Episode 39 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 39 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

نئی سرد جنگ کے انتظامات ماسکو اور واشنگٹن پچھلی جنگ سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟(رابرٹ لیگ وولڈ)
رابرٹ لیگ وولڈ کولمبیا یونیورسٹی میں مارشل ڈی شُل مین ایمریٹس پروفیسر ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی کو بھی روس اور مغرب کے درمیان موجودہ محاذ آرائی کو غیرسنجیدہ انداز میں ”نئی سرد جنگ“ کا لیبل نہیں دینا چاہیے۔آخر، موجودہ بحران اس تنازعہ کی وسعت اور گہرائی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ،جو بیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں بین الاقوامی نظام پر غالب رہا ہے۔
اور اس طرح کے مفروضے کو قبول کرنا کہ روس اور مغرب ایسے کسی تنازعہ میں جکڑے جاچکے ہیں،پالیسی سازوں کو غلط بلکہ خطرناک حکمت عملی کی طرف لے جاسکتا ہے۔ لہٰذااس طرح کے لیبل کا استعمال بھی ایک سنگین معاملہ ہے۔
لیکن اس کے باوجود چیزوں کو ان کے نام سے بُلانا اہم ہے، اور روس اور مغرب کے درمیان تعلقات کاانہدام یقینا ایک نئی سرد جنگ کہلانے کا مستحق ہے۔

(جاری ہے)

مشکل حقیقت یہی ہے کہ یوکرائن میں بحران کے نتائج کچھ بھی ہوں، امریکہ اور یورپ کے ساتھ روس کے تعلقات، اب اس طرح معمول پر واپس نہیں آسکیں گے جیسے کہ وہ 2008 میں روس اور جارجیا کے درمیان جنگ کے بعد آگئے تھے۔
اوباما انتظامیہ نے امریکہ روس تعلقات کو 2008کی پست ترین سطح سے اُٹھانے میں بعض کامیابیوں کا لطف اُٹھایا ہے… دونوں فریقین نے،دفاعی ہتھیاروں میں کمی کا معاہدہ” نیو اسٹریٹیجک آرمز ریڈکشن ٹریٹی“ (نیا آغاز) تیار کیا، ایران کے خلاف سخت پابندیوں پر اتفاق کیا گیا، افغانستان میں نیٹو کے جنگی رسد کے راستوں پر باہمی تعاون عمل میں آیا ، اور صدر باراک اوباما کی دنیا بھر میں جوہری مواد کو محفوظ بنانے کی منصوبہ بندی پر ایک ساتھ ملکرکام کیا گیا۔
لیکن یہ تعلقات درحقیقت کبھی بھی اگلے مرحلے میں داخل نہیں ہوسکے، کیونکہ مزید آگے بڑھنے کی راہیں… دفاعی میزائلوں، لیبیا میں نیٹو کی جنگ،شام میں خانہ جنگی اور روسی صدر ولادی میر پوٹن کی حکومت کی ہدایت پر اپنے ہی شہریوں پر کیے جانے والے جابرانہ اقدامات کی وجہ سے حائل ہونے والی رکاوٹوں نے روک دیں۔ لیکن پھر بھی ان رکاوٹوں نے اس امید کو کبھی بھی مکمل طور پر ختم نہیں کیا تھا کہ ماسکو اور واشنگٹن کئی اہم مسائل کا مشترکہ کوششوں کے ذریعے حل تلاش کر سکتے ہیں۔
یہ اُمید اب ختم ہوگئی ہے۔یوکرائن میں بحران نے دونوں فریقین کو پہاڑ کی چوٹی پر اور نئے تعلقات کی طرف دھکیل دیا ہے، ایسے تعلقات کی طرف جو اُس مبہم صورتحال کی وجہ سے نرمی لیے ہوئے نہیں ہیں جس سے سرد جنگ کے بعد کے دور میں پچھلی دہائی عبارت رہی ہے، جب ہر فریق دوسرے کو دوست سمجھ رہا تھا اور نہ دشمن۔ روس اور مغرب اب ایک دوسرے کے واضح مخالف ہیں۔
اگرچہ یہ نئی سرد جنگ حقیقی سردجنگ سے بنیادی طور پر مختلف ہو گی، لیکن پھر بھی یہ انتہائی نقصان دہ ہو گی۔ حقیقی سردجنگ کے برعکس، نئی سرد جنگ پورے عالمی نظام کا احاطہ نہیں کرے گی۔ دنیا اب دوبڑی طاقتوں والی نہیں رہ گئی، اور اہم علاقے اور چین اور بھارت جیسے اہم کھلاڑی، جنگ میں کھینچے جانے سے بچیں گے۔ اس کے علاوہ، نیا تنازعہ کسی ایک ”نظرئیے“ کو دوسرے کے خلاف کھڑا نہیں کرے گا، نہ ہی یہ مستقل جوہری لڑائی کے خطرے کے تحت ممکنہ طور پر آشکار ہوگا۔
پھر بھی نئی سرد جنگ سے بین الاقوامی نظام کی تقریباً ہر اہم جہت پر اثر پڑے گا، اور عصر حاضر کی مغربی ثقافتی اقدار سے روس کی وحشت پر پوٹن کا زور، اجنبیت میں مزید اضافہ کرے گا۔ آخر میں، اگر یورپ کے مرکز میں ایک سیکورٹی بحران تیزی سے بڑھتا ہے، تو ایٹمی جنگ کاخطرہ فوری طور پر واپس آسکتا ہے۔
چنانچہ ماسکو اور واشنگٹن دونوں کے لئے، اولین ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ اس تنازعہ کے اثرات کو روکا جائے، اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ جس قدر ممکن ہوسکے یہ کم سے کم مدت میں اور محدود رہتے ہوئے ختم ہوسکے۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے، دونوں فریقین کو حقیقی سرد جنگ سے حاصل کردہ سبق کا غور سے مطالعہ کرنا ضروری ہے۔اُس تنازعہ کے دوران، دونوں فریقین، اپنے درمیان تلخ دشمنی کے باوجود، ایسے مختلف نظام تشکیل دینے میں کامیاب رہے تھے جن سے تناوٴ کم کرنے اور خطرات کو محدود رکھنے میں مدد مل سکی تھی۔1970 کی دہائی تک،امریکی اور روسی رہنماء لڑائی کو منظم شکل دینے اور…خاص طور پر ایٹمی ہتھیاروں پر کنٹرول کو اہم ترین مقصد بناتے ہوئے… تعاون کے شعبوں پر توجہ مرکوز رکھنے پر مائل ہوچکے تھے ۔
ان بنیادی اختلافات کو نظرانداز کیے بغیر جو اُنھیں مشکلات سے دوچار کرتے آئے تھے، دونوں اطراف کے رہنماوٴں نے ایک دوسرے کو الگ تھلگ کرنے کے بجائے مشغول رکھنے کی حکمت عملی کو اپنایا۔حقیقی سرد جنگ کے اختتام کے وقت، امریکی صدر رونالڈ ریگن اور سوویت وزیراعظم میخائل گورباچوف کی مخلصانہ ، مشکل سے نظر آنے والی ہی سہی، کوششیں تھیں، جو ایک دوسرے کو آگے بڑھاتی رہیں،ان (کوششوں) کا حتمی نتائج پر بہت گہرا اثر مرتب ہوا تھا۔
آج جبکہ، ماسکو اور واشنگٹن میں دونوں ملکوں کے رہنماء ایک دوسرے کی مخالف سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں، اُنھیں رُک کر اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ان کے پیش رو رہنماؤں میں سے دانش مند ترین رہنماؤں نے حقیقی سرد جنگ کے دوران کیا لائحہ عمل اختیار کیا تھا۔
انتہائی سردمہری
دونوں ادوار کے درمیان تمام تر اختلافات کے باوجود ، نئی سرد جنگ کی کئی خصوصیات سابقہ(اصل) سرد جنگ جیسی ہی ہونگی۔
سب سے پہلی تو یہ کہ، روسی اور مغربی رہنماوٴں نے پہلے ہی کسی بھی مسئلے پر تعطل کو ناقابل معافی انداز میں نمایاں کرنا شروع کردیا ہے، بالکل اسی طرح جیسے اُن کے پیش روؤں نے پہلی سرد جنگ کے آغاز میں کیا تھا، اس حوالے سے سب سے زیادہ مشہور سوویت وزیراعظم جوزف سٹالن کی فروری 1946 کے انتخابات سے پہلے کی تقریر اور برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل کی ایک ماہ بعد کی گئی”آئرن کرٹن“ تقریر کا واقعہ ہے۔
مثال کے طور پر، اس سال مارچ میں،روسی صدرپوٹن نے روس کے کریمیا کے ساتھ الحاق کا یہ کہہ کر دفاع کیا کہ واشنگٹن اور اس کے یورپی اتحادی بین الاقوامی قانون کے بجائے ”بندوق کی حکمرانی“ کے قانون پر چل رہے تھے،اور انھیں یہ یقین تھا کہ ان کا ” ہرقانون سے ماورا ہونا“ انھیں آزاد ممالک کے خلاف ناحق طاقت کے استعمال کی اجازت دیتا ہے، نیز انھیں ”اگر آپ ہمارے ساتھ نہیں ہیں تو آپ ہمارے خلاف ہیں“کے اصول پر مبنی اتحاد بنانے کی اجازت بھی دیتا ہے۔
مئی میں، نیٹو کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل الیگزینڈر ورشبو نے اس بات پر زور دیا کہ ، ”روس کو اب ایک شراکت دار کے بجائے ایک مخالف کے طور پر زیادہ دیکھا جانا چاہیے۔“
دوسری یہ کہ … اصل سرد جنگ کے ابتدائی مراحل کی طرح، ہر فریق تنازعہ کو صرف اور صرف دوسرے کے اعمال…یا اس کی فطرت… کے نتیجے کے طور پر دیکھتا ہے۔ کوئی بھی ان پیچیدہ باہمی اقدامات پر توجہ نہیں دیتا جو ان کے تعلقات کو موجودہ پست سطح پر لے آئے ہیں۔
دوسرے کے سر غلطی تھوپ دینے کے اس پہلے سے سوچ رکھے طرز عمل سے 1950کی دہائی کے آخر اور 1960کی دہائی کے آغاز کے دوران روا رکھے جانے والے رویے یاد آجاتے ہیں، جب ایک فریق دوسرے کو کسی دوسرے سیارے کی مخلوق تصور کرتا تھا۔یہ تو بس 1958سے 1961تک جاری رہنے والے برلن بحران اور 1962 میں کیوبا کے میزائل بحران جیسے خطرات سے بچ نکلنے کے بعد ہی امریکی اور روسی پیچھے ہٹے اور انھوں نے اس بات پر غور کیا کہ اُن کے مفادات کہاں آکر ملتے ہیں۔
اگلے دس سال کے دوران، انہوں نے تین بڑے ہتھیاروں پر کنٹرول کے معاہدوں پر مذاکرات کیے…محدود تجربات پر پابندی کا معاہدہ، جوہری عدم پھیلاوٴ کا معاہدہ، اور پہلے اسٹریٹیجک ہتھیاروں کو محدود رکھنے کے معاہدے پر مذاکرات (سالٹ I) اسی دوران ہوئے۔
تیسری یہ کہ، اصلی سرد جنگ کے زمانے کی طرح، کوئی بھی فریق باہمی تعلقات سے زیادہ توقعات نہیں رکھتا۔
مخصوص مسائل پر دونوں فریقین کے مفادات ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوں تو تعاون کے دوران الگ تھلگ کردینے والے لمحات سامنے آ سکتے ہیں۔ لیکن کوئی بھی فریق یہ یقین نہیں رکھتا کہ مجموعی طور پر تعلقات کی نوعیت کو تبدیل کرنے کے مقصد کے ساتھ ایک وسیع تناظر میں تعاون کا قیام ممکن ہے۔ اور نہ ہی دونوں میں سے کوئی کیمپ اس سمت میں پہلا قدم لینے کے لئے تیار لگ رہا ہے۔
چوتھی یہ کہ، ماسکو کو سزا دینے کے لئے اور اس کو یہ اشارہ دینے کے لیے کہ اگر وہ مزید جارحیت کرے گا تو اسے اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی، واشنگٹن نے سرد جنگ طرز کی انتقامی کارروائیوں کے ایک سلسلہ کا سہارا لیا ہے۔ مارچ میں آغاز کرتے ہوئے اس نے روس کے ساتھ فوجوں کے درمیان دو طرفہ سرگرمیوں کو روک دیاہے اور میزائل دفاع سے متعلق مذاکرات ختم کردئیے ہیں۔
اوباما انتظامیہ نے بھی فوجی ایپلی کیشنز رکھنے والی سویلین ٹیکنالوجی کی روس کو برآمد پر پابندی لگادی ہے، سویلین جوہری توانائی کے منصوبوں پر روس کے ساتھ ممکنہ تعاون کو معطل کردیا ہے، روسی ہم منصبوں کے ساتھ ناسا کے رابطوں کو منقطع کردیا ہے، اور روسی ماہرین کی امریکی محکمہ توانائی کی لیبارٹریوں تک رسائی سے بھی انکار کردیا ہے۔ یوکرائن کے بحران کے خاتمے کے بعد بھی ان پابندیوں میں سے اکثر کے جاری رہنے کا امکان ہے۔
اور جو پابندیاں اُٹھالی گئی ہیں وہ بھی خطرناک انداز میں نشانات چھوڑ جائیں گی۔
پانچویں، اور سب سے زیادہ سنگین یہ کہ، بالکل اسی طرح جیسے یورپ کے مرکز میں سکیورٹی ذمہ داری سنبھالنے کے مسئلہ پر تصادم اصل سرد جنگ کا مرکز بن گیا تھا، اسی طرح وسطی اور مشرقی یورپ کے استحکام کے حوالے سے نئی بے یقینی اس سرد جنگ کو بھی آگے لے جائے گی۔
1990 کی دہائی سے شروع ہونے والی، بالٹک ریاستوں سمیت، مشرقی یورپ کے بیشتر ممالک میں نیٹو کی توسیع نے، یورپ کی سیاسی و فوجی سرحدوں کو سابق سوویت یونین کے کناروں تک پہنچا دیا ہے۔ نیٹو کی توسیع نے بیلارس، مالدووا، اور یوکرائن کو ”درمیان میں واقع سرزمین“ میں بھی تبدیل کردیا ہے، پولینڈ اور آسٹرو ہنگرین ریاست کے کچھ حصوں کی طرح جن پر عظیم طاقتوں کے درمیان انیسویں اور بیسویں صدی میں، المناک نتائج کے ساتھ ختم ہونے والی لڑائی ہوئی تھی۔
آج جبکہ ماسکو اپنے مغربی فوجی علاقوں یعنی ایک اہم فوجی کمانڈ کو مضبوط بنارہا ہے، اور نیٹو ایک بار پھرروس پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، براعظم یورپ پر مسلط وہ فوجی تعطل ،جسے ختم کرنے میں دو دہائیاں لگی تھیں، یورپ کے مشرقی کنارے پر ایک بار پھر تیزی سے پھیل جائے گا۔
ریڈ زون
کچھ لوگ شاید یہ سوچیں کہ نئی سرد جنگ، اگرچہ ناپسندیدہ طور پر، اتنی اہمیت کی حامل نہیں ہوگی جتنی کہ پچھلی سرد جنگ تھی،خاص طور پر اس لیے کہ موجودہ روس ہر گز اتنے خطرے کا حامل نہیں ہے جتنا کہ سابقہ سوویت یونین خطرے کا حامل تھا۔
بے شک، یہ سچ ہے کہ امریکہ کو اپنے مخالف پرمادی اعتبار سے بہت زیادہ فوائد حاصل ہیں، اس کی معیشت روس کے مقابلے میں تقریباً آٹھ گُنا بڑی ہے، اور اس کا فوجی بجٹ روس کے مقابلے میں سات گُنا زیادہ ہے۔ مزید برآں، واشنگٹن کو، مشرق وسطیٰ میں درپیش مسائل سے لیکر ایشیا پیسفک میں بڑھتی کشیدگی تک، جن دیگر چیلنجز کا سامنا ہے…ہوسکتا ہے ان کی شدت کی وجہ سے روس کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کا خاتمہ ہوجائے، اور ایسے میں یورپ کے زیادہ تر ممالک غیراہم ہوجاتے ہیں۔
لیکن ایک طویل محاذ آرائی کے امکانات یا اہمیت پر شک کرنا انتہائی گمراہ کن ہو گا۔ سچ یہ ہے کہ، اگر روس اور امریکہ ایک دوسرے کے ساتھ سخت حریفانہ انداز میں پیش آئے تو، یہ تنازعہ دونوں ممالک کی خارجہ پالیسیوں کو بُری طرح تبدیل کرکے رکھ دے گا، اس سے بین الاقوامی سیاست کے ہر پہلو کو نقصان پہنچے گا، اور اس کی وجہ سے تمام تر توجہ اور وسائل نئی صدی کے اہم سیکورٹی چیلنجوں سے ہٹ جائیں گے۔
ایشیا پیسفک میں واشنگٹن کی پوزیشن پر غور کریں، جہاں وہ کئی سال سے اب اپنے سفارتی اور فوجی وسائل کو ازسر نو ترتیب دینے کی کوشش کررہا ہے۔ یوکرائن میں پیش آئے حالیہ واقعات نے پہلے ہی ٹوکیو کو اس خوف میں مبتلا کردیا ہے کہ واشنگٹن کا یورپ پر از سر نو توجہ مرکوز کرنا اسے ایشیاء کے حوالے سے اپنے ”عزم“ سے ہٹادے گا…خاص طور پر، اُبھرتے ہوئے چین کے خطرے کو روکنے میں جاپان کی مدد کے حوالے سے اس کے عزم سے۔
جاپانی رہنماء ماسکو کے کریمیا سے الحاق پر صدر اوباما کے نسبتاً معتدل ردعمل پر بھی اس فکر کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر بیجنگ نے مشرقی بحر چین میں واقع متنازعہ سینکا جزائر( جنہیں چین میںDiaoyu جزائر کے نام سے جانا جاتا ہے) پر قبضہ کر لیا تو واشنگٹن کیسے رد عمل کا اظہار کرے گا۔ مزید برآں، ایک جارح مزاج روس … امریکہ کی ان کوششوں میں مدد کے بجائے رخنہ ڈالنے کی پوری کوشش کرے گا جو وہ امریکہ اور چین کے تعاون کے دائرہ کار کو وسیع کرتے ہوئے چینی جارحیت کا راستہ روکنے کے نازک کام کو انجام دینے کے لیے کررہا ہے۔
اسی طرح، ایک ایسے وقت میں جب واشنگٹن کو عالمی سطح پر بدنظمی کے نئے محاذوں سے نمٹنے کے لئے روسی تعاون کی ضرورت ہے ، ماسکو تعاون کے بجائے ایک طرف ہٹ جائے گا اوردہشت گردی، موسمیاتی تبدیلیوں، جوہری پھیلاوٴ، اور سائبر جنگ جیسے مسائل سے نمٹنے کی امریکی کوششوں کو کمزور بنادے گا۔
اس دباوٴ ، جسے امریکی ارکان کانگریس اور واشنگٹن کے بہت سے مشرقی یورپی اتحادی ازسر نو منظم ہونے والا روسی فوجی خطرہ قرار دیتے ہیں، سے نپٹنے کے لیے امریکی دفاعی منصوبہ بندی کو نئے سرے سے ترتیب دینے کا عمل ، جدیدیت اور ڈاؤن سائزنگ کے ذریعے پیسہ بچانے کی پنٹاگون کی کوششوں کو پیچیدہ بنا دے گا۔
امریکی فوج ، جوفی الحال انسداد دہشت گردی اور چین کے ارد گرد کے سمندر تک رسائی کو محفوظ بنانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، اسے اب یورپ میں زمینی جنگ لڑنے کے لئے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا پڑے گا۔
امریکہ اور یورپ کے ساتھ نئی سرد جنگ ، روس کے لیے زیادہ نقصان دہ ہوگی، کیونکہ ماسکو کم از کم ایک نازک معاملے میں، مغرب پربہت زیادہ انحصار کرتا ہے جبکہ امریکہ اور یورپی ممالک روس پر زیادہ انحصار نہیں کرتے۔
اپنی وسائل پر انحصار کرنے والی معیشت کو متنوع بنانے اور سوویت دور کے زائدالعمر انفراسٹرکچر کو جدت دینے کے لیے ، روس مغربی سرمایہ اور ٹیکنالوجی کے داخلی بہاؤ پر اکتفا کرتا ہے۔ جس سطح تک اس کی یہ آپشن کم ہوئی ہے، ماسکو کو یا تو کافی زیادہ بیجنگ کے ساتھ اپنے تعلقات پر اکتفا کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑے گا…جس میں وہ واضح طور پر ایک جونئیر پارٹنر ہے…اور یا پھر ان ممالک کے ساتھ بکھری ہوئی شراکتوں پر انحصار کرنا پڑے گا جو کوئی ایسی چیز پیش نہیں کرسکتے جو امریکہ اور یورپ کے وسائل سے مشابہ ہو۔
صرف چار سال پہلے،جب عالمی مالیاتی بحران نے روسی معیشت کی کمزوریوں کو ننگا کرکے رکھ دیا تھا ، اس وقت کے روسی صدر دیمتری مدویدیف نے دلیل دی تھی کہ ان کے ملک کو حقیقتاً امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک کے ساتھ ”ماڈرنائزیشن کے لئے خصوصی اتحاد“ کی ضرورت ہے۔ لیکن اب، جبکہ ان ممالک کے ساتھ روس کے تعلقات میں بحران شدید ہو رہا ہے، روس پہلے ہی خود کو مشکل میں محسوس کررہا ہے،ملک سے سرمایہ رخصت ہورہا ہے، اس کی کریڈٹ مارکیٹس سکڑ رہی ہیں، اور اس کی معیشت جلد ہی کساد بازاری کے بھنور میں داخل ہوجائے گی۔
ایسی اقتصادی مشکلات روسی رہنماوٴں کو اندرون ملک عدم اطمینان کے خلاف اس سے بھی زیادہ سخت پیشگی اقدامات پر اکسا سکتی ہیں، جو وہ پہلے ہی ملکی سطح پر ممکنہ سماجی بے چینی کے خلاف کررہے ہیں، جس کا مطلب اس قدر جبر ہوگا جو کسی بھی وقت اُلٹا اثر کرسکتا ہے اور کسی موڑ پر بڑے پیمانے کی ویسی مخالفت کو جنم دے سکتا ہے جس کے خوف کا اظہار کریملن کرتے ہیں۔
اس دوران، امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کے ساتھ روس کے تلخ ترین تعلقات… آرمینیا، بیلا رس، اور قزاقستان جیسے روسی شراکت داروں کو…جو یوریشیائی اقتصادی یونین اور ایک مضبوط مشترکہ سلامتی کے معاہدہ پر مبنی تنظیم کے روسی منصوبوں کے لئے انتہائی اہم ریاستیں ہیں… مغربی طاقتوں سے تعلقات کشیدہ ہونے کے ڈر سے ماسکو سے خود کو دُور کرنے پر مائل کرسکتے ہیں۔
مغرب کے ساتھ نئی محاذ آرائی روس کو اپنے عسکری ذرائع کی طاقت کم کرنے پر بھی مجبور کرے گی۔ اس اقدام کی وجہ سے ماسکو کے پاس دیگر سیکورٹی چیلنجوں سے نپٹنے کے لیے مناسب ہتھیار نہیں ہونگے…جیسے کہ شمالی قفقاز میں تشدد اور وسطی ایشیا میں عدم استحکام، جن میں سے آخرالذکر کے ساتھ افغانستان اور پاکستان کو درپیش غیریقینی مستقبل کے خطرات بھی جُڑے ہوئے ہیں ۔ روس کو چین کے ساتھ اپنی وسیع سرحد کا بھی دفاع کرنا ہوگا اور ساتھ ہی شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان ایک امکانی تصادم کے لئے خود کو تیار کرنا ہوگا۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط