ایران کا انقلاب اور اُس کے اثرات(جیمز بوچین۔ مائیکل ایکس ورتھی)
(زیرِ نظر مضمون انقلابِ ایران سے متعلق دو شاہکار کتابوں سے اخذ کردہ ہے، جنہیں بہترین عالمی کتابوں میں شمار کیا گیا ہے۔ پہلی کتاب جیمز بوچین کی” Days of God: The Revolution in Iran and Its Consequences“ ہے۔ جبکہ دوسری کتاب مائیکل ایکس ورتھی کی ” Revolutionary Iran“ ہے)
ایران کے آخری شاہ، محمد رضا پہلوی کی کہانی بہت ہی زیادہ دلچسپ اور گرفت میں لے لینے والی ہے۔
ایک ضدی آمر کا بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والا لاڈلہ بیٹا محمد رضا ،1941کو 21برس کی عمرمیں تخت نشین ہوا تھا۔ وہ ایک کمزور اور نرم و نازک بدن کا مالک تھا۔ اُسے ہر لمحہ خوشامدی اور خیالی پکاؤ پکانے والے گھیرے رکھتے تھے۔ وہ غیرملکی طاقتوں کا زیر احسان رہتا جو اُس کے ساتھ تضحیک آمیز سلوک کیا کرتی تھیں۔
(جاری ہے)
1953میں اُس کے مقبول وزیر مملکت محمد مصدق نے رضا پہلوی کو تقریباً اقتدار سے محروم کردیا تھا کہ امریکہ اور علماء کی مداخلت کی وجہ سے شاہ اپنا اقتدار بچانے میں کامیاب رہا۔
اس تلخ تجربے نے اُسے مضبوطی اور ہوشیاری، دونوں خصوصیات عطا کر دیں۔ وہ خود کو اپنی رعایا کا محبوب قوم پرست بادشاہ تصور کرتا تھا مگر حقیقت میں وہ شاید ان کو جانتا ہی نہ تھا۔ اُس نے ایران کی معیشت اور اُس کی فوجی قوت میں اضافہ کیا،جاگیردارانہ ملکیت اراضی کی روایت کو توڑا،اور اپنی سخت گیر انٹیلی جنس سروس کے ذریعے ،جو ”سیوک“ کے نام سے مشہور اور تشدد میں مہارت رکھتی تھی،مخالفین کا قلع قمع کردیا۔
ایک لڑکا…جیسا کہ وہ اپنے باپ کے دربار میں تصور کیا جاتا تھا، ایک آدمی بن گیا تھا… اُداس،ٹھاٹ باٹھ کا شوقین،تنہا،مضبوط فوجوں کی راہ میں کھڑا، جنہیں وہ بمشکل پہچانتا تھا، کجا یہ کہ اُن کو قابو کرتا۔کوئی بھی اتنا غافل شخص نہیں رہاہوگا جیسی تاریخ اُس نے رقم کی تھی۔
شاہ ایران کی کہانی کچھ افسانوی انداز لے رہی ہے…مگر اُس کا کردار کسی ہیرو کے بالکل برعکس اور المناک تھا ، وہ اپنے شاندارمحل میں بِنا کسی دوست کے رہتا ،نیز اسے عام پسند تجربات حاصل کرنے کا شوق تھا اور نہ ہی وہ اپنا کردار ایسا بنانا چاہتا تھا جو عام لوگوں کو پسند آئے۔
حد تو یہ تھی کہ وہ اپنے اعمال کے اثرات دیکھنے سے بھی قاصر تھا۔ لیکن اگر بادشاہت ادب کا سامان ہے تو ایران کاقبل از انقلاب اسلامی جمہوریہ کہلانے والا ملک ماہرین عمرانیات کی توجہ چاہتا ہے۔ ایران کی تاریخ پڑھ کر جیسا کہ مغربی مصنفین نے تحریر کیا ہے،توجہ کے مرکز کی اس ڈرامائی واپسی کو نظر انداز کرنا ممکن ہی نہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی قبل ازانقلاب ایران کے حالات شاہ محمدرضا،اس کے دربار اور اس کے غیرملکی سرپرستوں کو توجہ کا مرکز بنادیتے ہیں۔
مگر انقلاب نے ایرانی معاشرے کواپنی پیچیدگیوں، تقسیم ، قابل تحسین اور ناپسندیدہ باتوں کے باوجود، تاریخی حقائق کی روشنی میں آگے بڑھنے پر مجبور کیا۔ پہلوی دربار کے ساتھ جذباتی تعلق،اور اس سے قبل اسلامی جمہوریہ کے دھندلے پن کی وجہ سے،آج مغربی ملکوں کے لوگ ایران کو واضح طور پر دیکھتے ہیں۔
ایران کے حوالے سے تحقیق کرنے والے برطانوی سکالرز کی دو انتہائی اثر انگیز کتابیں اس تاریخی تقسیم اور اس کے پھیلاؤ کے حوالے سے بہترین تفصیلات بیان کرتی ہیں۔
جیمز بو چین James Buchan کی ”Days of God“ جو پہلوی دور کے حقائق پر مبنی ہے اور ساتھ ہی انقلاب کے بارے میں بھی زبردست تفصیل مہیا کرتی ہے اور اس میں ادبی قابلیت کے حامل نکات اور خوبصورت منظرکشی بھی شامل ہے۔ِBuchanجو 1970کی دہائی کے آخری برسوں کے دوران ایران میں سکونت پذیر تھے،وہ بغیر کسی تردّد کے اور برسوں وہاں رہنے کے سبب حاصل ہونے والے اعتماد کے ساتھ لکھتے ہیں،اور اُن کی تحریر میں تاریخ کا ایران بالکل واضح اور سامنے دکھائی دیتا ہے۔
تاہم اُن کی تاریخ کا زیادہ تر حصّہ او پر سے نیچے کی طرف 1979تک چلتا ہے،جب انقلابی قوتوں نے پرانے اہم رہنماؤں کو منظر سے ہٹنے پر مجبور کردیا تھا۔ مائیکل ایکس ورتھی Michael Axworthy کی واضح اور سوچ اُجاگر کرنے والی کتاب”Revolutionary Iran “ ملک کی تاریخ کو سماجی قوتوں اور سیاسی تصورات کے درمیان مقابلے کے طور پر بیان کرتی ہے۔ Axworthyکا ایران Buchanکے ایران کی نسبت زیادہ مبہم اور کم واضح نظر آتا ہے،لیکن ایک دوسرے تناظر میں Axworthyکا ایران زیادہ مکمل دکھائی دیتا ہے۔
ان دونوں کتابوں کو ایک ساتھ پڑھنے سے انقلاب ایران کو محض ایک تاریخی واقعہ کے بجائے وسیع تناظر میں سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ کچھ اس طرح کی بات ہے کہ جیسے آپ کے پاس ایسی ”سیربین kaleidoscope “ہو جس کی مدد سے آپ ایران کو انقلاب سے پہلے اور بعد میں دیکھ سکیں،اور ان حقائق کی مدد سے اس کی ایک نئی تصویر بنالیں۔ اگرچہ اسلامی انقلاب نے ایران کے سیاسی نظام کا خاتمہ کردیا مگر پالیسی کو تبدیل نہیں کیا۔
آج ایرانی معاشرے کو جو پریشانیاں اور مسائل درپیش ہیں وہ نئے نہیں ہیں، بلکہ اب وہ محض زیادہ واضح اور نمایاں ہوگئے ہیں۔
شہنشاہوں کا شاہ
محمد رضا…جیسا کہ بوچان اُس کی شخصیت کو بیان کرتے ہیں…وہ اُس بین الاقوامی آمریت کی ایک بے وطن پیداوارتھا، جس سے کبھی بھی اُس کا صحیح معنوں میں تعلق نہیں رہا تھا۔وہ ایک عجیب طریقے سے ملک کے اہم ترین عہدے تک جا پہنچا ،حالانکہ وہ کبھی بھی اس کا اہل نہ تھا۔
اُس کے باپ نے ایک کمتر درجے کے فوجی افسر کے طور پر گمنامی سے نکل کر پہلوی خاندان کی بنیاد رکھی۔ایک سادہ، صوبائی سطح کے آدمی بڑے پہلوی (محمد رضا شاہ پہلوی کے باپ) نے اُن تمام تر یورپی چالبازیوں اور طریقوں کو اختیا کیا جو اُس کے خیال میں ایک ولی عہد میں ہونی چاہیے تھیں ۔ جب اُس نے اقتدار سنبھالا، محمد رضا تنہائی کا بدترین طور پر شکار تھا جسے وہ جنسی معاشقوں ، یورپی آسائشات اور ہوابازی کے مشغلہ کے ذریعے دُور کرنے کی کوشش کرتا تھا، جو اُس کے ساتھ سفر کرنے والوں کو حوفزدہ کیے رکھتا تھا۔
1947میں،اُس نے فرانسیسی سکالر ہنری کاربن سے کھل کر حسد کا اظہار کیا، کیونکہ کاربن کے پاس کم ازکم اُس کا فلسفیانہ کا م تھا اور ”اُس کی زندگی خالی پن کا شکار نہیں تھی۔“ ایرانی ریاست اُن دنوں محمد رضا کی مسائل زدہ نفسیات کی آئینہ دار لگ رہی تھی…وہ شاہ کی فریب کاریوں،تعصبات،عزائم اور اندیشوں کی روشنی میں کام کررہی تھی۔
مغرب کے لوگ محمد رضا کو بخوبی جانتے تھے۔
وہ اس کے دربار میں آتے،اس کے سرپرست اور شراکت دارتھے ۔جو شاہی مزاج کا جائزہ لیتے تھے۔ وہ تکنیکی ماہرین بھی تھے اور مشیر بھی،کاروباری افراد کی صورت بھی تھے اور اساتذہ کی شکل میں بھی۔1970اور 1979کے درمیان،ایران میں رہنے والے امریکیوں…جن میں سے بہت سے دفاعی صنعت سے وابستہ تھے،کی تعداد 8ہزار سے بڑھ کر 50ہزار تک جاپہنچی تھی۔ غیرملکی باشندے، ایرانی دارالحکومت کی کشیدہ اورروشن سڑکوں میں ایرانیوں کے ساتھ شریک تھے…جس کا شمالی حصّہ امارت کا اظہار کرتا تھا توجنوبی حصّے میں گند ہی گند تھا،سڑکوں کے کنارے گٹروں کو ڈھانکتے پہاڑ صحرا کی طرف بڑھتے ہوئے دھندلے دکھائی دیتے تھے۔
مگر Axworthyکے مطابق،شہر کے زیادہ تر حصّوں میں امریکی اپنے مخصوص کمپاؤنڈز میں رہتے تھے، اپنے بچوں کو امریکی سکولوں میں بھیجتے اور امریکی رسدگاہوں سے ہی خریداری کرتے تھے۔ وہ اس وقتی قربت کو مقامی ماحول سے نزدیکی کا ذریعہ سمجھ بیٹھے تھے اور اُنھوں نے کبھی بھی آنیوالے تاریخی دور کا اندازہ نہیں کیا جس کا اختتام اُن کے پُرتشدد اخراج کے ساتھ ہونا تھا۔
محل کے دروازوں کے پار، ایران کو سماجی انقلاب نے ہلا کر رکھ دیا تھا جس نے اس کی عدم مساوات کو تیز تر ریلیف سے تبدیل کردیا۔ دیہی علاقوں کے ہزاروں لاکھوں ایرانی زرعی اصلاحات کی وجہ سے بے گھر ہوئے، جن میں سے بے شمار گندی بستیوں اور جھونپڑ بستیوں میں مقیم ہوگئے۔1930کی دہائی سے 1979ء تک،تہران کی آبادی تین لاکھ سے بڑھ کر پانچ ملین (آج یہ14ملین ہوچکی ہے) ہوگئی ۔
روایتی خاندانوں کی غریب نوجوان نسل، جو ایک دوسرے کے ساتھ ملکر جدید مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے اُن بدیسی بیٹے بیٹیوں کے ساتھ رہ رہے تھے، جنھیں عمومی طور پر غیرملکی کہا جاتا تھا۔
قدیم ایران کا ڈھانچہ کچھ یوں تھا کہ …بازار تجارت کا مرکز ہوتا تھا،چھوٹے گھر وں کے نجی آنگنوں میں اس کا اہتمام کیا جاتا، محلّے کے علماء اخلاقی طور پر ”منصف“ کا کردار ادا کرتے،یہ اُبھرتی ہوئی قوت یعنی عالمی معیشت کے دباؤ کے زیرسایہ چل رہا تھا اور شاہ کی نہ ختم ہونے والی جدیدیت کی خواہش کے زیر اثر جو دراصل بیرون ملک پروان چڑھی تھی۔
اپنے ہی خول میں بند سہل پسندی کے شکار اور مغرب سے ناراض معاشرے میں گہری خرابیاں نمایاں ہوچکی تھیں۔
جدیدیت اور تصدیق کے مسائل نے ایرانی دانشوروں کو پہلے ہی اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ایرانی مصنف جلال آل احمد نے اپنے 1962میں شائع ہونے والے پمفلٹ Westoxicationمیں لکھا تھا، اگرزمیندار معاشرہ کسی مشین کی طرف بھاگتا ہے تو ایرانیوں کو کم ازکم مشین کا مالک تو ہونا چاہیے تھا۔
ایران کے تعلیم یافتہ طبقات نے یونیورسٹی کیمپس میں مارکس،لینن،جین پال سارترے اور فرنٹز فینن کے نظرئیات کے لیے راہ ہموار کی۔ قبل از انقلاب کے شاید سب سے با اثر ترین ایرانی دانشور علی شریعتی نے ان نظرئیات کو مذہبی گفتگو کے ساتھ جوڑ کر بیان کیا جو شیعہ ازم کو مقامی انقلابی نظرئیے کے طور پر پیش کرتے تھے… ایسے نظرئیات جو ایسے معاشرے میں جہاں عدم مساوات کا راج تھا،اورجہاں جبر کے خلاف عسکریت پسندی کی حمایت کی جاتی تھی، سماجی انصاف کو پروان جڑھانے والے تھے۔
آیت اللہ روح اللہ خمینی، ایک کرشماتی عالم دین جنہیں شاہ کی زبردست مخالفت اورصوفیانہ طرز فکر کی وجہ سے ممتاز حیثیت حاصل ہوئی تھی، وہ ان نظرئیات پر زیادہ شدید ردعمل ظاہر کرنے والوں میں سے تھے۔اُنھیں پہلی بار نمایاں حیثیت اُس وقت ملی جب اُنھوں نے 1963میں عورتوں کے ووٹ ڈالنے اور اُنھیں شہر کی کونسلوں کے لیے اُمیدوار بننے کے قانون کی مخالفت کی۔
کچھ ہی عرصہ کے بعد،اُنھوں نے شاہ کی طرف سے واضح امریکی غلامی کے خلاف زوردار آواز میں بول کر عوام کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔ 1943میں ہی،وہ ایک ایسی اسلامی ریاست کا تصور قائم کرچکے تھے جس پر ایک جید عالم حکومت کررہا ہو اور جہاں خدا کی کتاب کے سواء کسی اور کی حکمرانی نہ ہو۔لیکن یہ کوئی خاص انقلابی نقطہ نہ تھا۔ بلکہ انقلاب کے بعد،خمینی کے ساتھیوں نے اُن کے پیش کردہ علمائے دین کی حکمرانی کے نظرئیے کو ایک دوسری صورت میں لبرل آئین پر لاگو کردیا۔
یہ سمجھوتہ اہم ثابت ہوا،انقلابی ریاست کی ابتدائی بنیادوں میں ہی ایک متنازعہ پتھر رکھ دیا گیا تھا۔
بوچانBuchanنے خمینی کو ایک زندگی بھر بنیادپرست رہنے والے شخص کے طور پر پیش کیا ہے، مذہبی پیشوا کے لبادے میں ایک جارحانہ سیاسی شخص جو زیادہ تر دنیاداری سے بیزار رہا۔خمینی نے اپنے ایک ایسے انتہائی بے رحمانہ عزم پر عمل کیا کہ جس کے بارے میں ”سیوک SAVAK“ کے سربراہ نے کہا تھا کہ اس کی وجہ سے اُس کے بال سِروں پر کھڑے ہوگئے تھے۔
بوچان لکھتے ہیں،”خمینی کی موجودگی میں انسان ایسا محسوس کرتا تھا جیسے کہ کوئی انتہائی اختیار کی حامل شخصیت اُبھر کر سامنے آئے اورایک ہی نظر سے جدیدیت کا…خاتمہ کرڈالے۔“ طاقتور اور سمجھوتہ نہ کرنیوالے خمینی نے سفارتی نزاکت، یا،آخر میں،اپنے لوگوں کی معتدل خواہشات،کسی بھی بات کا خیال نہیں کیا۔ بوچان بتاتے ہیں کہ ”وہ بظاہر عام انسانوں کے جیسے مگر غیرمناسب طور پر ان میں آپھنسے لگتے تھے،جیسے ائرپورٹ لاؤنج میں خراب موسم کے سبب آنے والا کوئی مسافر۔
مغرب میں،ایک عرصہ قبل ملاؤں سے نپٹ چکنے کی وجہ سے، ہم ایک ایسے شخص کو نہیں سمجھ سکتے جوایک طرف تو بہت کچھ جانتا ہو اوراس کے ساتھ ہی دوسری طرف بہت کم جانتا ہو۔ اُن کی صوفیانہ تحریریں ہمارے سروں کے اوپر سے گزر جاتی ہیں اور اُن کے سیاسی بیانات ہماری توجہ حاصل نہیں کرپاتے۔“
رعایا اور شہری ہونے کے درمیان
ایکس ورتھی Axworthyکے بیان کردہ خمینی، بوچان کے خمینی سے واضح طور پر مختلف شخصیت ہیں۔
ایکس ورتھی کے مطابق،اسلامی جمہوریہ ایران کے پہلے سپریم لیڈر کے طور پر،خمینی نے ذرا الگ قسم کی غیرجانبداری سے کام لیا، وہ اکثر تشدد کی سرگرمیوں پر زیادہ شدید ردعمل ظاہر نہیں کرتے تھے۔ایکس ورتھی لکھتے ہیں کہ خمینی 1982میں ایران عراق جنگ ختم کرنے کے خواہش مند تھے۔،مگر جب ایران نے وہ علاقے واپس لے لیے جو اُس نے پہلے کھودئیے تھے۔ تو اُنھوں نے ہچکچاتے ہوئے پاسداران انقلاب کے اس فیصلے کو مان لیا کہ عراق پر فوج کشی ا ورصدام حسین کو بے دخل کردینا ہی بہتر ہے۔
ایکس ورتھی کا ماننا ہے کہ اُن کا یہ فیصلہ بہت ٹھیک تھا۔
اُس دور کے دیگر ثمرات کے تناظر میں یہ الزامات متنازعہ ہوجاتے ہیں ،اور ایکس ورتھی نے اُن کو موضوع نہیں بنایا ہے۔تاہم ایران عراق جنگ کے بارے میں اُن کی کتاب کا باب ایسا ماہرانہ شاہکار ہے جو ایک متوازن اور منصفانہ ذہن ہی تخلیق کرسکتا ہے۔ ایکس ورتھی نے ایرانی فوجیوں کی کہانیوں کے اقتباسات کے ذریعے میدان جنگ کا ازسرنو تجزئیہ کیا ہے۔
ان نوجوان آدمیوں کو اب کہیں بہتر شناخت حاصل ہوگئی ہے بہ نسبت اس کے اگر اُن کے بارے میں محض اس دور کی بیمار منظرکشی سے کوئی شخص ان کے بارے میں یقین کرتا۔ ایکس ورتھی کہتے ہیں”ہمیں ان کی بہادری کے حقائق کو سمجھنے کے لیے اُنھیں دیومالائی قصوں اور شہادت کے زمروں میں شمارکرنے کی ضرورت نہیں ہے۔“یہ نوجوان ایرانی فوجی اُن برطانوی فوجیوں سے مختلف نہ تھے جنہوں نے پہلی جنگ عظیم میں حصّہ لیا، بالکل ویسا ہی جذبہٴ حب الوطنی اور اپنے ساتھیوں کے لیے عزم رکھنے والے،اور بہت حد تک ویسی ہی مہم جوئی کی خواہش کے تحت رضاکارانہ خدمات انجام دینے کا حوصلہ رکھنے والے۔
کچھ اُسی طرح اُن کی حکومتوں اور جرنیلوں نے اُن کا استحصال بھی کیا کیونکہ حکومتوں اور جرنیلوں کو جنگ کے لیے بھولے بھالے نوجوان مردوں اور لڑکوں کی ضرورت ہوتی ہے۔“
1980کی پوری دہائی کے دوران ،اسلامی جمہوریہ ایران کو ملک کے اندر اور بیرون ملک دونوں محاذ پر تنازعات کی گرمی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایران عراق جنگ میں لاکھوں انسانی جانیں ضائع ہوئیں، جو بعدازاں ایک تعطل کے بعد 1988میں اختتام پذیر ہوئی۔
ملک کے اندر، شاہ کا تختہ اُلٹنے والے انقلابیوں کے درمیان نئی حکومت کے بنیادی معاملات پر ہی اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ جیسے یہ کہ ملائیت پر مبنی نظام اپنایا جائے یا جمہوری طرز حکومت، سوشلزم یا تجارتی نظام، آزادی یا انصاف کا نظام۔ خمینی کے اردگرد موجود بنیاد پرست علمائے دین نے اپنی صفوں کو مضبوط کرلیا تو نئے انقلاب کے مخالفین کو فائرنگ سکواڈز سے لیکر گلیوں میں مارکٹائی تک ہر ظالمانہ چیز کا سامنا کرنا پڑا،جس کی انتہا 1988میں ہزاروں سیاسی کارکنوں کو ہلاک کیے جانے کی صورت میں ہوئی۔
حزب اختلاف جسے اسلامی جمہوریہ بننے کے بعد ختم نہیں کیا گیا تھا، اُسے خوف سے خاموش کرادیا گیا تھا۔ وہ قید خانے جنہیں شاہ نے تعمیر کروایا تھا، اُن میں گنجائش سے کئی گنا زیادہ قیدی بھرے تھے۔ اتنے زیادہ کہ قیدیوں کو باری باری سونا پڑتا تھا کیونکہ فرش پر لیٹنے کے لیے جگہ ناکافی تھی۔ اگرچہ نئی حکومت نے تشدد کے اُن طریقوں کو بند کردیا جو غیراسلامی لگتے تھے مگر اُس نے اُن کی جگہ نئے طریقے اختیار کرلیے۔
1989میں خمینی کی وفات کے وقت تک، ایک مستحکم نظام، ایران کی تاریخ کے بے مثال تشدد کی سطح سے اُبھر کر سامنے آچکا تھا۔
یہ نظام، عوام کے طرز زندگی کی مناسبت سے اپنی آمرانہ اور خوفناک پالیسیوں کی وجہ سے کبھی بھی پوری طرح مضبوط نہیں ہوسکا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے ذمہ دارانہ پن کی ایک حیرت انگیز سطح کو برقرار رکھا۔ اس کی اہم وجہ آئین میں شامل جمہوری عناصر تھے،جو ایک منتخب صدر،پارلیمنٹ، اور مقامی کونسلوں کے قیام کی اجازت دیتا تھا،اگرچہ یہ سب علماء کونسل اور سپریم لیڈر کے وسیع تر اختیارات کے ماتحت تھے۔
ریاست کے عناصر کی پیچیدگی اور تنوع بھی اس کا سبب تھا۔ ہوا کے پاس گروہ بندی کی جالی سے شفاف طور پر بچ نکلنے کا راستہ موجود ہوتا ہے۔حلقوں نے خود کو سیاسی شخصیات اور نظام کے اندرموجود اداروں سے جوڑ لیا۔انقلاب لوگوں کو ملکیت دیتا ہے،حتیٰ کہ ایسا انقلاب بھی جورعایا اور شہریت کے تصور میں فرق کی اُلجھن کا شکار ہو، جیسا کہ ایران کا انقلاب تھا۔