Episode 38 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 38 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

آج یہ ممکن ہوگیا ہے کہ ہم بہت اہم اشیاء، خدمات اور عوامل کو لیں اور انہیں ایک نظام کے تحت ترتیب ( کوڈی فائی) دے دیں۔ جب وہ کوڈی فائی ہوجائیں تو انہیں ڈیجیٹل شکل میں منظم کیا جاسکتا ہے اور جب وہ ڈیجیٹل شکل میں آجائیں تو اُن کی نقول بھی تیار کی جاسکتی ہیں۔ ان کی ڈیجیٹل نقول عملی طورپر بغیر کسی لاگت کے تیار ہوسکتی ہیں اور انہیں فوری طورپر دنیا میں کہیں بھی منتقل کیاجاسکتاہے۔
اور ان میں ہر ایک اصل کی ہوبہو نقل ہوتی ہے۔ یہ تین صفات ‘ یعنی انتہائی کم قیمت، تیزی سے کسی بھی جگہ منتقل کیا جاسکنا، اور کامل وفاداری… مل کر عجیب اور حیرت انگیز معاشیات کی طرف لے جاتی ہیں۔یہ خصوصیات وہاں ایسی چیزیں وافر مقدار میں مہیا کرسکتی ہیں جو وہاں کمیاب یا بیش قیمت ہوں، نہ صرف کنز یومر اشیاء کی صورت میں جیسے کہ میوزک ویڈیوز‘ بلکہ معاشی عناصر کی شکل میں بھی، جیسے کہ سرمایہ اور لیبر۔

(جاری ہے)


اس طرح کی مارکیٹوں میں اس کے نتیجے میں ایک الگ طرز عمل کا رحجان پایاجاتاہے ۔ ایک طاقت کا قانون یا Pareto curveجس میں کھلاڑیوں کی ایک چھوٹی سی تعداد انعامات کی آمدنی سے زیادہ حصہ وصول کرلیتی ہے۔ وہاں نیٹ ورک کے اثرات ‘ جہاں ایک ایسی پراڈکٹ زیادہ بیش قیمت بن جاتی ہے جس کے استعمال کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہو۔ وہ بھی اس طرح کی مارکیٹیں پیدا کرسکتے ہیں جہاں جیتنے والا تمام انعامات لے جائے یا جیتنے والا سب سے زیادہ انعامات کا حق دار ٹھہرے۔
مثال کے طورپر انسٹاگرام پر غور کیجئے ۔ یہ ایک تصاویر کے تبادلے کا پلیٹ فارم ہے، اور یہ ڈیجیٹل ورک پر مبنی معاشیات کی اقتصادی مثال ہے۔ اس کمپنی کو تخلیق کرنے والے14افراد کو ایسا کرنے کے لیے صلاحیتوں سے عاری زیادہ انسانوں کی ضرورت نہ تھی، اور نہ ہی انہیں زیادہ فزیکل سرمایہ درکار تھا۔ انہوں نے ایک ڈیجیٹل پراڈکٹ بنائی جس نے انہیں نیٹ ورک کے اثرات کے ذریعے فائدہ پہنچایا اور جب یہ تیزی سے گردش میں آگئی تو وہ اس قابل ہو گئے کہ صرف ڈیڑھ سال بعد ہی اس کمپنی کو ایک ارب ڈالر سے قریب تین چوتھائی قیمت پر بیچ سکیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کے کئی ماہ بعد ایک اور فوٹو گرافک کمپنی ”کو ڈک“ کو دیوالیہ پن کا سامناکرناپڑا۔ حالانکہ یہ وہ کمپنی تھی جس کے پاس عروج کے زمانے میں ایک لاکھ45 ہزار ملازمین تھے اور نیز اس کے پاس سرمایہ کی صورت میں اربوں ڈالر سرمایہ کے ذخائر کی صورت دستیاب تھے۔ انسٹاگرام ایک زیادہ عمومی قانون کی انتہائی مثال ہے۔ اکثراوقات جب ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں ہونے والی بہتری، کسی پر اڈکٹ یا خدمات(سروسز) کوڈیجیٹلائز کرکے زیادہ خوبصورت بناتی ہے تو اس کی وجہ سے ”سپرسٹارز“ کو اپنی آمدنی میں اضافہ ہوتا نظرآتاہے۔
جبکہ اس کے مقابلے میں دوسرے درجے پر کام کرنے والوں یا بعد میں اس کام کی طرف آنے والوں اور تاخیر کردینے والوں کو سخت مقابلے کا سامنا ہوتاہے۔ 1980ء کی دہائی سے میوزک‘ کھیل اوردیگر شعبوں نے بھی اپنی صارفین تک رسائی اور آمدنی کو بڑھتاہوا پایا ہے۔ یعنی براہ راست یا بالواسطہ یہ سب اُسی اوپر جاتے رحجان پر سوار ہوجاتے ہیں۔ لیکن صرف سافٹ ویئر اور میڈیا ہی ایسی چیزیں نہیں ہیں جن میں تیزی سے تبدیلیاں ہورہی ہیں بلکہ ڈیجیٹلائزیشن اورنیٹ ورکس تقریباً تمام قسم کی صنعتوں میں بہت زیادہ سرایت کرچکے ہیں اور ان کا کردار ملکی معیشت میں ہرجگہ ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ سپرسٹارز پر مبنی اقتصادیات زیادہ سے زیادہ اشیاء ، خدمات اور لوگوں کو پہلے سے کہیں زیادہ متاثر کررہی ہے۔
حتیٰ کہ اعلیٰ درجے کے ایگزیکٹوز نے بھی ”راک سٹار“ معاوضہ کماناشرو ع کردیاہے۔1990 ء میں ایک امریکی سی ای او کی تنخواہ دیگر ملازمین کی نسبت اوسطاً70گنازیادہ تھی۔ 2005ء میں یہ تنخواہ 200 گنا زیادہ ہوچکی تھی۔ عمومی طورپر دنیا بھر میں ایگزیکٹوز کا معاوضہ ایک ہی سمت میں چل رہاہے! البتہ کچھ ملکوں میں معمولی فرق ممکن ہوسکتا ہے ۔
اس میں بہت سی قوتیں کار فرما ہیں جن میں ٹیکس اور پالیسی میں ہونے والی تبدیلیاں، تبدیل ہوتی ثقافتی اور تنظیمی تعداد اور محض قسمت کا بھی عمل دخل ہوسکتا ہے ۔ لیکن جیسا کہ ہم ( برائن جولفس سن) اور (ہیک پنگ کم) نے واضح کیا ہے،ترقی کا کچھ حصہ واضح طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے زیادہ استعمال سے جڑا ہواہے۔ ٹیکنالوجی کسی فیصلہ کرنے والے کی پہنچ‘ پیمانے اور نگرانی کی صلاحیت میں اضافہ کردیتی ہے اور یوں اچھے فیصلہ ساز کے انتخاب کے ممکنہ نتائج کو واضح کرکے اُس کی قدر کو بڑھا دیتی ہے۔
یوں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے براہ راست مینجمنٹ کسی بھی منیجر کو پہلے وقتوں سے کہیں زیادہ اہم بنادیتی ہے۔ خاص طورپر جب ایگزیکٹوز کو ماتحتوں کی لمبی زنجیر کے ساتھ ملکر اختیارات استعمال کرنے ہوں اور وہ محدود سرگرمیوں پر ہی اثراندازہوسکتے ہوں۔آج کسی کمپنی کی مارکیٹ ویلیو جتنی بڑی ہوتی ہے اس کے لیے یہ دلیل اُتنی ہی مضبوط ہو جاتی ہے کہ اسے چلانے کے لیے بہترین ایگزیکٹوز حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔
چنانچہ جب منافع طاقت کے قانون کے تحت تقسیم کیاجائے گا تو زیادہ تر لوگ اوسط سے کم حیثیت کے ہوں گے اور چونکہ قومی معیشت کی عملداری زیادہ تر پہلے ہی عناصر پر منحصر ہوتی ہے تو یہی طریقہٴ کار قومی سطح پر بھی اسی طرح اپناکردارادا کرناشروع کر دیتاہے اور کافی یقین سے کہاجاسکتاہے کہ امریکہ آج دنیا میں سب سے اونچے درجے کا فی کس جی ڈی پی لیول پیش کرتا ہے۔
حالانکہ اس کی اوسط آمدنی گزشتہ دو دہائیوں سے واضح طورپر جمود کا شکار ہے۔
پائیدار انقلاب کیلئے تیاری
اس دوسرے مشینی دور میں کارفرما قوتیں بہت طاقتور ‘ باہم جڑی ہوئی اور پیچیدہ ہیں۔ مستقبل میں جھانک کر یہ پیش گوئی کرنابہت مشکل ہے کہ ان کے حتمی اثرات کیا ہوں گے۔ تاہم اگر افراد‘ کاروباری ادارے اور حکومتیں یہ سمجھ لیں کہ کیا ہورہاہے تو وہ کم ازکم خود کو حالات کے مطابق ایڈجسٹ کرسکتی اور مناسب تدابیراختیار کرسکتی ہیں۔
مثال کے طورپر امریکہ اپنا کچھ کاروبار واپس حاصل کرنے کے لیے کھڑا ہوگیا ہے اور اُس نے ایپل کمپنی کے آٹھ الفاظ پرمبنی کاروباری منصوبے کے دوسرے جملے کو عملاً رد کردیا ہے کیونکہ ایپل کمپنی کے ٹیکنالوجی اور مینوفیکچرنگ سے متعلق امور ایک بار پھرامریکی حدود کے اندر انجام دیئے جارہے ہیں ۔ مگر اس منصوبے کا پہلا جملہ پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو جائے گااور یہاں لاپرواہی کے بجائے فکر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
بدقسمتی سے، وہ متحرک اور نئی تخلیقات کی صلاحیت جس نے امریکہ کودنیا کی سب سے زیادہ جدید قوم بنایا، وہ لگتا ہے کہ اب ڈگمگانے لگی ہے۔
ہمہ وقت تیزی سے بھاگتے ڈیجیٹل انقلاب کا شکریہ کہ جس کی وجہ سے ڈیزائن اور نئے خیالات عالمی معیشت کے قابل تجارت حصے کا جز و بن چکے ہیں اورانہیں ویسے ہی مقابلے کاسامنا کرنا ہوگا جس نے پہلے بھی مینوفیکچرنگ کو بدل کررکھ دیاہے۔
ڈیزائن کے کام سے منسلک قیادت ایک تعلیم یافتہ ورک فورس ، کاروباری امور کے ماہرین پرمبنی کلچر پر انحصار کرتی ہے اور ان چیزوں میں امریکہ کی روایتی برتری اب زوال کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ امریکہ کبھی ورک فورس میں کم ازکم ایسوسی ایٹ ڈگری کے ساتھ گریجویٹس میں حصے کے لحاظ سے دنیا میں سب سے آگے رہاہے، مگر اب اس ضمن میں امریکہ کا بارہواں نمبر ہے اور سلی کون ویلی جیسے مقامات پر کاروباری امور کے ماہرین کے حوالے سے کیے جانے والے شور شرابے کے باوجود، اعدادو شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 1998ء کے بعد سے امریکہ میں شروع ہونے والے کاروباری اداروں میں سے ایک سے زیادہ ملازمین رکھنے کی شرح میں 20 فیصد سے زیادہ کمی ہوئی ہے۔
ہم نے جن رحجانات پر بات کی ہے، اگر وہ دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں تو اُن کے مقامی اثرات کا انحصارکچھ حد تک اُن سماجی پالیسیوں اور اُن سرمایہ کاری کے طریقوں پر بھی ہوگا جو وہ ممالک تعلیم کے شعبے اور عمومی طورپر جدت اور معاشی تحرک کو فروغ دینے کے لیے اختیا رکرتے ہیں۔
ایک صدی سے زیادہ عرصہ تک امریکہ کا تعلیمی نظام دنیا میں قابل رشک رہاہے ، اُس وقت یہاں مستحکم معاشی ترقی کے تحت ”یونیورسل کے۔
12سکول“ کا نظام تعلیم اور عالمی معیار کی یونیورسٹیاں پنپ رہی تھیں۔مگر حالیہ دہائیوں میں امریکہ کے پرائمری اور سکینڈری سکول بہت زیادہ غیر متوازن ہوگئے ہیں، جن کا معیار آس پاس کے لوگوں کی آمدنی کے مطابق ہوچکا ہے اور ان میں زیادہ تر زور محض رٹہ لگانے پر ہی دیا جاتا ہے۔ 
خوش قسمتی سے جو ڈیجیٹل انقلاب ، پراڈکٹ اور لیبر مارکیٹوں کو تبدیل کررہا ہے …وہ تعلیم کے نظام کو بھی تبدیل کرنے میں مدددے سکتا ہے۔
آن لائن تعلیم طالب علموں کو ، وہ جہاں بھی ہوں بہترین اساتذہ، مواد اور تعلیم کے طریقوں تک رسائی دے سکتی ہے۔ اور نئے اعداد و شمار کی روشنی میں چلنے والے طریقہٴ کار طالب علموں کی قابلیت اور اُن کی خوبی و کمزوریوں کو جانچنے کے عمل کو آسان کرسکتے ہیں۔ اس طرح فیڈ بیک کی تکنیک استعمال کرکے ذاتی سیکھنے کے پروگراموں اور مسلسل بہتری کے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں، جو پہلے ہی سائنسی دریافتوں، رٹیل اور مینوفیکچرنگ کو تبدیل کرچکے ہیں۔
گلوبلائزیشن اور ٹیکنالوجیکل تبدیلیاں کچھ ممالک اور بڑے پیمانے پر دنیا کی دولت اور اقتصادی قوت کو بڑھا سکتی ہیں، لیکن وہ کم از کم مختصر یا درمیانی مدت میں، سب کے فائدہ کے لئے کام نہیں کرسکتیں۔عام کارکن، خاص طور پر، ان تبدیلیوں کی وجہ سے مسائل سے دوچار رہیں گے۔ صارفین کے طور پر وہ فائدہ اُٹھائیں گے، لیکن ضروری نہیں کہ پروڈیوسر کے طور پر بھی وہ فائدے میں رہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر اس بارے میں کوئی لائحہ عمل اختیار نہ کیا گیا تو، اقتصادی عدم مساوات جاری رہنے کا امکان ہے، جو کئی طرح کے مسائل کو جنم دے گی۔غیر مساوی آمدنی سے غیر مساوی مواقع پیدا ہو سکتے ہیں، جو اقوام عالم کو ہنر تک رسائی سے محروم اور سماجی رابطوں کو کمزور کردیں گے۔ دریں اثنا،سیاسی قوتیں اکثر اقتصادی طاقت کے پیچھے جاتی ہیں جو دراصل جمہوریت کو کمزور کرنے کا سبب بنتا ہے۔
 
 ان چیلنجوں سے …تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، اور ریٹائرمنٹ کی سیکورٹی سمیت اعلیٰ معیار کی بنیادی خدمات عوام تک پہنچا کر نپٹا جاسکتا ہے اور یہی کرنے کی ضرورت ہے۔ تیزی سے تبدیل ہوتے معاشی ماحول میں حقیقی یکساں مواقع پیدا کرنے کے لیے ایسی خدمات انتہائی اہمیت کی حامل ہونگی اور ان کے ساتھ معاشرے کی تمام نسلوں کے لیے آمدنی، دولت اور مستقبل کے مواقع کی گردش کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔
 عمومی طور پر اقتصادی ترقی کی حوصلہ افزائی کے لیے ضروری زیادہ تر پالیسیوں کے بارے میں سنجیدہ معاشی ماہرین کے درمیان قریب قریب اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ بنیادی حکمت عملی اگر سیاسی طور پر مشکل ہے بھی تو کم از کم دانشورانہ سطح پر بالکل آسان ہے: یعنی مختصر اور درمیانی مدت کے دوران عوامی سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے، اور اس دوران اس سرمایہ کاری کو زیادہ موثر بنایا جائے اور طویل مدتی عمل پر محیط ایک مضبوط مالی منصوبہ بندی کو تشکیل دیا جائے۔
عوامی سرمایہ کاری… صحت پر بنیادی تحقیق ، سائنس و ٹکنالوجی، تعلیم، اور سڑکوں،عوام کے لیے پانی اور حفظان صحت کے نظام، اور انرجی اور پیغام رسانی کے گرڈزجیسے انفراسٹرکچر کے شعبوں میں بھاری منافع کے حوالے سے موثر سمجھی جاتی ہے۔ ان شعبوں پر زیادہ سرکاری سرمایہ کاری سے ایک تو فی الوقت اقتصادی ترقی کو فروغ ملے گا اور یہ بعد میں آنیوالی نسلوں کے لئے بھی حقیقی دولت پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔
 
 ڈیجیٹل انقلاب کو مستقبل میں بھی اسی طرح طاقتور ہونا چاہیے، جیسے کہ وہ حالیہ برسوں میں رہا ہے، البتہ جدید معاشیات کے ڈھانچے اور کام کے اپنے کردار کے حوالے سے دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے بعد آنے والے ہوسکتا ہے ہم سے کم گھنٹے کام کریں اور زیادہ بہتر زندگی گزاریں…مگر اس طرح کام اور اُس کے ثمرات دونوں ہی غیر مساوی طور پر تقسیم ہوسکتے ہیں، جس کے بہت سے ناخوشگوار نتائج مرتب ہونگے۔ ایک پائیدار،منصفانہ، اور جامع ترقی کے لیے معمول سے بڑھ کر کاروبار کی ضرورت ہو گی۔ اور اس کی ابتدا جہاں سے کرنے کی ضرورت ہے وہ اس بات کو ٹھیک طور پر سمجھنا ہے کہ چیزیں کس طرح تیزی سے اور ہم سے دُورجارہی ہیں ۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط