Episode 47 - Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 47 - عالمی شہرت یافتہ تحریروں کا انسائیکلوپیڈیا - ندیم منظور سلہری

غیر ذمہ دار شراکت دار؟اُبھرتی ہوئی قوتوں کو یکجا کرنے میں درپیش مشکلات(سٹیورٹ پیٹرک)
(سٹیورٹ پیٹرک ، کونسل آن فارن ریلیشنز میں سینئر فیلو اور پروگرام آن انٹرنیشنل انسٹی ٹیوشنز اینڈ گلوبل گورننس کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کتاب ”The Best Laid Plans: The Origins of American Multilateralism and the Dawn of the Cold War.“ کے مصنف بھی ہیں)
آنے والے عشروں میں امریکہ کے لئے ایک اہم سٹریٹجک چیلنج بین الاقوامی اداروں میں اُبھرتی ہوئی طاقتوں کو یکجا کرنا ہوگا ۔
برازیل ، چین، اور بھارت کی ڈرامائی ترقی اور اسی طرح انڈونیشیا اور ترکی جیسی اوسط درجے کی معیشتوں کے اُبھر کر سامنے آنے سے ،سیاسی و جغرافیائی ماحول تبدیل ہورہا ہے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد لبرل آرڈر کے تحت کام کرنے والے اداروں کی بنیادوں کو امتحان کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

اوباما انتظامیہ اُبھرتی ہوئی طاقتوں کے ساتھ یہ سوچ کر ترقیاتی تعاون پر مبنی تعلقات کو فروغ دینا چاہتی ہے کہ عالمی معاملات میں حصّہ رکھنے والے ممالک ذمہ دار عالمی ملک بن جائیں گے۔

مگر امریکہ کو اُبھرتی ہوئی اقوام کے ساتھ تعلقات بڑھاتے ہوئے کسی قسم کے فریب نظر کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ ہوسکتا ہے اُبھرتی ہوئی طاقتیں عالمی سطح پر زیادہ سے زیادہ اثر و رسوخ چاہتی ہوں،مگر وہ پہلے سے چلے آرہے مغرب کے لبرل آرڈر کے سیاسی و معاشی قوانین کی مخالفت کرتی ہیں،موجودہ کثیر ملکی نظام کو تبدیل کرنے کی راہ تلاش کرتی ہیں، اور اہم عالمی ذمہ داریاں سنبھالنے سے دُور رہنا چاہتی ہیں۔
اگلے دس برسوں تک اور اس کے بعد بھی، امریکہ کو عالمی نظام حکومت کے نئے ڈھانچے میں مغرب کے اُس لبرل آرڈر کاتحفظ کرتے ہوئے جس کی تخلیق اور دفاع میں اُس نے بھرپورمدد کی ہے ، نئی طاقتوں کے لیے جگہ بنانی ہوگی۔ دُنیا ایک بے ہنگم دور میں داخل ہونے جارہی ہے۔ عالمی نظرئیات ٹکرائیں گے،روایات تبدیل ہوں گی اور گزرے ہوئے کل میں قوانین پر عمل کرنے والے، آنے والے کل میں قانون بنانے والے بن جائیں گے۔
امریکہ کو عملی اور نفسیاتی دونوں طرح کی ایڈجسٹمنٹ کرنا پڑیں گی۔ امریکی حکام کو کثیرملکی تعاون کے بارے میں اپنی خواہشات کی ترجیحات دوبارہ طے کرنا ہونگی اور ساتھ ہی ایک عرصہ سے چلے آرہے دنیا میں امریکہ کے کردار کے تصور کا بھی دوبارہ تجزئیہ کرنا ہوگا۔ 
اوباما کے عزائم کا تجزئیہ
اُبھرتی ہوئی عالمی قوتوں کے حوالے سے امریکی صدر باراک اوباما کی حکمت عملی سابق صدر جارج ڈبلیو بش کی پالیسی کا تسلسل ہے، جو بین الاقوامی نظام میں ایک ”ذمہ دار حصّہ دار “بننے کے لئے چین کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔
بش انتظامیہ نے چین پر زور دیا تھا کہ وہ اپنی کاروباری پالیسیوں کو ترک کرکے، عالمی سطح پر رائج معیاری رویے کو اپنائے اور نئی علاقائی اور عالمی ذمہ داریوں کو قبول کرے۔نیزشمالی کوریا پر زور دے کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کو ترک کردے۔
 اوباما نے ”ذمہ دار سٹیک ہولڈر(حصّہ دار)“ کے اس اصول کو عالمی اداروں کی اصلاحات کے وسیع تر ایجنڈے سے منسلک کرکے تمام اُبھرتی ہوئی اقوام تک پھیلا دیا ہے۔
مئی 2010 کی قومی سلامتی کی حکمت عملی،اُبھرتی ہوئی طاقتوں کو اُصولوں سے بندھے ورلڈ آرڈر میں بین الاقوامی نظام کے ستون کے طور پریکجا کرنے کا تصور پیش کرتی ہے۔ اس پالیسی کی دستاویز کے مندرجات حیران کردینے والے ہیں…جیسے کہ اس میں کہا گیا ہے کہ،”باہم منسلک دنیا میں طاقت اب کوئی سیدھا سادہ کھیل نہیں ہے۔“ ماضی میں حکومت کا کام طاقت کے توازن کو منظّم کرنا تھا،آج اس کا کام عالمی سطح پر ایک دوسرے پر انحصار کو منظّم کرنا ہے۔
جیسا کہ یہ دستاویز کہتی ہے، امریکہ اگرچہ ”عالمی سیکورٹی کے قیام“ اور بین الاقوامی اداروں کو بہتر بنانے کے لیے مصروف عمل رہتا ہے،مگر وہ تنہا یہ کام نہیں کرسکتا۔ پالیسی دستاویز زور دیتی ہے کہ،”نئی اور اُبھرتی ہوئی عالمی طاقتوں کو ،جو زیادہ سے زیادہ نمائندگی اور نمایاں مقام حاصل کرنا چاہتی ہیں،عالمی چیلنجز سے نپٹنے میں زیادہ بڑی ذمہ داریاں اُٹھانا ہوں گی۔
“ 
یہاں تعریف کے لیے بہت کچھ ہے۔ عملی طور پر،آج کے بین الاقوامی مسائل میں سے کسی بھی مسئلہ کو محض مغرب کے نمائندوں کے ساتھ ایک کانفرنس روم میں حل نہیں کیا جا سکتا ۔ پیچیدہ مسائل…توانائی کے عدم تحفظ سے مالی عدم استحکام تک ، ماحولیاتی تبدیلی ، دہشت گردی، اور متعدی امراض جیسے مسائل کے لئے…تمام مستحکم اور اُبھرتی ہوئی طاقتوں کی طرف سے ایک جیسی کوششوں کی ضرورت ہے۔
اس بارے میں ایک بہت طاقتور جغرافیائی و سیاسی منطق بھی ہے۔ تاریخی اعتبار سے ، طاقت کی منتقلی کا عمل ہمیشہ خطرے سے بھرا رہا ہے۔پہلے سے طاقت رکھنے والی ریاستیں نئی اُبھرنے والی طاقتوں کو حصّہ دینے میں مزاحمت کرتی ہیں۔ آج کے عالمی نظام میں اُبھرتی ہوئی طاقتوں کو زیادہ حصّہ دیکر ، اوباما انتظامیہ موجودہ نظام کی قانونی حیثیت میں اضافے اور رائج لبرل اقدار پر حملوں کی حوصلہ شکنی کی اُمید کررہی ہے۔
قومی سلامتی کی پالیسی کے مرکز میں لنڈن جانسن کا قانون کارفرما ہے۔ جیسا کہ جانسن نے ایک بار ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جے۔ایڈگر ہوور کے بارے میں کہا تھا…تیکھی زبان میں ہی سہی…مشکل کھلاڑیوں کو خیمہ کے اندر لانا بہتر ہے،بجائے اس کے کہ اُنھیں باہر چھوڑ دیا جائے، جہاں وہ فساد برپا کرسکتے ہیں۔ایک باہم مسابقتی،یا کثیر قوتوں پر مبنی دنیا کے تصور کو مسترد کرتے ہوئے ،امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن نے ”کثیر شراکت داروں“ کے نظرئیہ کو آگے بڑھایا ہے، جس میں بڑی طاقتیں(اور ان کے ساتھ ساتھ غیرریاستی ادارے بھی) عالمی امن،استحکام اور خوشحالی میں اپنے مشترکہ مفاد کے لیے تعاون کرتے ہیں۔
اوباما انتظامیہ نے برازیل ، چین ، بھارت ، انڈونیشیا ، روس ، جنوبی افریقہ ، اور ترکی سمیت دنیا کی اہم غیر مغربی طاقتوں کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات کا آغاز کیا ہے۔
مگر اس کے باوجود برازیل اور ترکی نے گذشتہ موسم بہار میں اس طرح کا طرز عمل اختیار کیا، جس سے واضح ہوگیا کہ اوباما انتظامیہ کی کوششیں کیوں ہنگامہ خیز ثابت ہوں گی۔ دونوں ممالک کے رہنماؤں نے اچانک ایران کے ایٹمی عزائم پر طویل عرصے سے جاری مذاکرات میں خود کو گھُسا لیا،اور درمیانی رابطے کا کردار ادا کرتے ہوئے ایران کی یورینیم افزودگی کی اُن سرگرمیوں پر معاہدہ کرانے کی کوشش کی، جن سے ایران کو بیرون ملک کمتر درجے پر یورینیم کی افزودگی کا عمل انجام دینے کی اجازت مل جاتی۔
واشنگٹن،پیرس اور لندن میں تمام سیاسی حلقوں نے اسے ناپختہ اور نامناسب وقت پر کیا جانے والا اقدام قرار دیا۔ اگرچہ برازیل اور ترکی کی یہ چال اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی طرف سے ایران کے خلاف کارروائی روکنے میں ناکام رہی ہے، تاہم برازیل اور ترکی نے ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنے کے خلاف ووٹ دیکر امریکہ اور اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے دیگر مستقل ارکان سے انحراف کیا ہے۔
اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ نئی طاقتوں کو ذمہ دار شراکت داروں کے طور پر یکجا کرنا اس سے کہیں زیادہ مشکل ثابت ہوگا جتنا کہ اوباما انتظامیہ تصور کرتی ہے۔
کثیر جہتی الحاق کے بغیر کئی قوتوں کا مضبوط ہوجانا
دنیا، وائٹ ہاؤس کے تصور سے کہیں زیادہ ڈگمگاہٹ کا شکار ہے۔ عالمی سطح پر ایک دوسرے پر انحصار بڑھ رہا ہے،لیکن بنیادی مفادات کا ٹکراؤ اب بھی جاری ہے اور اسٹریٹجک دشمنیاں اب بھی برقرار ہیں۔
اوباما انتظامیہ امریکہ کی برتری کے زوال کو تحمل سے برداشت کرتی نظر آتی ہے،یہ توقع کرتے ہوئے کہ مشترکہ قومی مفادات اور باہمی سلامتی کے مسائل، مستحکم اور اُبھرتی ہوئی طاقتوں کو مشترکہ مقاصد …جیسے کہ ایٹمی پھیلاؤ میں ملوث ہونے والوں کی گرفتاری،موسمیاتی تبدیلیوں سے نپٹنا،دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ایک آزاد،لبرل عالمی نظام معیشت کا تحفظ…حاصل کرنے کے لیے ملکر کام کرنے پر آمادہ کردیں گے۔
مگر اس نے نادیدہ طور پر ایک سیاہ منظرنامہ چھوڑا ہے…وہ یہ کہ اگر نیا عالمی آرڈر ہمیں کثیرجہتی تعاون پیدا کیے بغیر کئی طاقتوں پر مشتمل نظام کے عہد کی طرف لے گیا تو پھر کیا ہوگا؟
توازن کے اعتبار سے، طاقت کا پھیلاؤ مستحکم اور اُبھرتی ہوئی طاقتوں کے درمیان ،اور خود مختلف اُبھرتی ہوئی ریاستوں کے درمیان بھی اسٹریٹجک دشمنی کو مزید بڑھائے گا۔
دنیا کے بڑے ممالک،بہرحال، ایک سے زیادہ کھیل کھیل رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے وہ شاید معاشی اصلاحات یا انسداد دہشت گردی کے معاملات پر باہم تعاون کریں مگر ساتھ ہی وہ مارکیٹ شیئر ، اسٹریٹجک وسائل ، سیاسی اثر و رسوخ ، اور فوجی فائدہ کے لئے بھرپور طریقے سے مقابلے پر بھی آ سکتے ہیں۔ امریکہ کے لیے سوال یہ ہے کہ شراکت اور دشمنی دونوں طرح کے عناصر رکھنے والی اُبھرتی ہوئی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو کیسے منظّم کرنا ہے۔
امریکہ اور چین کے تعلقات پر غور کرلیں۔ اوباما انتظامیہ مشرقی ایشیاء میں چین کے عزائم کے بارے میں ”اسٹریٹجک یقین دہانی“ حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے…یعنی چین کی طرف سے یہ اشارہ کہ وہ اپنے ہمسایہ ممالک کی سلامتی خطرے میں نہیں ڈالے گا،اور اپنے عالمی کردار میں اضافے کے ساتھ امریکہ کے موجودہ اتحاد کو چیلنج نہیں کرے گا۔اگرچہ چین کے لیے ایسی معاشی ترغیبات ہیں کہ وہ اپنی کشتی کو مستقبل قریب میں چٹان سے ٹکرانا نہیں چاہے گا، مگر امریکہ اور چین کے طویل مدتی مقاصد شاید بہت کم ایک جیسے ہونگے۔
امریکہ مشرقی ایشیاء میں مستحکم طاقت کا توازن چاہتا ہے، ایک ایسے خطے میں جہاں چین غلبہ حاصل کرنے کا خواہش مند ہے۔ امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ چین کثیرالوجود جمہوریت بن جائے، یہ ایک ایسی بات ہے جس کی چین کی کمیونسٹ جماعت شدید مخالفت کرتی ہے۔
اُبھرتی ہوئی طاقتوں کے درمیان آپس کی دشمنی بھی کثیر جہتی تعاون کو پیچیدہ بناسکتی ہے۔
یہ بات چین اور بھارت کے درمیان تعلقات میں سب سے واضح ہے، جن کے درمیان 2ہزار میل پر پھیلی ہوئی متنازعہ سرحد موجود ہے۔دونوں ملک علاقائی اثرورسوخ کے لیے باہم مقابل ہیں،اور اپنی اپنی فوجی صلاحیتوں میں تبدیلی کے حوالے سے بے انتہا حساس ہیں۔ چین کی طرف سے ہندوستان کے ہمسایہ ملک(پاکستان) کی ”معاونت“ نئی دہلی کی حکومت کو اسٹریٹجک گھیراؤ کے خوف میں مبتلا کررہی ہے اور دونوں اُبھرتی ہوئی طاقتوں کے درمیان بحیرہٴ ہند میں بحری مقابلہ بازی بڑھتی جارہی ہے۔
حتمی طور پر، حتیٰ کہ اُن معاملات پر بھی جن کے بارے میں مستحکم اور اُبھرتی ہوئی طاقتوں کے بنیادی مفادات ایک جیسے ہیں…جیسے کہ دہشت گردی ، ماحولیاتی تبدیلی ، ایٹمی پھیلاوٴ ، یا عالمی مالیاتی استحکام… وہاں بھی ان ریاستوں کی ترجیحات شاید مختلف ہونگی۔ شمالی کوریااس کی واضح ترین مثال ہے۔ امریکہ اور چین دونوں ہی شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
مگر جہاں امریکہ اس مقصد کو انتہائی اہمیت کا حامل تصور کرتا ہے، وہاں چین پیانگ یانگ کے ساتھ قریبی تعلقات کے تحفظ کو سب سے بڑھ کر چاہتا ہے ۔ وہ اپنی سرحد کے نزدیک ایک ناکام ریاست کی وجہ سے پھیلنے والی انارکی سے خوفزدہ ہے۔ اور وہ اس کے بجائے سٹیٹس کو کو برقرار رکھے گا، اور پھر کوریائی جزیرہ نما کو ایک جمہوری حکومت کے تحت دوبارہ متحد ہوتے دیکھنا چا ہے گا،جو ممکن ہے کہ چین کے مفادات کے خلاف ہی ثابت ہو۔
چین کے ذہن میں یہی خدشات تھے جب اُس نے جولائی میں، اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قرارداد میں، جو اس برس کے اوائل میں جنوبی کوریا کی بحری کشتی کے ڈوبنے سے متعلق تھی ، اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ اس کا نتیجہ محض ایک گرما گرم مذمت سے بڑھ کر نہ ہو،اور واضح مجرم شمالی کوریا کا نام لیکر اس کی نشاندہی نہ کی جاسکے۔
 سمجھوتہ … دوسری ترجیح ہوسکتا ہے 
عالمی نظام حکومت کے بارے میں اُبھرتی ہوئی غیر مغربی طاقتوں کی سوچ امریکہ کے نقطہٴ نظر سے مطابقت نہیں رکھتی۔
واشنگٹن کے لئے مثالی منظر نامہ یہ ہوگا کہ اُبھرتی ہوئی طاقتیں مغربی اصولوں ، اقدار ، اور قوانین کو اپنالیں،اُسی طرح جیسے یورپی یونین میں شامل ہونے والوں نے اس کے تمام تر قوانین پر مشتمل ضابطہٴ اخلاق کو اپنالیا ہے۔مگر اُبھرتی ہوئی طاقتیں موجودہ قوانین کو مکمل طور پر تسلیم کرنے کے بجائے اُنھیں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔یہ ممالک ذمہ دارانہ خود مختاری کی حدود کی وضاحت کے حوالے سے امریکہ کی بلاشرکت غیرے اتھارٹی کو تسلیم نہیں کرتے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی نظام کو اپنی پسند کے مطابق نئی شکل دینے کے اہل ہیں۔ اُن کے یہ مشترکہ عزائم سالانہ ”برک BRIC سربراہی اجلاس“ میں واضح نظر آئے، جب برازیل ، روس ، بھارت اور چین نے ( دوسری چیزوں کے علاوہ)دنیا کی ریزرو کرنسی کے طور پر ڈالر کے کردار کو چیلنج اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں زیادہ کردار کا مطالبہ کیا۔
 
مستحکم اور اُبھرتی ہوئی طاقتوں کے مابین کشیدگی کی ایک اور اہم وجہ قومی خودمختاری کی حدود سے متعلق ہے۔زیادہ تر اُبھرتی ہوئی عالمی طاقتیں مغربی حلقوں میں عام اس نظرئیے پر پختہ یقین نہیں رکھتیں کہ خودمختاری کا تصور مخصوص حالات میں تبدیل ہوسکتا ہے، اور ایسی ریاستوں کے خلاف عالمی مداخلت جائز ہے جو بہت زیادہ ظلم کا ارتکاب کریں،دہشت گردی پھیلائیں یا بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیار کریں۔
یہ شبہات برازیل، بھارت اور جنوبی افریقہ جیسی جمہوریتوں تک پھیل چکے ہیں، جنہوں نے میانمار(جسے برما کے نام سے بھی جانا جاتا ہے)،سری لنکا، سوڈان اور زمبابوے جیسی جگہوں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے جواب میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے کارروائی کی سخت مخالفت کی ہے۔
مستحکم اور اُبھرتی ہوئی طاقتوں(ریاستوں) میں اصولی اختلافات دیگر معاملات میں بھی پھیلے ہوئے ہیں۔
ایٹمی عدم پھیلاؤ کے مقصدکی کامیابی کا سفر، جس میں جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے میں اضافی شرائط کا معاہدہ بھی شامل ہے، جوہری ہتھیار رکھنے والی اور ایسے ہتھیار نہ رکھنے والی ریاستوں کے درمیان اُن کی ذمہ داریوں کے حوالے سے اختلافات کی وجہ سے ، رُک گیا ہے۔ مثال کے طور پر برازیل،اس بات پر زور دیتا ہے کہ اس سے پہلے وہ اپنی جوہری صلاحیتوں پر اضافی کنٹرول کو قبول کرے، جوہری ہتھیار رکھنے والی تمام ریاستوں کو ایسے ہتھیار تلف کرنے کا اپنا عہد پورا کرنے کی طرف واضح پیش قدمی کرنا ہوگی۔
اسی طرح کے تنازعات معاشی تعلقات میں بھی پائے جاتے ہیں۔ آج کی تمام اُبھرتی ہوئی طاقتیں عالمی نظام حکومت میں زیادہ اہمیت حاصل کرنا چاہتی ہیں، مگر یہ ضروری نہیں کہ وہ عالمی حکمرانی میں زیادہ کردار بھی ادا کرنا چاہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ میں اصلاحات کے ایجنڈے پر ان کے خیالات اس کی ایک مثال ہیں۔جی۔20میں شامل کئی مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ آئی ایم ایف ایک زیادہ نگرانی والا کردار اپنائے اور رکن ممالک کی اقتصادی پالیسیوں،اُن کی ریگولیٹری کی کوششوں اور عالمی معاشی بحران پیدا کرنے کی صورت میں ان ریاستوں سے لاحق خطرات کی نگرانی کرے۔
ان مغربی ممالک کے برعکس، چین، بھارت اور سعودی عرب آئی ایم ایف کے زیادہ اہم کردار کی مخالفت کرتے ہیں، وہ اپنے استحقاق پر کسی بھی اضافی مداخلت کے بغیر تنظیم میں زیادہ ووٹ کا حق چاہتے ہیں۔
اوباما انتظامیہ اکثر اس بات پر زور دیتی ہے کہ بین الاقوامی قوانین، جیسے کہ ایٹمی عدم پھیلاؤ یا تجارت سے متعلق قوانین پر لازماً عملدرآمد ہونا چاہیے۔
اُس کا خیال ہے کہ دنیا کے بڑے ”کھلاڑی“ قدرتی طور پر عالمی سیکورٹی، اقتصادی اور ماحولیاتی چیلنجوں کو اُسی طرح ترجیح دیں گے جیسے امریکہ اُنھیں ترجیح دیتا ہے۔ مگر اُبھرتی ہوئی طاقتیں تمام موجودہ بین الاقوامی قوانین کو قبول نہیں کرتیں ، اور وائٹ ہاؤس نے اس بارے میں بہت کم وضاحت کی ہے کہ اگر کسی معاملے میں ان کی ترجیحات امریکی ترجیحات سے مطابقت نہ رکھتی ہوئیں تو وہ ان طاقتوں کو تعاون پر قائل کرنے کے لیے کیا کرسکتا ہے، یا کرے گا۔
طاقت بغیر ذمہ داری کے!
اُبھرتی ہوئی طاقتیں عام طور پر اپنی ذمہ داریاں اُٹھائے بغیر طاقت سے حاصل ہونے والے فائدوں کے حصول کی طرف مائل ہوتی ہیں۔ وہ مستحکم ریاستوں کی محنت پر ہی مفت کے مزے لینے کو ترجیح دیتی ہیں۔اُن کی یہ سوچ اس بے چینی سے تقویت پاتی ہے کہ بین الاقوامی ذمہ داریوں کو قبول کرنے سے اُن کی ملکی ترقی خطرے میں پڑسکتی ہے۔
اُبھرتے ہوئے ممالک، متصادم شناخت کے ساتھ زور آزما رہے ہوتے ہیں۔ ایک طرف وہ عالمی معاملات میں اہم حیثیت حاصل کرنا چاہتے ہیں، لیکن ساتھ ہی ترقی پذیر ملک کے طور پر ذاتی شناخت کے ساتھ، وہ اپنی سرحدوں کے اندر ہی غربت ختم کرنے کے لیے پُرعزم رہتے ہیں۔ چنانچہ وہ ایسے عالمی اقدامات پر مزاحمت کرتے ہیں جن سے اُن کی اپنی ملکی ترقی میں رکاوٹ پڑسکتی ہو۔
 یہ دوہری شناخت بعض اوقات اُبھرتے ہوئے ممالک کو شمال۔جنوب کی تقسیم کو پاٹنے پر مائل کرتی ہے۔ مگر یہ اُنھیں عالمی عزائم اور دیگر ترقی پذیر ممالک کے ساتھ یکجہتی کے درمیان معلق بھی کرسکتی ہے۔ اوباما انتظامیہ نے اُبھرتی ہوئی طاقتوں کے جی۔20کے اندر ترقی یافتہ ممالک کے طور پر دوغلے پن پر تیکھے انداز میں آواز اُٹھائی ہے تاکہ دوسرے فورمز میں ترقی پذیر ممالک کی طویل عرصہ سے چلی آرہی شکایات کی طرف توجہ دلائی جاسکے۔
اُبھرتی ہوئی طاقتوں میں بعض ممالک سب سے نمایاں ترقی پذیر ممالک کے بلاک کے سرغنہ ہیں۔ مثال کے طور پر،برازیل،بھارت،انڈونیشیااور جنوبی افریقہ،یہ سب گروپ آف 77(جی۔77) کے لیڈرز ہیں، اور موخرالذکر تینوں ممالک غیر وابستہ تحریک کے رکن بھی ہیں…اور یہ دونوں گروپ ہی شمال اور جنوب کے درمیان نظرئیاتی تقسیم کو مضبوط کرتے ہوئے کثیر ملکی تعاون کو روکتے ہیں۔
امریکہ کے ساتھ مضبوط دو طرفہ تعلقات کے باوجود یہ اُبھرتی ہوئی طاقتیں… گیلری کے لئے کھیلنے، اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ، انسانی حقوق کی کونسل ، اور دیگر کثیر جہتی فورمز میں امریکی ترجیحات کے خلاف ووٹ ڈالنے کے لئے جھکاؤ رکھتی ہیں۔ صدر اوباما نے اس ”فرسودہ“ بلاک ذہنیت کو ترک کرنے کی ضرورت کے بارے میں پُردلیل انداز میں بات کی ہے، مگر اُبھرتی ہوئی طاقتوں نے ایسا کرنے کی طرف کوئی خاص رُجحان نہیں دکھایا۔
 ریاستوں کے اندرونی سیاسی محرکات بھی انضمام کی کوششوں کو مشکل بنادیتے ہیں۔ مستحکم اور ابھرتی ہوئی دونوں طرح کی طاقتوں کے رہنماوٴں کا ملک کے اندرونی سیاسی حقائق کے ساتھ ،تیزی سے پیچیدہ اور عملی کثیر جہتی ایجنڈے پر رضامند ہونا ضروری ہے۔اس طرح کے دباؤ اُن کے درمیان شراکت قائم کرنے کا باعث بنیں گے۔
 مثال کے طور پر، طرزِ حکومت…امریکہ اور چین کے درمیان سائبر سیکورٹی کے معاملے پر تعاون کو محدود کرنے کا باعث ہے۔
امریکہ نے سائبر سپیس کے ایسے تصور کو پروان چڑھایا ہے جو بالکل آزاد، عالمی اور نسبتاً گمنام ہے، جب کہ چین کا اس حوالے سے نظرئیہ ریاستی کنٹرول پر استوار ہے۔ دونوں ملک انٹرنیٹ کو مجرمانہ سرگرمیوں سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں، مگر یہ دیکھنا بہت مشکل ہے کہ دونوں ملک کیسے کسی کثیرجہتی نظام پر متفق ہوپاتے ہیں،خاص طور پر جب تک کہ چین سنسر شپ پر اصرار اور آن لائن مخالفین کو آن لائن ایذا رسانی پہنچاتا رہے گا۔
اور ابھی تک اوباما کی مختلف ممالک کو یکجا کرنے کی حکمت عملی سے حقیقتاً پتہ چلتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی ، ایٹمی پھیلاوٴ ، اور مالی عدم استحکام جیسے عالمی مسائل کے حل کیلئے بامقصد تعاون کی ضرورت ہے، نہ صرف جمہوری ملکوں کے ساتھ بلکہ غیرجمہوری ریاستوں کے ساتھ بھی۔ عالمی نظام حکمرانی کے لیے مختلف سوچ رکھنے والوں کے درمیان بھی یگانگت و اتفاق کی ضرورت ہے۔
مگر سچ یہ ہے کہ یہاں تو ایک جیسی سوچ رکھنے والوں کے درمیان شراکت داری کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ جہاں جمہوریت ہو، وہاں اعتماد کے ساتھ یہ پیش گوئی نہیں کی جاسکتی کہ وہ ملک امریکی مفادات کی اطاعت کرے گا۔سفارتی محاذ پرامریکہ کی چند حالیہ جھڑپیں اُبھرتے ہوئے جمہوری ممالک کے ساتھ ہی ہوئی ہیں۔ برازیل نے اپنے شعلہ بیان صدر Luiz Incio Lula da Silva کی سربراہی میں صرف امریکہ کے عالمی کردار پر تنقید کی وجہ سے نمایاں عالمی مقام بنالیا ہے، اور اس کی تنقیدکا محور کولمبیا میں امریکی فوج کی موجودگی ہے جسے وہ واشنگٹن کی طرف سے اسرائیل کی حمایت پر مبنی مبینہ تعصب قرار دیتا ہے۔
ترکی، جو کئی دہائیوں سے امریکہ کا قابل اعتماد اتحادی چلا آرہا ہے، اُس نے وزیراعظم رجب طیب اُردگان کی سربراہی میں مشرق وسطیٰ کی پالیسی پر اپنا تاریخی غیر جانبدارانہ کردار چھوڑ کر ایک آزادانہ موقف اختیار کرلیا ہے، اوراپنی غزہ پالیسی کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات غیریقینی بنارہا ہے۔

Chapters / Baab of Aalmi Shohrat Yafta Tehreeron Ka Incyclopedia By Nadeem Manzoor Slehri

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط