Episode 42 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 42 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

 تعداد کے ذریعے ڈبونا
کیا امریکہ اس رجحان کا رُخ موڑ سکتا ہے؟اس کا معاشی مستقبل تو محض غصے کے جذبات کی ہی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔…امریکہ کو مالیاتی مسائل درپیش ہیں، ترقی کا مسئلہ ہے، اور شاید سب سے زیادہ بے لگام،متوسط طبقہ کا مسئلہ۔ بار بار ٹیکس میں کمی اور دو جنگیں، 2008سے 2010کا معاشی اور مالیاتی بحران، طویل مدتی حق داروں کی تعداد میں بے رحم اضافہ (خاص طور پر صحت سے متعلق)۔
اور بے کار اثاثوں میں ممکنہ اضافہ جس کی ذمہ دار حکومت ہوسکتی ہے…ان سب نے ملکر امریکہ کی پبلک سیکٹر کی بیلنس شیٹ میں شکوک وشبہات پیدا کیے ہیں۔عوامی اور نجی قرضوں کی بلند شرح اور مسلسل بیروزگاری طویل مدتی ترقی کو دبائے رکھے گی۔اور جمود کا شکاردرمیانے طبقہ کی آمدنی، بڑھتی عدم مساوات، نقل و حرکت میں کمی، اور، حال ہی میں حتیٰ کہ کالج سے تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے گرتے امکانات نے ملکرتقسیم سے متعلق بہت بڑے مسائل پیدا کردئیے ہیں۔

(جاری ہے)

متوسط طبقہ خود کو محصور محسوس کررہا ہے…وہ صلاحیت کی سیڑھی پر نیچے کی طرف نہیں آنا چاہتا لیکن اس کے لیے اوپر جانے کے امکانات چین اور بھارت کے ساتھ مقابلے کی وجہ سے تیزی سے محدود ہورہے ہیں۔
امریکہ کی مستقل طاقت اس کے معاشی مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے ”ہم کرسکتے ہیں“ کے روئیے کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے اور ساتھ ہی اس کے اعتماد کی وجہ سے کہ مضبوط معاشی بنیادی اصول اس کی موجودہ معاشی برتری کو یقینی بناسکتے ہیں۔
گلوبل انٹرپری نئیرشپ مانیٹر کے مطابق، جودنیا بھر میں شراکتی کاروبار کی سرگرمیوں پر تحقیق کامعتبر ادارہ ہے، سب سے نمایاں طور پر امریکہ شراکت پر مبنی کاروبار کے لیے منفرد مواقع فراہم کرتا ہے ”کیونکہ یہ سازگار کاروباری ماحول، سب سے زیادہ پُرخطر سرمایہ کاری کا تجربہ رکھنے والی صنعت،یونیورسٹیوں اور صنعت کے درمیان قریبی رشتہ اور ایک آزاد امیگریشن پالیسی رکھتا ہے۔
2009کے ایک سروے میں ”جی ای ایم GEM“ نے ایسے مواقع فراہم کرنے کے اعتبار سے امریکہ کو دنیا میں سب سے آگے قرار دیا۔تجارتی طور پر کامیاب تقریباً تمام کمپنیاں جنہوں نے گذشتہ تین دہائیوں کے دوران ٹیکنالوجی کی بنیاد پر کامیابیاں حاصل کی ہیں…جیسے کہ ایپل اور مائیکرو سافٹ، گوگل اور فیس بک… وہ امریکہ میں ہی قائم ہوئیں اور یہیں ان کے مرکزی دفاتر ہیں۔
درحقیقت 1990کی دہائی میں ترقی کے اس نئے اور بہت ہی طاقتورذریعہ کو تلاش کرکے ہی امریکہ اس دور کی اُبھرتی ہوئی طاقت …جاپان…سے درپیش معاشی چیلنج کا قلع قمع کرنے کے قابل ہوا تھا۔ آج پُر اُمید لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ امریکہ یہی تجربہ چین کے ساتھ دہراسکتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ اگر امریکہ کی معیشت اگلے 20سال تک مسلسل 3.5فیصد کی شرح سے آگے بڑھتی رہے، جیسے کہ یہ 1990کی دہائی میں تھی ، تو بطور ریزرو کرنسی ڈالر پر سرمایہ کاروں کا اعتماد اور جذبات کا جھکاؤ بحال ہوجائے گا۔
مگر آج کے بعض اہم اختلافات ایسی کسی بھی امید کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ امریکہ 1990کی دہائی میں اس سے کہیں کم حکومتی قرضوں کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا جتنے کہ مستقبل میں اس کے ذمے ہوں گے۔ 1990میں،جی ڈی پی پر عوامی قرضوں کی شرح 42فیصد تھی، جبکہ سی او بی کے حالیہ اندازوں کے مطابق 2020تک یہ شرح سو فیصد تک پہنچ جائے گی۔ دو دہائیاں قبل امریکہ کی بیرون ملک حالت بھی بہت کم خطرے سے دوچار تھی۔
مثال کے طور پر، 1990میں، امریکی حکومت کے قرض کی غیر ملکی ہولڈنگز 19 فیصد کی سطح پر تھیں، آج وہ 50 فیصد کے قریب ہیں، اور ان میں سے زیادہ تر چین کے ہاتھوں میں ہیں۔ 1990کی دہائی میں،امریکہ اس تاریخ سے بھی نمایاں طور پر دُور تھا، جس پر اسے استحقاق رکھنے والوں کی ادائیگیوں کی قیمت ادا کرنا ہوگی۔اور پھر امریکہ کا مشکلات میں گھرا درمیانے درجے کا طبقہ ہے۔
گذشتہ 20برسوں کے دوران جمود کی شکار محدود آمدنی جیسے کئی اضافی امراض مورچہ بند اور بے لگام ہوچکے ہیں، جنہوں نے امریکہ کے متوسط طبقہ کو نچوڑ کررکھ دیا ہے۔حتیٰ کہ 3.5فیصد شرح نمو بھی،جو موجودہ توقعات سے کہیں زیادہ ہوگی، وہ بھی شاید امریکی ماڈل پر اعتماد برقرار رکھنے کے لیے کافی نہ ہو، جو کہ بہت سے لوگوں کے لیے بہتر مستقبل کی اُمید پر انحصار کرتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں، امریکہ اعدادوشمار کی اس بے رحم منطق اور حقیقت سے بچ نہیں سکتا کہ غریب ممالک، خاص طور پر چین اس کے برابر پہنچ رہے ہیں۔چین جو امریکہ کی نسبت چار گنا زیادہ آبادی رکھتا ہے،جیسے ہی اس کا اوسط معیار زندگی (فی کس جی ڈی پی کے اعتبار سے شمار کیا گیا) امریکہ کے اوسط معیار زندگی کے ایک چوتھائی سے زیادہ ہوگیا، چین ایک بہت بڑی معاشی قوت بن جائے گا۔
بعض اندازوں کے مطابق، جن میں میرا اندازہ بھی شامل ہے، ایسا پہلے ہی ہوچکا ہے، اور جب چین ترقی کرنا جاری رکھے گا تو یہ فاصلہ مزید بڑھتا جائے گا۔ایک نئے سرے سے منظم ہونے والا امریکہ شاید اس عمل کی رفتار کم کرنے کے قابل ہوسکے، مگر پھر بھی وہ اسے ختم نہیں کرسکتا۔اگلے 20برسوں کے دوران 2.5فیصد کے بجائے 3.5فیصد کی شرح سے ترقی کرنا شاید امریکہ کی معاشی کارکردگی ،معاشی استحکام اور قومی موڈ کو بہتر کر دے۔
لیکن وہ چین کے مقابلے میں اس کی حالت میں خاص تبدیلی رونما نہیں کرسکے گا، جو ،کہہ لیجئے، سات فیصد شرح ترقی رکھتا ہوگا۔ 
یہ اندازے اس غالب اعتقاد کو زائل کرتے ہیں کہ امریکہ کی معاشی برتری کو صرف وہ خود ہی کھو سکتا ہے۔ یہ چین کے اقدامات ہیں جو بڑے پیمانے پریہ طے کریں گے کہ کیا چین اور امریکہ کی شرح ترقی کے درمیان فرق معمولی ہے یا بہت بڑا۔
چین یکسر چیزیں خراب کرسکتا ہے، مثال کے طور پر، اگریہ اثاثوں کے بلبلوں کو بننے دینے کی اجازت دے دیتا ہے یا پھریہ سیاسی انقلابات کو روکنے میں ناکام رہتا ہے۔اور یا پھر یہ موجودہ معاشی خرابیوں کو درست کرکے تیزی سے آگے بڑھ سکتا ہے،خاص طور پر اگر یہ برآمدات کی زیادتی پرمبنی شرح نمو کی حکمت عملی کو چھوڑ کر ایسی حکمت عملی کی طرف رُخ کرلے جواندرون ملک طلب کو پورا کرسکے۔
امریکہ کے پاس اقدامات کی استطاعت بہت محدود ہے۔ اگر امریکہ کے نمایاں طور پر 2.0سے 2.5 فیصد کی سُست شرح سے ترقی کے امکانات نہیں ہیں تو پھر اس بات کا اوربھی امکان نہیں کہ یہ 3.5فیصدکی تیز شرح سے ترقی کرے گا۔ یہ اقتصادی ترقی کی سرحد پر ہونے کی سزا ہے… ڈاؤن سائیڈز اور اپ سائیڈز، دونوں ہی طرح کے امکانات محدود ہیں۔
 بالفرض اگر امریکہ تیز رفتار سے بھی ترقی کرتا ہے…کہہ لیجئے 3.5فیصد کی شرح سے…تو دوسرے ممالک، جیسے کہ چین بھی زیادہ تیزی سے ترقی کریں گے، جس سے ان کی معاشی طاقت کی بنیادی تصویر میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔
درحقیقت، جب امریکہ جیسے سرکردہ مالک میں ٹیکنالوجی پر مبنی نئی اختراعات کی رفتار تیز ہوتی ہے، تو نئی ٹیکنالوجی بہت جلد غریب ممالک میں بھی دستیاب ہوجاتی ہے، جو، ان کی ترقی کو بھی تحریک فراہم کردیتی ہے۔نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کے مطابق،2006میں، چین میں امریکہ کی نسبت دوگنا زیادہ سائنس و انجینئرنگ کے انڈرگریجویٹس تھے۔یہ فرق لگتا ہے کہ بڑھتا ہی رہے گا۔
امریکہ کے مقابلے میں کہیں بُرا تعلیمی نظام ہونے کے باوجود،یوں لگتا ہے کہ چین نئی ٹیکنالوی کو اپنانے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔2002میں، امریکہ میں چین کے مقابلے میں ماہرین کے تجزئیوں پر مبنی چھ گنا زیادہ سائنسی مطبوعات تھیں…اور 2008میں یہ صرف 2.5(ڈھائی)گنا زیادہ رہ گئیں تھیں۔ امیر ملکوں کے ترقی کے اعتبار سے آگے رہنے کی اہلیت وراثتی طور پر محدود ہے، کیونکہ چین نئی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے اور اپنانے کے لیے زیادہ اہلیت رکھتا ہے۔
چین کی تکنیکی نفاست بڑھ رہی ہے… امریکہ، یورپ اور جاپان ایسی بہت کم مصنوعات برآمد کرتے ہیں جو چین بھی برآمد نہیں کرتا۔ زیادہ واضح طور پر بات کریں تو، اگر امریکہ میں ترقی کی رفتار سُست رہتی ہے تو چین کی ترقی کی رفتار کو زیادہ فرق نہیں پڑے گا، لیکن اگر یہ رفتار تیز ہوتی ہے تو چین کی ترقی کی رفتار بھی تیز ہوجائے گی۔ دونوں صورتوں میں، امریکہ آگے نہیں نکل سکتا۔
سوئز بحران کی طرف واپسی
یہاں تک کہ نئے سرے سے منظم ہونے والا امریکہ بھی اُبھرتے ہوئے چین پر طاقت اور غلبے کا استعمال نہیں کر سکتا۔چین پہلے ہی وہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے، جو باقی دنیا نہیں چاہتی کہ وہ کرے۔عین ممکن ہے کہ وہ عنقریب امریکہ سے وہ کروانے میں کامیاب ہوجائے جو وہ نہیں کرنا چاہتا۔ توکیا ایک اور سویز بحران کا امکان ہے؟
1956میں،مصر کی طرف سے نہر سوئز کی ناکہ بندی کردینے سے حقیقی دباؤ کا شکار ہوکر برطانیہ نے امریکہ سے دو طرفہ ”خاص تعلقات“کا حوالہ دیتے ہوئے معاشی مدد طلب کی تھی۔
مگر امریکی صدر ڈوائٹ آئزن ہاور نے مدد سے انکار کر دیا تھا۔ وہ اس بات پر غصے میں تھے کہ برطانیہ (اور فرانسیسیوں نے) مصر پر اس وقت حملہ کیا تھا جب مصر کے صدر جمال عبدالناصر، جنہوں نے جزیرہ نما کوریا پر لڑائی ختم کروائی تھی، اور انھوں نے امن پسند شخص کے طور پر نئے انتخابات کے لیے مہم چلاتے ہوئے نہر سوئز کو نیشنلائز(قومیانے) کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
انھوں نے مطالبہ کیا کہ برطانیہ، امریکہ کی طرف سے سپانسر کی گئی اقوام متحدہ کی قرارداد پر عمل کرے جو برطانوی فوج کی فوری اور غیرمشروط واپسی کا مطالبہ کرتی تھی۔ اور اگر اس نے ایسا نہ کیا، تو امریکہ ،برطانیہ کی آئی ایم ایف کے وسائل تک رسائی بند کردے گا۔ لیکن اگر اُس نے ایسا ہی کیا، تو اسے اچھی خاصی مالی مدد مل جائے گی۔ برطانیہ اس پر راضی ہوگیا، اور امریکہ نے اس کی ایک بہت بڑے اقتصادی پیکج کے ذریعے مدد کی، جس میں 1.3 ملین ڈالر پر مشتمل آئی ایم ایف کی طرف سے بے مثال قرض اور اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ایکسپورٹ۔
امپورٹ بینک کی طرف سے 5سو ملین ڈالر کا قرض بھی شامل تھا۔
 اب ذرا کچھ ہی دیر بعد کے مستقبل کا تصور کریں، جس میں امریکہ 2008/10کے بحران کے بعد خود کو سنبھال چکا ہے مگر اسے تعمیراتی مسائل درپیش ہیں…جیسے کہ معاوضوں کے درمیان وسیع ہوتے فاصلے، نچڑا گیا متوسط طبقہ، کم معاشی و سماجی نقل و حرکت ۔ اس کا اقتصادی نظام اب بھی ویسا ہی کمزور ہے جیسا کہ بحران سے پہلے تھا۔
اور حکومت کو ابھی حق خواہوں کو ادائیگیوں کی بڑھتی ہوئی رقم اور مالیاتی نظام میں بے کار اثاثوں کے ڈھیر کو قابو کرنے کے لیے اقدامات کرنا ہیں۔ افراط زر ایک بڑا عالمی مسئلہ ہے کیونکہ اُبھرتی ہوئی مارکیٹوں کی تیزی سے ترقی کے نتیجے میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ چین کے پاس ایسی معیشت اور تجارت ہے جس کا بہاؤ امریکہ سے دوگنا زیادہ ہے۔
ڈالر نے اپنی چمک کھودی ہے، اور ایک ریزرو کرنسی کے طور پر یوآن کی قدرو قیمت بڑھ رہی ہے۔
 بہت زیادہ 1956کی طرح، جب واشنگٹن پر ،برطانوی حکومت کو نہر سوئز سے فوجیں نکالنے پر مجبور کرنے کے لیے نیویارک میں پاؤنڈ سٹرلنگ کی بڑے پیمانے پر فروخت کی سازش کا شبہ کیا گیا تھا، اسی طرح افواہیں ہیں کہ چین بھی اپنی اقتصادی قوت کو استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔
کیونکہ بحر اوقیانوس میں امریکی بحریہ کی موجودگی سے اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہا ہے۔ اب اگر بیجنگ اپنے کرنسی کے ذخائر میں سے کچھ کی فروخت شروع کردیتا ہے۔ اور سرمایہ کار اس خوف سے بھڑک اُٹھتے ہیں کہ ڈالر کا ریٹ گر سکتا ہے، اور بانڈ مارکیٹ امریکی گورنمنٹ پیپر کی طرف رُخ کرلیتی ہے۔ یوں امریکہ جلد ہی اپنی ٹرپل اے کریڈٹ ریٹنگ کھو دیتا ہے۔
امریکی ٹریژری بانڈز کی نیلامی میں کوئی خریدار نہیں ملتا۔ اعتماد برقرار رکھنے کے لئے، امریکی فیڈرل ریزرو تیزی سے سود کی شرح کو بڑھاتاہے۔ زیادہ دیر گزرنے سے پہلے، سود کی شرح واضح طور پر ، ترقی کی شرح سے تجاوز کرجاتی ہے، اور امریکہ کو فوری طور پر سستی سرمایہ کاری کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ تیل برآمد کنندگان کی طرف رُخ کرتا ہے، لیکن زمانہ قدیم کے ان دوست آمروں کی جگہ اب مختلف اسلامی مسلکوں سے تعلق رکھنے والے غیرمعتدل ڈیموکریٹس لے چکے ہیں، اور وہ سب مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی مداخلت کی طویل یادیں رکھتے ہیں۔
یونان، آئر لینڈ، اور حال ہی میں پرتگال کی طرح، آئی ایم ایف سے مدد کا حصول ناگزیر ہوجاتاہے… چنانچہ اس صورت حال میں امریکہ کی قرضوں کی نادہندگی، اس کا بچا کچا عالمی کردار بچانے کی کوششوں کے لیے بے حد نقصان دہ ثابت ہوگی۔ 
لیکن اس وقت تک،چین جو پہلے ہی سال 2000سے دنیا کا سب سے بڑا بینکر ہے،خزانے کی کنجی پر اس کا قبضہ ہوتا ہے۔اس کے باوجود بھی، خیال کیا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکج ضروری ہے،اور وہ پہلے ایک شرط عائد کرتا ہے…یعنی مغربی بحرالکاہل سے امریکی بحری فوجوں کی واپسی۔
درخواست کی منظوری مشروط ہوتی ہے کیونکہ آئی ایم ایف کے سب سے بڑے حصہ دار اور اس کے زیادہ تر ارکان کے محسن ہونے کے ناطے، چین باآسانی امریکہ کی سرمایہ کے حصول کی درخواست کا راستہ روک سکتا ہے۔ اُس وقت تک ہوسکتا ہے چین کو 2018میں متوقع انتظامی اصلاحات کی بدولت ویٹو کا حق بھی مل چکا ہو۔
بعض لوگ کہیں گے کہ یہ سارا منظرنامہ محض خواب و خیال ہے۔
بہرحال1956میں امریکہ ، آسانی سے برطانوی سرمایہ کاری کو روک سکتا تھا کیونکہ ایسا کرنے سے امریکی معیشت یا ڈالرکے لیے کوئی سنجیدہ خطرات نہیں تھے۔ لیکن اگر کل، چین امریکی ٹریژری بانڈز فروخت کردے یا اُنھیں خریدنا بند کردے، تو ڈالر کی قدر گرنا شروع ہوجائے گی اور یوآن اس کی قدردانی کرے گا…یعنی وہ صورت حال جس سے بچنے کے لیے اب تک چین پوری ثابت قدمی سے کوشش کررہا ہے۔
چین اپنی تجارتی نظام پر مبنی ترقیاتی حکمت عملی کو اچانک کمزور اور اپنے زرمبادلہ کے ذخائر میں سرمایہ کا بڑا نقصان نہیں کرنا چاہتا۔ کچھ دوسرے لوگ شاید یہ کہیں کہ اگر چین ایسا کرنے پر تیار بھی ہو، تب بھی اگر امریکی معیشت دباؤ میں آتی ہے، تو فیڈرل ریزرو غالباً چین کی طرف سے پھینکے گئے امریکی ٹریژری بانڈز کو خریدنے میں بہت خوشی محسوس کرے گا۔
 
لیکن یہ سب خیالات اس وقت رخصت ہوجاتے ہیں جب یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مستقبل میں چین کو ملنے والے فوائد بہت مختلف ہونگے۔ دس سال بعد،چین شاید یوآن کو کمزور رکھنے پر بہت کم آمادہ ہوگا۔ اگر وہ آہستگی سے اپنی کرنسی کو بین الاقوامی بنانا جاری رکھتا ہے،تو یوآن کو کمزور رکھنے کی اس کی صلاحیت اور ایسا کرنے کے لیے اس کی خواہش بھی جلد ہی ختم ہوجائے گی۔
اور جب وہ ایسا کرے گا، تو امریکہ پر چین کی طاقت واضح ہوجائے گی۔1956میں، برطانوی سرمایہ کار عوامی اور نجی شعبوں میں منتشر تھے۔ لیکن چینی حکومت امریکہ کو سب زیادہ سرمایہ فراہم کرتی ہے…اس نے بہت سے امریکی ٹریژری بانڈ خرید رکھے ہیں اور امریکی مالیاتی خسارے کے لیے سرمایہ فراہم کرتی ہے۔ امریکہ کے شےئرز پرقرضوں کی شرح بیجنگ کے ہاتھوں میں ہے۔
بلاشبہ اس فرضی مستقبل میں،ڈالر کا ڈی ویلیو ہوناامریکہ کے لیے اس سے کم تکلیف دہ ہوگا جتنا کہ1956 میں پاؤنڈ سٹرلنگ کو کمزور کرنابرطانیہ کے لئے تھا۔اس وقت،پاؤنڈ سٹرلنگ کا ڈی ویلیو ہونا برطانیہ کی سابق کالونیوں کی کرنسیوں کو سخت نقصان پہنچاتا ، جو پاؤنڈ سٹرلنگ پر مبنی بڑے اثاثے رکھتی تھیں۔یہ کالونیاں اپنے پاؤنڈ سٹرلنگ پر مبنی اثاثے بیچ دیتیں اور اس طرح ان کے برطانیہ کے ساتھ اقتصادی رابطے کمزور پڑ جاتے۔
برطانوی سلطنت کی رہی سہی ساکھ کو قائم رکھنے کے لیے لندن میں قائم اس وقت کی برطانوی حکومت کے لیے اس عمل سے بچنا ضروری تھا۔ ڈالر کا ڈی ویلیو ہونا اس لیے کم مسائل کا باعث ہوگا کیونکہ امریکہ کے تمام غیرملکی قرضے ڈالرز میں ہی واجب الادا ہیں۔ 
 ہوسکتا ہے آج سوئز بحران کا دوبارہ واقع ہونا ناممکن لگے،لیکن چین کی ناقابل تردید برتری کا سامنا کرتے ہوئے امریکہ کی موجودہ اقتصادی صورت حال نے ملک کو بنیادی طور پر کمزور کردیا ہے۔
سوئز بحران کے دوران برطانیہ کی حالت کمزور تھی نہ صرف اس لیے کہ وہ قرضوں کے بوجھ تلے دبا تھا اور اس کی معیشت کمزور ہورہی تھی بلکہ اس لیے بھی کہ ایک اور عظیم معاشی طاقت اُبھر کر سامنے آچکی تھی۔آج ، جب کہ امریکہ کی معیشت کا ڈھانچہ کمزور پڑچکا ہے،اس کی قرضوں کی لت نے ملک کو غیرممالک پر انحصار کرنے والا بنادیا ہے،اور اس کے ترقی کے امکانات بہت کم ہیں… اس کا بھی ایک مضبوط حریف اُبھر کرسامنے آچکا ہے۔
چین شاید زیادہ مخالف نہ لگتا ہو، مگر وہ اتحادی بھی نہیں ہے۔1971میں میکملن کی پیش گوئی کہ، ”200سال میں“ امریکہ شاید زوال کا شکار ہوجائے، تاریخ کی ایک پُرفریب میکانکی تشریح تھی…اس نے امریکہ کے پائیدار غلبہ کی پیش گوئی کی تھی، بالکل ویسے ہی غلبہ کی جیسا اس کے اپنے ملک کو حاصل رہا تھا۔ لیکن چین تاریخ کی روایات کے عمل کو تیز کرسکتا ہے…اور میکملن کے اندازے سے یا جتنا آج لوگ تصور کرتے ہیں اس سے بھی کہیں جلدی امریکہ کو زوال سے دوچار کرسکتا ہے۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط