Episode 37 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 37 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

مثال کے طورپر چین کے گانگ ڈونگ صوبہ میں کسی فیکٹری کا دورہ کرکے دیکھئے توآ پ وہاں ہزاروں نوجوان کام کرنے والوں کو معمول کے مطابق آتے اور جاتے دیکھیں گے۔ وہ مسلسل ایک ہی کام کیے جارہے ہوتے ہیں جیسے کہ کسی ”کی بورڈ“ کے دوحصوں کو باہم ملائے جانا۔ ایسے کام یا ملازمتیں اب امریکہ یا دنیا کے دیگر امیر ممالک میں شاذو نادر ہی دیکھنے میں آتی ہیں۔
اور ہوسکتا ہے کہ چین اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں بھی اب یہ زیادہ عرصہ باقی نہ رہیں۔ کیونکہ یہ وہ کام ہیں جو روبوٹس باآسانی انجام دے سکتے ہیں۔ جیسے جیسے موثر مشینیں سستی اور مزید کارآمد ہوتی جائیں گی وہ تیزی سے انسانوں کی جگہ لے لیں گی۔ بالخصوص منظم ماحول میں، جیسے کہ فیکٹریوں میں اور خاص طورپر معمول کے اور باربار کیے جانے والے کاموں کی انجام دہی کے لیے ان کا استعمال بڑھ جائے گا۔

(جاری ہے)

دوسری طرح بات کی جائے تو اپنے ساحلوں سے دُوری زیادہ تر خود کار مشینوں کی طرف جانے والے راستے کا ایک پڑاوٴ ہی ثابت ہوتاہے۔
حتیٰ کہ یہ اصول وہاں بھی لاگو ہوگا جہاں لیبرکی لاگت کم ہے۔ بلاشبہ چین کی کمپنی فاکس کونFOXCONN جو آئی فون اورآئی پیڈ اسمبل کرتی ہے۔ اس کے 10لاکھ سے زیادہ کم اُجرت لینے والے ملازم ہیں مگراب وہ ان ملازمین کی جگہ پراور اُن کی قوت میں اضافے کے لیے تیزی سے بڑھتی روبوٹس کی فوج لارہی ہے۔
چنانچہ مینوفیکچرنگ کے شعبے کی بے شمار ملازمتیں جو پہلے امریکہ سے چین منتقل ہو گئی تھیں، وہ اب چین سے بھی ختم ہو رہی ہیں( اس منتقلی کے حوالے سے قابل بھروسہ اعدادو شمارکا ملنامشکل ہے تاہم چین کے سرکاری ذرائع کے اعدادو شمار پر مبنی رپورٹ1996ء کے بعد سے مینوفیکچرنگ کی ملازمتوں میں 30ملین کی کمی کوظاہرکرتی ہے۔ یا کہہ سکتے ہیں کہ مجموعی تعداد کے لحاظ سے 25 فیصد کمی ہوئی ہے۔
حتیٰ کہ مینوفیکچرنگ آوٴٹ ریٹ70 فیصد متاثر ہوئی ہے، تاہم اس کمی کا کچھ حصہ اعداد وشمار کے طریقوں میں تبدیلی کا عکاس ہوسکتاہے) جب کام سستے ہنرمندوں کا پیچھا کرنا بند کردے گا، تو یہ اُ س طرف جھکاوٴ اختیارکرلے گا جس طرف حتمی منڈی ہوگی، کیونکہ اس سے ڈیلیوری کے وقت انونٹری کی لاگت اور اسی طرح کی دیگر چیزوں میں کمی ممکن ہوسکے گی۔
خود کار مشینوں کی بڑھتی صلاحیتوں نے اس سب سے زیادہ قابل بھروسہ حکمت عملی کو خطرہ سے دوچار کر دیا ہے جوغریب ملک بیرونی سرمایہ کاری کو کھینچنے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔
یعنی اپنی کم مہارت اور کم پیداوار کی تلافی کے لیے کم معاوضوں کی پیشکش ۔ اور یہ رحجان اب مینوفیکچرنگ کے شعبہ کے بعد مزید آگے پھیلے گا۔ مثال کے طورپر انٹریکٹو وائس رسپانس سسٹم‘ براہ راست دو افراد کے درمیان بات چیت کی ضرورت کو کم کررہے ہیں اور ترقی پذیر ممالک میں کال سینٹرز کے لیے ہجوں کی مصیبت میں کمی ممکن بنا رہے ہیں۔ اسی طرح تیزی سے قابل بھروسہ بنتے جارہے کمپیوٹر پروگرام اب ترقی پذیر ممالک میں بہت زیادہ کیے جانے والے نقل نویسی کے کام کو کم کردیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ خطوں میں ”لیبر“ کاسب سے زیادہ کم اُجرت ذریعہ عقل مند اور لچک دار مشینیں بنتی جارہی ہیں ۔جبکہ دیگر ممالک میں ابھی بھی ان مشینوں کی جگہ کم اُجرت پر کام کرنے والے انسان کام کررہے ہیں۔
سرمایہ کی سزا
اگر سستی اور بڑی تعداد میں دستیاب لیبر اب معاشی ترقی کا واضح راستہ نہیں ہے توپھر کیاہے؟ مفکرین کا ایک گروہ سرمایہ کی بڑھتی اہمیت اوراستعمال کی طرف توجہ دلاتا ہے۔
مادی اورغیر محسوس اثاثے جو لیبر کے ساتھ ملکر کسی معیشت میں اشیاء اور خدمات کی صورت پیدا کرتے ہیں( سامان‘ عمارتوں‘ پیٹنٹ‘ برانڈز اوراسی طرح کی دیگر اشیاء کے بارے میں غور کیجئے) جیسا کہ ماہر اقتصادی امور تھامس پکیٹی اپنی کثیر الاشاعت کتاب"Capital in the Twenty firts Contury" میں لکھتے ہیں کہ معیشت میں سرمایہ کا حصہ اُس وقت بڑھنے لگتا ہے جب اس پر تبادلہ کی شرح اقتصادی ترقی کی عام شرح سے زیادہ ہو۔
یہ وہ صورتحال ہے جس کی وہ مستقبل کے لیے پیش گوئی کرتے ہیں۔ عالمی معیشتوں میں سرمایہ کی بڑھتی ہوئی اہمیت ،جس کے بارے میںPiketty نے پیش گوئی کی ہے، وہ مزید بڑھتی جائے گی، خاص طور پر جوں جوں روبوٹس ‘ کمپیوٹر اور سافٹ ویئر( جو سب سرمائے ہی کی ایک شکل ہیں) تیزی سے انسانی ہنر مندوں کی جگہ لیتے جائیں گے۔ شواہد اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ امریکہ اور باقی دنیا میں اسی طرح کی سرمائے پر مبنی ٹیکنالوجیکل تبدیلی پیدا ہورہی ہے۔
پچھلی دہائی کے دوران‘ امریکہ میں لیبر اور اشیاء کی صورت میں سرمایہ کے درمیان مجموعی قومی منافع کی تقسیم جو تاریخی طورپر ہمیشہ مستحکم رہی ہے۔ نمایاں طورپر تبدیل ہوتی نظرآرہی ہے۔ جیسا کہ ماہرین اقتصادیات موزن فلیک‘ جان گلیر اور شان سپراگ نے2011ء میں ماہانہ لیبر جائزہ پیش کرتے ہوئے امریکی بیوروآف لیبر سٹیٹکس میں لکھا کہ ”1947ء سے2000ء تک ہمارے ہاں لیبر کو اوسطاً64.3 فیصد حصّہ ملتا تھا۔
مگر گذشتہ دھائی کے دوران لیبر کے حصّے میں کمی واقع ہوئی ہے، اور2010 کی تیسری سہ ماہی میں لیبر کا حصّہ سب سے کم سطح یعنی52.8فیصد تک کم ہو گیا تھا“۔ سمندرپار پیداوار کم کرنے کے حالیہ اقدامات‘ جن میں ایپل کمپنی کی طرف سے اپنے نئے میک پرو کمپیوٹرز کوٹیکساس میں بنانے کافیصلہ بھی شامل ہے، ان سے بھی اس رُحجا ن کا رُخ موڑنے میں بہت کم کامیابی مل سکے گی کیونکہ معاشی طورپر قابل عمل بنانے کے لیے، اندرون ملک مینو فیکچرنگ کی سہولیات کو انتہائی خود کار کرنے کی ضرورت ہوگی۔
صرف امریکہ نہیں،دوسرے ممالک بھی اسی طرح کے رحجانات کا سامنا کررہے ہیں۔ ماہرین اقتصادیات لوکاس کاراباربونیز اور برینٹ نیمان نے چین‘ بھارت اور میکسیکو سمیت59 ممالک پر مبنی اپنی تحقیق کے دوران42 ممالک میں ‘ جی ڈی پی میں لیبر کے حصے میں نمایاں کمی کو نوٹ کیا ہے۔ اپنی تحقیقات کے نتائج کی وضاحت کرتے ہوئے کارابار بونیز اور نیمان نے واضح انداز میں کہا ہے کہ اس رحجان کوآگے بڑھانے میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی ترقی کا ہی اہم ترین کردار ہے۔
”سرمایہ کارانہ اشیاء کی قیمت میں نمایاں کمی‘ جسے عام طورپر انفارمیشن ٹیکنالوجی او ر کمپیوٹر کے دور سے منسوب کیاجاتا ہے، فرموں کو لیبر سے دُور اور سرمایہ کے قریب لے جاتی ہے ، سرمایہ کاری پرمبنی اشیاء کی کم کھپت دراصل لیبر کے حصے میں دیکھی جانے والی کمی کو نصف کے قریب واضح کرتی ہے“۔
لیکن اگر قومی شرح منافع میں سرمایہ کے حصے میں اضافہ ہورہاہو تو اس طرح کے رحجان کا مستقبل میں جاری رہنا، سرمایہ کے لیے ایک نئے چیلنج کے طورپر ابھر کر سامنے آسکتا ہے اور یہ چیلنج دوبارہ بیدار ہونے والے لیبر سیکٹر سے نہیں بلکہ اس کی اپنی صفوں کے اندرموجود ایک تیزی سے اہمیت حاصل کرتے یونٹ کی طرف سے ہو سکتا ہے، یعنی ڈیجیٹل سرمایہ کی طرف سے۔
ایک آزاد مارکیٹ میں، سب سے بڑا منافع دراصل پیداوار کے لیے ضروری اہم ترین اشیاء کے حصے میں چلاجاتاہے ۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں سرمایہ سافٹ ویئر اور روبوٹس کی صورت میں انتہائی سستے داموں متبادل کے طورپر استعمال کیاجاتا ہے ۔ وہاں اس کی قدر میں معمولی کمی ہی ہوگی۔ خواہ اس کا زیادہ استعمال حد سے تجاوز کے لیے کیاجائے اور جب مزید سرمایہ مارجن میں سستے داموں شامل کیاجاتا ہے تو پہلے سے موجود سرمایہ کی قدر درحقیقت کم ہوگی ۔
آپ کہہ لیجئے ، روایتی فیکٹریوں کے برعکس، بہت طرح کا ڈیجیٹل سرمایہ بے حد سستے داموں شامل کیاجاسکتا ہے۔ سافٹ ویئر کی نقل تیار کی جاسکتی ہے اور اسے تقریباً صفر درجے اضافی قیمت پر مارکیٹ میں تقسیم کیاجاسکتاہے۔ اور اسی طرح کمپیوٹر ہارڈویئر کے بہت سے عناصر، جنہیں ”مور“کے قانون کی مختلف صورتوں کے تحت منظم کیاجاتا ہے، وقت کے ساتھ تیزی سے اور مستقل طورپر سستے ہوتے جاتے ہیں۔
مختصر یہ کہ ڈیجیٹل سرمایہ بے انتہا ہے ، نسبتاً کم لاگت پر مبنی ہے اور تقریباً ہر صنعت میں تیزی سے اہمیت اختیار کر رہاہے۔
حتیٰ کہ جب پیداوار کے لیے بہت زیادہ سرمایہ کی ضرورت ہو ، تب بھی ضروری نہیں کہ ایک گروپ کی صورت میں سرمایہ داروں کو ملنے والے انعامات، لیبر کے لیے بھی اسی تناسب سے بڑھتے رہیں۔ بلکہ یہ حصص دراصل پیداوار‘ تقسیم اور گورننس کے نظام کی حقیقی تفصیلات پرمنحصر ہیں۔
اور سب سے زیادہ اہم بات یہ کہ فوائد ملنے کاانحصار اس بات پر ہوگا کہ پیداوار کے لیے کونسے عناصر کتنے اہم ہیں۔ اگر ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز بڑھتی ملازمتوں کے لیے سستے متبادل تخلیق کرتی رہیں تو پھر ظاہر ہے کہ ہنرمند( لیبر) ہوناکوئی فائدہ مند بات نہیں ہوگی۔ لیکن اگرڈیجیٹل ٹیکنالوجیز تیزی سے سرمایہ کے متبادل کی صورت بھی اختیار کرلیتی ہیں تو پھر سرمایہ رکھنے والے تمام مالکان کو بھی اس کے بدلے میں بہت زیادہ واپسی کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔
ٹیک کرنچ کاخلل
اب سوال یہ ہے کہ کیا چیز سب سے زیادہ بیش قیمت اور اہم ذریعہ ہوگی۔ ایک ایسے دور میں جسے ہم دونوں( ایرک برائن جولفس سن اور اینڈریو مکیفی)نے ”دوسرا مشینی عہد“ قراردیا ہے، ایک ایسا دور جو ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز اور اُن سے جڑی معاشی خصوصیات کے ذریعے کارفرما ہے۔ یہ نہ تو عام لیبر ہوگی اور نہ ہی عام سرمایہ بلکہ وہ لوگ ہوں گے جو نئے خیالات( آئیڈیاز) اور نئی اختراعات کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔
 
ایسے لوگ بلاشبہ ہمیشہ معاشی لحاظ سے قابل قدر اور اہم ہوتے ہیں اورنتیجتاً وہ اپنی نئی ایجادات اور اختراعات کی وجہ سے اچھا خاصا منافع کماتے ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اُنھیں اپنے آئیڈیاز کے بدلے میں ملنے والے منافع کو لیبر اورسرمایہ سے بانٹنا پڑتا ہے، کیونکہ یہ اُن کے آئیڈیا کو مارکیٹ کے مقام تک پہنچانے کے لیے درکار ضروری اشیاء ہیں۔
ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز نے عام لیبر اور سرمایہ دونوں کو تیزی سے عام اشیاء بنادیا ہے۔ چنانچہ نئے خیالات سے حاصل ہونے والے فوائد کا بڑا حصہ ان خیالات کے تخلیق کرنے والوں ، نئی اختراعات کرنے والوں اور کاروباری امور کے ماہرین کو حاصل ہوگا۔یعنی ملازمین اور سرمایہ نہیں بلکہ یہی نئے خیالات کے مالک لوگ دراصل سب سے پیش قیمت اور اہم ہوں گے۔
ماہرین اقتصادیات ٹیکنالوجی کے اثرات کی وضاحت کے لیے جو سادہ ترین ماڈل استعمال کرتے ہیں وہ اسے دوسری سب چیزوں کے لیے ایک ایسے سادہ ضارب کے طورپر پیش کرتاہے اور جو ہر کسی کے لیے مجموعی فوائد کو یکساں طورپر بڑھا دیتا ہے۔
یہ ماڈل اقتصادیات کی زیادہ تر تعارفی کلاسزمیں استعمال ہوتاہے اور جو حالیہ وقت تک بھی پائے جانے والے عام طورپر بہت معقول نکتہ نظر کی بنیاد فراہم کرتا ہے کہ ٹیکنالوجی پرمبنی ترقی کی بڑھتی ہوئی لیبر تمام کشتیوں کو یکساں طورپر اوپر اٹھائے گی، یعنی اس کی وجہ سے تمام ملازمین زیادہ پیداواری صلاحیت کے مالک بن جائیں گے اور نتیجتاً اُن کی اہمیت بڑھ جائے گی۔
تاہم اس سے ذرا پیچیدہ اور حقیقت کے قریب ماڈل اس امکان کو ظاہر کرتاہے کہ ہوسکتا ہے ٹیکنالوجی تمام عناصر پریکساں طورپر اثرانداز نہ ہو بلکہ اس کے بجائے ہوسکتا ہے کہ وہ کسی ایک حصے کو دوسرے کی نسبت زیادہ فائدہ پہنچا ئے۔ مثال کے طور پر صلاحیتوں کے حوالے سے تکنیکی تبدیلیاں زیادہ صلاحیتیں رکھنے والے کارکنوں کو کم صلاحیتیں رکھنے والوں کی نسبت زیادہ فائدہ پہنچاتی ہیں اور سرمایہ پر مبنی تکنیکی تبدیلیاں لیبر سے متعلق سرمایہ کو فائدہ دیتی ہیں۔ یہ دونوں طرح کی تکنیکی تبدیلیاں ماضی میں بہت اہم رہی ہیں۔ مگر اب ایک تیسری قسم کی تبدیلی تیزی سے عالمی معیشت کو گرفت میں لے رہی ہے اور اُسے ہم سپر سٹارز پر انحصار کرنے والی تکنیکی تبدیلی کہتے ہیں۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط