کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے بھی ایک درجن سے زائد بھارتی پودوں کی درآمدات پر پابندی لگا دی ہے، زیادہ تر دواسازی کی صنعت میں۔
امریکہ اور بھارت نے عالمی تجارتی مذاکرات میں کافی عرصہ سے ایک دوسرے کی دشمنی اختیار کررکھی ہے۔ زرعی تحفظات پر دونوں کی لڑائی نے بالآخر 2008میں بین الاقوامی تجارتی مذاکرات کے دوحہ میں ہونے والے راؤنڈ کو منہدم کردیا۔
اس کے بعد سے، دونوں ممالک اپنی نظریاتی تقسیم کو پاٹنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ یہ اجنبیت کی دیوار اس قدر مضبوط ہوگئی ہے کہ صدر اوباما کی ایشیاء میں اہم ترین تجارتی ترجیحات…ٹرانس پیسفک پارٹنر شپ… میں سے بھارت کو نکال دیا گیا ہے۔ واشنگٹن اور نئی دہلی کو اب ناقابل تصفیہ تجارتی تنازعات سے بچتے ہوئے سیاسی اور فوجی تعاون کو فروغ دینا چاہیے جو دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔
 
اوباما اور مودی کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ وہ ایک ایک اینٹ رکھتے ہوئے اپنے معاشی تعلقات کو ازسرنو تعمیر کریں۔ جب وہ واشنگٹن میں ملیں تو اُنھیں سب سے پہلے دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ سرمایہ کاری کے معاہدے تکمیل کے لیے2015کا ایک حتمی وقت طے کرنے پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی، یہ وہ معاہدہ ہے جس کے بارے میں امریکہ اور بھارت کے درمیان ایک دھائی سے بھی زیادہ مدت سے بات چیت چل رہی ہے۔
صدر اوباما کو چاہیے کہ وہ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ ضروری تجارتی اور اقتصادی آزادی کے لیے اقدامات کریں ، جو بھارت کو ایشیاء پیسفک اقتصادی تعاون کے فورم میں قبولیت کا درجہ دلانے میں مدد گار ہونگے۔ ایشیاء پیسفک اقتصادی فورم علاقائی تجارتی گروپ ہے جو دو دھائیوں سے بھارت کو رکنیت دینے سے اس لیے انکار کرتا چلا آرہا ہے کہ اس کے رکن ممالک بھارت کی تجارتی پالیسیوں کو حد سے زیادہ تجارتی تحفظات کی حامل قرار دیتے ہیں۔
امریکہ کی طرف سے حمایت نریندرا مودی کو اپنے پیش رو رہنماؤں کی معاشی کنٹرول کی پالیسیوں سے بچنے میں مدد دے گی۔ 
مودی کو بھارتی معیشت پر اعتماد کو مزید بہتر بنانے پر قائل کرنے کے لیے، صدر اوباما کو چاہیے کہ وہ بھارتی وزیراعظم کو ٹیکس اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے واضح ضابطے نافذ کرنے کے لئے اُن کی رہنمائی کریں۔ دونوں رہنما قریب المرگ جوہری معاہدے کو ازسر نوجلا بخشنے کے لئے ایک اعلیٰ ترجیحی کوشش کا اعلان بھی کر سکتے ہیں۔
نریندرا مودی کو گریزاں بھارتی پارلیمنٹ سے قانون پر نظرثانی کرانے کے لیے اپنی مضبوط سیاسی طاقت کو حرکت میں لانا ہوگا مگر ایسا کرکے وہ ایک اہم امریکی شکایت کا ازالہ کرسکیں گے… کہ بش انتظامیہ کی طرف سے سخت کوششوں کے بعد بھارت پر عائد جوہری پابندیاں اٹھانے کے باوجود بھی، نئی دہلی نے کبھی بھی صحیح معنوں میں معاہدے پر عمل درآمد اور امریکی فرموں پراپنی منڈیوں کے دروازے کھول کر مثبت جواب نہیں دیا۔
 
 دونوں ممالک کا اتحاد
دوسرے اقدام کے طور پر،امریکہ اور بھارت کو ایشیاء پیسفک کے خطے میں اپنے دفاعی اور سیاسی تعاون کو مضبوط کرنا جاری رکھنا چاہیے۔ قومی سلامتی کے حوالے سے بھارت کی سب سے بڑی تشویش علاقائی فوجی غلبے کے لئے چین کے ساتھ اس کا مقابلہ ہے… ان دنوں جب امریکی عہدیدار بھارت کے سرکاری دفاتر کا دورہ کرتے ہیں تو اُن کے ہم منصب بھارتی عہدیدار ہر بار برملا طویل مدت میں چین کو اپنے لیے پاکستان سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں۔
مودی نے پہلے ہی جاپانی وزیراعظم شن جو ابی کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے شروع کردئیے ہیں۔ امریکہ کو بھارت جاپان مضبوط تعلقات کا خیرمقدم کرنا چاہیے کیونکہ ان سے امریکہ کو ایشیائی جمہوریتوں کے ساتھ اپنے علاقائی سیکورٹی نیٹ ورک کو طاقتور بنانے کے مقصد کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی، خاص طور پر اس صورت میں جب کہ چین اپنی طاقت کے دائرہ کار کو بڑھا رہا ہے۔
 
 زیادہ وسیع تناظر میں، واشنگٹن اور نئی دہلی کو اپنے پہلے سے مضبوط دفاعی تعاون کو مزید بہتر بنانا چاہیے۔ حالیہ برسوں میں امریکہ نے کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت بھارت کے ساتھ زیادہ تسلسل کے ساتھ جنگی مشقیں کی ہیں، مگر دونوں ملک اپنے بحری اور فضائی افواج کے درمیان بڑھتے تعاون کو مزید مضبوط بنانے کے لیے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، صدر اوباما بھارت کو ایشیا کے لیے امریکہ کی مرکزی پالیسی کا زیادہ اہم حصہ بنانے کے لیے خطے میں امریکی افواج کی تمام تر فوجی ٹریننگ اور سرگرمیوں میں اس (بھارت) کی افواج کو شامل کرسکتے ہیں۔
امریکہ کو بھارت اور جاپان کے ساتھ سلامتی کے موضوع پر سہ فریقی مذاکرات جاری رکھنے چاہئیں۔ اور تینوں ملکوں کو اپنی انسداد دہشت گردی اور بحری سیکورٹی کی پالیسیوں کو زیادہ نزدیکی طور پر ایک دوسرے سے جوڑنے کے لیے مشرقی ایشیاء کی سربراہی کانفرنس کے ذریعے کام کرنا چاہیے۔ سب سے بڑھ کر بھارت اور امریکہ کو ایشیاء میں اپنے فوجی اور سیاسی تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے ایک واضح سٹریٹجک منصوبہ بندی پر متفق ہونے کی ضرورت ہے۔
 
البتہ اپنے فوجی تعلقات کو مضبوط کرتے ہوئے امریکہ اور بھارت کو چین مخالف اتحاد کا تاثر دینے سے بچنا چاہیے۔ اپنے ایشوز پر چین کے ساتھ ملکر چلنا اُن کے مقصد کے لیے سُودمند ہوگا۔ مثال کے طور پر، واشنگٹن اور نئی دہلی پائریسی، منشیات، اور جرائم کی روک تھام کے لئے بیجنگ کے ساتھ مشترکہ پروگراموں کو آگے بڑھا سکتے ہیں ، جیسا کہ 2011میں کلنٹن نے تجویز دی تھی۔
جہاں تک چین کا معاملہ ہے…اوباما اور مودی کو اس سے تعاون اور مقابلے کے درمیان نازک توازن برقرار رکھنا چاہیے اور اس بارے میں بیجنگ کو یقین دلانے کے لیے وہ جو کرسکیں اُنھیں کرنا چاہیے۔ مگر ساتھ ہی اُنھیں یاد رکھنا ہوگا کہ ایشیاء میں امن برقرار رکھنے کے لیے موثر ترین طریقہ خطے میں اپنی فوجی طاقت قائم رکھنا ہے۔
تیسری ترجیح کے طور پر، اوباما کو امریکہ کا بھارت کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے اور ملکی سلامتی کے ضمن میں تعاون مضبوط تر بنانا چاہیے…یعنی وہ شعبہ جس میں امریکہ اور بھارت کے مفادات خاص طور پر جُڑے ہوئے ہیں، خاص طور پر پچھلی دھائی کے دوران پاکستان سے تعلق رکھنے والے لشکر طیبہ جیسے دہشت گرد گروہوں میں خطرناک حد تک اضافے کی وجہ سے اس تعاون کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔
 
 امریکہ کو ، نکسلی بغاوت اور نصف سے زیادہ بھارتی ریاستوں میں سرگرم متشدد ماوٴنواز تحریک سے نمٹنے کے لئے بھارت کی پرعزم کوششوں کی حمایت کرنی چاہئے۔ دونوں حکومتیں، انٹرنیٹ اور میزائل دفاع کے شعبوں میں بھی زیادہ قریبی تعاون کو فروغ دینا چاہیں گی۔ اس بات کے پیش نظر کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی رکھنے والے ملکوں میں سے ایک ہے ، نریندرا مودی کی حکومت شام اور عراق میں انتہا پسندی میں اضافے اور مشرق وسطیٰ میں کارکنوں کی صورت موجود بھارت کی بڑی آبادی کو ممکنہ خطرے پر امریکہ کے ساتھ زیادہ قریبی طور پر مشاورت چاہتی ہے۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط