Episode 40 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 40 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

پریشر پوائنٹس
مغرب کے ساتھ روس کے تعلقات ختم ہونے سے صرف امریکہ، یورپ، اور روس کی خارجہ پالیسی میں ہی بگاڑ پیدا نہیں ہوگا بلکہ اس سے وسیع تر بین الاقوامی مسائل کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔ اسلحہ پر کنٹرول کے دور سے اب بھی جو باقی ہے ،جس کی تعمیر کرنے کے لیے روس اور امریکہ کو کئی سال لگ گئے تھے، وہ اب بڑی حد تک بے کار ہوجائے گا۔
نئی سرد جنگ نے ایسے کسی بھی امکان کو ختم کردیا ہے کہ ماسکو اور واشنگٹن میزائل دفاعی نظام پر اپنے اختلافات طے کرلیں گے، جو کہ، مزید سٹریٹجک ہتھیاروں پر کنٹرول کے معاہدوں کے لئے روس کی ایک پیشگی شرط ہے۔اس کے بجائے، دونوں فریق درست نشانہ لگانے والے جدید روایتی ہتھیاروں اور سائبر وار فےئر کے ذرائع سمیت نئی اور استحکام کو نقصان پہنچانے والی ٹیکنالوجی کی تیاری میں جُت جائیں گے۔

(جاری ہے)

دریں اثنا، امریکی میزائل ڈیفنس پروگرام کے یورپی پُرزے اب خاص طور پر روس مخالف کردار اختیار کرلیں گے، خصوصاً اس لیے کہ اوباما انتظامیہ مبینہ طور پر اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ روس نے 1987 میں ہونے والے درمیانے فاصلے تک جوہری قوت کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے ۔ اور اب اس بات کا امکان بھی نہیں کہ ماسکو اور واشنگٹن یہ اتفاق رائے کرلیں کہ …یورپ میں بڑے ہتھیاروں کے نظام کو منظم کرنے کی حدود کیسے مقرر کرنی ہیں۔
نئی سرد جنگ نے دوسرے بنیادی معاہدوں کو، مضبوط بنانے کی تمام اُمیدوں کو بھی بر باد کردیا ہے، جیسے کہ آزاد فضاؤں سے متعلق 1992کا معاہدہ،جو غیر مسلح فضائی نگراں پروازوں کا انتظام کر تا ہے۔
امریکہ اور روس کے توانائی سے متعلق تعلقات میں جیو سٹریٹجک اعدادوشمار پہلے سے کہیں زیادہ غالب کردار سنبھال لیں گے۔ ہرفریق دوسرے پر سبقت حاصل کرنے اور اپنے خطرے کو کم سے کم کرنے کے لیے تیل اور گیس کی تجارت کو استعمال کرنے کی کوشش کرے گا۔
آرکٹک میں، خطے کے وسیع ہائیڈروکاربن ذخائر کو ترقی دینے سے متعلق امریکہ اور روس کے تعاون کے امکانات یقینا کم رہ جائیں گے۔ زیادہ وسیع تناظر میں، نئی سرد جنگ آرکٹک پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لئے بین الاقوامی کوششوں کو نقصان پہنچائے گی۔حالانکہ یہ وہ مسئلہ ہے جس پر امریکہ اور روس کے تعلقات حیران کن طور پر تعاون پر مبنی رہے ہیں۔
روس امریکہ…حالیہ تعلقات کے سب سے زیادہ کامیاب لیکن کم تعریف کردہ پہلووٴں میں سے ایک، امریکہ اور روس کے دوطرفہ صدارتی کمیشن کے 20 ورکنگ گروپس کی پیش رفت ہے۔یہ کمیشن،…جیلوں کی اصلاح اور فوجی تعلیم سے لیکرسویلین ہنگامی حالات اور انسداددہشت گردی تک… پالیسیوں پراعلی سطحی تعاون کے لئے 2009 میں قائم کیا گیا تھا۔ اب ایسا نہیں لگتا کہ نئی سرد جنگ میں اس طرح کا تعاون جاری رہے گا، اس میں بہتری کا امکان تو اور بھی کم ہے۔
ماسکو اور واشنگٹن کو … اقوام متحدہ میں بہت زیادہ ضروری اصلاحات، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، سلامتی کی تنظیم اور یورپ میں تعاون …جیسے اہم معاملات پر اپنی پوزیشن کو باہم ایک جیسی کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ واشنگٹن اب اس بات پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے کہ جہاں کہیں ممکن ہو (مثال کے طور پر جی ایٹ ممالک سے )روس کو بے دخل کیا جائے اور دیگر جگہوں پر بھی اس کے کردار کو محدود کردیا جائے۔
دریں اثناء ، ماسکو اِن اداروں میں امریکی اور یورپی اثر و رسوخ کو تبدیل کرنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ محنت کرے گا۔
آخر ی یہ کہ، اگر سوویت یونین کے بعد کے خطے میں(یعنی سوویت یونین کے ٹکڑے ہوجانے کے بعد اس سے علیحدہ ہوجانے والے ممالک میں)طویل عرصہ سے سُلگتے چلے آرہے تنازعات میں سے ایک یا ایک سے زیادہ تنازعات دوبارہ پھٹ پڑے، تو ایسی صورت میں اس بات کے امکانات صفر لگتے ہیں کہ روس اور امریکہ تشدد پر قابو پانے کے لیے مل کر کام کریں گے۔
اس کے برعکس، اگر آذربائیجان میں نگورنو کاراباخ،، یا مالدووا میں گواڈیلوپ کے تنازعات بھڑک اُٹھے، تو اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ ماسکو اور واشنگٹن دونوں ایک دوسرے کے خلاف عمل کررہے ہونگے، جسے وہ ایک دوسرے کے کینہ پرور کردار کے طور پر دیکھتے ہیں۔
نقصان سے بچاؤ
یوکرائن میں موجودہ بحران، خواہ موجودہ وقت کے لیے چھپادیا گیا ہو، دراصل ختم نہیں ہو ا ہے۔
مئی میں ہونے والے صدارتی انتخابات یوکرائن کی قیادت کو، درپیش قانونی جواز کے بحران کو حل نہیں کر سکے، جسے ملک کے مشرقی حصے کے عدم اعتماد کا بھی سامنا ہے۔ اور نہ ہی فی الحال بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور دیگر مغربی عطیہ دہندگان کی طرف سے مل کر ترتیب دیا گیا معمولی امدادی پیکیج ہی یوکرائن کی معیشت کو کھاجانے والے تعمیری مسائل …یعنی بے لگام کرپشن اور امرشاہی گروہوں کی ایک چھوٹی سی تعداد کی طرف سے طاقت کے استعمال …کو حل کرسکا ہے۔
مختصراً یہ کہ، ملک کو سیاسی اور اقتصادی غیر یقینی صورتحال سے بھرپور طویل سیاہ رات کا سامنا ہے۔
 یوکرائن تو ایک بڑی اور زیادہ پُر آشوب تصویر کا صرف ایک حصہ ہے۔ یورپ کا استحکام، جو حال ہی میں یقینی لگنا شروع ہوا تھا، اب زیادہ کمزور دکھائی دیتا ہے۔ براعظم(یورپ) کے عین مرکز میں ایک نئی فالٹ لائن کھُل گئی ہے۔، اور اس کے اندر کہیں بھی عدم استحکام …صرف یوکرائن میں ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بیلا رس یا مالدووا میں بھی…ممکنہ طور پر مشرق اور مغرب کے درمیان ایک مسلسل بڑھنے والی محاذ آرائی کی طرف لے جائے گا۔
ماسکو اور واشنگٹن کے رہنماوٴں کو اس حقیقت کا سامنا کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ اس بات کو بھی سمجھنے کی کہ اگر انھوں نے نئی سرد جنگ کے وسیع تر نتائج پر آنکھیں بند کیے رکھیں تو انھیں کیاقیمت ادا کرنی پڑے گی۔ خطرات اور قیمت دونوں کی اہمیت کو پیش نظر رکھ کر ہی یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ ان سے بچنے کے لیے کن کوششوں کی ضرورت ہو گی۔ چنانچہ ماسکو اور واشنگٹن دونوں کے لیے فوری اور اہم ترین مقصد یہ ہوگا کہ نئی سرد جنگ کو ہر ممکن حد تک جلد ختم ہونے والی اور کم واضح بنانے کی کوشش کریں۔
اس مقصد کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب دونوں اطراف کے رہنماء نقصان کی روک تھام کو اپنی پہلی ترجیح بنالیں۔ اب تک، انھوں نے ایسا نہیں کیا ہے۔ یوکرائن کے بحران کو اس وسیع مقصد کے تناظر میں سمجھنے کے بجائے، یوں لگتا ہے کہ روسی اور مغربی رہنما ؤں نے خود کو موجودہ بحران میں مقید کرلیا ہے۔ روس کے لئے،اس کا مطلب کسی بھی طرح برداشت کرنا ہے…یعنی مغرب جو پابندیاں مسلط کرے اس کی تکلیف کو برداشت کرنا اور واشنگٹن اور امریکی اتحادیوں کو وہ موقف تسلیم کرنے پر مجبور کرنا جسے روسی رہنماء یوکرائن اور اس سے بڑھ کر اپنے ملک کا جائزمفاد تصور کرتے ہیں۔
امریکہ اور یورپ کے لئے یوکرائن میں جیت کا مطلب روس کے جارحانہ رویے کا راستہ روکنا اور ماسکو کو واپس زیادہ تعاون کرنے کی راہ پر لانا ہے۔ (بعض مغربی حلقوں کے مطابق، جیت کا منطقی نتیجہ پوٹن کو اس قدر کمزور کردینا ہے کہ ان کی حکومت کا جلد خاتمہ ہوجائے)۔
نئی سرد جنگ سے ہونے والے نقصان کو محدود کرنے کی کوشش کا مقصد یہ ہر گز نہیں کہ مغرب کو، یورپ کے نئے علاقوں میں ہونے والے واقعات کو …سیاسی عدم استحکام پراکسانے یا فوجی طاقت کے استعمال کے ذریعے…کنٹرول کرنے کی روسی کوششوں کو برداشت کرنا چاہئے ۔
اگر امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی اس روسی اشتعال کو ناکام بنانے کا راستہ تلاش نہیں کرپاتے …ضرورت پڑنے پر قابل اعتماد فوجی دھمکیوں کے ذریعے …تو نئی سرد جنگ صرف مزید طول پکڑے گی۔ اس کے ساتھ ہی ،یورپ کے غیرمستحکم مرکز پر تنازعات سے نمٹنے کے لیے پالیسی کو ایک بڑے مقصد کے تحت ترتیب دیا جانا چاہیے۔ مغربی رہنماء روسی اشتعال کو روکنے کی حوصلہ افزائی کے لیے جو بھی کرتے ہیں، اس کے ساتھ قابل یقین سوچ پر مبنی متبادل راستہ بھی ہونا چاہیے ، جس پر اگر عمل کیا جائے، تو وہ زیادہ تعمیری سمت میں لے جائے۔
اس طریقہٴ کار کے دونوں حصوں کو واضح اور ٹھوس ہونا چاہیے…حد بندیاں بالکل واضح ہونی چاہئیں اور انھیں قابل اعتماد فوجی طاقت کی دھمکی کے ذریعے مضبوط بنایا جانا چاہیے۔اور تعاون کے مواقع کا واضح اور نمایاں ہونا ضروری ہے۔
ناراضگی کا انتظام 
نئی سرد جنگ سے ہونے والے نقصان کو کم سے کم کرنے کے لیے اس پر آہستہ آہستہ قابو پانے کی نیت سے اس کو منظم کرنے کی ضرورت ہو گی۔
اس مقصد کے لئے، ماسکو، واشنگٹن، اور یورپی ممالک کے رہنماوٴں کو اصل سرد جنگ سے حاصل ہونے والے تین اہم اسباق پر غور کرنا چاہئے۔
سب سے پہلا یہ کہ، انھیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سرد جنگ کے دوران، بداعتمادی نے اکثر دوسرے کی نیتوں کے بارے میں ہر فریق کے تصور کو مسخ کیا ہے۔بہت سی مثالوں میں سے ایک مثال کے طور پر، امریکہ کے اس غلط تصور پر غور کیجئے کہ 1979 میں افغانستان پر سوویت حملہ خلیج فارس میں موجود تیل پر کنٹرول حاصل کرنے کی ایک کوشش تھی…یہ وہ غلط تصور تھا ، جس کی جڑیں سوویت یونین کے علاقائی عزائم پر گہرے عدم اعتماد سے جُڑی تھیں جسے امریکی رہنماؤں نے اس وقت سے قائم کر رکھا ہے جب سے سٹالن نے دوسری جنگ عظیم کے بعد مشرقی یورپ کے بیشتر حصوں پرقبضہ کر لیا تھا اور اس کے بعد ایران اور کوریا جیسے مقامات پر سوویت اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کی تھی۔
 
جب سے پہلی سرد جنگ ختم ہوئی ہے، غلط تصورات نے دونوں فریقین کے درمیان تعلقات کو مفلوج کرنا شروع کر رکھا ہے، اورایک نئی شراکت داری قائم کرنے کے لئے ماسکو اور واشنگٹن کی کوششوں کو مسلسل تباہ کرتے ہوئے باضابطہ تعلقات کے امکان کو معاندانہ تعلقات میں تبدیل کرنے کی راہ ہموار کی ہے۔ نیٹو کی توسیع اور یورپی میزائل دفاعی نظام کیلئے امریکی منصوبوں جیسے اقدامات نے پہلے سے قائم روسی ذہنیت کو اس یقین میں مبتلا کردیا کہ یہ اقدامات روس کے خلاف کیے جارہے ہیں۔
اور روس کی طرف سے اپنے ہمسایہ ممالک… خاص طور پر یوکرائن … کے خلاف انتہائی جارحانہ رویے نے مغربی ممالک میں یہ تاثر پیدا کیا ہے کہ ماسکو محض اثر و رسوخ نہیں چاہتا بلکہ پرانے سوویت علاقے پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتا ہے۔
ایسی بد اعتمادی کو دُور کرنا آسان نہیں ہو گا۔اس کے لیے روسی اور امریکی حکام کو حقیقتاً عظیم کوششوں اور حقیقی خطرات مول لینے پر آمادہ ہونے کی ضرورت ہوگی۔
دونوں اطراف کے قائدین جانتے ہیں کہ ان کے ملک میں موجود سیاسی مخالفین جارحیت پر قابو پانے کے لئے ان کی کوششوں کو کمزوری سے تعبیر کریں گے۔ وہ یہ فکر بھی کرتے ہیں کہ اگر ان کی کوششوں کا فوری طور پر جواب نہیں دیا جاتا تو ان کی طرف سے پہلا قدم کمزوری لگے گا…اور بدتر صورت یہ ہوگی کہ ،یہ کوششیں اس وقت تشفی پر مبنی لگیں گی اگر دوسرا فریق اس کا جواب مزید جارحیت کے ساتھ دیتا ہے۔
اب بھی، یہ دوسرے کے ارادوں کے بارے میں ہر فریق کے مسخ شدہ تصورات ہیں جوتعاون کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس گرہ کو کھولنے کاطریقہ یہ ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے سے براہ راست، خاموشی سے اور پیشگی شرائط کے بغیر اعلیٰ سطح پربات چیت کریں۔اُنھیں اس سوچ کے ساتھ ملنا چاہیے کہ ہر معاملہ… سب سے زیادہ متنازعہ معاملات سمیت… مذاکرات کی میز پر حل کیا جائے گا۔
اس طرح کے مذاکرات ، بے شک ،سب سے مشکل ہیں،خاص طور پر جب یہ سب سے زیادہ ضروری بھی ہیں، لیکن دونوں میں سے کسی بھی حکومت کو بات چیت شروع کرنے سے پہلے اپنی موجودہ پوزیشن کو ترک کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر فریق کے گہرے خدشات کی وجوہات معلوم کرنا، تاہم، صرف پہلا قدم ہے۔ اگلا قدم یہ ہے کہ، مذاکرات عملی کارروائی کی طرف لے کر جائیں۔ ہر فریق کو ایک معمولی قدم یا اقدامات کے سلسلے کو وضع کرنا چاہیے، جن پر اگر عمل کیا جائے تو، وہ اسے دوسرے کے بارے میں اس کے مفروضات پر از سر نو غور شروع کرنے پر قائل کرسکے۔
دونوں فریقین کو دوسرے پر الزام تھوپنے کی روش کوبھی ترک کرنا چاہیے اور اس کی بجائے پیچھے ہٹ کر اس بارے میں غور کرنا چاہئے کہ اُن کے کس طرز عمل سے تعلقات کو پٹڑی سے اُترنے میں مدد ملی ہے۔ اصل سرد جنگ کا دوسرا سبق یہ ہے کہ یہ دونوں فریقین کے باہمی اقدامات تھے نہ کہ صرف ایک فریق کا عمل، جس نے کشیدگی میں اضافہ کیا۔ یوکرائن کے بحران میں، کم از کم، کافی الزامات سب کے سر ڈالے جاسکتے ہیں۔
یورپی یونین نے یوکرائن کے ساتھ الحاق کے ناکام معاہدے پر روس کے جائز خدشات کو مسترد کرکے بہرے پن کا مظاہرہ کیا۔ فروری میں کیف میں کشیدگی کے دوران، امریکہ نے بھی فوراً ہی اس معاہدے کو مسترد کردیا تھا، جسے تمام فریقین کے سفارت کاروں نے ملکر باہمی رضامندی سے ترتیب دیا تھا اور جو نئے صدارتی انتخابات اور آئینی اصلاحات کا وعدہ کرتے ہوئے بحران سے باہر نکلنے کا ایک ممکنہ طریقہٴ کار پیش کرتا تھا۔
اور سارے عرصہ میں، روس اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کی خاطر یوکرائن کے عدم استحکام سے فائدہ اٹھانے پر تیار رہا ہے۔
اصل سرد جنگ کا تیسرا سبق، جو شاید سب سے زیادہ اہم ہو سکتا ہے۔ عام طور پر امریکہ اور سوویت رویے کا تعین پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی اور پالیسیاں نہیں کرتیں بلکہ واقعات کرتے ہیں۔ چنانچہ یوکرائن کے موجودہ بحران اور اس کے بعد آنے والے بحرانوں میں امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کو واقعات پر توجہ مرکوز کرکے روسی انتخاب کو متاثر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے بجائے اس کے کہ وہ اس طرح چیزوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں جیسے کریملن اُنھیں دیکھتے ہیں۔
عملی لحاظ سے، واشنگٹن کو، یورپی یونین کے ساتھ مل کر، یوکرائن کو اقتصادی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کرنا چاہیے، جس کی اسے سخت ضرورت ہے (اس کے باوجود کہ اس کے کرپٹ سیاسی نظام کو ٹھیک کرنے کے لئے حقیقی اقدامات کیے جاچکے ہیں)، اور اس بات پر زور دینا چاہیے کہ، یوکرائن کے رہنماء ایسی حکومت قائم کریں جوملک کے مشرقی حصے میں دوبارہ قانونی جواز حاصل کر سکتی ہو، اور ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرے جس میں یوکرائن دونوں کے درمیان انتخاب کیے بغیر یورپ اور روس کے ساتھ بیک وقت تعاون کر سکے۔
اگرامریکی پالیسیاں اس سمت میں چلتی ہیں تو، روسی فیصلے زیادہ تعمیری ہونے کا امکان ہے۔
اس وقت، ماسکو، واشنگٹن، اور یورپی دارالحکومتوں میں جذبات عروج پر ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ یوکرائن پر محاذ آرائی نے اپنے طور پر زور پکڑ لیا ہے۔اگر کسی طرح یوکرائن بحران کا اثر پھیکا پڑ جاتا ہے تو، نئی سرد جنگ کی شدت کمزور ضرور پڑ جائے گی، لیکن ختم نہیں ہو گی۔
اگر یوکرائن میں بحران شدید ہوجاتا ہے (یا کہیں اور ایک بحران پیدا ہوجاتا ہے)، تو نئی سرد جنگ بھی زیادہ شدید ہوجائے گی۔ دوسرے الفاظ میں، محاذ آرائی کیا رُخ اختیار کرے گی اس کا دارومدار یوکرائن پر ہے، لیکن سب کچھ اس پر منحصر نہیں کہ وہاں کیا ہوتا ہے۔بالکل اصل سرد جنگ کی طرح، نئی سرد جنگ بھی بہت سے مراحل میں ”کھیلی“ جائے گی، اور یہ اس وقت تک حل ہونا شروع نہیں ہوگی جب تک کہ دونوں فریق اس بات کو اچھی طرح نہیں سمجھ لیتے کہ جس راستے پر وہ چل رہے ہیں اس کی قیمت کیا ہے، اور جب تک وہ مختلف راستے کی طرف لے جانے والے مشکل اقدامات سے نمٹنے کا فیصلہ نہیں کرتے۔ 

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط