ایک کشیدہ استحکام
عصر حاضر کے ایران میں جاکر معلوم ہوتا ہے کہ جیسا بوچان سابقہ بادشاہت کے بارے میں بتاتے ہیں ، یہ اب بھی ”ایک مشکل ملک ہی ہے۔“ اسلامی جمہوریہ ایران نے بہت سے طریقوں میں اُنہی رجحانات کی پرورش کی ہے جو بادشاہت کے تانے بانے میں شامل تھے۔
آج کا ایران اس کے باوجود بھی زیادہ جدید،زیادہ شہری طرز زندگی پر مبنی،اور 1970کے ایران کی نسبت شہری حقوق اور آزادیوں کا طلبگار ہے۔
بعد از انقلاب حکومت نے ڈرامائی طور پر تعلیم تک رسائی کو فروغ دیا ہے،کچھ حد تک مرد و خواتین کے ادارے الگ ہونے اور زبردستی پردے کے نتیجے میں،جن کی وجہ سے اکثر روایت پسند خاندانوں کے نزدیک یونیورسٹی کی زندگی نسبتاً کم شجرممنوعہ ہوگئی ہے، اور کچھ حد تک ،جیسا کہ ایکس ورتھی لکھتے ہیں،اس وجہ سے کہ ایران کے علماء تعلیم کو ایک عالمگیر اچھائی تصور کرتے ہیں۔
(جاری ہے)
شرح تعلیم میں اضافے،اور اس کے ساتھ دیہات کے بنیادی ڈھانچے اور سماجی خدمات میں بڑے پیمانے پر بہتری نے ایران میں سماجی نقل و حرکت کو فروغ دینے کے لیے بہت کچھ کیا ہے ۔لیکن ایران کا تیزی سے بڑھتا درمیانہ طبقہ ریاست پردباؤ ڈالتا ہے ، جو اس کی حوصلہ افزائی کرتی ہے،اور جو اس کے لیے ایک ایسی معیشت میں جو بہت زیادہ تیل پر انحصار کرتی ہے، ایک مستحکم جگہ بنانے میں ناکام رہی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی ریاست اس اوراس طرح کے دوسرے دباؤ کے سامنے لڑکھڑاتی رہی ہے۔ بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ آئین خود بھی ہر سوال کے دو مختلف جواب تجویز کرتا ہے۔نتیجتاً جذباتیت پر مبنی متضاد نظرئیات نے ایرانی ریاست کو مستقل کشیدگی سے دوچار رکھا ہے۔ بلکہ کشیدگی ایک طرح سے مستقل حیثیت اختیار کرچکی ہے۔
1979میں، ایران میں انقلاب برپا کرنے والے نوجوان مرد تھے۔
وہ اپنے اسلامی جمہوریہ ملک کے ساتھ ساتھ پختہ عمر کو پہنچ گئے، اور اُن کی اس پختگی کے ساتھ وہ نئی چیزیں آئیں جو کسی بھی ایسے شخص کے لیے ناقابل فہم تھیں جو یہ تصور کرتا تھا کہ نظرئیاتی وعدے دراصل ذاتی صفات کی ثابت قدمی کا اظہار ہوتے ہیں۔1990کی دہائی کے دوران،سابقہ دہائی کے سب سے زیادہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے بنیادپرستوں نے خود کو لبرل اصلاح پسندوں کے طور پر نئے سرے سے منظم کیا،آزادیٴ اظہار ،فلاحی انتظامات اور قانون کی حکمرانی کی وکالت کی۔
اُن کا یہ ایجنڈا بہت مقبول تھا۔ 1997میں،اصلاح پسندوں کی کوششیں ملک کو گھسیٹتے ہوئے اُن انتخابات کی طرف لے گئیں جن کے نتیجے میں محمد خاتمی ملک کے صدر بن گئے۔ اقتدار میں آنے کے بعد،اصلاح پسندوں نے سنسرشپ کی پابندیوں کو نرم کیا،شہری تنظیموں کی ترقی کی حوصلہ افزائی کی،اور ”تہذیبوں کے درمیان مکالمہ“ کا نعرہ لیکر دنیا کے سامنے پہنچ گئے۔
مگر اُنھیں اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ دائیں بازو کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایکس ورتھی کے مطابق،سخت گیر نظرئیات کے حامل دائیں بازو کے رہنماؤں کو خوف لاحق تھا کہ ایران کی بڑی مشکلوں کے بعد حاصل کی گئی آزادی،باہر سے آنے والی مغربی ثقافت کی یلغار اور مغربی سفارتی اہلکاروں کے مشوروں پر عمل کے نتیجے میں ضائع ہوجائے گی۔ مگر یہ دلیل انتہائی سادہ وجوہات کی بناء پر رد ہوجاتی ہے،جیسے ایک وجہ معاشرے کے طبقہٴ اشرافیہ کا ذاتی مفادتھا،جو عام لوگوں کی خواہشات سے خوفزدہ تھا اور اپنے اعلیٰ منصب کا تحفظ کرنا چاہتا تھا۔
سخت گیر نظرئیات رکھنے والوں نے علماء کونسلوں،عدلیہ ،اور خفیہ اداروں میں اہم عہدے حاصل کیے تاکہ اصلاح پسندقانون سازی کو ویٹو کرسکیں،اصلاح پسند اخبارات کو چپ کرائیں اور اصلاح پسنداُمیدواروں کو عہدے حاصل کرنے سے روک سکیں۔ اُنھوں نے دانشوروں،طالب علم سرگرم کارکنوں ، اور دیگر کے خلاف سنسر شپ ، قید ، قتل ، اور دھمکیوں کی مہم شروع کردی۔
خاتمی چاہتے تو سخت گیر نظرئیات کی حامل اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنی مقبول حمایت کا مظاہرہ کرسکتے تھے،مگر وہ اس طرح کے آدمی نہ تھے۔نیز اُن کی اصلاحات اس طرح کے مقاصد نہیں رکھتی تھیں۔ اُن کے نزدیک اصلاحات کی ابتدا اندرونی طور پر ہونی چاہیے، ان کا مقصد نظام کو ختم کرنا نہیں بلکہ اسے بہتر بنانا تھا۔ خاتمی کی ناکامیوں پر کوئی بھی اُنھیں کم معاف کرنے والا نہ تھا ماسوائے اُن حلقوں کے جنھوں نے اُنھیں منتخب کیا تھا۔
نئے چہرے پرانی تقسیم
جب 2005کے انتخابات میں محمد احمدی نژاد ، خاتمی کی جگہ کامیاب ہوئے،تو یوں لگ رہا تھا کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے ابتدائی دنوں کی طرف واپسی کے نقیب ہیں۔ حقیقت میں، احمدی نژاد اور اُن کی جماعت ہی وہ نئے چہرے تھے جو ایران کے سیاسی منظر نامے پر اس وقت کے بعد سے اُبھر کر سامنے آئے اور اب بھی وہ ہی ایسے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔
احمدی نژاد کے نوجوان،مقبول بنیاد پرست ساتھیوں نے اس سے قبل کبھی اہم سیاسی عہدوں کا انتظام نہیں سنبھالا تھا۔ اُنھوں نے اُس نچلے طبقے کی محرومیوں پر ہاتھ رکھا،جنھوں نے 1980کی دہائی کے زخم برداشت کیے تھے اور بسیج ملیشیاء کی صفوں میں شامل ہوکر جنگ میں شریک رہے تھے، مگر وہ یہ محسوس کرتے کہ اُن کی قربانیوں کے مقابلے میں اُنھیں اقتدار اور دولت میں مناسب حصّہ نہیں ملا۔
وہ خود کو ”اصول پسند“کہتے تھے،کیونکہ اُن کا ماننا تھا کہ انقلاب کے اصولوں کو سیاسی اختراعات اور طبقہٴ اشرافیہ کی کرپشن کے زیراثر تیزی سے فراموش کردیا گیا ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ،جیسا کہ ایکس ورتھی بتاتے ہیں،اُنھوں نے 1980کی دہائی کے سب سے بنیاد پرست گروہ کی معافی کو بحال کردیا تھا…وہی گروہ جو اصلاح پسند کے طور پر احمدی نژاد کی مخالفت کرنے آیا تھا۔
ایکس ورتھی انتہائی واضح اور موثرانداز میں احمدی نژاد کے بطور صدر آٹھ سالہ دور کی تفصیل بیان کرتے ہیں،جس میں 2009کے اُن مشکوک انتخابات کی تفصیل بھی شامل ہے جن کے نتیجے میں احمدی نژاد کو دوسری مدت کے لیے صدر کا عہدہ حاصل ہوا اور جنھوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کی تاریخ میں سب سے بڑی احتجاجی تحریک کو جنم دیا۔ایسی کشیدگیاں جنھوں نے ایران کو متوازن رکھا تھا،یوں لگتا تھا کہ وہ اپنی انتہائی سطح پر پہنچ گئی تھیں۔
اصلاحات اور محاذ آرائی کے درمیان اٹکی،حزب اختلاف کی سبز تحریک جسے کسانوں کے لیے شروع کیا گیا تھا مگر اُسے موخرالذکر یعنی محاذ آرائی کی شکل اختیار کرنے پر مجبور کردیا گیا۔ اسی طرح آئین اور تشدد کے درمیان پھنسی حکومت نے تشدد کے راستے کا انتخاب کیا۔
ایکس ورتھی لکھتے ہیں،”یہ بحران محض حکومت اور عوام کے کسی گروہ کے درمیان تصادم پر مبنی ہی نہ تھا بلکہ خود حکومت کے اندر ایک بحران جاری تھا،اور یہ ابھی تک حل نہیں ہوا۔
“ اُنھوں نے شاید یہ بھی لکھا ہو کہ یہ بحران خودعوام میں بھی موجود تھا۔بادشاہت کے تحت،ایران کی اندرونی کشیدگیاں…جو جدید اور روایتی طرز زندگی ، لبرل اور آمرانہ سیاسی فلسفوں،دیسی اور پردیسی کے تصور،اسلام کی وسیع اور کم سے کم تشریحات کے حوالے سے تھیں…اُنھوں نے مغربی مبصرین کے ذہنوں میں منفی تاثر قائم کیا۔ شاہ کا دربار اسلامی جمہوریہ کے اپنے زیرحکومت معاشرے کے ساتھ رابطوں پر مبنی مضبوط نظام کی بہ نسبت شخصی مزاج اور ذاتی خواہشات کے مطابق منعقد ہونے والا اجتماع ہوا کرتا تھا، …لیکن لڑائیوں ،ایک دوسرے کو دبانے کے واقعات کے باوجود بہرحال متحرک ہوا کرتا تھا۔
ایکس ورتھی کی کتاب آگے چل کر صدر حسن روحانی کے انتخاب کے بارے میں بتاتی ہے۔ حسن روحانی، ایک قدامت پسندعالم دین جنھوں نے بہرحال ایرانی معاشرے کو آزادی دینے اور اپنے ملک کو دنیا کی دوسری قوموں کے ساتھ دوبارہ مربوط کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ صدر حسن روحانی نے مغربی قوتوں کی طرف…جو ایک طویل عرصہ سے اُن کے ملک کے لیے قطعی اجنبی حیثیت رکھتی تھیں… ہاتھ بڑھاکر دنیا کو حیران و ششدر کردیا ہے۔
مگر اندرون ملک اُن کا مینڈیٹ، جس کی طرف بیرونی مبصرین نے بہت کم توجہ دی ہے، ہوسکتا ہے آخر میں اُن کی نیت واضح کرنے والا ثابت ہو۔ سخت گیر رہنما اور اصلاح پسند تحریک کے درمیان چار طویل برسوں تک بے شناخت دور نے، جسے سرکاری طور پر ”سرکش Seditionist“ کا نام ملا، یوں لگتا ہے کہ ایران کی تقسیم کو ناقابل حل دشمنی کی صورت پختہ کردیا ہے۔ صدر روحانی کے پاس ایرانی شہریوں کے درمیان امن کا بیج بونے کا موقع ہے، کم ازکم تنقید ،بات چیت اور اختلاف رائے کے لیے قانونی مراکز فراہم کرکے وہ ایسا کرسکتے ہیں۔
آج بھی ،ماضی ہی کی طرح،ایرانی حکمرانوں کے لیے قومی مفاہمت ہی حقیقی امتحان ہے،جو ایک ایسے معاشرے پر حکومت کرتے ہیں جس میں ہمیشہ واضح طریقوں سے تو نہیں مگر بہرحال نظرئیاتی،طبقاتی،اور شناخت کے مختلف اُصولوں کی صورت میں دراڑ پڑ چکی ہے۔ اُس متحرک انسانی خلاء میں جو ایران کی ریاست کے اندر پھیلتا ہے،نئے ایرانی صدر کا بنیادی مینڈیٹ اور اُن کو درپیش سب سے بڑا چیلنج موجود ہے ۔